اب ایک بار پھر وقت یہ تقاضا کر رہا ہے کہ معاشی مسائل کو سیاسی پروگرام سے منسلک کیا جائے۔ کم از کم نو آبادیاتی ڈھانچے کو چیلنج کرنے والا پروگرام عوام کے سامنے رکھا جائے۔
تجزیہ
لداخ: نو آبادیاتی جکڑ کے خلاف عوامی مزاحمت
ماضی میں لیہہ اور کارگل کا اتحاد بھی ناممکن نظر آ رہا تھا۔ جو وقت کے تھپیڑوں نے ممکن بنا دیا ہے۔ اب آگے بڑھتا یہ سفر جموں کشمیر کے مسئلے کے ساتھ جڑی دیگر قوموں کے ساتھ جڑت بنانے کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔
انڈونیشیا: ”ایشین سپرنگ“ کا نیا محاذ
آج جب عوام غربت، بیروزگاری اور محرومی کے ہاتھوں برباد ہیں تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے دنوں میں مزید بغاوتیں ابھریں گی۔
پاکستان: بحرانوں کی آماجگاہ
اس ملک کے معاشی مسائل لمبے عرصے کی ٹھوس منصوبہ بندی پر مبنی معیشت کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ جس میں معیشت کے کلیدی شعبوں کو قومی تحویل میں لے کر مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے اور پیداوار سے ترسیل اور کھپت تک منصوبہ بندی کے ذریعے معیشت کو چند سرمایہ داروں کی بجائے وسیع تر عوام کے مفادات کے مطابق چلایا جائے۔
جموں کشمیر کی تحریک: عوامی ابھار، قیادت کا بحران اور جدوجہد کا نیا موڑ
یہ وہ موقع ہے جب ہمیں یہ سوال اٹھانا ہو گا کہ اس تحریک نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اگر سارے مطالبات بھی تسلیم کر لیے جاتے تو کیا کشمیری عوام کے مسائل ختم ہو جاتے؟
شنگھائی تعاون تنظیم: استحصالی مفادات کے رشتے
ہم مارکس وادی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بنتی بگڑتی ساجھے داریاں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات کا اظہار ہیں۔ نہ تو سرمایہ دارانہ نظام‘ نہ ہی اس کی طاقتوں کے اتحاد مظلوم اور محنت کش عوام کے لئے کسی آسودگی اور نجات کا باعث بن سکتے ہیں۔
نیپال: اصلاح پسندی کی ایک اور ناکامی
نیپال کی اس تحریک نے ایک بار پھر مرحلہ واریت اور اصلاح پسندی کی ناکامی و نامرادی کو بالکل عیاں کیا ہے۔
درد کی انجمن‘ جو میرا دیس ہے!
انگریز نوآباد کاروں سے ’آزادی‘ کی تقریباً آٹھ دہائیوں بعد اس خطے کی حالت یہ ہے کہ حادثے، سانحے اور المیے ایک معمول بن کے رہ گئے ہیں۔
ٹرمپ کے ’’بِگ بیوٹی فل بل‘‘ کی بھیانک حقیقت
یہ شاید امریکہ کی تاریخ میں آج تک کا سب سے نقصان دہ قانون ہے۔ آخری بار اتنا کالا قانون کب منظور ہوا تھا؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا!
نئی سیاسی جماعتیں اور اصلاح پسندی کی محدودیت
دراصل یہ حالات جن میں نئی سیاسی پارٹیوں یا رجحانات کا جنم ہو رہا ہے محض روایتی سیاسی جماعتوں کی عوام دشمن معاشی پالیسیوں کے مرہون منت نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے پیچھے سرمایہ داری کا نامیاتی بحران کارفرما ہے۔
روسی سامراج اور صیہونی ریاست: حالیہ جنگی بحران سے کچھ اسباق
مشرق وسطیٰ کے مظلوم عوام کسی ’’دوست‘‘ سامراجی ملک پر انحصار نہیں کر سکتے۔ کیونکہ کوئی بھی سامراج مظلوم قوموں کا دوست نہیں ہوتا۔
سوات سانحہ: حادثہ ایک دم نہیں ہوتا!
مسئلہ یہ نہیں کہ پانی میں پھنسے سیاحوں کو بچانے کے لئے وقت کم تھا یا پانی کا ریلہ اچانک آ گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے ان حکومتوں کی تیاریاں کیا ہیں؟
ابراہیم تراورے: انقلاب یا بوناپارٹسٹ سراب؟
مارکس وادی سمجھتے ہیں کہ محنت کش عوام کی نجات کسی ایک فرد یا سماجی پرت پر نہیں ٹکی ہو سکتی۔ چاہے وہ کتنے ہی انقلابی یا خلوص نیت رکھنے والے ہوں۔
روس یوکرائن جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل
آخری تجزئیے میں ان جنگی حالات یا جنگوں اور ایٹمی ٹکراؤ کے خطرات کو محنت کش طبقے کی آزادانہ مداخلت سے ہی روکا جا سکتا ہے۔
بجٹ 2025-26ء: امیروں کی عیاشی، غریبوں کی بربادی
یہ بنیادی طور پر ایک ہی بجٹ ہے جو ہر سال نئی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ جس میں محنت کشوں کیلئے دھوکے اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔















