اداریہ جدوجہد

برصغیر پاک و ہند کے حکمران 14 اور 15 اگست کے دنوں کو آزادی کیساتھ منسوب کرتے ہیں۔ اس موقع پر سرکاری سطح پر خوب جشن منایا جاتا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ انہیں شکر ادا کرنا چاہئے کہ وہ ایک آزادملک اور ریاست کے شہری ہیں۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے بڑے شہروں کی سڑکوں پر مڈل کلاس کے نوجوان جس قسم کی لمپن حرکتیں کرتے پائے جاتے ہیں اس سے ان سما جوں کی ثقافتی و اخلاقی پستی اور پراگندگی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سارے شور شرابے اور ظاہریت پر مبنی مصنوعی جشن کے نیچے ماضی اور حال کے بہت سے تلخ حقائق کو دبانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اس حقیقت کا تذکرہ سرکاری بیانیوں میں نہیں ملتا ہے کہ اگست 1947ء میں اس خطے کے لاکھوں معصوم انسانوں کے خون سے جو ہولی کھیلی گئی اس کا شمار پچھلی صدی کی بدترین خونریزیوں میں ہوتا ہے۔ مذہبی بنیادوں پر ہوئے بٹوارے کے یہ زخم آج تک بھر نہیں سکے۔ بلکہ بیمار سرمایہ دارانہ نظام کے تحت وقت کے ساتھ ایسے ناسور بنتے چلے گئے ہیں جنہوں نے ان سماجوں کو ایک نہ ختم ہونے والی اذیت اور دکھ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اور دنوں ممالک کے حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے دوام کے لئے ان زخموں کو مسلسل کریدنے کی روش اپنائی ہے۔

برصغیر کا بٹوارہ 1946ء کے انقلاب کی ناکامی کا ناگزیر نتیجہ تھا۔ رائل انڈین نیوی کے جہازیوں کی بغاوت سے شروع ہونے والی یہ شورش، جو پورے سامراجی نظام کو چیلنج کر رہی تھی، جنگل کی آگ کی طرح خطے کے طول و عرض میں پھیل گئی تھی۔ اسے طاقت کے ذریعے کچلنا انگریزوں کے بس میں نہیں تھا۔ لیکن انقلابی قیادت کے بحران اور مقامی حکمرانوں کے گھاگ سیاسی نمائندوں کی عیاری و فریب نے اس انقلاب کو زائل کر دیا۔ تاہم برطانوی سامراج کے سامنے یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ یہاں مزید براہِ راست حکمرانی کی کوشش ان کے پورے نظام کی بساط لپیٹ کے رکھ سکتی ہے۔ ایسے میں سامراج کے زیادہ رجعتی، قدامت پرست اور زہریلے دھڑے نے یقینی بنایا کہ جانے سے پہلے برصغیر کے محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی کو توڑنے کے لئے خطے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جائے۔ یہاں کی مقامی سیاسی اشرافیہ نے انگریزوں کی معاونت کا روایتی کردار ادا کیا اور سات ہزار سال پرانی تہذیب کو ایک وحشیانہ انداز میں چیر دینے کے تاریخی جرم میں شراکت اختیار کی۔ اس صدمے سے یہاں کے سماج آج تک باہر نہیں آ سکے۔

سرکاری فکر و دانش جسے آزادی قرار دیتی ہے وہ درحقیقت اقتدار کی گورے حکمرانوں سے بھورے حکمرانوں کو منتقلی تھی۔ یہ مقامی بھوری اشرافیہ انگریز سامراج کے پیوند کردہ حکمران طبقے پر ہی مشتمل تھی۔ اسی لئے یہ بھورے حکمران آج تک معاشی و سیاسی طور پر اپنے گورے آقاؤں کے تابع اور فرمانبردار رہے ہیں۔ ان بحران زدہ ریاستوں میں قومی سالمیت ایک مکروہ فریب ہے اور فریب ہی رہے گی۔ انگریزوں کے چلے جانے کے باوجود ان کا مسلط کردہ استحصالی نظام یہاں بدستور برقرار رہا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ حاکموں کا رنگ یا مذہب بدل جانے سے حاکمیت کا کردار بدلتا ہے نہ محکوموں کی تقدیر۔ لہٰذا آزادی کے بعد اس خطے میں طبقاتی و قومی استحصال نہ صرف جاری رہا بلکہ کئی حوالوں سے شدید تر ہی ہوا۔ لیکن تمام تر جبر و استحصال کے باوجود یہ مقامی حکمران تاریخی طور اتنے تاخیرزدہ تھے کہ یہاں سرمایہ داری کے تاریخی فرائض میں سے کوئی ایک فریضہ بھی ادا نہیں کر سکے۔ نتیجتاً یہ ممالک نہ تو مغربی طرز کے جدید سرمایہ دارانہ معاشروں میں ڈھل سکے‘ نہ یہاں قبل از سرمایہ داری کے سماجی نظام اور طرز پیداوار اپنی اصل شکل میں موجود رہے۔ اس کیفیت میں جنم لینے والے جدیدیت اور قدامت کے ملغوبے نے ان سماجوں کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے مزید الجھا کے کہیں زیادہ پیچیدہ کر دیا ہے۔ پاکستان کا تو جنم ہی ایک مذہبی ریاست کے طور پر ہوا تھا لیکن آج کا ہندوستان سرکاری طور پر ایک سیکولر ریاست ہوتے ہوئے ہندوتوا کی فسطائیت کے نرغے میں ہے۔ دونوں ممالک میں نیم آمرانہ حکومتیں برسراقتدار ہیں۔ سماجی و مادی انفراسٹرکچر زبوں حالی کا شکار ہے۔ دنیا کی آدھی غربت اس خطے میں پلتی ہے۔ وسیع پیمانے کی غذائی قلت، لاعلاجی، ناخواندگی اور بے گھری موجود ہے۔ سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات میں یہاں کئی زندگیاں لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ کرپشن سماجی زندگی کا ناگزیر حصہ بن چکی ہے۔ مذہبی جنونی بے لگام ہیں۔ رویے تلخ اور ترش ہیں۔ بچوں اور عورتوں کے ریپ اور قتل جیسے اندوہناک جرائم نے عوام کو ایک صدمے میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان ملکوں کا شمار بجا طور پر دنیا کے پرانتشار ترین معاشروں میں کیا جا سکتا ہے جہاں غیر یقینی کیفیات اور مسلسل عدم استحکام ایک معمول بن چکے ہیں۔ یہ اس نظام کے تحت ملنے والی آزادی کی ساڑھے سات دہائیوں کا جمع حاصل ہے۔

آج اس خطے کے ممالک کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے جتنے بڑے پیمانے پر وسائل کی ضرورت ہے وہ اس بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام میں میسر نہیں آ سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں غربت، بھوک، بیماری اور بیروزگاری سے آزادی اس نظام کے تحت ممکن نہیں ہے۔ اور جب تک یہ سماج قلت اور مانگ میں سلگتے رہیں گے‘ اس نظام کو قائم رکھنے کے لئے جبر اور دہشت کی ضرورت موجود رہے گی۔ ایسے میں کسی صحت مند پارلیمانی جمہوریت کی استواری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ طبقاتی غلامی کی موجودگی میں ہر آزادی جھوٹی ہے۔ غریبوں کے خون سے کھینچی گئی سامراجی لکیروں کو مٹانے اور انسانیت کو معاشی، سیاسی و سماجی آزادی دلوانے کے لئے اس خطے کے محنت کشوں کو ابھی فیصلہ کن طبقاتی لڑائی لڑنی ہے۔