حارث قدیر
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں جاری عوامی حقوق تحریک ایک نئے موڑ پر آن پہنچنی ہے۔ 29 ستمبر سے 4 اکتوبر 2025ء تک ہونے والے واقعات نے جہاں اس خطے میں مزاحمت اور جدوجہد کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے‘ وہاں قیادت پر پہلے سے کہیں زیادہ سوالات کھڑے ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب مظفر آباد میں قائم نو آبادیاتی حکومت کے اختیارات کی قلعی بھی ایک بار پھر کھل چکی ہے۔ پاکستان کے وفاقی وزرا کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور فیصلوں کے نتیجے میں اب وزیر اعظم کابینہ کم کرنے، مہاجر ممبران اسمبلی کی وزارتیں اور ترقیاتی فنڈز ختم کرنے سمیت اتحادی جماعتوں کی علیحدگی کی صورت اپنی کرسی بچانے جیسے مختلف محاذوں پر نبرد آزما ہیں۔
ریاستی ادارے بھی بڑے پیمانے پر متحرک ہونے والی عوامی قوت کو بکھیرنے، انتقامی کاروائیوں کے راستے تلاشنے اورتیسری بار قیادت کی ساز باز کی وجہ سے ٹلنے والے عوامی بہاؤ کے خطرے کا راستہ آئندہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روکنے کے لیے مختلف حربے اپنانے میں سرگرداں ہیں۔ اس کیفیت میں ماضی کے تجربات کو سامنے رکھا جائے تو نہ صرف تحریک کی قیادت کو ایسی بند گلی میں دھکیلنے کا عمل شروع ہو جائے گا کہ جس کے نتیجے میں وہ ایسے فیصلے لینے پر مجبور ہونگے جن سے وہ ماضی میں مسلسل اپنا دامن بچاتے آئے ہیں۔ اسی طرح عوامی رد عمل میں مزید اضافہ بھی ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
احتجاج کے دوران کیا ہوا؟
29 ستمبر کو جموں کشمیر کے تمام 10 اضلاع اور 32 تحصیل صدر مقامات سمیت مختلف چھوٹے بڑے بازاروں میں لاک ڈاؤن (شٹر ڈاؤن، پہیہ جام ہڑتال) کا آغاز ہوا۔ لاک ڈاؤن کا یہ سلسلہ 4 اکتوبر کی شام تک برقرار رہا۔ اس نوعیت کے ریاست گیر لاک ڈاؤن کی اس خطے کی 78 سالہ تاریخ میں پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس دوران 29 ستمبر کو بڑے احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ جن میں لاکھوں افراد نے اپنے اپنے علاقوں میں شرکت کی۔ 30 ستمبر کو اس خطے کو پاکستان سے ملانے والے داخلی راستوں (انٹری پوائنٹس) کی جانب مارچ کیے گئے اور داخلی راستوں پر بڑے اجتماع منعقد کیے گئے۔ 30 ستمبر کو ہی تحریک کے گڑھ راولاکوٹ میں ایک احتجاجی دھرنا بھی شروع کر دیا گیا۔
یکم اکتوبر کو میرپور سے لانگ مارچ کا آغاز ہوا۔ مارچ کے شرکا رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے یکم اکتوبر کی رات راولاکوٹ پہنچے۔ جہاں سے 2 اکتوبر کو قافلے مظفر آباد کی جانب روانہ ہوئے اور دھیرکوٹ میں رات قیام کیا۔ 3 اکتوبر کو دھیرکوٹ سے یہ قافلے کوہالہ کے مقام پر احتجاجی دھرنے کی شکل اختیار کر گئے۔ یہ احتجاجی دھرنا 4 اکتوبر کی صبح مطالبات کی منظوری اور احتجاج ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی ختم ہوا۔
یہ گزشتہ 2 سالوں کے دوران تیسرا موقع تھا کہ ریاست ہوا میں معلق ہو چکی تھی۔ پورا خطے میں ایک عوامی راج کا سماں تھا۔ سڑکیں، گلیاں، بازار اور دیہات عوامی کنٹرول میں تھے اور عوامی ایکشن کمیٹیاں فیصلے کر رہی تھیں۔ مظفر آباد میں اکثریتی پولیس تھانوں اور پولیس چوکیوں پر بھی نوجوانوں کا قبضہ تھا۔ یہ نوجوان 4 اکتوبر تک پونچھ کے قافلوں کا انتظار کرتے رہے۔ احتجاج ختم ہونے کے بعد جب انٹرنیٹ اور موبائل سروس بحال ہوئی تو انہیں یہ معلوم ہوا کہ احتجاج ختم ہو چکا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے یہ قبضے خالی کیے۔
