قمرالزماں خاں

دیگر بہت سے بحرانوں کی طرح ملک پاکستان اس وقت روزمرہ کے اہم ترین غذائی جزو‘ آٹے کی قلت اور بلند ترین نرخوں کے بحران کا شکار ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی آبادی کا ساٹھ فیصد سے زائد حصہ کسی نہ کسی طرح کاشتکاری سے منسلک ہو اور وہاں کی کل زیر کاشت زمین کاایک بڑا حصہ ہر سال گندم کی فصل تیار کرتا ہو‘ وہاں ایسا بحران حیران کن سے زیادہ تشویش ناک اور شرمناک ہے۔ اس بحران کے پیچھے کئی عوامل ہیں جن کا ہم جائزہ لیں گے مگر سب عوامل کامرکزہ ایک ایسی نحیف اور بحران زدہ سرمایہ دارانہ ریاست ہے جو مختلف قسموں کے بین الاقوامی اور مقامی مافیاز کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے۔

انڈس ویلی کے پاکستان جیسے زرعی ملک کو، جس کے علاقوں کو انسانی تاریخ کے پہلے زرعی علاقے قرار دیا جاتا ہے، عالمی سامراجی ایجنسیوں کے دباؤ، صلاح کاری اور شرائط کے تحت تشکیل پانے والی پالیسوں کی وجہ سے قحط جیسے حالات اور مناظر کا سامنا ہے۔ دنیا کے اس خطے کی پرانی تہذیبوں میں زراعت کا آغاز 9 ہزار سال پہلے قرار دیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زرخیزی اور کاشت کاری کی وجہ سے اولین انسانی تہذیب، ثقافت اور تمدن کا جنم ہوا اور اپنے عہد کے جدید ترین سماجوں کی بنیاد پڑی۔ یہاں کی کھیتی باڑی، زراعت، پیداوار، رہن سہن کے طریقوں اور وسائل کی بہتات کی وجہ سے ہزاروں سال تک مختلف علاقوں کی آبادیاں ان ایشیائی میدانوں کی طرف ہجرت کرتی رہیں۔ کم و بیش تمام حملہ آوروں کی اس طرف آمد کی بڑی وجہ بھی اس علاقے کی خوش حالی تھی۔ ہزاروں سال تک برصغیر میں منفرد طرز زندگی، سماجی بنت اور پیداواری رشتے، جن کو ماہرین معاشیات اور محققین ”ایشین طرز پیداوار“ قرار دیتے ہیں، رائج رہے۔ اس دوران ہزاروں طوفان، حملہ آور، جنگیں، آفات آئیں مگر زندگی کا تسلسل نہ ٹوٹا۔ آج جب جدید طرز زراعت سے دنیا واقف ہو چکی ہے۔ آبپاشی کے بھی نئے نئے طریقے متعارف ہو چکے ہیں۔ اسی طرح پیدوار کی شرح بھی ماضی کی کئی گنا زیادہ لینے کی قدرت حاصل ہو چکی ہے۔ مثلاً ماضی میں اگر گندم کی فی ایکٹر پیداوار آٹھ سو کلو گرام سے ہزار کلو گرام (بیس سے پچیس من) تھی تو اب وہ بڑھ کر 2400 کلو گرام (ساٹھ من) یا زیادہ لی جا رہی ہے۔ اسی طرح سوائے بارانی علاقوں کے پنجاب اور سندھ کے بیشتر حصوں میں بیراجوں، نہروں اور کھال کے وسیع تر نیٹ ورک کے ذریعے آبپاشی کا وسیع انفراسٹرکچر موجود ہے۔ یہاں ہم پچھلے اور اس سال کے کچھ اعداد و شمار کا جائزہ لے کر ان تضادات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے جو آزاد منڈی کی لوٹ کھسوٹ، استحصال اور بد انتظامی کی وجہ سے سماج کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ پاکستان کا کل رقبہ 79.61 ملین ہیکٹر ہے جس میں 22.07 ہیکٹر رقبہ کاشت کاری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں زرعی شعبہ روزگار اور معیشت میں ایک بڑا جزوہے۔ زراعت کا جی ڈی پی میں 22.7 فیصد حصہ ہے اور اسی طرح یہ شعبہ 37.4 فیصد لیبر فورس کو براہ راست روزگار فراہم کرتا ہے۔ سال 21-22ء میں زراعت کی شرح نمو میں اضافہ 4.4 فیصد رہا ہے جو پچھلے مالی سال کی نسبت ایک فی صد زیادہ تھا۔ 2021-22ء کے دوران گندم کی بوائی کا رقبہ 22180.179 ہزار ایکڑ (2.1 فیصد کم) ہو گیا جو پچھلے سال کے 22654.621 ہزار ایکڑ تھا۔ اس سال گندم کی پیداوار، 27.5 ملین ٹن سے کم ہو کر 26.4 ملین ٹن ہوئی ہے۔ پاکستان میں تجارتی خسارہ پاکستانی معیشت کا بڑا مسئلہ ہے مگر ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پچھلے تین سالوں میں ساڑھے تین ارب ڈالر کی گندم برآمد کی گئی ہے۔ اس سنگین مسئلے کے کئی پہلو ہیں۔ مثلاً اس سال حکومت نے 200 ارب روپے سے زائد رقم اس گندم کو سٹور کرنے پر تو خرچ کر دی مگر جس کسان سے گندم خریدی گئی اس کی کسان کوقیمت فی من 2200 روپے دی گئی۔ جبکہ اب آٹا 6500 روپے من مارکیٹ میں بک رہا ہے۔ دوسری طرف بجلی، ڈیزل، کھادوں، بیج، زرعی ادویات کی قیمتوں کی وجہ سے زرعی اجناس کی کاشت کی لاگت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ منافع اور شرح منافع کے نظام میں آج کا کسان بھی اسی منڈی کی نفسیات کے تابع فیصلہ کرتا ہے کہ اگر گندم گھر کی ضرورت سے زیادہ بیج کر اس قدر منافع نہیں ہو گا جس قدر گنے کی کاشت سے مل سکتا ہے تو وہ گندم کی بجائی اپنی گھریلو ضروریات کے لئے ہی کرتا ہے۔ اسی طرح زرعی زمین کو کمرشل کرنے یا ہاؤسنگ سوسائٹی کے طور پر بیچ کر کسان کو فوری طور پر اتنی خطیر رقم کی آفر ہوتی ہے جتنی وہ اگلے کئی سالوں میں بھی نہیں حاصل کر سکتا۔ لہٰذا لاکھوں ایکڑ زرعی زمینوں پر اب کنکریٹ کی عمارات نظر آتی ہیں یا پھر زمینوں سے کاشت کاری ختم کر کے انہیں مستقبل کی ہاؤسنگ اسکیموں کے لئے مختص کر دیا جاتا ہے۔ اس سال گندم کی پیداوار پچھلے سال کی 27.5 ملین ٹن سے کم ہو کر 26.4 ملین ٹن رہی۔ کچھ ماہرین پاکستان کی گندم کی ضرورت 29 ملین ٹن قرار دیتے ہیں جبکہ سال 2019ء میں گندم کی پیداوار 25 ملین ٹن رہی ہے جو کہ مالی سال 2011-12ء کے برابر تھی اور 2020ء میں 24 ملین ٹن رہی ہے۔ ان سالوں میں ہمیں آٹے اور گندم کا بحران اس سطح کا نظر نہیں آتا جتنا 2022ء اور 2023ء میں (26.4 ملین ٹن پیداوار کے باجود) عملی طور پر نظر آ رہا ہے۔ جہاں ایک طرف سیلاب کی وجہ سے گندم کے ذخائر کے خراب ہونے کی حقیقت بھی موجود ہے وہاں گندم اور آٹے کی افغانستان اور اسی راستے وسط ایشائی ممالک میں اسمگلنگ بھی ایک اہم عامل ہے۔ یوکرائن جنگ کے اثرات اور گندم و آٹا کی قیمتوں کے فرق کی وجہ سے سمگلر اور ان کے پشت بان ملک میں قحط پیدا کر کے گندم اور آٹے کو اسمگل کیے جا رہے ہیں۔ یہ کئی طرفہ تماشہ پاکستان کے حکمران طبقے کی بے بساطی یا بدعنوان ذہنیت کا آئنہ دار ہے کہ ایک طرف زرمبادلہ کے ذخائر کا بحران ہے۔ دوسری طرف اربوں ڈالر کے زرمبادلہ کے عوض اس سال 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کی جا رہی ہے۔ تیسری طرف گندم دھڑا دھڑ ملک سے باہر سمگل ہو کر جا رہی ہے۔ پھر ملک میں پاسکو یا دوسرے ناموں سے گندم کے ذخائر محفوظ کرنے کا نظام جس کی قیمت اوسطاً ہر سال 200 ارب روپے اد ا کی جاتی ہے اتنا ناقص ہے کہ وہاں سے اربوں روپے کی گندم یا تو خراب ہو جاتی ہے یا پھر چوری ہو جاتی ہے۔ کھلے آسمان تلے گندم کے ذخائر بارش اور سیلاب میں گل سڑ جاتے ہیں۔ یہ کھیل چالیس پچاس سالوں سے ہر سال کھیلا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان بھر میں صبح سویرے سستے آٹے کے نام پر ناقص آٹے کے حصول کے لئے خواتین و حضرات کی لمبی لمبی لائنیں لگ جاتی ہیں۔ ہر شہر میں درجنوں جگہ ٹرک کھڑے کر کے اس آٹے کی سپلائی کے باوجود ڈیمانڈ پوری نہیں ہو پا رہی۔ پیسوں کے عوض لمبی لمبی لائنیں بنا کر ناقص آٹے کی خریداری کا عمل شدید سردی میں ناقابل برداشت مناظر پیش کر رہا ہے۔ بحران اصلی ہے یا نقلی یہ نکتہ بھی پوری شدت سے موجود ہے مگر پچھلے کچھ سالوں میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، احساس پروگرام، سیلاب زدگان کی مالی مدد اور اب پیسے دے کر آٹے کے حصول کے لئے ذلت آمیز طریقے سے لائنیں لگوانا حکمران طبقے کا پسندیدہ مشغلہ چلا آ رہا ہے۔ لوگوں کے شعور، احساس اور عزت نفس کو پامال کر کے انہیں مجروح کیا جا رہا ہے۔ حکمران طبقہ بار بار اپنے کردار، حرکات اور پالیسیوں سے جہاں اپنی بدعنوانی اور نااہلیت ثابت کرتا ہے وہاں وہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ یہ کروڑوں لوگ انسان نہیں بلکہ بھیڑ بکریاں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لائنوں میں لگے یہ لوگ‘ بھیڑ بکریاں نہیں بلکہ انسان ہیں۔ ابھی تک وہ ہر ظلم اور ذلت اس لئے سہتے آ رہے ہیں کہ انہیں اپنی طاقت اور بساط کا احساس نہیں ہے۔ جس دن کسی معمولی واقعہ پر بھی ان مزدوروں‘ کسانوں کو اپنی حقیقی اور طبقاتی طاقت کا ادراک ہو گیا تو پھر یہ لائنیں توڑ کر صدیوں سے کیے جانے والے تمام مظالم کا حساب لیں گے۔ تب اسی حکمران طبقے اور گروہوں کو کہیں چھپنے کے لئے جگہ نہیں ملے گی۔