اداریہ جدوجہد

سال کے ان دنوں بجٹ کا بہت چرچا ہوتا ہے۔ میڈیا پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ معیشت اس بجٹ کے مطابق ہی چلتی ہے جس کے لئے قومی اسمبلی سے منظوری لینا لازم ہے۔ اس حوالے سے اپوزیشن بھی ایک بھونڈا اور منافقانہ قسم کا شور مچا کے تاثر دیتی ہے کہ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف بہت ’مزاحمت‘ کی جا رہی ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو اس بحران زدہ نظام میں نہ تو معیشت حکمرانوں کی منصوبہ بندی کے تابع ہے‘ نہ انہیں اپنے اقدامات کے لئے نام نہاد منتخب ایوانوں سے اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے ادوارِ حکومت میں ان اپوزیشن پارٹیوں کی پالیسیاں کچھ مختلف ہوتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بجٹوں کی اساس سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحفظ پر ہی مبنی ہوتی ہے۔ منڈی کے نظام میں سرکاری بجٹ معیشت کی عمومی سمت کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک مخصوص وقت میں معیشت کی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دئیے جاتے ہیں۔ لیکن بالخصوص پاکستان جیسی بحران زدہ معیشتوں میں نتائج اکثر و بیشتر حکومتی اہداف سے بہت مختلف ثابت ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں موجود وسیع کالی یا غیر دستاویزی معیشت حکومتی منصوبہ بندی اور عملداری کو اور بھی محدود کر دیتی ہے۔ مثلاً گزشتہ مالی سال کے دوران معیشت کی تقریباً 4 فیصد شرح نمو کو ہی دیکھیں تو یہ عالمی اداروں اور حکومت کے دو ڈھائی فیصد کے اندازوں سے کافی زیادہ رہی ہے۔ اس حوالے سے خوب شادیانے بجائے جا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی کڑوی گولیاں کارگر ثابت ہوئی ہیں اورملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو گیا ہے۔ حقیقت اس سے کافی مختلف اور پیچیدہ ہے۔ کاروبار اور معاشیات میں اس مظہر کو ”Low Base Effect“ کہا جاتا ہے۔ جس کا سادہ سی زبان میں مطلب ہوتا ہے کہ بڑی گراوٹ کے بعد معمولی سی بہتری بھی کافی نظر آتی ہے۔ تاہم اگر ملکی آبادی میں اضافے کی شرح کو مدنظر رکھا جائے تو موجودہ حکومت کے پہلے تین سالوں کے دوران معیشت کی حقیقی شرح نمو مجموعی طور پر منفی 1.2 فیصد رہی ہے۔ یعنی معیشت ہر سال اوسطاً 0.4 فیصد سکڑتی گئی ہے۔ لیکن اس ساری تنزلی کو اب ایک سطحی اشاریے (جس میں ہیر پھیر کا امکان بھی ہمیشہ موجود رہتا ہے) کی مدد سے ترقی بنا کے پیش کیا جا رہا ہے۔

معاشیات ایک نسبتاً پیچیدہ اور مشکل علم ہے۔ تاہم سرمایہ داری میں اسے دانستہ طور پر مزید گنجلک کر دیا جاتا ہے تاکہ طبقاتی استحصال اور لوٹ مار کی واردات مشکل معاشی اصطلاحات میں کہیں گم ہو جائے۔ لیکن عام لوگ اتنے بھی بھولے نہیں ہوتے جتنا یہ حکمران انہیں سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے حالاتِ زندگی سے حالات کی سمت اور کیفیت کا بالکل درست اندازہ لگا رہے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے عالمی ادارے ’اپسوس‘ کا ایک حالیہ سروے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس کے مطابق 90 فیصد سے زائد پاکستانی شہری اگرچہ بنیادی معاشی اصطلاحات (جی ڈی پی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، مالیاتی خسارہ وغیرہ) سے ناواقف ہیں لیکن مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کو اپنے سب سے بڑے مسائل سمجھتے ہیں۔ مزید برآں ہر پانچ میں سے چار لوگوں کا خیال تھا کہ ملک غلط سمت میں جا رہا ہے اور صرف 14 فیصد کا خیال تھا کہ ان کی نوکری مستحکم ہے۔ یوں یہ حکمران بالکل غلط سمجھتے ہیں کہ شعبدے بازیوں اور طفل تسلیوں سے سماجی بے چینی اور عدم اطمینان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

