اداریہ جدوجہد

کورونا وائرس کی وبا کو دسمبر 2019ء میں چین سے پھوٹے تقریباً چھ ماہ ہو چکے ہیں۔ اس دوران یہ وبا 188 ممالک میں پھیل چکی ہے اور عالمی سطح پر اب تک 47 لاکھ سے زائد کیس اور تین لاکھ سے زائد اموات رپورٹ ہو چکی ہیں۔ کورونا وائرس سے انفیکٹ ہونے والے افراد کی حقیقی تعداد رپورٹ ہونے والے کیسوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ تازہ تحقیقات کی روشنی میں واضح ہوتا ہے اس وائرس سے اموات کی شرح ان اندازوں سے کافی کم ہے جو وبا کی شروعات میں لگائے گئے تھے۔ اسی طرح وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار بھی پہلے کے اندازوں سے کم ہے۔ بہرحال معاشی اور سماجی طور پہ اس وبا سے متاثر ہونے والے انسانوں کی تعداد اربوں میں ہے۔ پچھلے کئی ماہ کے دوران کرہ ارض پر انسانوں کی اکثریت کے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور دنیا کو ایک غیر معمولی کیفیت کا سامنا رہا ہے۔ قدرتی آفات یا وباؤں وغیرہ سے پیدا ہونے والے ایسے ہنگامی حالات کسی بھی سماجی نظام کا امتحان لیتے ہیں۔ اور سرمایہ داری اپنے اس تازہ امتحان میں بھی بری طرح سے ناکام ہی ہوئی ہے۔ اس وبا کے دوران دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں بھی حکومتوں کا طرزِ عمل بہت متذبذب اور بعض صورتوں میں انتہائی بھونڈا رہا ہے۔ جس کا اندازہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے دنیا کی ترقی یافتہ ترین ریاست کے سربراہ کے بیانات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ یورپ اور امریکہ جیسے خطوں میں بھی طبی عملے کے لئے حفاظتی سامان کی قلت کئی ماہ تک برقرار رہی اور دنیا کے بیشتر ممالک میں ابھی تک یہ صورتحال موجود ہے۔ طبی شعبے سے منسلک محنت کش بشمول ڈاکٹر و نرسز کم و بیش ہر ملک میں حفاظتی سامان کی فراہمی کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔ جبکہ کورونا وبا کی وجہ سے کچھ وقت کے لئے تھم جانے والی بغاوتیں اب پھر سے مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف احتجاجوں کی شکل میں اپنا اظہار کر رہی ہیں۔ جیسا کہ لبنان کی موجودہ صورتحال سے پتا چلتا ہے۔ اسی طرح پسماندہ ممالک میں ہونے والے لاک ڈاؤن سے لاکھوں محنت کش خاندان بھوک اور بدحالی کا شکار ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں لاکھوں کی تعداد میں محنت کش بڑے شہروں سے اپنے آبائی علاقوں میں جانے کے لئے عورتوں اور بچوں کیساتھ شدید گرمی میں سینکڑوں ہزاروں کلومیٹر کا سفر بھوکے پیاسے طے کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر اجرت پانے والے محنت کشوں، جنہیں بیوی بچوں سمیت شمار کریں تو کروڑوں انسان بنتے ہیں، کو شدید تنگی اور افلاس کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت اداروں سے محنت کشوں کو نکالنے کا عمل تیز ہوا ہے اور تنخواہیں یا تو ادا ہی نہیں کی گئیں یا ان میں کٹوتیاں کی جاتی رہی ہیں۔ لیکن اس دوران بھی سرکاری خزانے کی تجوریاں سرمایہ داروں کے لئے کھلی رہی ہیں جنہیں کھربوں روپے کے بیل آؤٹ پیکیج دئیے گئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں آبادی کے غریب حصوں کو دی جانے والی امدادی رقوم غربت کا مذاق ہی اڑا رہی تھیں۔ پھر قرنطینہ سینٹروں کے قیام سے لے کے سرکاری اور غیر سرکاری خیرات کی تقسیم تک غریبوں کی عزت نفس کو جس طرح مجروح کیا گیا اور بدعنوانیوں کا جو بازار گرم ہوا ہے اس سے حکمران طبقات کے کالے کرتوتوں کا نیا باب ہی رقم ہوا ہے۔ اب جبکہ پاکستان سمیت کئی ممالک میں لاک ڈاؤن میں نرمی کی جا رہی ہے اور معمولات زندگی ”بحال“ ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ حکمرانوں کے دلوں میں محنت کشوں کا احساس اور درد نہیں بلکہ سرمایہ داروں کی منافع خوری میں پڑنے والا رخنہ ہے جس کی وجہ سے پہلے سے بحران کے شکار اس پورے نظام کے ہی دھڑام ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔ پاکستان میں ایسا اس وقت کیا جا رہا ہے جب وبا کے پھیلاؤ کا گراف تیزی سے اوپر کی طرف جا رہا ہے۔ یوں کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو ایک بار پھر خطرے میں ڈالا جا رہا ہے جس کے بھیانک اثرات بے شمار اموات کی صورت میں آنے والے دنوں میں مرتب ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایک دیوالیہ معیشت پر کھڑی ریاست کے پالیسی سازوں سے کسی بہتری کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی ہے۔ ان حالات میں ایک بار پھر واضح ہوا ہے کہ نجی ملکیت اور منافع سے پاک سوشلسٹ معیشت ہی انسانیت کو وہ منصوبہ بندی، وسائل اور گنجائش فراہم کر سکتی ہے جن کی بنیاد پر نہ صرف ایسی ناگہانی آفات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ ان کی پیشگی روک تھام بھی ممکن ہو سکتی ہے۔

