انور پنہور

ایک لمبے عرصے سے پاکستان میں عمومی طور پر خوش گوار اطلاعات کا سلسلہ منقطع ہے۔ بلوچستان میں پاک ایران سرحد پر لائف لائن کی حیثیت رکھنے والی غیر سرکاری آمد و رفت کرنے والے ایک ٹرک ڈرائیور کا قتل، احتجاجیوں پر فائرنگ اور تپتے صحرا میں ڈرائیوروں کو مرنے کے لئے چھوڑ دینے والے دل سوز واقعات کی بازگزشت ابھی کم نہیں ہوئی تھی کہ لاڑکانہ اور دادو کے قریب گوٹھ فیض محمد چانڈیو میں خوف ناک آتش زدگی کا سانحہ رونما ہو گیا۔ میہڑ کے قریب اس گوٹھ میں خوفناک آگ لگی تو جنگل کی آگ کی طرح قرب و جوار کی آبادیوں اور رہائشی بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

اس سانحے میں انسانوں کے جل کر مرنے کا کرب تو ناقابل بیان ہے ہی لیکن ان بے زبان جانوروں کے جلنے کی تکلیف بھی کچھ کم نہیں جو کھونٹوں پر بندھے جلتے رہے اور بھاگ کر اپنی جان بھی نہ بچا سکے۔ اطلاعات کے مطابق آٹھ بچوں سمیت نو افراد ہلاک اور بہت سارے زخمی ہوئے جبکہ ڈھائی سو سے زائد مویشی اس قیامت کا شکار ہو گئے۔ بستیوں میں 100 کے قریب گھر جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ اسی طرح ہزاروں من گندم اور اناج بھی تباہ ہو گیا ہے۔ اٹھارہ گھنٹے تک آگ جلتی رہی مگر علاقے میں آٹھ فائر فائٹنگ گاڑیاں موجود ہونے کے باوجود ایک بھی آگ بجھانے والی گاڑی نہیں پہنچی اور نہ ہی بیس گھنٹے تک کوئی سرکاری اہلکار پہنچا۔ گاؤں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت تھوڑی بہت آگ بھی بجھائی اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل بھی کیا۔ آگ کیسے لگی اس پر کوئی بات قطعی نہیں کی جا سکتی کیونکہ گاؤں والوں نے زمین کے تنازعہ پر مخالف پارٹی پر آگ لگانے کا الزام بھی لگایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک دن پہلے اس پارٹی نے دھمکیاں دی تھیں۔

حقائق جو بھی ہوں مگر یہ بالکل اٹل حقیقت ہے کہ ہم ایسے ظالم سرمایہ دارانہ نظام میں رہ رہے ہیں جس میں جاگیردارانہ باقیات اور انتہائی پسماندگی ابھی تک زندہ ہے۔ جس وجہ سے نہ گاؤں ترقی حاصل کر سکے اور نہ ہی زمین کی مالکی پر تکرار ختم ہو سکا ہے۔ یہ زمین کے تکرار قبائلی لڑائی تک جا پہنچتے ہیں اور کئی لوگوں کی ہلاکت تک بات چلی جاتی ہے۔ دوسری طرف حکمران طبقات بھی سارا وقت محنت کشوں کو لوٹنے اور اپنی عیاشیوں میں مگن رہتے ہیں۔ عوام تو ان کو یاد ہی نہیں رہتی۔ ایسے نظام میں (اس گوٹھ کی طرح) ہر وقت عوام ہی کومارا جاتا ہے۔ مرتے ہووں کو بچانے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔

سیاسی مار دھاڑ میں حکمران طبقے کو جلتے انسانوں کا قلق ہونے کی بجائے یہ سانحہ اپنی سیاسی چالبازیوں میں رخنہ محسوس ہوا ہو گا۔ ان کے عشرت کدوں میں سجی محفلوں کا ذائقہ خراب ہو گیا ہو گا۔ انسانوں اور جانوروں کی جلتی ہوئی زندہ کھالوں کے خیال نے ان کے دلوں میں ہمدردی سے پیدا ہونے والے ہیجان کی بجائے کوفت کی کیفیت طاری کر دی ہو گی۔ یہ حکمران طبقہ اپنے علاوہ کسی کو انسان بھی کب سمجھتا ہے۔ پھر یہاں تو انسان محض 9 اور حیوان زیادہ جلے تھے۔ یہ کس قسم کا نظام ہے جہاں زندگی کی بجائے موت کا رقص جاری ہے۔ ہر روز غیر فطری اموات کی ایک فہرست میڈیا پر گردش کرتی ہے۔ روڈ حادثے سے مرنے والوں کی تعداد عالمی وبا سے مرنے والوں سے تجاوز کر چکی ہے۔ لڑائی جھگڑوں میں ہلاکتوں کی خبریں تہذیب و تمدن پر یقین کو کمزور کرتی رہتی ہیں۔ گھرسے سودا سلف لینے کے لئے جانے والے شہریوں کے ڈاکوؤں اور راہزنوں کے ہاتھوں قتل کی خبروں سے خبر نامہ شروع ہوتا ہے۔ پھر بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل، وڈیروں کے غم و غصے کی بھینٹ چڑھ جانے والے ناظم جوکھیو کی بیوہ کے بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ’مزید انصاف‘ کے حصول سے انکار، دیہی خداؤں کی جیلوں میں بلکتے بچوں اور خواتین کی تفصیلات کے ساتھ ہی ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں ویڈیو بنانے والے کو تشدد کر کے مارنے والے سینہ تانے عدالتوں کے باہر وکٹری کا نشان بناتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

