پاکستانی سرمایہ داری اس حد تک دیوالیہ ہو چکی ہے کہ عوام کی بنیادی ضروریات پر خرچ ہونے والی برائے نام رقوم کا بوجھ اٹھانے سے بھی قاصر ہے۔
اداریہ
اِک چراغ سرِ راہ گزر…
ایک ایسا چراغ جو آنے والی کئی دہائیوں تک بھی انقلابیوں کی راہ گزر کو روشن کرتا رہے گا…
سرمایہ داری میں سال بدلتے ہیں، محنت کش کے مقدر نہیں!
حکمران طبقات، ان کی ریاست، ان کی سیاست، ان کی دانش اور تحریک میں جنگوں کی طرح سب سے پہلا قتل ”سچائی“ کا ہوتا ہے۔
انقلاب کا سندیسہ
اس بھیانک کیفیت میں 29 نومبر کو ہونے والا طلبہ مارچ اس گھٹن میں بادِ نسیم کے جھونکے کی طرح ابھرا۔
آزادی مارچ؟
یہ ایک سائنسی حقیقت کہ پاکستانی سرمایہ داری جس حد تک گل سڑ چکی ہے اس کے بحران کی شدت سے یہ تضادات پھٹ کر سماج پر ایک قہر نازل کر سکتے ہیں۔
تنزلی کا سفرِ مسلسل!
آج بورژوا دانشوروں کا ہر نظریہ ان کے تاریخی طور پر متروک نظام کوچلانے میں ناکام ہو رہاہے۔
کشمیر کا زخم
فوجی جبر کے ذریعے مسلط کردہ پاکستان کی نیم فسطائی”جمہوری“ حکومت کیلئے یہ وار ایک تحفہ بن کر وارِد ہوا ہے۔
ہوئے برباد اِن آزادیوں سے!
اس شور شرابے اور آتش بازیوں کے نیچے تقریباً ایک چوتھائی نسل ِانسان ذلت اور بربادیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں تڑپ اور سسک رہی ہے۔
زخم سے ناسور تک!
عمران خان ایسی کٹھ پتلی ہے جس نے کاسہ لیسی کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔
بھارت کے شب گزیدہ انتخابات
اگر بی جے پی ہندو مت کے نام پر جارحانہ سرمایہ داری کے تسلط کو جاری رکھنا چاہتی ہے تو یہی کام کانگریس اور دوسری پارٹیاں سیکولر ازم، جمہوریت اور قوم پرستی کے نام سے کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
صیہونی ریاست کے انتخابات
اس انتخابی مہم میں نیتن یاہو کا سب سے سرگرم کارکن خود ڈونلڈ ٹرمپ تھا۔
اعتراف!
قاضی فائز عیسیٰ جیسے نسبتاً سنجیدہ جج نے یہ انتہائی ریڈیکل فیصلہ اس نظام کے خلاف نہیں بلکہ اسے ٹھیک کرنے کے لئے دیا ہے۔
زرد حاکمیت
یہ زرد حاکمیت زہریلی بھی ہے اور بیمار بھی۔
فرانس: جاگتا آتش فشاں!
یہ ایک طرح کی شہری مورچہ بندی کا آغاز ہے جو یورپ بالخصوص فرانس میں ایسی تحریکوں کی خاصیت رہی ہے۔
نظام ٹوٹے گا تو انصاف ملے گا!
وہاں مقدس سمجھے جانے والے اداروں کی اصلیت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ قانون کے اندھے پن اور نام نہاد غیر جانب داری کی دھجیاں بکھر گئی ہیں۔