قمر الزماں خاں

ہر شور میں کچھ نہ کچھ چھپ جاتا ہے یا چھپا دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں عوام پر معاشی حملوں، نظام کی ناکامی اور ریاست کی خستہ حالی کو حکمران دھڑے باہمی لڑائیوں اور ایک دوسرے پر بدعنوانی کے الزامات کے شور میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گرتی ٹوٹتی اور زوال پذیر سرمایہ داری میں پاکستان کی ہر حکومت اسی معیشت کے بیمار گھوڑے پر سوار ہوتی ہے جس سے پہلے”شہ سوار“ کو گرا کر گھوڑے کی کاٹھی پر قبضہ جمایا جاتا ہے۔ عوام کو باور کرایا جاتا ہے کہ پچھلا گھڑ سوار نالائق تھا اور اب والے ”سوار“ گھوڑے کو سرپٹ بھگانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ شرمندگی، ناکامی اور رسوائی کو کسی نہ کسی شور میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ شور پچھلی حکومت پر الزامات (جن میں سے نوے فیصد درست ہی ہوتے ہیں) لگا کر پیدا کیا جاتا ہے۔ لوگ جو بہتر شہ سواری کے منتظر چلے آ رہے ہیں، لنگڑے گھوڑے اور لولے شہ سوار کی ٹامک ٹوئیوں کو چھوڑ کر اس شور شرابے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں جس میں بدعنوانی، لوٹ مار، رشوت ستانی، جعل سازی، الاٹ منٹس، تحفے تحائف کے غبن اور چوریوں کے اسباب، وجوہات اور ناگزیریت کی وضاحت یا اس سے جان چھڑانے کے عزم کی بجائے ہتک، مزاح اور تماشے لگا دیئے جاتے ہیں۔ عام حالات میں مہنگائی، دکھوں اور مصائب کے مارے عوام (بالخصوص درمیانے طبقات) ہمیشہ تفریح ہی کے منتظر ہوتے ہیں اور پھر فقرے بازی اور پھبتیوں کا بازار گرم ہو جاتا ہے اور ناکام حکمرانوں اور فرسودہ نظام کی نااہلیت پر بحث مباحثوں کی نوبت ہی نہیں آتی۔

پاکستان کے آغاز اور رشوت، بدعنوانی، اختیارات سے تجاوز اور اقربا پروری کی داستانوں نے ایک ساتھ ہی جنم لیا۔ جنرل محمد ایوب خان جو کہ فیلڈ مارشل بھی کہلاتے تھے کے بیٹے کی بدعنوانیوں کے قصے ساٹھ کی دھائی میں ہر قصبے، دیہات اور شہر میں بھی عام تھے اور اخبارات کیلئے بھی دلچسپ مواد کے حامل ہوتے تھے۔ پھر ضیا الحق کے دور میں جہاں دبے دبے انداز میں ڈاکٹر بشارت الٰہی اور مولانا خوشی محمد (شالیمار ریکارڈنگ کمپنی) کے قصے عام ہوئے، وہاں امریکی سٹنگر میزائلوں کی ایران میں موجودگی پر کھلنے والے اسکینڈل پر تاریخ کی سب سے بڑی لوٹ مار کے سبب اوجڑی کیمپ کے اسلحہ خانے میں آتش زدگی کا واقعہ بھی پیش آیا۔ اسی دور میں ناجائز دولت کے انبار کھڑے کیے گئے۔ افغان جنگ میں بھاڑے کا ٹٹو عوام بنی مگر خواص او ر حکمرانوں نے اس کے پورے دام وصول کیے۔ ان دنوں دنیا بھر کے گیارہ امیر ترین جرنیلوں میں سے سات پاکستانی بتائے جاتے تھے اور پہلے تین سرفہرست بھی پاکستانی ہی تھے۔ عالمی منڈی میں ہیروئن کے برانڈ کے مقابلے میں کوکی خیل برانڈ کی ٹکر کا ”حق برانڈ“ قرار دیا جاتا تھا۔ اس کو جنرل فضل حق کی پراڈکشن کہا جاتا تھا۔ انہی دنوں میں جنرل اختر عبدالرحمان بھی ایک سادہ سے فوجی افسر سے (ڈالروں میں) ارب پتی میں تبدیل ہوئے۔ یہی وہ دورتھا جب میاں محمد شریف نے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل جیلانی کی اہلیہ کو گھر کھانے پر بلایا اور مبینہ طور پر ”دھی دھیانی“ کو کروڑوں کے تحائف سے رخصت کیا۔ اس کے بدلے میں بیٹے کیلئے پنجاب میں پہلے وزارت اور پھر وزارت اعلیٰ حاصل کی۔

