قمرالزماں خاں

روہی کا سفید صحرائے عظیم۔ یہاں تقریباً ہر سال دو دفعہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوتی ہے۔ سردیوں میں سائبیریا سے ہزاروں میل کی مسافت کر کے آنے والے لاکھوں پرندے چولستان، راجھستان، صحرائے تھر اور قرب و جوار میں زندگی بچانے آتے ہیں۔ مگربرف باری اور منجمد کر دینے والے موسموں سے بچ کر آنے والے سارے پرندے واپس نہیں جا پاتے۔ درندوں سے بدتر بندوق اور شکرا بردار عربی اور عجمی اپنی بشری کمزوریوں کا مداوا ان پرندوں کی طاقت سے کرنے کے لئے ان کے کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں۔ انسان کی بہیمانہ چالاکی سے ناواقف یہ مہمان پرندے ہر سال ہی میزبانوں اورخلیج سے آئے عربوں کی وحشت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہی سلوک صحرائے چولستان میں خوبصورت رنگ برنگے اور کالی نسل کے ہرنوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ تمام تر پابندیوں کے باوجود ان کی نسل کشی کی جاتی ہے۔ دوسری نقل مکانی تقریباً ہر موسم گرما میں روہی واس گائیوں، بھیڑ بکریوں اور اونٹوں کی ہوتی ہے۔ موسم تپتا ہے توصحرا کے وسط میں موجود کھلے ٹوبوں سے پانی غائب ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جب بارش نہ ہو اور گرمی کی شدت بڑھتی ہی چلی جائے تو مال مویشیوں کا چارہ بننے والی جھاڑیاں سوکھ جاتی ہیں۔ خوراک اور بطورخاص پانی کے بغیر زندگی ممکن ہی نہیں۔ تقریباً ہر سال روہی واسی معمول کی نقل مکانی کرتے ہوئے قریبی شہروں یا بستیوں کا رخ کرتے ہیں۔ مال ڈنگر دیہی نہروں کے ساتھ ساتھ سفر کرتا اورانسان اور مویشی نہ ختم ہونی والی مسافتیں طے کرتے ہیں۔ راستے میں فصلوں، گھاس اور درختوں سے ان مویشیوں کو چارہ مل جاتا ہے۔ اچانک موسم کی حدت بڑھ جانے سے خانہ بدوش خاندانوں کو فوری انخلا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ معمول کی بات ہے۔ مگر پچھلے کئی سالوں سے درجہ حرارت بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ موسموں میں بھی یکسانیت کی بجائے تغیرات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ پچھلے سال مئی کے شروع میں موسم قابل برداشت تھا مگر اس سال مارچ میں ہی گرمی کی حدت بڑھ چکی تھی۔ مئی کے دوسرے ہفتے روہی میں کچھ ٹوبے بالکل سوکھ جانے سے دور دراز علاقوں سے نقل مکانی کرتے ہوئے درجنوں مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔

آگے بڑھنے سے قبل کچھ روہی یا چولستان کا تعارف ہوجائے۔ یہ علاقہ انسانی تہذیب کا قدیم ترین حصہ ہے۔ ماہرین کے مطابق آخری برفانی دور کے خاتمے کے بعد جب نئے سرے سے زندگی متحرک ہوئی تو انسانوں کی وہ نوع جس سے ہمارا تعلق ہے افریقہ سے نکلی اور پھر مختلف خطوں سے ہوتی ہوئی ایشیا کے جن میدانوں میں آئی ان کی وسعت ہمالیہ کے پہاڑوں سے نیچے جنوب اور مغرب کی طرف سمندر تک پھیلی ہوئی تھی۔ زندگی ہمیشہ موافق حالات کے گرد ارتقا پاتی ہے۔یہاں بھی ایسے ہی حالات تھے۔ لاکھوں سالوں پر محیط زندگی کیسی تھی‘ کچھ زیادہ واضح نہیں ہے۔ ابتدائی انسان اپنی بقا کی جنگ کے اس مرحلے میں تھا کہ وہ ابھی تک زبان کی ترویج، تہذیب وتمدن کی طرف پیش رفت،لکھنے اور پڑھنے کی بجائے خوراک اورپانی کے حصول اور دیگر جانداروں،موسموں اور فطرت کے دیگر مظاہر سے بچاؤ یا ان سے موافقت پیدا کرنے کے جتن میں مصروف تھا۔ اسی طرح کے بہت سے ارتقائی عوامل کے باعث انسانی تاریخ کا بہت بڑا حصہ لکھی ہوئی یا ارادتاً محفوظ کی ہوئی یاداشتوں پر مشتمل نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ جب جدید آلات اور سائنسی ذرائع سے چھپے بھید ظاہر ہو جائیں تو قیاس آرائیوں اور کہانیوں پر مبنی بہت بڑی تاریخ کو حذف کرنا پڑے۔ مگر عہد موجود میں انسانی صلاحیت اس قابل ہوچکی ہے کہ پتھروں، تعمیرات، جانداروں کی باقیات (Fossil) اور دیگر حیاتیات کا مفصل جائزہ لے سکیں۔ مٹ جانے والے ادوار، ان کی تاریخ اور ارتقا کا جائزہ لیا جانا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ چونکہ کھنڈرات اور باقیات کی تحقیق مالی وسائل سے مشروط ہے لہٰذا بہت سے پاکستان جیسے نیم نو آبادیاتی ممالک جہاں اس وقت موجود زندگی کو سنبھالنا ہی مشکل ہو چکا ہے وہاں ماضی کی جانچ پڑتال اور تحقیق پر توجہ نہیں دی جاتی۔ اب تک کی تحقیقات یا تو انگریز دور کی ہیں یا پھر محدود پیمانے پہ ایسی عالمی ایجنسیوں کے فنڈز سے کی گئی ہیں جو اپنے اپنے موضوع پر تحقیق کے طلب گار تھے۔

ماہرین کی ابتدائی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ روہی، راجھستان اور تھر کے ریگزار وں میں کئی ہزار سال پہلے (تقریبا چھ ہزار سال پہلے) انسانوں کی ہستی بستی بستیا ں تھیں۔ ہزاروں سال پہلے کھیت کھلیان ہوں گے کیوں کہ روہی کی مدفن آبادیوں سے گندم کی پسائی اور روٹی بنانے کے برتن برآمد ہوئے۔ ایسی 400 بستیوں کے آثار ڈویژن بہاولپور کے تین اضلاع بہاولنگر، بہاولپور اور رحیم یارخان سے ملحقہ علاقوں اور جنوب میں سرحد پار بھارت کے راجھستان تک واضح ہیں۔ ان بستوں کے لوگ موسمی تغیرات کا شکار ہو گئے۔ دریا ہاکڑا سوکھ گیا اور زندگی بھی یہاں ممکن نہ رہی۔ اور پھر آبادی کو یہاں سے انخلا کرنا پڑا۔ وہ اپنا سب کچھ یہیں چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوگئے۔ ان ٹیلوں کے نیچے موجود قصبوں میں سامان زندگی موجود ہے۔ یہ لوگ پختہ گھر بنا کر رہتے تھے۔ ان کے گھروں کی دیواریں دو سے تین فٹ چوڑی بھی پائی گئی ہیں۔ یہ شطرنج طرز کا کھیل بھی کھیلتے تھے۔ شطرنج کے مہروں سے ملتے جلتے مہرے بھی ان باقیات میں موجود ہیں اور کنچوں کی طرز پر پکی ہوئی مٹی کی چھوٹی چھوٹی گولیاں بھی پائی گئی ہیں۔ اینٹیں نہایت پختہ اور سائز میں بڑی۔ آرچ یا ڈاٹ کے لئے مستطیل طرز کی اینٹیں بنائی جاتی تھیں۔ طرز تعمیر اور سامان تعمیر ایسا ہے کہ کسی عمارت کو بنانے کے لئے اینٹ توڑنا نہ پڑتی تھی۔ ہم نے بہت سے مدفن شہر دیکھے ہیں مگر ہمیں یہاں اینٹ کا کوئی ٹکڑا نہیں ملا۔ تمام اینٹیں مکمل اور سالم ہیں۔ یہ لوگ دودھ اور پانی کو ڈھانپ کر رکھتے تھے۔ ان کے جالی دار برتن پانی اور دودھ کو ٹھنڈا رکھنے کا کام بھی دیتے تھے۔ یہ کم از کم چھ ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ تب زندگی موجود تھی اور پھر موسمی تغیر اور پانی کے خاتمے کی وجہ سے یہاں رہنا ممکن نہ رہا۔ ہزاروں سال بعد جب پھر سے یہاں اکا دکا لوگ آباد ہونا شروع ہوئے تو ان کا تب سے اب تک جب چولستان میں انسانی آبادی تقریباً تین لاکھ تک ہوچکی ہے اور تقریباً بیس لاکھ کے قریب مویشی بھی یہیں رہتے ہیں، پانی کے لئے بڑا انحصار بارشوں پر ہوتا ہے۔ روہی میں کل گیارہ سو ٹوبے ہیں۔یہی واٹر مینجمنٹ سسٹم ہے اور انہی ٹوبوں پر زندگی کا انحصار ہے۔ بارشوں سے ٹوبے بھرتے اور انسان اور مویشی ایک ہی جگہ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ مگر جب بارشوں میں تاخیر ہو جائے یا خشک سالی ہو تو پھر زندگی یہاں سے روٹھ جاتی ہے۔ بعض اوقات روہی واسیوں کے نقل مکانی کرتے کرتے سینکڑوں مویشی مر جاتے ہیں۔ ان دنوں بھی یہی صورتحال ہے۔ اس دفعہ چولستان اور قرب وجوار میں 9 ڈگری درجہ حرارت مئی کے اوائل میں ہی بڑھ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے خانہ بدوش قبائل کو بعض جگہ سے ٹوبوں کے مکمل خشک ہونے کے سبب انخلا کرنا پڑا ہے اور اس دوران درجنوں مویشی پانی نہ ملنے کے سبب راستوں میں ہی مر گئے ہیں۔ اس صورتحال کا وقتی طور پر مداوا تب ہوتا ہے جب میڈیا پر خبریں آجائیں۔ ان دنوں چونکہ سوشل میڈیا کی وجہ سے فوری خبر رسانی ممکن ہے اس لئے صدیوں بعد پہلی دفعہ روہی کی پیاس کی خبر آناً فاناً پوری دنیا میں پھیل گئی اور ہر طرح کا ردعمل بھی آنا شروع ہوگیا۔ روہی واسیوں کو دیا جانے والا ریلیف اگر ناکافی نہیں ہے تو یہ مستقل بندوبست بھی نہیں ہے۔ ان دنوں چولستان میں دو طرح کے لوگ بستے ہیں۔ ایک (ماضی قریب کے) قدیمی باشندے، جن میں سے تقریباً سب کی زندگی کا انحصار مویشیوں پر ہے۔ اونٹ، گائے، بھیڑ بکریاں رکھنا، انہی کا دودھ پینا (اور اب وہ بیچنے بھی لگ گئے ہیں) ان کا نظام زندگی ہے۔ یہ چرواہے کروڑوں روپے کے مال مویشی رکھنے کے باوجود بھی زندگی کی بہت معمولی سہولیات کے حامل ہیں۔ دوسری طرز کے لوگ چولستان میں زرعی آبادکار ہیں۔ یہ مقامی شہروں سے بھی ہیں مگر چولستان کے بڑے رقبے پر یا عرب امارات کے شیخوں کا (لیزی) قبضہ ہے یا پھر الاٹ منٹس ہیں۔ زیادہ بڑے پیمانے پر زمینوں کی الاٹ منٹس افواج سے متعلقہ افراد کو کی جاتی ہیں۔ ان زمینوں کی آباد کاری کے لئے کچھ نہریں بھی ہیں۔ بنیادی طور پر بہاول پور ڈویژن سمیت کچھ اور علاقوں کی آبپاشی کا قدرتی انحصار دریائے ستلج اور اس کے آبپاشی نظام سے بنتا تھا۔ دریائے ستلج یہاں کے لوگوں کی ضروریات کو مدنظر رکھے بغیر سندھ طاس معاہدے کی نذر ہوگیا۔ بدقسمتی سے تب اس علاقے کے سیاسی و سماجی عمائدین سمیت زراعت سے متعلقہ احباب نے کوئی موثر آواز بلند کی نہ ہی احتجاج کیا۔ ڈویژن بہاولپور کا آبپاشی سسٹم تب استوار کیا گیا تھا جب دریائے ستلج کا پانی بھی دستیاب ہوتا تھا۔ حتیٰ کہ ہاکڑا کے نام سے بھی پانی کی ترسیل کا ڈویژن موجود ہے۔ مگر یہ سب بہت ناکافی ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے چولستان کی زمینیں اونے پونے یا بالکل مفت الاٹ کی گئی ہیں۔ مگر باوجود نہروں کے اتنی مقدار میں پانی نہیں ہے جو الاٹ شدہ زمینوں کی آبپاشی کے لئے درکار ہے۔ چنانچہ پانی کی چوری ہوتی ہے اور وہ پانی جو دیگر علاقوں کی آبپاشی کے لئے مختص کیا گیا ہے اس کا رخ ان الاٹ شدہ زمینوں کی سیرابی کے لئے ہتھیا لیا جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود پانی کا مسئلہ چولستان یا روہی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ 1980ء کی دہائی میں واپڈا میں سکارپ کا محکمہ قائم کرکے سیم اورتھور کی شکار زمینوں سے ٹیوب ویلوں کے ذریعے پانی نکالا جانے لگا۔ یہ پانی لاکھوں کیوسک کی مقدار میں نکلتا رہا ہے۔ اس پانی کو بھی روہی میں دھکیل دیا گیا۔ یہ کھارا پانی جو ابھی تک زرعی مقاصد کے لئے ناقابل استعمال ہے‘ روہی میں لاکھوں ایکٹر پر متعدد جھیلوں کی شکل میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ جھیلیں پنجاب کے تین اضلاع سے شروع ہوکر سندھ کے گھوٹکی کے ضلع تک پھیلی ہوئی ہیں۔ دنیا میں بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں کھارے پانی کو زرعی مقاصد کے لئے استعمال میں لایا گیااور بڑے بڑے ریگزاروں کو لہلاتے کھیتوں اور نخلستانوں میں بدل دیا گیا ہے۔ اس پانی کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ یہ دو طریقوں سے ممکن بنایا گیا۔ ایک طریقے سے کھارے پانی کو ٹریٹمنٹ کے ذریعے آبپاشی کے قابل بنایا گیا اور دوسرے طریقے میں نباتات اور فصلوں کو کھارے پانی کے مطابق ڈھالا گیا ہے۔ یہ سب زرعی تحقیق کے ذریعے ممکن ہوسکا ہے۔ یہاں بھی ہوسکتا ہے اگر وسائل کا رخ موڑا جائے۔ اس وقت فوری بلکہ جنگی بنیادوں پر ضرورت ہے کہ روہی کی تین لاکھ نفوس کی آبادی کے لئے واٹر سپلائی سسٹم قائم کیا جائے۔ یہ بالکل آسان ہے۔ یزمان سے صادق آباد تک روہی کا تمام علاقہ شہروں اور ایسے قصبوں سے منسلک ہے جہاں یا تو نہری پانی کے وسائل موجود ہیں یا زیر زمین میٹھے پانی کو دریائی علاقے سے یہاں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ روہی میں انسانی واٹر سپلائی سسٹم قائم کیا جاسکتا ہے اور یہ نہ کرنا ناانصافی ہی نہیں بلکہ بہت بڑا ظلم ہے۔ اس علاقے سے منسلک شہروں میں پچاس سے زیادہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھی موجود ہیں اور ان میں سے کئی وزیر بھی بنتے ہیں۔ ان نام نہاد عوامی نمائندگان کا روہی کے مسائل کے سلسلہ میں کردار بدترین ہے۔ یہ چپ ہیں، خوفزدہ ہیں یا پھر خود بھی سفاک ہیں۔ انسانوں کو جانوروں کے قدرتی یا مصنوعی ٹوبوں (کھلے آسمان کے نیچے قائم گدلے پانی کے تالاب) کے رحم و کرم پر چھوڑنا انسانیت کی تذلیل تو ہے ہی مگر حکمران طبقے کی مسلسل سفاکیت کا مظہر بھی ہے۔ چونکہ روہی کے ساتھ ساتھ سینکڑوں میل طویل بھارت پاکستان بارڈر ہے چنانچہ یہاں پر فوجی چوکیاں اور چھوٹی بڑی فوجی چھاؤنیاں بھی جابجا قائم ہیں۔ اسی طر ح یہیں اسی روہی میں پاکستان کی ایک بہت بڑی فوجی چھاؤنی بھی موجود ہے۔ یعنی تمام اسباب اور وسائل کی ترسیل عین ممکن ہے۔ روہی کی زمینوں کی بندر بانٹ ختم ہونی چاہئے۔ روہی کی آباد کاری کا آغاز یہاں پر موجودچرواہوں اور بے زمین ہاریوں میں روہی کی زمین اور آباد کاری کے لئے درکار وسائل کی مفت فراہمی سے کرنا چاہئے۔ روہی کی تمام الاٹ منٹس جو غیر کاشتکاروں کو کی گئی ہیں فوری طور پر منسوخ کی جائیں۔ ایسے الاٹی جو الاٹ منٹ کے بعد زمینیں بیچ کر چل دیئے ہیں ان سے ریکوری کی جائے۔ روہی کی تمام زرعی الاٹ منٹس مقامی بے زمین ہاریوں، مقامی چرواہوں اور ذاتی کاشتکاری سے مشروط کی جائیں ورنہ دوبارہ ریاست تحویل میں لے۔ پانی کے وسائل بڑھانے کے لئے اگراسرائیل،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات طرز کے جدید طرز آبپاشی کو اختیار نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ دریائے گھاگھر یا ہاکڑا کے معدوم ہوجانے کے بعد پھر سے دوبارہ بڑا ماحولیاتی حادثہ یہاں زندگی کو اپنا شکار بنا سکتا ہے۔ صدیوں کی پیاسی روہی کوہزاروں سال پہلے تو ممکن نہیں تھا مگر اب جدید تحقیق، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور ذرائع کے سبب سیراب اور شاداب کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے منصوبہ بندی اور وسائل درکار ہیں۔جس کے لئے ریاست پاکستان کی موجودہ ہیئت، مقاصد اور طرز کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