سرمایہ داری کا طوق اتار کر پھینکنا پڑے گا جو سرمایہ نواز سیاسی پارٹیوں کے پروگرام میں شامل ہی نہیں۔ محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی ایک انقلابی سرکشی کے ذریعے ہی ذلت، استحصال اور محرومی کے اس طوق کو اتار پھینکا جا سکتا ہے۔
پاکستان
گراوٹ زدہ اقدار
جو بھی موجود ہوتا ہے، بدلتا رہتا ہے۔ حرکت، تبدیلی، ارتقا اور انقلابات سب کچھ بدل دیتے ہیں۔ مگر تبدیلی کے بھی کچھ قوانین ہوتے ہیں۔
طلبہ سیاست کیوں ضروری ہے؟
معاشرے میں زندہ رہنے کا حق ادا کرنے کے لئے طلبہ سیاست ضروری ہے۔
پاکستان: تبدیلی سرکار کا بحران
آج ان مراحل سے گزرنے والا محنت کش طبقہ ہی اس جرات، عزم اور نظریات کا حامل ہو سکتا ہے جو سرمائے کے اِس نظام کو مٹانے اور ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنے کے لئے درکار ہیں جہاں انسان انسانیت کی معراج تک پہنچنے کے سفر کا آغاز کر سکے۔
میڈیکل کے طلبہ، راہ نجات کے متلاشی
ان تمام تر حالات میں سماج کے اندر بے چینی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے اور کوئی بھی معمولی سا واقعہ ایک انقلابی تحریک کو جنم دے سکتاہے جس میں طلبہ، مزدور اور کسان کا اتحاد اس سرمایہ دارانہ نظام کو پاش پاش کرنے کے لئے کافی ہو گا۔
اُدھر فلک کو ہے ضد بجلیاں گرانے کی
ہنگامی بنیادوں پر انقلابی اقدامات اُٹھاتے ہوئے گردشی قرضوں سمیت ہمہ قسمی سامراجی قرضوں کو ضبط کر لیا جائے اور بجلی کی تمام پیداوار اور ترسیل کو مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دے کر اس معاشرے کو حقیقی معنوں میں روشن کیا جا سکے۔
آئی ایم ایف کی زنجیریں کیسے ٹوٹیں گی؟
انقلابی کیڈروں پر مشتمل اور ملک گیر سطح پر منظم انقلابی تنظیم‘ انقلابی لٹریچر اور مضبوط ڈھانچوں کے ذریعے قومی سطح پر پھٹنے والے تضادات کے ماحول میں ایک عوامی طاقت بن سکتی ہے اور انقلابی سوشلزم کی منزل کو محنت کش طبقے کے قریب لا سکتی ہے۔
پیپلز پارٹی: نظریاتی انحراف سے زوال پذیری کے گرداب تک
بجائے اس کے کہ سامراجی اداروں کے سہولت کار بننے کیلئے گیٹ نمبر چار کے راستے تلاش کیے جائیں‘ ضرورت ہے کہ محنت کش عوام کی طبقاتی نجات کا راستہ اختیار کیا جائے۔
”تبدیلی“ کے تین سال
محنت کش عوام اپنی تقدیر بدلنے سیاسی میدان میں خود اُترتے ہیں۔
رئیل اسٹیٹ کا کاروبار اور ناہموار ترقی کی قیمت
جس تیزی سے ان ہائوسنگ سوسائٹیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اسی تناسب سے لوگ بے گھر بھی ہو رہے ہیں۔ جس رفتار سے شہر پھیلتے جا رہے ہیں اتنی تیزی سے انفراسٹرکچر کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔
بے معنی شور
زندگی برقرار رکھنے کی ناگزیریت ہر جبر اور ضابطے کو پاش پاش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
معاشی غارت گری کا نیا سوداگر
محنت کشوں اور نوجوانوں کا کوئی بڑا تحرک ان متروک اور رجعتی رجحانات کو بھاپ کی طرح ہوا میں تحلیل کر دے گا۔
فرسودہ اوزاروں کی مشقیں
نسل انسان کو اپنی بقا کے لئے اپنے آنے والے کل اور موجودہ آج کے تحفظ کے لئے حکمران طبقات کے تمام حربوں، حملوں اور ہتھکنڈوں کا مقابلہ کر کے ان کو شکست دینا ہو گی۔
چھوٹے قرضوں سے بڑا استحصال
جب تک ذرائع پیداوار کی ملکیت چند لوگوں کے ہاتھ میں رہے گی اس وقت تک غربت اور امارت کی خلیج میں اضافہ ہوتا ہی رہے گا۔ کرۂ ارض پر ایک ایسا سماج جس میں غریب اور امیر کی تفریق ختم ہو جائے صرف ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کو ختم کر کے ہی تعمیر کیا جا سکتا ہے اور یہ کام انقلابی سوشلزم کے ذریعے ہی مکمل کیا جا سکتا ہے۔
گندہ ہے پر دھندہ ہے یہ…
عدالتوں کے دروازوں کی بجائے عام مزدور پر بھروسہ کر کے طبقاتی جدوجہد کے طبل کو بجانے کے علاوہ اب مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کے پاس کوئی اور حل بچا ہی نہیں ہے۔