ذیشان شہزاد
9-10 اپریل 2022ء کی درمیانی شب پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت میں قائم ہونے والی پی ڈی ایم کی موجودہ اتحادی حکومت کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے 10 جون کو پارلیمنٹ میں مالی سال 2022-23ء کے لیے 95 کھرب کا بجٹ پیش کیا۔ جس کے مطابق اگلے مالی سال میں ٹیکس اکٹھا کرنے کا ریکارڈ ٹارگٹ رکھا گیا جو تقریباً 70 کھرب روپے ہے اور اس میں تقریباً 436 ارب روپے کے مزید ٹیکسوں کا اضافہ آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت بجٹ کے پارلیمنٹ سے پاس ہونے سے پہلے کیا گیا۔ ماضی کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے یہ بجٹ بھی تقریباً 30 کھرب روپے کے خسارے کا بجٹ ہے۔ لیکن خسارے کا بجٹ پیش کرتے ہوئے بھی حکمران طبقات کے یہ نمائندے ظفر کمالی کے بقول کچھ اس طرح کا تاثر دے رہے ہوتے ہیں کہ:
خسارے پر خسارے کا بجٹ تیار ہوتا ہے
معیشت کی ترقی کا مگر پرچار ہوتا ہے
موجودہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت کو ’آئینی طریقے‘ سے ہٹا کر عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار میں آئی۔ مگر اقتدار میں آنے سے پہلے یہ ویسے ہی محنت کش طبقات کو مہنگائی مکاؤ مارچ جیسے ڈرامے کر کے دھوکہ دینے میں مصروف تھی جیساکہ 2014ء میں پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دئیے گئے دھرنے کے دوران مہنگائی کے خلاف جعلی اور مصنوعی بیان بازی کی جاتی تھی اور بجلی کے بلوں کو سرعام نذر آتش کر کے محنت کشوں کو یہ ترغیب دینے کی بھونڈی کوشش کی جاتی تھی کہ اس طرح کرنے سے محنت کشوں کوبجلی کے بلوں کی ادائیگی سے شاید چھٹکارہ نصیب ہو جائے گا اور عوام چین سے خوشحال زندگی بسر کرنے لگیں گے۔ مگر درحقیقت سرمایہ داروں کے مختلف دھڑوں کی سیاسی کٹھ پتلی کی حیثیت سے پی ٹی آئی نے 2018ء میں برسر اقتدار آتے ہی محنت کشوں پر عالمی ساہوکاروں کے معاشی قتل عام کے پروگرام کو ’اصلاحات‘ کے نام پر نافذالعمل کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ عوام دشمن معاہدے کیے اور اس کے بعد ’آئینی‘ طریقے سے اقتدار میں آنے والی موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت نے بھی نہ صرف ان معاہدوں کو جاری و ساری رکھا بلکہ آئی ایم ایف جیسے عالمی ساہوکاروں کی دلالی میں یہ پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت سے بھی ایک قدم آگے چل رہے ہیں۔
’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘ کا نعرہ لگانے والی پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے دور میں امپورٹڈ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے ذریعے آئی ایم ایف سے ستمبر 2019ء میں 6 ارب ڈالر کے قرضوں کے حصول کے لیے جو معاہدہ کیا اُس کی بنیادی شرائط میں ترجیحی بنیادوں پر بجلی کی قیمتوں کو بتدریج بڑھانا اور پیٹرولیم مصنوعات پر فی لیٹر 4 روپے پیٹرولیم لیوی کا ماہانہ بنیادوں پر نفاذ شامل تھا اور اس کو بتدریج بڑھاتے بڑھاتے 30 روپے فی لیٹر تک لے کے جانا تھا۔ ان اقدامات پر پی ٹی آئی کی حکومت نے دل جمعی سے عمل درآمد کیا جس سے محنت کشوں کے لیے مہنگائی کے سونامی نے ایک طوفان برپا کر دیا۔ مگر پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین جو معاہدہ طے پایا ہے اُس کی رو سے جہاں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے دریغ اضافہ کیا گیا وہیں پیٹرولیم لیوی کی مد میں 50 روپے فی لیٹر تک بتدریج اضافہ بھی کرنا ہے۔ جس کی ابتدا کر دی گئی ہے اور جولائی کے مہینے سے 10 روپے فی لیٹر پیٹرول پر اور 5 روپے دیگر پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی عائد کر دی گئی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سے محنت کشوں کی وسیع اکثریت ایک گھمبیر نفسیاتی صدمے کی کیفیت سے دو چار ہے کیونکہ اُن کے لیے جہاں سفری اخراجات ناقابل برداشت ہو گئے ہیں وہیں تمام اشیائے خوردونوش کے نرخوں کے آسمان کے چھو جانے سے فاقوں اور خود کشیوں میں بے تحاشہ اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے یہ حکمران ٹولہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگانے میں پیش پیش تھے اور اقتدار میں آنے کے بعد عالمی ساہوکاروں کی دلالی میں دل و جان سے عمل پیرا ہیں۔
یاد رہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا انحصار بہت سارے ایسے عالمی واقعات پر بھی ہے جس پر پاکستان کی مقامی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ مثلاً روس کی یوکرائن پر جارحیت اور مغربی سامراجی ملکوں کی روس کے مقابلے میں یوکرائن کی عسکری امداد کے نتیجے میں اس جنگ کے دورانئے میں اضافہ۔ پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت بھی اس میں ایک بہت ہی اہم عنصر ہے۔ تادمِ تحریر ایک ڈالر کی اوپن مارکیٹ میں قیمت 245 روپے ہے جس میں کمی کے کوئی آثار مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دیتے۔ جس کی وجہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور کمزور معیشت بھی ہے۔ وہیں ایک اور اہم وجہ امریکی فیڈرل ریزرو کی جانب سے شرح سود میں کیا جانے والا اضافہ بھی ہے۔