تصادم، حملے، ریاستی جبر اور ہلاکتیں
29 ستمبر کو اس خطے پر طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی جماعت مسلم کانفرنس کی مقامی تنظیم نے مظفر آباد میں امن مارچ منعقد کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ اس دوران مظفر آباد میں عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کو دھمکیاں دی گئی تھیں اور یہ واضح اعلان کیا گیا تھا کہ 29 ستمبر کو ان کا راستہ روکا جائے گا۔ 29 ستمبر کو سرکاری سرپرستی میں اسلحہ سے لیس مسلم کانفرنسی غنڈوں نے نہتے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ جس کے نتیجے میں ایک نوجوان کی جان چلی گئی جبکہ درجن سے زائد گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے۔ یکم اکتوبر کو لانگ مارچ کے آغاز کے وقت پلاک میرپور اور خالق آباد میرپور میں بھی پولیس کی فائرنگ سے دو افراد کی جان چلی گئی۔ اسی روز مظفر آباد میں بھی پولیس کے ساتھ تصاد م کے دوران فائرنگ کی زد میں آ کر مزید دو نوجوانوں کی جان چلی گئی۔ یکم اکتوبر کو ہی رئیاں کوٹلی میں بھی تصادم ہوا۔ تاہم اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ دھیرکوٹ کے قافلوں نے جب کوہالہ کی جانب مارچ کا آغاز کیا تو پولیس نے اس مارچ کے شرکا کو چمیاٹی کے مقام پر روکا۔ اس تصادم میں دو نوجوانوں کی پولیس فائرنگ سے جان چلی گئی۔ جبکہ تین پولیس اہلکاربھی مارے گئے۔ اس خونریز تصادم میں 150 سے زائد پولیس اہلکاران زخمی ہوئے اور مجموعی طور پر تین ایام کے دوران ہونے والے تصادم کے واقعات میں 300 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ ان واقعات میں مظفر آباد میں 17 سے زائد نوجوانون کو گرفتار کیا گیا جبکہ میر پور میں بھی دو درجن کے قریب افراد کو گرفتار کیا گیا۔
ان سارے پرتشدد واقعات کے مقدمات بھی مظاہرین کے خلاف ہی درج کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ مذاکرات کے دوران ہونے والے معاہدے میں قیادت کی جانب سے بھی پرتشدد واقعات کی ذمہ داری مبینہ شر پسند عناصر پر عائد کرتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی کے مقدمات قائم کرنے کے عمل کو تسلیم کیا گیا ہے۔ تادمِ تحریر مظفرآباد میں درج ایک ایف آئی آر سامنے آئی ہے جس میں پولیس کی فائرنگ سے مارے جانے والے نوجوان کے قتل کا الزام جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کور ممبران اور 2500 نامعلوم افراد پر عائد کیا گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ دھیرکوٹ سمیت میرپور اور دیگر مقامات پر ہونے والے تصادم کے واقعات کے مقدمات بھی ایکشن کمیٹیوں کے ممبران کے خلاف درج کیے گئے ہیں۔
غیر معمولی عوامی یکجہتی
ایک بار پھر احتجاج، دھرنوں اور لانگ مارچ کے دوران عوامی یکجہتی کے بے مثال مناظر دیکھنے میں آئے ہیں۔ لاک ڈاؤن شروع ہونے سے ایک روز قبل 28 ستمبر کو ہی انٹرنیٹ اور سیلولر سروسز مکمل طورپر بند کر دی گئی تھیں۔ لیکن اس سب کے باوجود مقامی مساجد کو رابطہ کاری کے لیے استعمال کیا گیا۔ مختلف پہاڑیوں پر ایسے مقامات کی شناخت کی گئی جہاں مری اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے سگنلز موصول ہوتے تھے۔ صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کئی میل کا سفر طے کر کے ان مقامات پر جاتے اور سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات پہنچاتے رہے۔
لانگ مارچ کے دوران مختلف مقامات پر قافلوں کے استقبال، لوگوں کی رہائش اور کھانے پینے کے انتظامات کے سلسلے میں ایک بے مثال یکجہتی اور باہمی تعاون دیکھنے کو ملا۔ خواتین نے گھروں سے باہر نکل کر لانگ مارچ کے شرکا کا مختلف مقامات پر استقبال کیا۔
