یہ وقتی ریلیف یقینا خوش آئند ہے۔ لیکن تلخ حقیقت یہ بھی ہے یہ فلسطینی جدوجہد کی فتح نہیں ہے۔ جیسا کے کچھ حلقوں کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
اداریہ
مشرقِ وسطیٰ پھر سے سلگ اٹھا!
اسرائیل جیسی بنیاد پرست، پیوند کردہ، ناجائز اور سامراجی غنڈہ ریاست نہ تو ایرانی عوام کی نجات دہندہ ہو سکتی ہے‘ نہ اسے خطے کے کسی بھی ملک میں مداخلت یا ’’پیشگی‘‘ چڑھائی کا کوئی حق حاصل ہے۔
فنا کے پیامبر
ٹرمپ اور اس کے گینگ کو اگر قدم جمانے کا موقع مل جاتا ہے تو روس میں پیوٹن، ترکی میں اردگان اور انڈیا میں مودی کی طرح ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا خاصا مشکل ہو جائے گا۔
امریکہ: زوال پذیر سامراج کے انتشار بھرے انتخابات
امریکی انتخابات کی تکنیکی تفصیلات میں جانے کی بجائے یہ حقیقت ہی کافی ہے مخبوط الحواس جو بائیڈن کو انتخابی دوڑ سے زبردستی باہر کرنے (درحقیقت لات مار کے نکالنے) اور کملا ہیرس کو ایک سیاہ فام خاتون اور نسبتاً چاک و چوبند، حاضر دماغ اور مقبول امیدوار کے طور پر ٹرمپ کے سامنے اتارنے کے باوجود مقابلہ انتہائی کانٹے دار ہو گا۔
زوال کا جبر
پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنانے کا خواب تو ان حکمرانوں نے عرصہ قبل دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن آج یہ ایک وجودی بحران سے دوچار ہو چکے ہیں۔
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا!
گزشتہ چھ ماہ کے دوران اسرائیلی صیہونی ریاست نے غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔
مفاہمت کا انتقام
پیپلز پارٹی وزارتیں نہ لینے جیسے جتنے بھی بھونڈے اقدامات کرتی رہے‘ وہ اس حکومت کے ہر اقدام میں برابر شریک اور ذمہ دار ہی تصور ہو گی۔ حکمرانوں کی یہ مفاہمت محنت کشوں سے ہر روز اس سماج میں زندہ رہنے کا انتقام لے گی۔
سامراجی تضادات میں سلگتی دنیا
حالات و واقعات نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ اس کرہ ارض پر فلسطینیوں کا کوئی حقیقی ساتھی اور ہمدرد موجود ہے تو وہ پھر دنیا بھر کے محکوم اور محنت کش عوام ہی ہیں جو مشرق سے مغرب تک دہشت گرد صیہونی ریاست اور اس کے پشت پناہ سامراجیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
بجٹ 2023-24ء: مفلسی میں مزاج شاہانہ
معیشت کو نجی ملکیت، منڈی اور منافع کی جکڑ سے آزاد کروا کے ہی انسانی ضروریات اور سماجی فلاح و بہبود کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔
ایوانوں کے دیوانے!
یہ لوگ ایک ایسے نظام میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں جو اپنے ہر حکمران کو ذلیل و رسوا کرنے پہ تلا ہوا ہے۔ یہیں سے ان کی نفسیات، شعور، نیت اور افکارکا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بحران زدہ ماہ و سال
دنیا بھر کے سماجوں میں آئے روز ہونے والے بڑے واقعات جہاں ایک معمول میں ڈھل چکے ہیں وہاں انہیں سمجھنے، ان میں ربط تلاش کرنے اور ان کی داخلی منطق دریافت کرنے کے لئے بھی ایک بڑی سوچ اور بڑا اندازِ فکر درکار ہے۔
عدم استحکام کا معمول
یہ نیم لبرل سیاسی اشرافیہ اندر سے اتنی کھوکھلی اور نحیف ہے کہ جوش خطابت میں ریاستی اداروں بارے کوئی بات کہہ بھی جائیں تو اگلے ہی دن معذرت کر لیتے ہیں۔
بحرانوں کا چنگل
حکمران دھڑوں کی اپنی لڑائی اور تضادات اس قدر شدت سے بھڑک رہے ہیں کہ ان کے پہلے سے رینگتے نظام کا بحران کئی گنا بڑھ گیا ہے۔
جب افغانستان سرخ تھا!
آج کی نئی نسل کو اس عظیم انقلاب کے اسباق طبقاتی جدوجہد میں سمو کے اس سرخ سویرے کی نوید بننا ہو گا جو سامراجیت، بنیاد پرستی اور سرمایہ داری کی تاریکیوں کو مٹا کے رکھ دے۔
یوکرائن: سامراجی تصادم کی بربادیاں
محنت کش طبقہ کسی ایسی جنگ کی حمایت نہیں کر سکتا جو سامراجی طاقتوں کی آپسی چپقلش اور مخاصمت پر مبنی ہو۔ چاہے وہ جنگ ایک بڑی سامراجی طاقت کے خلاف ایک چھوٹی سامراجی طاقت کی ”دفاعی جارحیت“ پر ہی مبنی کیوں نہ ہو۔