یوں یہ واقعات اور ان کے چسکے دار قصے تب سے اب تک چلتے آ رہے ہیں اور عقب میں مختلف قسم کی وارداتیں بھی چلتی جا رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میاں شریف بہت محنتی انسان تھے جنہوں نے اپنی دوکان کو اتفاق فیکٹری میں بدلنے میں مبینہ طور پر بہت محنت کی۔ چلیں محنت کے قصے کو مان بھی لیا جائے تو چالیس پچاس سال میں ایک فیکٹری قائم ہوئی مگر جنرل ضیا کی آمریت میں قدم جمانے کے بعد اسی کے جانشین ساتھیوں کی چھتری اور غالباً حصہ داری میں چند سالوں میں ہی ایک سے کئی درجن فیکٹریاں کھمبیوں کی طرح قائم ہو گئیں۔ یہاں پر ”محنت“ والی سادہ کہانی کے خاکے میں رنگ کہیں اور سے ہی بھرے نظر آتے ہیں۔ زرداری فیملی کی بدعنوانیوں کے قصے ان کے بادام کھاتے گھوڑوں سے زیادہ عام ہوئے یا کیے گئے۔ مگر اس دور میں ضیا الحق کے سمدھی اور ان کے رشتے داروں کے پردے کے پیچھے ارب پتی بننے کے واقعات کی کہانی ابھی چند ماہ پہلے ایک ہی دفعہ چھپی اور پھر عمران خان کی یورپ اور امریکہ سے زیادہ ”صحافتی آزادی“ کی نذر ہو گئی۔ عمران خان کے دور میں جیسے ”پاپا جونز“ اسکینڈل کی صفائی دی اور لی گئی اس کی مثال بھی پچھلے ستر سالوں میں کہیں نہیں ملتی۔ نہ کوئی عدالت، نہ کوئی کمیشن، نہ تحقیقات اور ملزم صرف وزیر اعظم کی صفائی پر بری اور شفاف قرار پا گئے۔ 5 قیراط کے ہیرے کی کہانی نہ ہی عجب ہے نہ ہی کوئی انہونی۔ تمام حکمران دھڑے، ریاستی حکام اور اوپر سے نیچے تک کی مشینری کا ”کیریکٹربھی ڈھیلا“ ہے اور بد عنوانی میں ایک ہی پیج پر ہے۔

