اب ایک بار پھر وقت یہ تقاضا کر رہا ہے کہ معاشی مسائل کو سیاسی پروگرام سے منسلک کیا جائے۔ کم از کم نو آبادیاتی ڈھانچے کو چیلنج کرنے والا پروگرام عوام کے سامنے رکھا جائے۔
دنیا
لداخ: نو آبادیاتی جکڑ کے خلاف عوامی مزاحمت
ماضی میں لیہہ اور کارگل کا اتحاد بھی ناممکن نظر آ رہا تھا۔ جو وقت کے تھپیڑوں نے ممکن بنا دیا ہے۔ اب آگے بڑھتا یہ سفر جموں کشمیر کے مسئلے کے ساتھ جڑی دیگر قوموں کے ساتھ جڑت بنانے کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔
انڈونیشیا: ”ایشین سپرنگ“ کا نیا محاذ
آج جب عوام غربت، بیروزگاری اور محرومی کے ہاتھوں برباد ہیں تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے دنوں میں مزید بغاوتیں ابھریں گی۔
شنگھائی تعاون تنظیم: استحصالی مفادات کے رشتے
ہم مارکس وادی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بنتی بگڑتی ساجھے داریاں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات کا اظہار ہیں۔ نہ تو سرمایہ دارانہ نظام‘ نہ ہی اس کی طاقتوں کے اتحاد مظلوم اور محنت کش عوام کے لئے کسی آسودگی اور نجات کا باعث بن سکتے ہیں۔
نیپال: اصلاح پسندی کی ایک اور ناکامی
نیپال کی اس تحریک نے ایک بار پھر مرحلہ واریت اور اصلاح پسندی کی ناکامی و نامرادی کو بالکل عیاں کیا ہے۔
ٹرمپ کے ’’بِگ بیوٹی فل بل‘‘ کی بھیانک حقیقت
یہ شاید امریکہ کی تاریخ میں آج تک کا سب سے نقصان دہ قانون ہے۔ آخری بار اتنا کالا قانون کب منظور ہوا تھا؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا!
نئی سیاسی جماعتیں اور اصلاح پسندی کی محدودیت
دراصل یہ حالات جن میں نئی سیاسی پارٹیوں یا رجحانات کا جنم ہو رہا ہے محض روایتی سیاسی جماعتوں کی عوام دشمن معاشی پالیسیوں کے مرہون منت نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے پیچھے سرمایہ داری کا نامیاتی بحران کارفرما ہے۔
روسی سامراج اور صیہونی ریاست: حالیہ جنگی بحران سے کچھ اسباق
مشرق وسطیٰ کے مظلوم عوام کسی ’’دوست‘‘ سامراجی ملک پر انحصار نہیں کر سکتے۔ کیونکہ کوئی بھی سامراج مظلوم قوموں کا دوست نہیں ہوتا۔
ابراہیم تراورے: انقلاب یا بوناپارٹسٹ سراب؟
مارکس وادی سمجھتے ہیں کہ محنت کش عوام کی نجات کسی ایک فرد یا سماجی پرت پر نہیں ٹکی ہو سکتی۔ چاہے وہ کتنے ہی انقلابی یا خلوص نیت رکھنے والے ہوں۔
روس یوکرائن جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل
آخری تجزئیے میں ان جنگی حالات یا جنگوں اور ایٹمی ٹکراؤ کے خطرات کو محنت کش طبقے کی آزادانہ مداخلت سے ہی روکا جا سکتا ہے۔
لرزتی حکومتوں کی گرجتی توپیں
اس خطے کے حکمران سرمائے کی حاکمیت کو قائم رکھنے کے لیے انسانیت کو برباد اور ماحول کو تباہ کرنے میں کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ نسل انسان کو تباہ و برباد کرنے والے آلات پر پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے اور تعمیر و ترقی میں ناکامی کی ہزیمت سے بچنے کے لیے جنگ کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔
امریکہ میں ریاستی جبر کے خلاف بغاوت: عوام بمقابلہ ’’آئس‘‘
اگر آئس کے خلاف جدوجہد کو وسعت دینی ہے اور آگے بڑھانا ہے تو زیادہ شہروں میں لاس اینجلس جیسی شدت کے ساتھ ہم آہنگ اور منظم مزاحمتی اقدامات کی ضرورت ہو گی۔ اس کے لیے بلند سطح کی تنظیم سازی، منصوبہ بندی اور شرکت درکار ہو گی۔
غزہ: کہیں تو جا کے رکے گا سفینہ غم دل
آخری تجزئیے میں اسرائیلی یلغار کے خلاف مزاحمت اور آزادی فلسطین کی راہ خطہ عرب، مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر کے محکوم و محنت کش انسانوں کی جڑت اور اتحاد میں پنہاں ہے۔ جس میں اسرائیل کے صیہونیت مخالف محنت کشوں کو بھی شامل کرنا ہو گا۔
غزہ میں خون کی ہولی، ٹرمپ کے لئے ارغوانی قالین
فلسطینی عوام کا قتل عام جاری ہے اور دیگر عرب اقوام پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں ہم سامراجی رہنماؤں کے ”شراکت داروں“ اور ”دوستوں“ کے طور پر استقبال کی مذمت کرتے ہیں۔
یوکرائن جنگ پر مارکسی موقف (کچھ بنیادی نکات)
ضروری ہے کہ لینن اور ٹراٹسکی کا قومی مسئلے پر تاریخی موقف دہرایا اور مضبوط کیا جائے اور مشرقی یورپ، قفقاز (Caucasus) اور وسط ایشیا کی اقوام کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کو بنیادی حل کے طور پر پیش کیا جائے۔