اس نظام کے تحت ملک کی اکثریتی آبادی انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے۔ بجٹ سے پہلے پیش کیے جانے والے قومی معاشی سروے کے مطابق پاکستان میں چھوٹے بچوں کی شرح اموات افغانستان سے بھی زیادہ ہے اور صحت پر حکومتی اخراجات جی ڈی پی کے صرف 1.2 فیصد کے مساوی ہیں۔ کم و بیش یہی حالات تعلیم کے شعبے کے ہیں۔ بنیادی انفراسٹرکچر کی خستہ حالی کی کیفیت حالیہ لوڈ شیڈنگ نے ایک بار پھر عیاں کر دی ہے۔ جبکہ ریاستی پالیسیاں تمام تر وسائل کا رُخ مسلسل حکمران طبقے کی طرف موڑتی جاتی ہیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران حکومت نے سرمایہ داروں کو 14 فیصد اضافے کے ساتھ 13 سو ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چھوٹ دی ہے۔ اب سٹاک مارکیٹ کے منافعوں پر ٹیکسوں کی شرح کو بھی کم کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کی مد میں 3 ہزار ارب روپے سے زائد سالانہ خرچ کیے جا رہے ہیں۔ دفاعی اخراجات کو شامل کریں تو دوتہائی سے زائد بجٹ انہی دو مدوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ خساروں کا تمام تر بوجھ مہنگائی کے ذریعے محنت کش عوام پر ڈال دیا جاتا ہے‘ جس میں آنے والے مالی سال کے دوران بھی کمی کے امکانات نہیں ہیں۔ وزیر خزانہ کے مطابق ”اگر پٹرولیم کی قیمتیں مستحکم رہتی ہیں“ تو مہنگائی 10 فیصد تک رہے گی۔ معاشی شرح نمو کو اوپر لے جانے کی حکومتی کوششیں اس میں اضافہ ہی کریں گی۔ اسی طرح بجلی کی قیمتیں بڑھانے کے لئے آئی ایم ایف کا شدید دباؤ ہے جس کے سامنے انہیں جلد یا بدیر سر تسلیم خم کرنا ہی پڑے گا۔ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں اجرتوں میں برائے نام اضافے کو دیکھا جائے تو محنت کش طبقے کی حقیقی کھپت اجرت کم ہی ہوئی ہے۔ جس سے غربت مزید بڑھی ہے۔

پاکستان جیسے معاشروں کے بارے میں مارکسی اساتذہ نے دہائیاں قبل جو تناظر پیش کیا تھا حالات اسے بالکل درست ثابت کرتے ہیں۔ 1978ء میں کامریڈ ٹیڈ گرانٹ نے لکھا تھا، ”سرمایہ دارانہ بنیادوں پر تیسری دنیا کے ممالک کی پیداواری قوتوں میں مستقل اور مسلسل اضافے کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔ پیداوار جمود کا شکار ہو جاتی ہے یا گر جاتی ہے۔ عالمی بحرانوں کے دوران معیارِ زندگی تنزلی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر اس کا کوئی حل ممکن نہیں ہے۔ اسی سے پاکستان جیسے ممالک میں جابرانہ بورژوا بوناپارٹسٹ حکومتوں کی وضاحت ممکن ہے۔ لیکن سنگینیں اور گولیاں بھی اس بحران کو انتہائی عارضی اور وقتی طور پر ہی ٹال سکتی ہیں…“

جب تک یہ نظام ہے بحران رہے گا۔ یہی بحران ہر قسم کے جبر کی ضرورت کو جنم دیتا ہے۔ یوں جبر و استحصال سے نجات اس نظام کے انقلابی خاتمے کا تقاضا کرتی ہے۔