نہ ہی میرا خیال ہے کہ میں کوئی ایسا فارمولا پیش کر سکتا ہوں جو ”ہمیشہ ہمیشہ کے لئے“ غلط فہمیوں اور غلط تشریحات کا خاتمہ کر سکے۔ پارٹی ایک زندہ جسم ہوتی ہے۔ یہ بیرونی رکاوٹوں کے خلاف جدوجہد اور داخلی تضادات کیساتھ ہی آگے بڑھتی ہے۔
مارکسی تعلیم
اصل دشمن سرمایہ داری
ایک سرمایہ دارانہ سماج میں غربت، محرومی، مشکلات، بے معانی نوکری اور عدم اطمینان کا ذمہ دار ہمیشہ ایک فرد کو قرار دیا جاتا ہے۔
بحران زدہ معروض میں انقلابی پارٹی کا سوال
انقلابی تنظیم ہر قسم کے ریاستی جبر سے ٹکرا کر ہی محنت کشوں کی نمائندہ پارٹی بن سکتی ہے جس میں استحصالی نظام کو شکست دینے کی صلاحیت موجود ہو۔
انسان کا مستقبل
دانائی اور ذہانت کی چنگاریوں کو شعلوں میں بدلنے سے قبل ہی انسانوں کی مخفی گہرائیوں میں دبا دیا جاتا ہے۔
ترمیم پسندی، موقع پرستی اور انقلابی سوشلزم
”ایسے ممالک جو سرمایہ دارانہ طرزارتقا میں پیچھے رہ گئے ہیں، بالخصوص نوآبادیاتی اور نیم نو آبادیاتی ممالک، وہاں جمہوریت اور قومی نجات کے فرائض صرف پرولتاری آمریت کے ذریعے ہی ادا کیے جا سکتے ہیں۔ ایسے میں پرولتاریہ محکوم اقوام اور سب سے بڑھ کر کسان عوام کے قائد کا کردار ادا کرے گا۔“
سرمایہ داری میں تعلیم کا مسئلہ
طبقاتی سماج کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں سماج کے ہر مظہر پر حکمران طبقات کی ترجیحات حاوی رہتی ہیں۔
انٹیلکچول پراپرٹی رائٹس: تخلیق اور ایجادات کے پاﺅں کی بیڑیاں
زمین کے وسائل کی لوٹ مار اور منافعوں کی دوڑ میں سرمایہ داروں نے کرہ ارض کا چہرہ ہی مسخ کر دیا ہے۔
غذا سے غذائیت تک کا بحران
وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ خوراک کی پیداوار سے لے کر انسانوں تک ترسیل پر منافع خوری کی ہوس کا راج ہے اور یہ راج اسی صورت میں ختم ہو گا جب اس دھرتی پر منافعوں کی ہوس سے پاک انسانوں کی ضروریات کی تکمیل کرنے والا سوشلسٹ نظام رائج کیا جائے گا۔
مارکسزم کے تین سرچشمے اور تین اجزائے ترکیبی
مارکس کی تعلیمات تمام مہذب دنیا میں سرکاری اور لبرل، دونوں قسم کی بورژوا سائنس کی نفرت اور عداوت کو بیدار کر دیتی ہیں۔
نیو لبرل ازم کیا ہے؟
محنت کش عوام نہ صرف حکمرانوں کا یہ سب کھیل تماشا دیکھ رہی ہے بلکہ اس سب سے عملاً سیکھ بھی رہی ہے۔
جدلیاتی مادیت تک کا نظریاتی سفر
مارکس اور اینگلز جدلیاتی مادیت، جسے وہ فطرت کے فلسفے کا نام دیتے تھے، پر مزید کام کرنا چاہتے تھے مگر انہوں نے تحریکوں کے ایسے ہیجان خیز دور میں وقت گزارا کہ وہ اس کے لئے زیادہ وقت نہ نکال پائے۔
اصلاح پسندی اور پارٹی کا سوال
اگر دیکھا جائے تو آج کے نام نہاد ”نئے بائیں بازو“ میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ اکثر صورتوں میں اس کی نظریاتی بنیادیں ”پرانے“ سے بھی کہیں پیچھے ماضی میں پیوست ہیں۔
انقلاب کی فطری ناگزیریت
سوشلسٹ سماج ایک انقلابی جراحی کے بغیر کسی صورت معرضِ وجود میں نہیں آ سکتا۔
ریاستی بالادستی کی حقیقت
محنت کش طبقے کی یہ خاموشی حتمی نہیں ہے وہ اپنے اندر اس نظام کے خلاف غصہ اور نفرت مجتمع کر رہا ہے۔
قومیتوں کا مسئلہ اور انقلابِ روس
روس ایک قومی ریاست کے طور پر نہیں بلکہ قومیتوں پر مشتمل ریاست کے طور پر تشکیل پایا تھا۔ یہ اِس کے تاخیرزدہ کردار کی وجہ سے تھا۔