معیشت کو نجی ملکیت، منڈی اور منافع کی جکڑ سے آزاد کروا کے ہی انسانی ضروریات اور سماجی فلاح و بہبود کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔
اداریہ
ایوانوں کے دیوانے!
یہ لوگ ایک ایسے نظام میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں جو اپنے ہر حکمران کو ذلیل و رسوا کرنے پہ تلا ہوا ہے۔ یہیں سے ان کی نفسیات، شعور، نیت اور افکارکا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بحران زدہ ماہ و سال
دنیا بھر کے سماجوں میں آئے روز ہونے والے بڑے واقعات جہاں ایک معمول میں ڈھل چکے ہیں وہاں انہیں سمجھنے، ان میں ربط تلاش کرنے اور ان کی داخلی منطق دریافت کرنے کے لئے بھی ایک بڑی سوچ اور بڑا اندازِ فکر درکار ہے۔
عدم استحکام کا معمول
یہ نیم لبرل سیاسی اشرافیہ اندر سے اتنی کھوکھلی اور نحیف ہے کہ جوش خطابت میں ریاستی اداروں بارے کوئی بات کہہ بھی جائیں تو اگلے ہی دن معذرت کر لیتے ہیں۔
بحرانوں کا چنگل
حکمران دھڑوں کی اپنی لڑائی اور تضادات اس قدر شدت سے بھڑک رہے ہیں کہ ان کے پہلے سے رینگتے نظام کا بحران کئی گنا بڑھ گیا ہے۔
جب افغانستان سرخ تھا!
آج کی نئی نسل کو اس عظیم انقلاب کے اسباق طبقاتی جدوجہد میں سمو کے اس سرخ سویرے کی نوید بننا ہو گا جو سامراجیت، بنیاد پرستی اور سرمایہ داری کی تاریکیوں کو مٹا کے رکھ دے۔
یوکرائن: سامراجی تصادم کی بربادیاں
محنت کش طبقہ کسی ایسی جنگ کی حمایت نہیں کر سکتا جو سامراجی طاقتوں کی آپسی چپقلش اور مخاصمت پر مبنی ہو۔ چاہے وہ جنگ ایک بڑی سامراجی طاقت کے خلاف ایک چھوٹی سامراجی طاقت کی ”دفاعی جارحیت“ پر ہی مبنی کیوں نہ ہو۔
نیا سال 2022ء: دکھا صبح نئی، شام نئی!
زیادہ تر احتجاج ترقی پسندانہ کردار کے حامل تھے جن میں عوام نے نیولبرل پالیسیوں، مہنگائی، بیروزگاری، آمرانہ طرزِ حکومت اور ریاستی جبر وغیرہ کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا۔
جب مزدور نے زمانے بدلے!
ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنا ہے جہاں انسان نہ صرف معیشت، ریاست اور سیاست بلکہ اپنی روح، احساس اور جبلت کو بھی اپنے شعور کے تابع کر کے اشتراکی فلاح کے لئے بروئے کار لا سکے۔
افغانستان پہ چھائی تاریکی
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تاریکیوں میں بھی انقلابی رجائیت سے سرشار ہو کر طبقاتی جدوجہد کے وہ چراغ روشن کیے جائیں جو ایک سوشلسٹ سویرے کی نوید بن سکیں۔
بٹوارے کے رستے زخم
غریبوں کے خون سے کھینچی گئی سامراجی لکیروں کو مٹانے اور انسانیت کو معاشی، سیاسی و سماجی آزادی دلوانے کے لئے اس خطے کے محنت کشوں کو ابھی فیصلہ کن طبقاتی لڑائی لڑنی ہے۔
دیوالیہ معیشت کی بجٹ سازی
معاشیات ایک نسبتاً پیچیدہ اور مشکل علم ہے۔ تاہم سرمایہ داری میں اسے دانستہ طور پر مزید گنجلک کر دیا جاتا ہے تاکہ طبقاتی استحصال اور لوٹ مار کی واردات مشکل معاشی اصطلاحات میں کہیں گم ہو جائے۔
موت بانٹتا نظام
انسانیت کی زندگی کے لئے اس نظام کی موت لازم ہو چکی ہے۔
پاک بھارت تعلقات: جنگ و امن کا گھن چکر
جب تک اس نظام کی بساط نہیں لپیٹی جاتی یہاں کے عوام سکھ اور چین کا سانس نہیں لے سکتے۔
تاریخ کا دوراہا
مارکسی نظریات سے لیس انقلابی قیادت کے تحت ہی پرولتاریہ اس نظام کو اکھاڑ پھینک کر نسل انسان کو بربریت کی کھائی میں گرنے سے بچا سکتا ہے۔