غفران احد ایڈووکیٹ

30 جنوری 2023ء کو پشاور پولیس لائنز کی ایک مسجد میں ہونے والے خود کش بم دھماکے میں 100 سے زائد افراد اب تک جاں بحق اور  200 سے زائد بری طرح گھائل ہو چکے ہیں۔ اس اندوہناک واقعے نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ بھاری جانی و مالی نقصانات پر مبنی پے درپے فوجی آپریشنوں کے باوجود اس خطے پر بنیاد پرستانہ دہشت گردی کا آسیب آج بھی منڈلا رہا ہے۔ دہشت گردی ہو یا اس کے خلاف کیے جانے والے آپریشن‘ اس آگ میں جلنے والے پھر پاکستان اور افغانستان کے غریب عوام اور محنت کش ہی ہیں۔

15 اگست 2021ء کو کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے سرحد پار پاکستان میں سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر دہشت گردی کے حملوں میں شدید اضافہ ہو گیا ہے۔ سرکاری تاثر سے یہ رائے عامہ استوار کی گئی تھی کہ دہشت گردی قصہ ماضی بن چکی ہے۔ لیکن حالات و واقعات نے اس بیانیے کو بالکل غلط ثابت کر دیا ہے۔صرف 15 اگست 2021ء سے 14 اگست 2022ء کے دوران 250 حملوں میں 433 افراد ہلاک اور719زخمی ہوچکے ہیں۔ پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں یہ اعداد و شمار تقریباً چار گنا ہیں۔ کابل پر طالبان قبضے کے بعد سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں ایک نئی جان پڑ چکی ہے۔ طالبان کا اقتدار پر قبضہ عالمی طاقتوں، ان کی معاون اور کبھی زیر زمین ان سے متصادم پاکستانی ریاست اور اس کی ایجنسیوں کی معاونت سے ہونے والے ’دوحہ مذاکرات‘ کا نتیجہ تھا۔ تقریباً بیس برسوں کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں 2 ٹریلین ڈالراور دس لاکھ انسانوں کو قتل کرنے کے بعد امریکہ نے انتہائی بے شرمی سے طالبان کے ساتھ ساز باز کرتے ہوئے انہیں افغانستان کی ”منتخب“ حکومت (جو کہ امریکی سامراج کی ہی قائم کردہ تھی) کا تختہ الٹنے میں کامیاب کروایا۔ اور اب اس خطے میں ایک نئی سرد جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ روس اور چین کا طالبان کی جانب نرم رویہ عالمی سفارت کاری اور سیاست میں معنی خیز ہے۔

افغان طالبان کی فتح پاکستانی ریاست کے لئے”سٹریٹجک کامیابی“ ہے اور کئی سیاست دانوں نے اس کا خیر مقدم کیا ہے اور اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نے تو اسے افغانوں کی جانب سے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالنا قرار دیا تھا۔ تاہم پاکستان کی کلیدی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی کابل سرینا ہوٹل میں غیر معمولی گفتگو عالمی سطح پر (بالخصوص مغربی سامراج کے سامنے) پاکستان کے لئے باعث ہزیمت بنی ہے۔ اسی طرح موجودہ وزیر دفاع نے بھی ایک ٹویٹ میں طالبان کے قبضے کو سراہا تھا۔ لیکن طالبان کی فتح پر پاکستانی حکمران طبقے کا یہ بیہودہ جشن اب ایک بھیانک صدمے میں بدلتا جا رہا ہے اور طالبان کے پر انتشار اقتدار سے پیدا ہونے والی سکیورٹی صورتحال پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا پیش خیمہ ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ طالبان سے ہمدردی میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور نام نہاد لبرل سیاسی اشرافیہ کے بیشتر دھڑے بھی ایک پیج پر ہیں۔

بہت واضح ہے کہ 2001ء میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اب ان کا پھر سے اقتدار میں آنا نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا میں مذہبی جنونی دہشت گرد گروہوں کے لئے حوصلہ افضائی کا باعث بنا ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر ریاست کی دہشت گردوں سے مذاکرات کی پالیسی کی ناکامی کا واضح اظہار بھی ہے۔ ان مذاکرات کی شرائط تک دہشت گردوں نے طے کی تھیں۔ ملک بھر میں کہیں بھی دہشت گردی باعث تشویش ہے لیکن صوبائی یا وفاقی دار الحکومتوں میں پولیس پر حملوں کا مطلب یہ پیغام دینا ہے کہ کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں۔ گزشتہ ماہ اسلام آباد میں بم حملے اور پنجاب میں خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے قتل سے سماج اور پالیسی سازوں میں شدید پریشانی موجود ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ”مکران گروپ“ کی ٹی ٹی پی میں شمولیت سے ان کی ریاستی ایجنسیوں اور کلیدی اہلکاروں پر حملوں کی صلاحیت بڑھ چکی ہے۔

