قمرالزماں خاں

ہم میں سے بہت سے ایک لمبا عرصہ یہی سمجھتے رہے کہ پاکستان کی موجودہ تمام ابتلاؤں کا آغاز 5 جولائی 1977ء سے ہوا تھا اور ابھی تک جاری ہے۔ یہ موقف بہت بڑا سچ ہے مگر مکمل سچ نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ 5 جولائی 1977ء سے شروع ہونے والی ابتلائیں شکلیں بدل بدل کر پاکستانی سماج کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ معیشت، ریاست، سیاست، سماج، ثقافت، مذہب، تعلیم، تجارت غرضیکہ ہر شعبہ زندگی پر 5 جولائی 1977ء کے دن سے شروع ہونے والے بحران کے گہرے اثرات اپنے پورے تعارف کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔

5 جولائی 1977ء کے اثرات کا دائرہ پاکستان کی جغرافیائی حد بندی سے تجاوز کر کے افغانستان، مشرق وسطیٰ اور دوسرے براعظموں کے ممالک تک محیط کر گیا ہے۔ 5 جولائی 1977ء سے پہلے پاکستان میں ایک جمہوری حکومت تھی۔ یہ حکومت پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے بحران ”سقوط ڈھاکہ“ کے بعد تشکیل ہوئی تھی۔ بھارت سے جنگ میں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پاکستانی فوج کے 93 ہزار فوجی بھارت کے پاس بطور جنگی قیدی تھے۔ ملک دو لخت ہو چکا تھا۔ پانچ ہزار مربع میل پر بھارت قبضہ کر چکا تھا۔ شکست کے بعد فوج بد دل ہو کر مورال کھو چکی تھی۔ بچے کھچے پاکستان کے عوام بھی شکست خوردہ تھے۔ انہیں دو طرح سے شکست ہوئی تھی۔ ایک تو ان کے ملک کی طاقت ور کہلانے والی فوج کی شکست نے ان کے دلوں کو زخمی کر دیا تھا۔ یہ دکھ ہتھیار ڈال دینے والے سپاہیوں کو محسوس ہونے والے صدمے سے بھی بڑا تھا۔ دوسری ’یاسیت‘ اس شکست کی تھی جو ان سے جیتی ہوئی بازی چھین کر دی گئی تھی۔ ابھی پچھلے سالوں میں انہوں نے نظام بدلنے کی تحریک کو جیت کر بھی کھو دیاتھا۔ یہ شکست فوجی شکست سے بھی بڑی تھی۔ اگر یہ شکست نہ ہوتی تو نہ فوجی شکست ہوتی اور نہ ہی ملک دولخت ہوتا۔ نہ ہی ہتھیار ڈالنا پڑتے اور نہ ہی بھارت کی جیلوں میں 93 ہزار فوجی ذلت آمیز قید کاٹتے۔ مگر تاریخ میں اگر مگر کی گنجائش نہیں ہوتی۔