بین ا لاقوامی سطح پر بھی کورونا وائرس کی وبا نے پہلے سے بحران کے دہانے پر کھڑی عالمی معیشت کو شدید خساروں سے دوچار کر دیا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی معیشت کو 8.8 ہزار ارب ڈالر تک کا نقصان برداشت کرنا پڑ سکتا ہے جو عالمی جی ڈی پی کا 9.7 فیصد بنتا ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک کا پہلے سے جاری معاشی بحران آنے والے دنوں میں شدید تر ہو جائے گا۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے مطابق ملک کا مالیاتی خسارہ 7.6 فیصد سے بڑھ کے 9 فیصد ہو جائے گا۔ جبکہ جاری مالی سال کے دوران ملکی معیشت 1.5 فیصد سے 2.9 فیصد تک سکڑاؤ کا شکار ہو سکتی ہے جس سے پندرہ لاکھ نوکریوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ پچھلے ایک سال کے دوران حکومتی قرضے اور واجبات21.9 فیصد اضافے کیساتھ 42 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں جو جی ڈی پی کے تقریباً ایک سو فیصد کے مساوی بنتے ہیں۔ ابھی حکومت نے جولائی کے آخر تک 3 ہزار ارب روپے کا مزید قرض لینے کا منصوبہ جاری کیا ہے۔ ان ریکارڈ خساروں اور قرضوں کا سارا بوجھ پھر محنت کش طبقے پر ڈالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں مزید 171 ارب روپے کی کمی کی جا رہی ہے۔ اسی طرح اطلاعات ہیں کہ وفاقی حکومت آئندہ دو سالوں کے دوران ہر قسم کی بھرتیوں پر پابندی عائد کرنے پر غور کر رہی ہے۔ اپنی نااہلی اور ناکامی کی پردہ پوشی کے لئے حکمران ایک بار پھر صوبائی و قومی تعصبات کو ہوا دینے پہ اتر آئے ہیں۔ بیشتر محکمے صوبائی حکومتوں کی تحویل میں دینے والی اٹھارویں آئینی ترمیم کے خاتمے، نئے ڈیم بنانے کے متنازعہ اعلانات (جو قومی محرومیوں کے زخموں کو کریدنے کے مترادف ہیں) اور صوبوں اور وفاق کے درمیان وسائل کی تقسیم کرنے والے این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی کی باتوں کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی سرمایہ داری اس حد تک دیوالیہ ہو چکی ہے کہ عوام کی بنیادی ضروریات پر خرچ ہونے والی برائے نام رقوم کا بوجھ اٹھانے سے بھی قاصر ہے۔ اس حوالے سے مقتدر حلقوں کے قریب سمجھے جانے والے حکومتی عہدیدار کھل کے کہہ رہے ہیں کہ صوبوں کو دفاعی اخراجات اور قرضے کی ادائیگی میں حصہ ڈالنا ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں صحت، تعلیم اور ترقیاتی امور کا بجٹ مزید کم کرنا ہو گا۔ عوام پہلے ہی تعلیم اور علاج کی مہنگائی سے کراہ رہے ہیں اور ملک کا انفراسٹرکچر بدترین زبوں حالی کا شکار ہے۔ ایسے میں ان بنیادی ترین ضروریات زندگی کے بجٹ میں مزید کمی عام لوگوں کی زندگیوں کو مزید اذیتوں اور محرومیوں میں مبتلا کر دے گی۔ لیکن نظام کے بحران نے ان حکمرانوں کو اس قدر رجعتی اور بے حس بنا دیا ہے کہ انہیں لاکھوں کروڑوں انسانوں کی مسائل میں سلگتی زندگیوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ تاہم نیم مارشل لا پر مبنی یہ حکومتی سیٹ اپ جس قدر جابر ہے اسی قدر نا اہل، غیر مستحکم اور کھوکھلا بھی ہے۔ عمران خان کی ساری سیاست ’احتساب‘کی کھوکھلی لفاظی اور مخالفین پر نیب کی مقدمے بازیوں کے گرد گھوم رہی ہے۔لیکن یہ نمائشی ہتھکنڈے بھی وقت کیساتھ معمول بن کر اپنی افادیت کھوتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف اس کی سیاسی معاشیات بھیک اور خیرات پر مبنی ہے جس سے اس کی اپنی روحانی غربت اور نظریاتی دیوالیہ پن کا پتا چلتا ہے۔ کرپشن کے بے ہنگم شور و غل میں بھی نیچے سے اوپر تک اور حکومت سے اپوزیشن تک بدترین کرپشن جاری ہے۔ لیکن یہ نام نہاد اپوزیشن، جو آج کل بہت مظلوم بنی ہوئی ہے، اس سارے کھلواڑ کا ناگزیر حصہ بھی ہے جس میں حکمرانوں کے آپسی تضادات کو عوام پر مسلط رکھا جاتا ہے اور حقیقی مسائل کو لایعنی بحثوں میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ محنت کش طبقہ اس سیاسی و ریاستی اشرافیہ کے کسی دھڑے سے بہتری کی امید نہیں رکھ سکتا۔ یہ تاریخی طور پہ بیمار اور لاعلاج نظام جس نہج تک پہنچ چکا ہے وہاں محنت کشوں کے لئے ہر آنے والا دن پہلے سے بدتر اور تلخ تر ہی ہو گا۔ انہیں اپنی نجات کی لڑائی خود ہی لڑنا ہو گی اور سرمایہ داری کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک کر انسانیت کو اس مسلسل اذیت سے نجات دلانا ہو گی۔