اس سلسلے میں قومی سکیورٹی کونسل کے حالیہ اجلاس کے اعلامیے میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ”دہشت گردی برداشت نہیں کی جائے گی“ اور ”تشدد کا جواب بھرپور ریاستی طاقت سے دیا جائے گا“ جیسے گھسے پٹے الفاظ‘ دہشت گردی کے خلاف کسی ٹھوس اور مربوط پالیسی کی عدم موجودگی میں بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ خود سرکاری مشینری میں دہشت گردوں کی مختلف سطحوں پر پشت پناہی کرنے والے عناصر موجود ہیں۔ وزارت داخلہ کی رپورٹوں کے مطابق پچاس سے زائد گروہ مختلف ناموں اور لیڈروں کے تحت سر گرم عمل ہیں لیکن ان سب کا مشترکہ نظریہ مذہبی انتہا پسندی اور تشدد ہے اور ان سب کی مالی بنیاد کالا دھن ہے۔ پھر ان کے مختلف علاقائی و عالمی سامراجی طاقتوں کے ساتھ تعلقات ہیں جن کی پراکسیوں کے طور پر یہ کام کرتے ہیں۔ تاریخی طور پر افغان طالبان، ٹی ٹی پی، پنجابی طالبان وغیرہ سب 80ء کی دہائی کے پیٹرو ڈالر جہاد کی مذہبی جنونیت کے مختلف چہرے ہیں۔

اس دوران خفیہ مذاکرات کے نتیجے میں طالبان جنگجوؤں کو ان کے آبائی علاقوں میں آباد کرنے کے خلاف بڑے عوامی مظاہرے ہوئے ہیں جن میں سوات اور ملحقہ علاقوں میں نئے فوجی آپریشنوں کی بھی مخالفت کی گئی ہے۔ اس سے قبل پشتون علاقوں جیسے وزیر ستان، بنوں، سوات، دیر اور بونیر میں ریاست کی طالبان کو خوش کرنے کی پالیسی کے خلاف بڑے احتجاجی مظاہرے ہو چکے ہیں۔ یہ مظاہرے اور مزاحمت ایک تحریک کی شکل میں موجود ہیں۔ اولسی پاسون (عوامی بیداری) کی تحریک نے خیبر پختون خواہ میں ہونے والے ان مظاہروں میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی، ریاستی جبر اور دہشت گردی کے خلاف یہ تحریک کا ہراول بن چکی ہے۔ فوری مطالبات اور عوامی جذبات پر مبنی اس کے نعرے عوام اور تمام سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے پر کشش بن چکے ہیں۔ اس تحریک کی بنیاد جولائی2022ء میں ضلع سوات میں ہونے والے حملوں کے بعد کچھ ہم خیال ترقی پسند افراد کی سوچ ہے۔ اس کے بعد یہ تحریک صوبے کے کئی علاقوں میں پھیل گئی۔ دہشت گردی کی کسی بھی کاروائی کے خلاف یہ تحریک فوراً عوامی مظاہرے منعقد کراتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک ترقی پسند تحریک ہے لیکن دائیں بازو کے کچھ لوگ بھی اس کا حصہ بنے ہیں۔ ایسے عناصر سے ترقی پسندوں کو چوکنا اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ایک ہمہ گیر عوامی تحریک ہی دہشت گردی اور بنیاد پرستی کی موجودہ مصیبت سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔ پشاور حملے کے بعد پولیس اہلکاروں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جن کا اظہار ان کے احتجاجی مظاہروں کی شکل میں ہوا ہے۔ یہ بھی انتہائی غیر معمولی اور اہم پیش رفت ہے۔ ریاست کے بیچ کا یہ ہیجان آنے والے دنوں میں کھل کے اپنا اظہار بڑی ٹوٹ پھوٹ کی شکل میں بھی کر سکتا ہے۔

سامراج کی کھینچی ڈیورنڈ لائن کے آر پار رہنے والے ہزاروں سالوں کی ایک مشترکہ ثقافت کے وارث ہیں۔ دونوں طرف کے محنت کش عوام کے دکھ سکھ سانجھے اور طبقاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنیاد پرستی، دہشت گردی اور خونخوار دہشت گردوں کی آباد کاری کے خلاف ایک مشترکہ تحریک اور ایجی ٹیشن کی ضرورت ہے۔ ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب کے سماج کئی دہائیوں سے جاری سامراجی جنگوں اور بربریت سے تاراج ہیں۔ یہ ساری خونریزی آخری تجزئیے میں مسلط شدہ سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے۔ بنیاد پرستی ہو، دہشت گردی ہو، سامراج ہو یا سامراجی ریاستوں کا جبر‘ یہ سب اسی نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس ظلم و ستم کے خلاف تحریکیں ابھر رہی ہیں اور آگے بھی ان کے زیادہ قوت اور شدت سے ابھرنے کے واضح امکانات ہیں۔ انہیں یکجا کرنے اور ٹھوس پروگرام سے لیس کرنے کی ضرورت ہے جو فوری مطالبات کو اس نظام کے خاتمے کے ساتھ جوڑے۔ وگرنہ یہ خونریزی جاری رہے گی۔ اسی طرح طالبان کے جبر کے سامنے افغان خواتین کی مزاحمت بہت حوصلہ افزا ہے اور اس جدوجہد میں ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف کی خواتین کی بھرپور شمولیت ہی پدر شاہی کے جبر کو توڑ سکتی ہے۔