اداریہ جدوجہد
سوویت یونین کے انہدام کے وقت سرمایہ داری کے رکھوالے یہ باور کرواتے نہیں تھکتے تھے کہ سرد جنگ کا خاتمہ نہ صرف ترقی اور خوشحالی بلکہ دوررس امن کا ضامن بھی بنے گا۔ جنگیں قصہ ماضی ہو جائیں گی، دفاعی اخراجات بتدریج کم ہوتے جائیں گے اور سرد جنگ کا فاتح لبرل آرڈر سابقہ سوویت بلاک کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں جمہوریت اور استحکام کے نئے دور کا آغاز کرے گا۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ دنیا کے بیشتر حصوں میں مسلح تصادموں، سامراجی جارحیتیوں، پراکسی جنگوں، بنیادی پرستانہ وحشت و دہشت گردی، معاشی تنگدستی اور جمہوری حقوق کی صلبی کا نیا سلسلہ ہی نظر آتا ہے۔ بالخصوص سرمایہ داری کی بحالی بیشتر سابقہ سٹالنسٹ ریاستوں میں وہ جمہوریت اور خوشحالی لانے سے قاصر رہی ہے جس کا خواب وہاں کے لوگوں کو دکھایا گیا تھا۔ ان میں سے ایک کے بعد دوسرا ملک (بشمول روس) شخصی یا خاندانی آمریتوں اور وسیع پیمانے پہ پھیلی کرپشن و بدحالی کی نئی شکلوں کی جکڑ میں ہی نظر آتا ہے۔ گزشتہ تقریباً ایک دہائی کے دوران یوکرائن کا بھڑکتا تنازعہ اور حالیہ دنوں اس پر روس کی یلغار اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ سوویت دور کا یہ خوشحال، ترقی یافتہ اور صنعتی ملک مغربی اور روسی سامراج کی کھینچا تانی اور چپقلش کا اکھاڑہ بن چکا ہے اور بڑی بربادی کے دہانے پہ کھڑا ہے۔ جنگ میں پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے۔ بالخصوص روسی حملے کے بعد دنیا بھر کے مارکسی اور ترقی پسند حلقوں میں شدید نظریاتی تذبذب کی کیفیت نظر آتی ہے جس میں جنگ کی ساری ذمہ داری کھلے یا ڈھکے چھپے لفظوں میں دونوں سامراجی طاقتوں میں سے کسی ایک پہ ڈالنے کا رجحان حاوی ہے۔ یہ بنیادی طور پر ”کمتر برائی“ اور دو سامراجی کیمپوں میں سے کسی ایک کی درپردہ حمایت کا پرانا، رجعتی، ردِ انقلابی اور عوام دشمن نظریہ ہی ہے۔ دوسری طرف مغربی سامراج کے پروردہ لبرل حلقے ہیں جو کھل کر نیٹو کی حمایت کر رہے ہیں۔ عراق، شام، لیبیا، یمن، فلسطین اور افغانستان سمیت دنیا بھر میں امریکی سامراج اور اس کے دم چھلہ نیٹو اور نان نیٹو ممالک کی قتل و غارت گری تو ان کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے لیکن یوکرائن پہ روسی حملے کے بعد انسانی ہمدردی کے جذبات انہیں بہت بے چین کیے ہوئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ یوکرائن پہ روسی حملے میں مغربی سامراج کی اشتعال انگیزی کا بنیادی کردار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نیٹو کیساتھ روس کے تضاد کی نوعیت کیا ہے؟ کیا یہ تصادم کسی طبقاتی تضاد پر مبنی ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ولادیمیر لینن کا نہیں ولادیمیر پیوٹن کا روس ہے۔ جو سوویت یونین کے انہدام کے بعد کی تمام تر زوال پذیری اور کمزوری کے باوجود ایک ذیلی یا علاقائی سامراجی طاقت ہے اور دنیا (بالخصوص مشرقی یورپ اور وسط ایشیا) میں اپنا ایک حلقہ اثر رکھتا ہے۔ یہ حلقہ اثر یقینا مزدور یکجہتی اور انسانی خیرسگالی کے جذبات اور محرکات پہ مبنی نہیں ہے بلکہ روس کی جرائم پیشہ، کرپٹ، نودولتی اور مافیا بورژوازی کے اپنے سامراجی مفادات ہیں۔ روس کے اس حلقہ اثر میں نیٹو کی مسلسل مداخلت اور چھیڑ خوانی ہی اس کی یوکرائن پر جارحیت پہ منتج ہوئی ہے۔ یہ بات مدنظر رہنی چاہئے کہ ’نیٹو‘ کوئی دفاعی معاہدہ نہیں ہے جس میں یوکرائن کی مغرب نواز حکومت شمولیت اختیار کرنے جا رہی تھی۔ بلکہ یہ عالمی ڈکیتوں، قاتلوں اور غارت گروں کا کلب ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں جارحیت، تباہی اور بربادی کے ذریعے اپنے سامراجی غلبے کو استوار رکھنا ہے۔ اس ساری صورتحال کی تخلیق میں یوکرائن کے مسخرے صدر، جسے مغربی میڈیا اس وقت ایک ہیرو اور فریڈم فائٹر بنا کے پیش کر رہا ہے اور جو دراصل ایک ہٹ دھرم اور احمق انسان ہے، کا بھی بنیادی کردار ہے۔ پچھلے عرصے میں اس یوکرائنی حکومت نے انتہائی دائیں بازو کے فسطائی قوم پرست گروہوں کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ لیکن محنت کش طبقہ کسی ایسی جنگ کی حمایت نہیں کر سکتا جو سامراجی طاقتوں کی آپسی چپقلش اور مخاصمت پر مبنی ہو۔ چاہے وہ جنگ ایک بڑی سامراجی طاقت کے خلاف ایک چھوٹی سامراجی طاقت کی ”دفاعی جارحیت“ پر ہی مبنی کیوں نہ ہو۔ سرمایہ داری کی ایسی جنگوں میں غریب غریب کا خون بہاتا ہے، مزدور مزدور سے لڑتا ہے، محکوم محکوم کا گلا کاٹتا ہے۔ فتحیاب کوئی بھی ہو‘ یہ جنگیں سامراجی تسلط کو مضبوط ہی کرتی ہیں۔ پہلی اور بنیادی اشتعال انگیزی کا مظاہرہ یقینا مغربی سامراج کی طرف سے کیا گیا۔ لیکن پھر اس سے کسی طور بھی یوکرائن پر روسی حملے کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔ کسی بھی صورت میں روسی جارحیت کا نہ دفاع کیا جا سکتا ہے‘ نہ اس کی حمایت کی جا سکتی ہے۔ یہ حملہ جسے ”فاشزم مخالفت“ کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے روس اور یوکرائن میں فسطائی رجحانات کو تقویت ہی دے گا۔ پیوٹن اس وقت بڑا بدمعاش دِکھنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ جنگ غیر متوقع عسکری اور معاشی شکلیں اختیار کر کے اس کے گلے بھی پڑ سکتی ہے۔ مغربی سامراجی اپنے نظام کی تمام تر زوال پذیری کے باوجود بڑے اور پرانے پاپی ہیں۔ وقت کیساتھ روس پہ مغربی پابندیاں ناقابل برداشت ہو کے ایک بڑے داخلی بحران کا موجب بن سکتی ہیں۔ اسی طرح یوکرائن میں شہری گوریلا جنگ چھڑ جانے کی صورت میں صورتحال کئی گنا پیچیدہ ہو جائے گی۔ اس صورت میں یوکرائن کا حال شام جیسا بھی ہو سکتا ہے۔ فی الوقت روس اور نیٹو میں سے کوئی بھی ایک بالواسطہ لڑائی کو براہِ راست تصادم میں بدلنا نہیں چاہتا ہے (بصورت دیگر پوری دنیا ایک خوفناک ایٹمی جنگ سے دو چار بھی ہو سکتی ہے)۔ لیکن یوکرائن تک محدود رہنے کے باوجود بھی سامراجوں کی اس لڑائی میں محنت کشوں کے لئے ذلت اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لیکن ان حالات میں امن پسندانہ لاتعلقی کی بجائے جنگ مخالف طبقاتی و انقلابی پروگرام رکھنا اور اس کے گرد عالمگیر تحریک کو منظم کرنا انقلابیوں کا بنیادی فریضہ بن جاتا ہے۔ اس کے لئے تمام ملوث ممالک بشمول روس اور یوکرائن کے محنت کشوں کو نہ صرف فوری روسی حملے کے خلاف مہم چلانا ہو گی بلکہ اپنی اپنی ریاستوں کے خلاف طبقاتی جنگ کا اعلان کرنا ہو گا۔ اگر وہ اس پوزیشن میں نہیں ہیں تو بھی اپنی حکومتوں پر ہر ممکنہ دباؤ ڈالنا ہو گا کہ وہ مزید اشتعال انگیزی اور جارحیت سے باز رہیں۔ واحد جنگ جس کا حصہ محنت کشوں کو بننا چاہئے اور جو ان کی نجات کا باعث بن سکتی ہے وہ سرمایہ داری کے خلاف طبقاتی جنگ ہے۔ ساحرؔ کے بقول:
جنگ سرمائے کے تسلط سے
امن جمہور کی خوشی کے لئے
جنگ جنگوں کے فلسفے کیخلاف
امن پرامن زندگی کے لئے