پھر اس ملک کے شکستہ ڈھانچے کو جوڑنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو نے وہ سب کیا جو اس پر واجب بھی نہیں تھا۔ بقول بھٹو انہوں نے ایسا کرنے کے لئے تاریخ کی سب سے بڑی سچائی سے انحراف کرتے ہوئے ان دشمن طبقات کے بیچ صلح صفائی اور ”توازن“ پیدا کرنے کی کوشش کی جن کی باہمی لڑائی ان میں سے کسی طبقے کی مکمل بربادی تک جاری رہنی ضروری ہے۔ یہ سنگین غلطی بھٹو کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی۔ مگر پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی یہ پہلی غلطی نہیں تھی۔ اس سے قبل تاریخ میں ”صدیوں کی سزا پانے“ والی غلطی کی جا چکی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی جس کا وجود ہی سرمایہ داری اور سامراجیت کے خاتمے کی تحریک سے عمل میں آیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی بنیادی دستاویزات کے اہداف پر مشتمل پروگرام کے نکات تک پہنچنے کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب تھا۔ ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ سامراجیت کو سرمایہ دارانہ جمہوریت کے راستے سے شکست دی جا سکے۔ ایک غیر طبقاتی سماج کی تشکیل، پہلے سے موجود سرمایہ دارانہ ڈھانچوں پر استوار نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ ناگزیر تھا جو انقلاب کی بجائے، سیدھے سبھاؤ بغیر کسی انقلابی سرکشی کے ہونا ناممکن بات تھی اور ہے۔ جس روائتی دفاعی نظام کی جگہ پر پیپلز پارٹی کا پروگرام ”پیپلز ملیشیا“ کی تشکیل چاہتا تھا۔ انگریز کی قائم کردہ عسکری اسٹیبلشمنٹ اتنی مضبوط اور مربوط تھی کہ بعد ازاں 71ء کی جنگ میں دنیا کی بدترین شکست، ذلت اور حزیمت کے باوجوداسی فوج نے 77ء میں جمہوریت کو ایسے اکھاڑ پھینکا جیسے مکھن سے بال نکال پھینکا جاتا ہے۔ لہٰذا پیپلز پارٹی اور اس کے چیئرمین کی سب سے بڑی غلطی بلکہ جرم ہی یہی تھا کہ انہوں نے 68-69ء کی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانے کی بجائے پھر سے سرمایہ داری سے مفاہمت کر لی تھی۔

’انقلاب‘ کی بجائے ’انتخابات‘ کا راستہ چننا، پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کا ناقابل معافی جرم تھا جس کی سزا نہ جانے کب تک پاکستان کے محنت کش بھگتیں گے۔ 77ء کی فوجی بغاوت اور ”جمہوریت“ کے خاتمے پر خود ذوالفقارعلی بھٹو کا تجزیہ اتنا جاندار اور فیصلہ کن ہے کہ اس سے بہتر کوئی اورتجزیہ ممکن نہیں ہے۔ موجودہ عہد میں امریکی سازش کا واویلا کرنے والوں کا دعویٰ اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ اس کو سن کر ہنسی آتی ہے۔ امریکی سازش اور مداخلت کیا ہوتی ہے پاکستان کی ساری تاریخ اس کی شاہد ہے۔ یہ سازشیں فقط جرم ضعیفی کی سزا ہی نہیں تھیں بلکہ ایک نیم سرمایہ دار یا نیم نوآبادیاتی ملک کے سرمایہ داری نظام کی وفاداری کا منطقی نتیجہ بھی تھیں۔

بھٹو حکومت پاکستان کی اب تک تاریخ کی سب سے مضبوط اور طاقت ور حکومت تھی جس کے بالمقابل ریاست کٹی پھٹی، مجروح، شکست خوردہ اور کمزور ترین تھی۔ مگر امریکہ اور خلیجی ممالک کی سازش سے اس مضبوط ترین حکومت کو اکھاڑا گیا اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کا جوڈیشل مرڈر کر دیا گیا۔ اس سازش اور مداخلت کو بھی خود بھٹونے ”طبقاتی مفاہمت“ کا شاخسانہ قرار دیا۔ یہ اس لئے ممکن ہوئی کہ قبل ازیں 68-69ء کی انقلابی بغاوت کو اس کے سوشلسٹ انجام تک نہ پہنچایا گیا مگر اگلی قائم کردہ بھٹو حکومت نے اس انقلابی تحریک کے دباؤ میں لیفٹ ریفارمز کر کے سرمایہ داروں کو معمولی سی تکلیف پہنچائی تھی۔ ان ادھوری ریفارمز سے سامراجی مالکان اور ان کے مقامی پالتو خوف زدہ ہو گئے تھے۔ اگر سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ کر دیا جاتا اور ایک غیر طبقاتی سماج قائم کر دیا جاتا جس کا وعدہ پیپلز پارٹی کی بنیادی دستاویزات میں کیا گیا تھا تو پھر سرمایہ داروں، ملاؤں اور سامراجی اور ان کے پروردہ جرنیل اس قابل ہی نہ رہتے کہ ملک کے اندر سے کسی سازش یا مداخلت کو پروان چڑھاتے۔ مگر ایسا نہ کرنے پر وہی طاقتیں جو روز اؤل سے جمہوریت تک پر یقین نہیں رکھتی تھیں ان کو پھر سے ملک پر قبضہ کرنے کا موقع مل گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے طلبہ، مزدوروں، کسانوں اور محنت کشوں کی طاقت کے بل بوتے پر عروج حاصل کیا تھا مگر برسراقتدار آتے ہی اس نے پھر شکست خوردہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور ناتواں طاغوتی طاقتوں کو پھر سے زندگی بخشنا شروع کر دی۔ جس سے ان کو پھر سے سنبھلنے کا موقع مل گیا۔ بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد بھٹو کو قتل کیا گیا۔ ملائیت اور سامراج کی مدد سے افغانستان میں ثور انقلاب کا راستہ روکا گیا۔ دنیا بھر میں ملائیت کی وحشت کو استوار کرنے کا ٹریننگ سنٹر پاکستان کو بنا دیا گیا۔ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے ضیاا لحق کی پالیسیاں ہیں۔ مگر یہ جو ناتواں، لاگر اور بیمار ”جمہوریت“ ہے، جو سسک سسک کر چلتی ہے مگر پھر بھی ہر تین چار سال بعد اس کا دھڑن تختہ کر دیا جاتا ہے، اس کے پیچھے ضیا الحق محض ایک تسلسل کے مہرے کے طور پر ہے۔