بیرون ریاست موجود جموں کشمیر کے شہریوں نے جہاں یورپ، برطانیہ، امریکہ اور دیگر مقامات پر پاکستانی سفارتخانوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے کیے وہیں پاکستان کے مختلف شہروں میں موجود جموں کشمیر کے شہریوں اور پاکستان کے ترقی پسند سیاسی کارکنوں نے بھی اس احتجاج کے ساتھ یکجہتی کرنے اورریاستی جبر کی مذمت کے لیے احتجاجی مظاہرے منعقد کیے۔
مذاکرات اور مطالبات کی منظوری
احتجاج سے قبل 25 ستمبر کو ہی مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ لیکن رات گئے تک جاری رہنے والے یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے۔ 2 اکتوبر کو ایک بار پھر پاکستان کے وفاقی وزرا کی ایک کمیٹی مذاکرات کے لیے مظفر آباد بھیجی گئی۔ اس سے قبل جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ایک رکن کی گفتگو کے مطابق مقتدر حلقوں کے نمائندوں کی طرف سے کچھ یقین دہانیاں بھی کروائی گئیں۔ تاہم اس سب کے باوجود منظور ہونے والے مطالبات میں سب سے بڑی پیش رفت مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان کے حلقوں سے منتخب ممبران اسمبلی کی وزارتیں اور ترقیاتی فنڈز منجمد کرنے اور ان کی اسمبلی نشستوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے کمیٹی قائم کرنے کی صورت میں ہوئی۔
مذاکرات کے بعد سامنے آنے والے معاہدے میں اکثریتی منظور شدہ چیزیں وہی ہیں جن کا اعلان رواں سال جون میں پیش ہونے والے بجٹ میں ہو چکا تھا۔ مثال کے طور پر صحت کارڈ کے لیے بجٹ مختص ہو چکا تھا۔ ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتالوں میں سی ٹی سکین، ایم آر آئی اور ایکسرے مشینوں کی فراہمی کے لیے بھی ٹینڈر کال ہو چکے تھے۔ اسی طرح تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتالوں میں سرجیکل آلات اور نرسریوں کے لیے بھی ٹینڈر جاری ہو چکے تھے۔ ان امور پر فنڈز ریلیز ہونے کا انتظار تھا۔ دو نئے تعلیمی بورڈز بنانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جو پہلے چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل نہیں تھا۔ وزرا کی زیادہ سے زیادہ حد 20 کرنے اور 20 ہی سیکرٹریز رکھنے کا معاہدہ بھی کیا گیا۔ آئینی ترمیم کے بغیر وزرا کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کرنے کے اعلان پر زیادہ دیر عملدرآمد ممکن نظر نہیں آتا ہے۔ اسی طرح 27 محکموں کے ہوتے 20 سیکرٹریوں کی حد متعین کرنا بھی ایک معاہدے کے تحت ممکن نظر نہیں آتا ہے۔ اگر محکموں کو فعال کرنے کی بجائے ختم اور ضم کرنے کی روایت ڈالی گئی تو نتیجے کے طور پر مستقل روزگار کا خاتمہ ہو گا۔ یوں نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف شروع ہونے والی تحریک کا انجام نیو لبرل پالیسیوں کے نفاذ کی بنیاد بننے والی قیادتوں کی صورت سامنے آ سکتا ہے۔
مجموعی طور پر مطالبات پر عملدرآمد کے لیے 6 رکنی کمیٹی بنانے پر اتفاق ہوا ہے۔ جو کمیٹی مانیٹرنگ اور عملدرآمد کی نگرانی کے ساتھ ساتھ منظور شدہ مطالبات پر عملدرآمد کے قواعد و ضوابط بھی طے کرے گی۔ اس کمیٹی میں دو حکومت پاکستان کے نمائندے، دو مظفر آباد حکومت کے نمائندے اور دو نمائندے جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے ہوں گے۔ اسی کمیٹی نے ہی ججوں، وزرا اور بیوروکریسی کی مراعات کا جائزہ بھی لینا ہے۔
