آج متبادل کی تلاش اور پیاس موجود ہے۔ پوری دنیا میں سوشلزم اور مارکسزم کی طرف نوجوان نسل راغب ہو رہی ہے۔ حقائق کو جاننے اور متبادل کی تخلیق کی تگ و دو میں انہیں ادراک حاصل کرنا ہو گا کہ سوویت یونین میں درحقیقت ہوا کیا تھا۔
مزید پڑھیں...
جموں کشمیر: عوامی حقوق تحریک کا نیا مرحلہ اور قیادت کا امتحان
اب ایک بار پھر وقت یہ تقاضا کر رہا ہے کہ معاشی مسائل کو سیاسی پروگرام سے منسلک کیا جائے۔ کم از کم نو آبادیاتی ڈھانچے کو چیلنج کرنے والا پروگرام عوام کے سامنے رکھا جائے۔
لداخ: نو آبادیاتی جکڑ کے خلاف عوامی مزاحمت
ماضی میں لیہہ اور کارگل کا اتحاد بھی ناممکن نظر آ رہا تھا۔ جو وقت کے تھپیڑوں نے ممکن بنا دیا ہے۔ اب آگے بڑھتا یہ سفر جموں کشمیر کے مسئلے کے ساتھ جڑی دیگر قوموں کے ساتھ جڑت بنانے کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔
انڈونیشیا: ”ایشین سپرنگ“ کا نیا محاذ
آج جب عوام غربت، بیروزگاری اور محرومی کے ہاتھوں برباد ہیں تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے دنوں میں مزید بغاوتیں ابھریں گی۔
پاکستان: بحرانوں کی آماجگاہ
اس ملک کے معاشی مسائل لمبے عرصے کی ٹھوس منصوبہ بندی پر مبنی معیشت کے ذریعے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ جس میں معیشت کے کلیدی شعبوں کو قومی تحویل میں لے کر مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے اور پیداوار سے ترسیل اور کھپت تک منصوبہ بندی کے ذریعے معیشت کو چند سرمایہ داروں کی بجائے وسیع تر عوام کے مفادات کے مطابق چلایا جائے۔
غزہ کے ملبے پر جنگ بندی کا جشن
یہ وقتی ریلیف یقینا خوش آئند ہے۔ لیکن تلخ حقیقت یہ بھی ہے یہ فلسطینی جدوجہد کی فتح نہیں ہے۔ جیسا کے کچھ حلقوں کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
جموں کشمیر کی تحریک: عوامی ابھار، قیادت کا بحران اور جدوجہد کا نیا موڑ
یہ وہ موقع ہے جب ہمیں یہ سوال اٹھانا ہو گا کہ اس تحریک نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اگر سارے مطالبات بھی تسلیم کر لیے جاتے تو کیا کشمیری عوام کے مسائل ختم ہو جاتے؟
شنگھائی تعاون تنظیم: استحصالی مفادات کے رشتے
ہم مارکس وادی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بنتی بگڑتی ساجھے داریاں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات کا اظہار ہیں۔ نہ تو سرمایہ دارانہ نظام‘ نہ ہی اس کی طاقتوں کے اتحاد مظلوم اور محنت کش عوام کے لئے کسی آسودگی اور نجات کا باعث بن سکتے ہیں۔
نیپال: اصلاح پسندی کی ایک اور ناکامی
نیپال کی اس تحریک نے ایک بار پھر مرحلہ واریت اور اصلاح پسندی کی ناکامی و نامرادی کو بالکل عیاں کیا ہے۔
بارشیں اور سیلاب: ماحولیاتی بربادی کی وجوہات کیا ہیں؟
یہ سب براہ راست گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے۔ اور گلوبل وارمنگ منڈی کے نظام کی منافع خوری کے ساتھ منسلک ہے۔
انارکلی: انفرادی واردات سے اجتماعی المیہ کی داستان تک
ادب بچوں کا کھیل نہیں اور ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج‘ غالبؔ کے اس نکتے سے واقف تھے۔ وہ تو بھلا ہو کہ غالب پر مارکس وادی ہونے کا الزام نہیں‘ ورنہ اس کو بھی ترقی پسند اور نعرہ باز کہہ کر رد کر دیا جاتا۔
درد کی انجمن‘ جو میرا دیس ہے!
انگریز نوآباد کاروں سے ’آزادی‘ کی تقریباً آٹھ دہائیوں بعد اس خطے کی حالت یہ ہے کہ حادثے، سانحے اور المیے ایک معمول بن کے رہ گئے ہیں۔
”محبت کی آزادی“ پر ایک خط
مورخہ 17 جنوری 1915ء کو محنت کش خواتین سے متعلقہ ایک پمفلٹ پر تبادلہ خیال کے سلسلے میں لکھا گیا۔
طبقاتی سماج میں عورت کا مقدمہ
اس معاشرے میں غیرت کا مطلب احساس، جدوجہد، شرم، لحاظ، حرمت یا انصاف نہیں بلکہ اپنی ملکیت پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اس لیے یہ نام نہاد غیرت عورت کو خاموش کرانے کا ہتھیار ہے۔
دوبارہ اور ایک بار پھر‘ سوویت یونین کی نوعیت کے بارے میں…
ٹراٹسکی کا یہ مضمون صرف سوویت یونین کی نوعیت کے سوال پر روشنی نہیں ڈالتا بلکہ دوسرے حوالوں سے بھی تجزئیے و تناظر کی وسعت، انقلابی حکمت عملی کی گہرائی اور استدلال کے جدلیاتی طریقہ کار کا شاہکار ہے۔













































