جب تک ذرائع پیداوار کی ملکیت چند لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی اس وقت تک غربت اور امارت کی خلیج میں اضافہ ہوتا ہی رہے گا۔ کرۂ ارض پر ایک ایسا سماج جس میں غریب اور امیر کی تفریق ختم ہو جائے صرف ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کو ختم کر کے ہی تعمیر کیا جا سکتا ہے اور یہ کام انقلابی سوشلزم کے ذریعے ہی مکمل کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان
گندہ ہے پر دھندہ ہے یہ…
عدالتوں کے دروازوں کی بجائے عام مزدور پر بھروسہ کر کے طبقاتی جدوجہد کے طبل کو بجانے کے علاوہ اب مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کے پاس کوئی اور حل بچا ہی نہیں ہے۔
ہمیں کیا برا تھا مرنا…
ایک مرتبہ طبقہ اس جنگ کے لئے باہر نکل آیا اور درست نظریات پر قائم قیادت کے ساتھ اس کا ملاپ ہو گیا تو ایک نئے انقلابی عہد کے طلوع ہونے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔
تھمی گردش ایام چل بھی سکتی ہے!
یہ عین ممکن ہے کہ آنے والے سالوں کے کیلنڈر کو اپنے خانوں میں حقیقی تبدیلی کی تاریخوں کا اندراج کرنا پڑے۔
پاکستان سٹیل ملز پر نجکاری کا وار: چند حقائق
ہم ملک کے تمام محنت کشوں، نوجوانوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ برطرف ہونے والے محنت کشوں کی بحالی اور اپنے اثاثے پاکستان سٹیل ملزکراچی کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں اور اس جدوجہد میں شریک ہوں۔
بنیاد پرستی کی محدودیت
سماجی ٹھہراؤ سے پیدا ہونے والے خلا کے اپنے مضمرات ہوتے ہیں۔ ایسے ادوار میں ماضی کے توہمات اور پسماندہ نظریات اوپر والی سطحوں پر تیرتے رہتے ہیں۔
طلبہ یونین بحالی مارچ 2020ء
گزشتہ برس کے مارچ سے طلبہ یونین یقینا عوامی بحث کا موضوع ضرور بنی لیکن ابھی بھی بیشتر کام رہتا ہے اور طلبہ کی وسیع پرتیں تاحال طلبہ یونین کی افادیت سے لاعلم ہے۔
شناخت کا بحران اور کراچی کا المیہ
کراچی کے محنت کشوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کا علم بلند کریں۔
گلگت بلتستان: کیا انتخابات کچھ دے پائیں گے؟
ہمالیہ کے پہاڑوں سے اٹھنے والے بغاوت کے یہ قدم برصغیر جنوب ایشیا کے سوشلسٹ مستقبل کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
پاکستان: یہاں سے کہاں؟
محنت کش طبقہ نظام کو بچانے کی نہیں اکھاڑنے کی لڑائی لڑے گا۔
مزدوروں کی ابتدائی پیش رفت
جدوجہد شروع ہوئی ہے، بات ختم نہیں ہوئی۔
پی ڈی ایم: ناکارہ نظام کی ناکام اپوزیشن
فیصلہ کن لڑائی کا حقیقی فریق محنت کش طبقہ ہے۔
جنسی تشدد اور ہراسانی کی سماجی بنیادیں
ہراسانی اور زیادتی کے خاتمے کا سوال نظام کے خاتمے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
سانحہ موٹر وے: بربریت یا سوشلزم؟
کھڑے پانی میں گندگی ہی پانی کا چہرہ بن جاتی ہے۔
آل پاکستان ایمپلائز‘ پنشنرز اینڈ لیبر تحریک: آﺅ کہ کوئی خواب بنیں!
محنت کش طبقہ حکمران طبقات کے خلاف میدان عمل میں اتر کر ان کی ساری بساط لپیٹ سکتا ہے۔