یہ گلے سڑے، راشی، بد اعمال اور جائز ناجائز کے تصور سے ابدی طور پر ماورا ہیں۔ سیاسی اور غیر سیاسی حکام کی لوٹ مار، اثاثے، فلیٹس، جزیرے، اپارٹمنٹس، مالز، پلاٹ، محلات، زمینیں، ٹھاٹھ باٹھ کوئی مخفی بات تو نہیں ہے۔ ساری مار دھاڑ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ یہ بدنام قسم کی بد عنوانیاں ہیں، جن کو گالی نکالنا ممکن ہے اور نکالی جاتی ہیں۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اس عیارانہ نظام معیشت کی تو الف ب ہی لوٹ مار سے شروع ہوتی ہے۔ ’آزاد منڈی‘ کی سادہ تعریف لوٹ مار، استحصال اور بے لگام شرح منافع کے راستے میں تمام رکاوٹوں کو قانونی طور پر ختم کیا جانا ہے۔ اس آزاد منڈی کے قیام کیلئے ہی ماہرین معاشیات، صحافیوں اور دانشوروں سے عوام کے مفاد میں موجود قوانین اور رکاوٹیں ہٹا کے فضا ساز گار کرانے کیلئے پراپیگنڈہ کرایا جاتا ہے۔ قانون ساز اسمبلیوں میں بیٹھے ’عوام دشمنوں‘ سے قانون سازی کرائی جاتی ہے۔ اسی طرح حکام کے ذریعے پبلک سیکٹر کی ہیئت بگاڑنے کا کام کرایا جاتا ہے۔ یہ سارے کام مفت نہیں ہوتے۔ ان کی بھاری قیمت ادا ہوتی ہے۔ یہ محلات، اثاثے، جزیرے، فلیٹس اور مالز جن ذرائع سے بنتے ہیں ان کو مذہبی طور پر بھی قابل قبول بنانے کیلئے ملائیت کو خریدا اور مذہب کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس نظام میں کاروبار کو جائز قرار دیا جاتا ہے اگر چہ اس کاروبار کے سارے تانے بانے ناجائز ذرائع سے بنے گئے ہوں۔ منافع جو دراصل دوسرے فریقین (مزدور اور صارف) کا نقصان ہوتا ہے کو ہتھیانا عین عبادت قرار دیا جاتا ہے۔ صدر الدین ہاشوانی، انور پرویز، سیٹھ ملک ریاض، میاں منشا، سیف اللہ، آصف علی زرداری، شاہد خان، نواز شریف، فیصل مختار، علیم خان، جہانگیر ترین، مجید اومنی گروپ، کالیا، عارف حبیب جیسے سینکڑوں ڈالروں میں ارب پتی اور کالے دھن کے ذریعے ان کے ہم پلہ بننے والے دیگر ہزاروں گروپ اور سیٹھوں کو ریاست اور اس پر براجمان حضرات معززین بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی ساری دولت وہی ہے جو عوام سے لوٹی گئی ہے۔ مگر یہ پھر بھی معززین ہیں اور صرف ان سے رشوت وصول کرنے والے کو ہی (حسب ضرورت) گالیاں پڑ وائی جاتی ہیں۔

دیکھا جائے تو یہ سب ایک منظم گروپ کی شکل میں ’ایک ہی مقصد کیلئے‘ اپنے اپنے کام کرتے ہیں۔ ’نجکاری‘ کے معاشی ہتھکنڈے کے ذریعے لوٹ مار، جس سے کروڑوں لوگوں سے ان کا معیار زندگی چھین لیا جاتا ہے، کو قابل عزت کاروبار قرار دیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے کیلئے عالمی سامراجی ادارے، سامراجی عسکری اور سیاسی طاقتیں اپنے کارندوں جو کہ مقامی حکام، حکمران، دانشور، صحافی، تجزیہ نگاروں پر مشتمل ہوتے ہیں‘ سے کام لیتی ہیں۔ اب اس سارے عمل کو ’FDI‘ یعنی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے۔ اکثر تجزیہ نگار ”غیر ملکی سرمایہ کاری“ کی فضیلت کے گیت گاتے ملتے ہیں۔ وہ کبھی نہیں بتاتے کہ ایسا ہر آنے والا ڈالر اپنے ساتھ بیس ڈالر کھینچ کر بیرون ملک بھی لے جاتا ہے۔ پھر یہ سرمایہ کاری یکایک اور سیدھے سبھاؤ نہیں کی جاتی بلکہ اس کے راستے میں حائل تمام تر ”رکاوٹیں“ یعنی مقامی صنعت، تحفظات، ٹیکس، قیمتوں پر کنٹرول وغیرہ کو ہٹا دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اسی قسم کی غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاری کی ایک مثال نجی بجلی کے کارخانے، ان کی لوٹ مار اور بلیک میلنگ سمیت لوڈ شیڈنگ کا تحفہ ہے۔ یہ سرمایہ کاری کتنی راحت بخش یا تکلیف دہ ہے؟ لوڈ شیڈنگ، ہر ماہ مہنگی ہوتی بجلی اور قومی خزانے پر سالانہ بوجھ اس سرمایہ کاری کے وہ ثمرات ہیں جن کااندازہ ہر پاکستانی لگا سکتا ہے۔ اس کے جواز میں کہا جاتا ہے کہ اگر نجی پاور پلانٹس نہ لگتے تو پاکستان اندھیروں میں ڈوبا ہوتا۔ یہ ایک سراسر مبالغہ آمیزی پر مبنی سازشی تھیوری کا فقرہ ہے۔