یوں لگتا نہیں کہ اتنی بڑی عوامی موبلائزیشن اور عوام کی جانب سے فتح کی ہوئی جنگ کو ٹیبل پر بھی فتح مندی کی جانب لے جایا جا سکے گا۔ مقدمے سامنے آنے کے بعد ہر پندرہ روز کے بعد اس ’مانیٹرنگ اینڈ امپلی منٹنگ کمیٹی ‘ کے طے شدہ اجلاسوں میں مطالبات کی بجائے مقدمے زیر بحث رہنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ صورتحال بہتر ہونے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔
حکمران جماعتوں اور حکومت کا مستقبل
دو سال سے زائد عرصے سے چلنے والی اس تحریک کے نتیجے میں اس خطے میں روایتی سیاست رسوا اور برباد ہو چکی ہے۔ ’سٹیٹس کو‘ بری طرح سے ٹوٹ چکا ہے۔ یہ مجموعی طور پر عوام کا مروجہ نظام اور اس کی سیاست پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ بڑی تعداد میں سیاسی کارکنان اور عام عوام روایتی کہلانے والی پاکستان نواز جماعتوں سے علیحدگی کا اعلان کر رہے ہیں۔
حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں اس حکومت سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتی ہیں۔ تاہم انہیں ایسا کرنے کی اجازت آقاؤں کی جانب سے نہیں مل رہی ہے۔ وزیر اعظم انوار الحق، جن کی کوئی پارٹی نہیں ہے، پر الزام ہے کہ وہ خود ایکشن کمیٹیوں کے پیچھے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں کوئی حکومت لینے کو بھی تیار نہیں ہے۔ حکومت کے اندر رہتے ہوئے عوامی تحریک کی مخالفت کرنے کی تمام تر کوششیں بری طرح سے ناکام ہو چکی ہیں۔
پیپلز پارٹی نے لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد ایک بار پھر حکومت سے علیحدگی کے لیے مرکزی قیادت پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ ان ہاؤس تبدیلی کی بازگشت بھی جاری ہے۔ مہاجرین جموں کشمیر مقیم پاکستان سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی بھی اپنی بقا کی جنگ میں پیش پیش ہیں۔ وزیر اعظم کو اب بھی لگتا ہے کہ ان کی کرسی محفوظ ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ آٹھ ماہ کی وزارت عظمیٰ کے لیے بھی مقابلہ سخت ہے۔ اس کیفیت میں اسٹیبلشمنٹ ایک نیاداغ اپنے دامن پر سجانے کے حق میں بھی نظر نہیں آ رہی ہے۔ بہرحال اس خطے میں ہونے کو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ انوارالحق بھی جب وزیر اعظم بنے تھے تو ان کی نامزدگی سے ایک گھنٹہ پہلے تک ان کے حق میں کوئی نہیں تھا اور نامزدگی کے 15 منٹ بعد انہیں 53 کے ایوان میں سے 48 ووٹ مل چکے تھے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد یہ طے پایا تھا کہ وہ تحریک انصاف کے وزیر اعظم ہوں گے یا پی ڈی ایم اتحاد کے۔
تاہم مطالبات کی منظوری ہو یا تحریک کی طوالت‘ دونوں صورتوں میں اگلے سال آنے والے انتخابات پاکستان نواز سیاسی جماعتوں کے لیے ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت بھی مجتمع ہو کر انتخابات میں جانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آ رہی ہے۔
قیادت کا امتحان
عوامی ایکشن کمیٹیاں عوام کے لیے ایک متبادل کی امید بن چکی ہیں۔ بڑی تعداد میں عوام جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کر رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ پھر گزشتہ سال مئی میں لانگ مارچ کے دوران بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں ہونے والی بے مثال کمی ہے۔ اس جیت کی وجہ سے عوام کا اعتماد بنا ہے۔ لیکن یہ اعتماد ایک ذمہ داری اور بوجھ کی صورت میں بھی نظر آتا ہے۔ موجودہ قیادت سیاسی اور نظریاتی طو رپر نہ صرف اس صورتحال کو سمجھنے سے عاری ہے بلکہ ایک ابتدائی جیت کے بعد چارٹر آف ڈیمانڈ میں توسیع کرتے ہوئے اپنے نظریاتی بانجھ پن اور عوامی دباؤ کے نتیجے میں متضاد اور مبہم مطالبات کو شامل کرنے سے بھی ظاہر ہوا ہے کہ قیادت کے پاس اس تحریک کو آگے بڑھانے کے حوالے سے کوئی وژن، کوئی سیاسی پروگرام ہی موجود نہیں ہے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ قیادت کسی واضح نظریے اور لائحہ عمل سے عاری ہے اور لاشعوری طور پر مختلف ہی نہیں بلکہ متضاد نظریات کے حامل افراد کا ایک ایسا اتحاد ہے جس کی بقا آپس میں جڑے رہنے میں ہی ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ جب آپ کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا تو پھر آپ کا وہی نظریہ ہوتا ہے جو رائج الوقت نظام او رریاست کا ہوتا ہے۔ ایسی کیفیت میں آپ پھر اسی نظام کے اندر حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر آپ مزید پیچیدگیوں میں پھنستے چلے جاتے ہیں اور سیاہ مستقبل آپ کا مقدر بنتا جاتا ہے۔
مستقبل کا راستہ
بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کے خلاف منظم ہونے والی اس تحریک کی بنیادی اساس میں وسائل اور حق حکمرانی پر نوآبادیاتی قبضے کے خلاف ایک رد عمل موجود تھا۔ یوں یہ تحریک اینٹی نیو لبرل اور اینٹی کالونیل کردار کی حامل تھی۔ تحریک کے ابتدائی نعروں سے بھی یہ بات کھل کر عیاں ہو رہی تھی اور 11 مئی 2025ء کے لانگ مارچ کے دوران لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر اس کا واضح اعلان کر دیا تھا۔ وہ پرچم جسے سرکاری اور الحاق پاکستان کا نمائندہ پرچم قرار دیا جاتا تھا اب شناخت کی سب سے بڑی علامت بن چکا ہے۔
محکوم اقوام میں قومی آزادی کی جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر ہی استوار کیا اور جیتا جا سکتا ہے۔ ایسے خطوں میں طبقاتی مسائل کے گرد ابھرنے والی تحریکیں ہمیشہ نوآبادیاتی نظام کے ساتھ ٹکراؤ کی صورت میں اپنا اظہار کرتی ہیں۔ یہی کیفیت ہمیں گزشتہ دو سال کے دوران جموں کشمیر میں اور گزشتہ چند سال سے گلگت بلتستان میں نظر آ رہی ہے۔
ایسی کیفیت میں قیادتوں کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ تحریکوں کے موڈ کو سمجھتے ہوئے مطالبات اور پروگرام کو مسلسل ایڈوانس کرتے جائیں۔ ریاست کے ساتھ ساز باز اور ٹریڈ یونین حربے اپنانے اور مصلحت پسندی کی بجائے جرأت مندی کے ساتھ آگے بڑھیں۔ عوام کی جانب سے مسترد کیے گئے ماضی کے تعصبات اور رائج الوقت نظریات کو دھتکاریں۔ بجائے اس کے کہ ایس او پیز یا سب لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے کے نام پر رائج الوقت نظام کو دوبارہ عوام کے اذہان و قلوب پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے۔
اب ایک بار پھر وقت یہ تقاضا کر رہا ہے کہ معاشی مسائل کو سیاسی پروگرام سے منسلک کیا جائے۔ کم از کم نو آبادیاتی ڈھانچے کو چیلنج کرنے والا پروگرام عوام کے سامنے رکھا جائے۔ نو آبادیاتی ڈھانچے کو ختم کرنے اور آئین ساز اسمبلی کی صورت حق حکمرانی کی بحالی کے مطالبات کو شامل کیا جائے۔ لینٹ افسران کے ذریعے نظام حکومت کو یرغمال بنانے اور وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ ختم کرنے کی مانگ کو عام کیا جائے۔ اس خطے کی دیگر تحریکوں کے ساتھ یکجہتی قائم کی جائے۔ حکمرانوں اور ریاستی نمائندوں کی تعریف و توصیف اور ان سے امیدیں لگانے کی بجائے محنت کش اور محکوم عوام کی جانب یکجہتی کا ہاتھ بڑھایا جائے۔ محنت کشوں اور محکوم عوام کی یکجہتی اور جڑت پر مبنی بغاوتوں کا سلسلہ ہی اس نظام کو مکمل طو رپر شکست دے سکتا ہے اور ایک روشن و آسودہ مستقبل کی راہیں ہموار کر سکتا ہے۔