نظام کا بحران جتنی زیادہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اتنی شدت سے معاشی، سیاسی اور سماجی بحران ابھرتے جا رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف محنت کش طبقے پر معاشی حملوں نے زندگی کو جبر مسلسل بنا کر رکھ دیا ہے وہاں غربت اور افلاس کی پیدا کردہ زبوں حالی میں اضافے نے انسانوں کے رہن سہن کو سینکڑوں سال پہلے سے زیادہ غیر محفوظ بنا کر رکھ دیا ہے۔

شہری زندگی کی ذلتیں اپنی جگہ ناقابل برداشت ہو چکی ہیں۔ جہاں بجلی، گیس اور پانی کی عدم دستیابی نے آرام دہ زندگی اور شہری سہولیات کے تصور کو قصہ ماضی بنا دیا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، گلیاں اور بازار، نکاسی آب کا ناقص نظام اور کچرے کے ڈھیروں میں پھنسی آبادیاں ہر طرف تعفن پھیلا رہی ہیں۔ اسی طرح سڑک کے ذریعے شہر سے منسلک کر دی گئی دیہی زندگی اب نہ دیہات کے قدرتی رنگ میں رہی ہے اور نہ ہی شہری سہولیات سے مکمل طور پر مستفید ہو سکی ہے۔ کیا المیہ ہے کہ دیہی زندگی شہروں کی اور شہری آبادی دیہی زندگی کی رومانیت میں مبتلا ہے۔

قصہ یہ ہے کہ شہروں اور دیہات میں بڑھتے ہی چلے جانے والے مسائل نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔ غیر انسانی تمدن اور سماجی گراوٹ نے ہر کوچہ و بازار میں زندگی‘ حتیٰ کہ موت کو بھی بے بسی کی تصویر بنا دیا ہے۔ نہ شہر میں امان ہے اور نہ ہی دیہات میں کسی قسم کے سکون کا تصور ہے۔ پھر اوپر سے حکمران طبقے کی سفاکیت اور مایوس کن رویے۔ یہ نظام کسی طور بھی انسانی نہیں ہے۔ اس کو بدلے بغیر کوئی چارہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ کیا تصور کیا جا سکتا ہے کہ اکیسویں صدی میں بارہ گھنٹے تک زندگیاں، گھر، مال مویشی اور زندگی کی ضامن اجناس جل رہی ہوں اور قدم قدم پر اگوان کہلوانے والے وزیر، مشیر، حکام، مشینری اور حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگے۔

یہ ظالم معاشرہ ہے جس کو شعوری طور پر قائم رکھا گیا ہے۔ یہاں عام محنت کشوں کی زندگیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس سماج کے رہنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ ظلم جاری ہے اور جب تک محنت کش طبقہ منظم اور متحد ہو کر اس ظالمانہ سرمایہ داری نظام کو اکھاڑ کر ختم نہیں کرتا تب تک عوام کے خلاف یہ مظالم جاری رہے گے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس جلے ہوئے گاؤں کے لوگوں کے لئے کم از کم ایک سال تک کھانے پینے کا سامان مہیا کرنے کے ساتھ سرکاری سطح پر تمام پکے گھر تعمیر کیے جائیں۔ تمام گاؤں والوں کے لئے ملازمت، بچوں کے لئے مفت ٹرانسپورٹ کے ساتھ مفت علاج فراہم کیا جائے۔ جن لوگوں کے جانور ہلاک ہوئے ہیں ان کو گائے، بھینسیں اور بکریاں بھی فراہم کی جائیں۔فی خاندان پچاس لاکھ روپیہ معاوضہ اس کے علاوہ ادا کیا جائے۔