اس تحریک کی حتمی کامیابی کا انحصار پھر پاکستان کے مختلف شہروں اور قومیتوں کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی شمولیت اور اس سارے نظامِ حکمرانی کو تبدیل کرنے پر ہی ہو گا۔
سماجی مسائل
روہی: پیاسی صدیوں کا تسلسل
صدیوں کی پیاسی روہی کوہزاروں سال پہلے تو ممکن نہیں تھا مگر اب جدید تحقیق، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور ذرائع کے سبب سیراب اور شاداب کیا جاسکتا ہے۔
میہڑ سانحہ: جلتی بستیاں اور بے حس حکمران
یہ ظالم معاشرہ ہے جس کو شعوری طور پر قائم رکھا گیا ہے۔ یہاں عام محنت کشوں کی زندگیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس سماج کے رہنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔
مذہبی انتہا پسندی کا عفریت
برطانوی سامراج کے یہ تمام تر جرائم 1947ء میں اُس وقت اپنے عروج کو پہنچے جب انہوں نے جنوب ایشیائی برصغیر کے زندہ جسم کو مذہبی تعصب کی بنیاد پر کاٹ کر دو الگ ملک بنائے۔
رئیل اسٹیٹ کا کاروبار اور ناہموار ترقی کی قیمت
جس تیزی سے ان ہائوسنگ سوسائٹیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اسی تناسب سے لوگ بے گھر بھی ہو رہے ہیں۔ جس رفتار سے شہر پھیلتے جا رہے ہیں اتنی تیزی سے انفراسٹرکچر کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔
بے معنی شور
زندگی برقرار رکھنے کی ناگزیریت ہر جبر اور ضابطے کو پاش پاش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بنیاد پرستی کی محدودیت
سماجی ٹھہراؤ سے پیدا ہونے والے خلا کے اپنے مضمرات ہوتے ہیں۔ ایسے ادوار میں ماضی کے توہمات اور پسماندہ نظریات اوپر والی سطحوں پر تیرتے رہتے ہیں۔
شناخت کا بحران اور کراچی کا المیہ
کراچی کے محنت کشوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کا علم بلند کریں۔
جنسی تشدد اور ہراسانی کی سماجی بنیادیں
ہراسانی اور زیادتی کے خاتمے کا سوال نظام کے خاتمے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
سانحہ موٹر وے: بربریت یا سوشلزم؟
کھڑے پانی میں گندگی ہی پانی کا چہرہ بن جاتی ہے۔
ایک اور خیراتی کھلاڑی کی تیاری…
ایک کے بعد دوسرا اور اس کے بعد تیسرا چہرہ عوام پر مسلط کرتے رہنا ریاست کی ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔
مشال خان کا انتقام: انقلاب!
مشال خان ان نوجوانوں میں سے ایک تھا جو اِن کٹھن حالات میں بھی انقلابی مارکسزم کے راستے پر چل رہے ہیں۔
آئیسولیشن اور سماجی فاصلہ
ہم مٹا دیں گے سرمایہ و محنت کا تضاد
محبت کی غربت
جس طرح نسل انسان کی بقا دولت کے اس نظام کے خاتمے سے مشروط ہے بالکل اسی طرح حقیقی محبت بھی طبقات سے پاک معاشرے ہی میں پنپ سکتی ہے۔
لڑو، کہنہ نظام سے
انکو ایک دوسرے کا مقابل بننے کی بجائے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اس کہنہ نظام کے خلاف پیش قدمی کرنا ہوگی تاکہ سرمایہ داری کاخاتمہ کرکے محنت کش طبقے کا راج قائم کیا جاسکے۔