پاکستان اور اس میں رائج جمہوریت کی 75 سالہ تاریخ اس کی ناکامی کی تاریخ ہے۔ کیا 1970ء کے انتخابات میں بھٹو کو حکومت بنانے کا مینڈیٹ ملا تھا؟ قطعی نہیں۔ یہ مینڈیٹ شیخ مجیب الرحمان کو ملا تھا۔ مجیب الرحمان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے پر اگر فوجی اسٹیبلشمنٹ بضد تھی تو ان کی سب سے بڑی طاقت ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ اگر بھٹو مجیب الرحمان کی حکومت بنانے کی حامی بھر لیتے تو پھر شاید تاریخ یکسر مختلف ہوتی۔ بنگالیوں کو ان کے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے ساتھ اب ان کے جمہوری حق تک سے محروم کر دیا گیا تھا۔ یہ بھی سقوط جمہوریت کا دن تھا جو آگے چل کر سقوط ڈھاکہ کا باعث بنا۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ قبل ازیں 1954ء میں مشرقی پاکستان میں مولانا فضل حق کی حکومت کو تین ماہ بعد گرا دیا گیا تھا۔ جگتو فرنٹ نے 309 میں سے 223 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ مسلم لیگ کے پاس مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں محض 10 سیٹیں تھیں۔ وزیر اعلیٰ بنگال مولوی فضل حق پر غداری کا الزام عائد کر کے ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ اس سے بھی پہلے صوبہ پختون خواہ میں ڈاکٹر خان صاحب کی منتخب حکومت ختم کی گئی تھی۔

پاکستان کے قیام کے دوسرے ہی ہفتے یعنی 22 اگست 1947ء کو صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) کی منتخب حکومت کو برطرف کر دیا گیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا غیر جمہوری قدم کسی اور نے نہیں، خود بانی پاکستان نے اٹھایا تھا جب انہوں نے گورنر جنرل کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) کی منتخب کانگریسی حکومت کو برطرف کر دیا تھا۔ 1945-46ء کے انتخابات میں یہ واحد مسلم صوبہ تھا جہاں سے مسلم لیگ کو شکست ہوئی تھی اور اسے 50 میں سے صرف 17 سیٹیں ملی تھیں۔ 30 سیٹوں کے ساتھ کانگریس سب سے بڑی پارٹی تھی۔ اس قدم سے شاید ان فوجی افسران کو بھی سبق ملا تھا جن سے بات چیت کرنے کے بعد کوئٹہ سٹاف کالج کی تقریب میں محمد علی جناح نے یہ اخذ کیا تھا کہ یہ فوجی افسران آئین، قانون اور حکومت کی حاکمیت پر یقین نہیں رکھتے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی لکھی ہوئی تقریر رکھ کر اپنے خطاب میں فوجی افسران کو آئین میں درج نکات سے آگاہ کیا تھا جس میں انہیں حکومت کی تابعداری کا سبق دینے کی کوشش کی تھی۔ مگر اس تقریر کے بعد 14 جولائی 1948ء کو انہیں بلوچستان کے ایک دور افتادہ اور پسماندہ قصبے زیارت میں بغرض ”آرام“ منتقل کر دیا گیا۔ پھر ان کی وہاں سے واپسی نہ ہوئی۔