بجلی کے بلوں کی بات کی جائے تو سماجی حقیقت یہ ہے کہ بجلی کے بل محنت کشوں کی اکثریت پر بجلی کی مانند گرتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت نے جہاں بجلی کی فی یونٹ بنیادی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ کیا تھا وہیں موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت نے بھی آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت بجلی کے فی یونٹ کی بنیادی قیمت میں 8 روپے کا بتدریج اضافہ کرنا ہے۔
اس اضافے کی منظوری موجودہ حکومت نے ای سی سی سے دینے کے بعد سیاسی نقصان کے پیش نظر فی الحال موخر کر دی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں یہ اضافہ آئی ایم ایف کی بنیادی شرائط میں سے ایک ہے جس سے فرار کسی بھی حکومت کے لیے ناممکن ہے۔ اس کے علاوہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مئی 2022ء کے یونٹس پر فی یونٹ 7.904 روپے (علاوہ ٹیکس) عائد کیا گیا ہے جو صارفین سے ماہِ جولائی کے بلوں میں وصول کیے جائیں گے۔ اس سے صارفین پر اربوں روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے بجلی کے بلوں میں عائد ٹیکس کی اس مد میں آنے والے وقت میں اضافے کا رجحان ہی دیکھنے کو ملے گا۔ اس سب کے باوجود بجلی کی مد میں گردشی قرضہ 2500 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ گیس کی قیمتوں میں 45 فیصد کا اضافہ بھی کیا گیا ہے کیونکہ گیس کی مد میں بھی گردشی قرضہ لگ بھگ 1500 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے اور یہ سب کچھ پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت معیشت کی بہتری اور سماجی ترقی کے نام پر کر رہی ہے۔
ترقی اور خوشحالی کا شور جس رعونت سے حکمران طبقات کے ان نمائندوں کی جانب سے مچایا جاتا ہے سوال یہ ہے کہ اُس کی قیمت کون ادا کرتا ہے۔ یا کس کو جبراً یہ قیمت اپنے خون پسینے سے چکانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ طبقاتی نظام میں جکڑے سماج میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ہونے والی ترقی کے ثمرات کس طبقے کو پہنچتے ہیں اور کون سا طبقہ اس کی قیمت ادا کرتا ہے‘ اس سارے عمل کو طبقاتی نقطہ نظر سے سمجھنے، پرکھنے، تجزیہ کرنے اور اُس کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر جدوجہد کرنے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینا ہی آج کے انقلابیوں کا کلیدی فریضہ ہے۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھیں تو محنت کش طبقے کو ایک واضح سبق ملتا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی کی ہو یا پی ڈی ایم کی اُن کے لیے ایک ہی رجیم ہے اور وہ ہے ’آئی ایم ایف‘۔ آئی ایم ایف جیسے ادارے دوسری عالمی جنگ کے بعد اُبھرتے ہوئے عالمی تھانے دار کی سربراہی میں اس لیے وجود میں لائے گئے تھے کہ اس کے ذریعے عالمی پیمانے پر سرمایہ دارانہ نظام کی روح کو برقرار رکھا جا سکے اور اس مقصد کے لیے جہاں آئی ایم ایف کمزور معیشتوں کو قرضے فراہم کرتا ہے وہیں ان قرضوں کے ساتھ اصلاحات کے نام پر عوام دشمن شرائط بھی عائد کرتا ہے۔ جس میں ادارہ جاتی اصلاحات کے نام پر بے روزگاری میں اضافہ کیا جانا اور سب سے اہم ریاستی اداروں کی نجکاری جیسے معاشی حملے بھی ان کی کڑی شرائط میں شامل ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ان اصلاحات کی بدولت پہلے ہی سماجی شیرازہ بکھر کر رہ چکا ہے مگر پھر بھی محنت کشوں پر معاشی حملے مسلسل جاری و ساری ہیں۔ اس لیے مسئلہ ایک یا دوسری سیاسی پارٹی کی حکومت نہیں ہے بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا آئی ایم ایف جیسے اداروں کے ذریعے وہ معاشی جبر ہے جس سے نجات حاصل کیے بغیر محنت کش طبقے کی زندگیوں کو سہل بنانا ممکن نہیں ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جہاں آئی ایم ایف کے قرضوں سمیت تمام اندرونی اور بیرونی قرضوں کو ضبط کرنا لازم ہے وہیں معیشت کے کلیدی اداروں کو اشتراکی ملکیت میں لے کر ہی محنت کشوں کی اکثریت کے لیے بنیادی اشیائے ضروریات کی فراہمی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نظر آنے والی تمام سیاسی جماعتوں میں سے کسی کے بھی منشور میں ایسا کرنا شامل نہیں ہے۔ جو ثابت کرتا ہے کہ یہ تمام جماعتیں اس عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام کی کٹھ پتلیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ اس کے لیے محنت کشوں کی قیادت میں منظم کی جانے والی ایک انقلابی پارٹی کی ضرورت ماضی کی نسبت آج شدید تر ہے جو سرمایہ داری کی زنجیریں توڑ کر یہاں ایک سوشلسٹ سویرے کی داغ بیل ڈال سکے۔ جیسا کہ مارکس نے کہا تھا ”ہمارے پاس کھونے کو صرف زنجیریں ہیں اور جیتنے کو سارا جہان پڑا ہے۔“