پاکستان کے پاس سستی بجلی پیدا کرنے کے کئی سمارٹ ذرائع ہیں مگر ان پر وہی ”ماہرین“ عمل نہیں کرنے دیتے جو عالمی سامراجی ایجنسیوں اور مقامی سرمایہ کاروں کے پے رول پر ”طوطا کہانیاں“ سناتے چلے آ رہے ہیں۔ پاکستان میں گھی، چینی، سیمنٹ کی قیمتیں بے لگام ہونے کا عمل نواز شریف کی رسوائے زمانہ نجکاری سے شروع ہوا تھا۔ اس عمل کا آغاز مسلم کمرشل بینک کی تقریباً مفت نجکاری سے کیا گیا تھا اور بینک ڈیپازٹس (امانتوں) کو بھی استعمال کی اجازت دی گئی تھی۔ پھر ہر کارخانے کو نشاط گروپ یا ان کے فرنٹ مین نے خریدا۔ انہی دنوں ہی فوری طور پر گھی کی قیمت 19 روپے سے 55 روپے فی کلو گرام اور سیمنٹ 95 روپے فی بیگ ہو گیا۔ چونکہ نجکاری کا پہلا اصول قدغنوں اور کنٹرول کا خاتمہ ہوتا ہے لہٰذا قیمتوں پر کنٹرول نجکاری کے ساتھ ہی تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر اجناس اور ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ قومی اداروں، کارخانوں اور فیکٹریوں کو نجی تحویل میں دے دیا جانا ہے۔ اس سارے عمل میں جتنے بھی فیض یاب ہوتے ہیں وہ سہولت کاروں، پالیسی سازوں اور انتظامی معاونین کو ان کا حصہ بمطابق جثہ ضرور دیتے ہیں۔ کیونکہ اگلے پراجیکٹ بھی شروع کرانے اور تکمیل تک پہنچانے ہوتے ہیں۔ محل، پلازے، فلیٹس، جزیرے نہ اگتے ہیں اور نہ ہی کروڑوں کی گاڑیاں جائے نماز کے نیچے سے نکل آتی ہیں۔ انگوٹھیوں میں جڑے جانے والے ہیرے بھی اپنی قیمت وصول کرتے ہیں۔ پراپرٹی کا کاروبار شاید قانونی تقاضوں کے ماتحت بھی ہوتا ہو مگر زیادہ تر قبضوں، دھونس اور غیر قانونی طریقوں پرمحیط ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس میں منافع بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کے تسلسل کی وجہ سے کالا دھن جہاں بہت ظالم اور سفاک ہوتا ہے وہیں سہولت کاروں کے لئے اتنا ہی سخی اورفراخ دل ہوتا ہے۔ چنانچہ تین قیراط سے پانچ قیراط ہیرے کی کہانی اگر درست بھی ہو تو اس میں حیرانی کیسی؟ حکام یا سہولت کاروں کو کروڑوں روپے دے کر عوام سے اربوں، کھربوں روپے لوٹ لینا ہی ”آزاد منڈی“ کا ہتھکنڈہ اور طریقہ واردات ہے۔ مگر یہ نہ تو انہونی بات ہے اور نہ ہی کبھی ختم ہونے والی واردات۔ لیکن ان وارداتوں کی مٹی تبھی اڑائی جاتی ہے جب حکمرانوں کے ناکام نظام کے آشکار ہونے کے خدشات بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔

حکومتوں کی تبدیلی سے کچھ نہیں بدلتا۔ یہ حقیقت آشکار ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی سے ن لیگ اور پھر عمران خان سے پی ڈی ایم حکومتوں کی ناکامی پر عوام پر مہنگائی کے پے درپے تازیانے برسانے سے جو المیہ پیدا ہوا ہے اس سے ردعمل میں کراہیں، چیخیں اور بین کو چھپانے کے لئے توشہ خانوں اور انگوٹھیوں کے ہیروں کی دھن بجا ئی جا رہی ہے۔ مگر یہ کہانیاں اور قصے محنت کش طبقے کے درد کو کم کرنے کی بجائے بڑھانے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس درد کا مداوا سمجھے جانے والے سارے طبیب اتائی ثابت ہوئے ہیں۔ دشمن طبقات کے لگائے گئے زخم اب ناسور بن چکے ہیں اور ان کی جراحی بھی اب خود محنت کش طبقے کو ہی کرنا ہو گی۔