اس تحریک کے مطالبات اور جوش و جذبہ میں جس تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے وہ اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ اس تحریک کو حکومتی یقین دہانیوں اور قیادتوں کے اعلانات کے باوجود مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔
قومی سوال
چاغی: یہ کس کا لہو ہے کون مرا؟
پچھلے چند سالوں سے بلوچ نوجوانوں میں ایک نئی سیاسی ہلچل اور بیداری نے جنم لیا ہے جنہوں نے ایک طرف سے پیٹی بورژوا قوم پرست جماعتوں کی مفاد پرستی کو مسترد کیا ہے تو دوسری طرف قومی جبر کے خلاف جدوجہد کے مقدمے کو زیادہ ریڈیکل انداز میں پیش کیا ہے۔
گلگت بلتستان: کیا انتخابات کچھ دے پائیں گے؟
ہمالیہ کے پہاڑوں سے اٹھنے والے بغاوت کے یہ قدم برصغیر جنوب ایشیا کے سوشلسٹ مستقبل کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
سانحہ تربت: خون جو کوچہ و بازار میں آ نکلا…
بلوچستان کے تمام اہم شہروں میں اس سانحے کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے ہوئے جس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
جنگی حالات کیوں اور کب تک؟
’جنگیں ان سیاسی نظاموں سے ناقابلِ علیحدگی ہیں جو انہیں جنم دیتے ہیں۔‘
کشمیر کا المیہ!
وقتی خلل یا رکاوٹوں کے باوجود حکمران اس بغاوت کو کمزور اور بے سمت نہیں کر سکتے۔
گلگت بلتستان میں دہشت گردی کی نئی لہر
اس کھیل کے پیچھے چھپی معاشی بنیادوں کو زیر بحث لایا جانا اور ان کے تدارک کیلئے اقدامات ہی وقت کی ضرورت ہیں۔
کشمیر: ظلم ٹو ٹ جاتا ہے!
شجاعت بخاری کا قتل وہ چنگاری ثابت ہوا ہے جس نے بھڑک کر اس مخلوط حکومت کو بھسم کر دیا ہے ۔ لیکن اس کے پیچھے قربانیوں کی ایک طویل داستان کشمیری عوام نے رقم کی ہے۔
گلگت بلتستان و جموں کشمیر: قومی محرومی اور قانونی جھانسوں کی تاریخ
یہ لفظ ہیں، لفظوں سے نہ کبھی بھوک مِٹی ہے..
لفظوں کی سوغات نہیں چاہیے مجھے
جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان: قومی آزادی طبقاتی جدوجہد کی متقاضی!
منقسم ریاست کی تینوں اکائیوں کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے سات دہائیوں کے جبر کیخلاف متعدد تحریکیں چلائیں ہیں۔
کشمیر کب تک سلگتا رہے گا؟
جس آگ میں کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کا لہو جل رہا ہے، سامراجی منافع خوری، برصغیر کے حکمرانوں کا تسلط اور مالیاتی مفادات کی تکمیل اسطرح سے بہتر ہو رہی ہے۔
بلوچستان: ظلم رہے اور امن بھی ہو؟
رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے اور معدنی و جغرافیائی لحاظ سے اہم ترین صوبے کے ترقیاتی اخراجات راولپنڈی اسلام آباد کے ایک میٹرو بس منصوبے کے برابر ہیں!