1964ء کے بنیادی جمہوریت کے انتخابات میں مس فاطمہ جناح کے ساتھ جو سلوک کیا گیا تھا اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت کس طرز کی ہے؟ کن کے لئے ہے؟ اور کیسے یہ جمہوری نتائج مرتب کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کی جمہوری اور سیاسی تاریخ میں ایک 5 جولائی نہیں ہے، کئی دن اسی قسم کے یا اس سے بھی سنگین نتائج کے حامل ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ ایسے تاریک دنوں سے پاکستان کے حکمرانوں اور سیاسی کارکنان نے کیا سبق اخذ کیا ہے؟ 5 جولائی 1977ء ایک ایسا خونی دن تھا جس کی تاریکی قائم رکھنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹوکو قتل کرنا پڑا۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں موجود بائیں بازو کے نوجوانوں کو انہی ابتلاؤں سے گزارا گیا جن سے اس وقت بلوچستان کے قوم پرست نوجوان گزر رہے ہیں۔ کوڑے، جیلیں اور شاہی قلعے کی سزائیں ایک پہلو ہے مگر ضیا الحق کی سامراجی تابعداری کے لئے ڈالر جہاد اور اسلحے کی بھرمار نے اگلی کئی دھائیوں کو آگ اور خون کی وادی میں تبدیل کر دیا۔ اسی طرح ہیروئن کے ذریعے جہاد کے پیسے حاصل کرنے کی امریکی تربیت نے پاکستان میں کئی نسلوں کو زندہ لاش میں بدل دیا۔ مگر ضیا الحق اور 5 جولائی کا سب سے ہولناک تحفہ موجودہ سیاسی اشرافیہ کی شکل میں ہے۔ یہ ببول کے پودے، جن سے پاکستان کے کروڑوں لوگوں کے جسم، روحیں، معاشی حالات، سماجی زندگی، ثقافتی لطافت ہر روز زخمی ہوتی ہے، کسی قسم کے پھل و سایہ سے محروم ہیں۔ ان کی سیاست کا محور محض اقتدار ہے اور یہ اقتدار انہی کی مدد سے حاصل کرتے ہیں جو انہیں ان کی ”جمہوریت“ کے دوران ہر روز ذلیل کرتے ہیں اور ان کی بلیک میلنگ کسی حال میں نہیں رکتی۔ ان کا جب دل کرتا ہے اس لولی لنگڑی جمہوریت کو فارغ کر دیتے ہیں اور کسی اور من پسند پپٹ کو اقتدار میں لے آتے ہیں۔ موجودہ پی ڈی ایم میں کیسی کیسی ”جمہوری قوتیں“ کیسے کیسے غیر جمہوری اداروں اور ان کے ذمہ داران کے ”جمہوریت دوست“ اور غیر جانبدار ہونے کے گواہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ شرمناک مناظر ہیں۔ یہ شرمناک جمہوریت ہے۔ مگر یہ ان حالات میں ناگزیر ہے۔ اس ذلت سے گزرے بغیر اس نظام میں شریک اقتدار ہونا ممکن نہیں رہا۔ پاکستان میں غیر جمہوری عناصر کی آکسیجن پہلے دن سے ہی سامراجی نظام معیشت و سیاست کے ساتھ منسلک ہے۔ دنیا بھر میں مختلف قسم کی مہمات، انقلابی تحریکوں کو کچلنے کے لئے کمک یہیں سے حاصل کی جاتی رہی ہے۔ پاکستان کو 5 جولائی سے نجات تبھی ملے گی جب یہاں کسی نئے ابھرنے والے 68-69ء کی انقلابی سرکشی کو سوشلسٹ انقلاب کی منزل تک پہنچایا جائے گا۔