اداریہ جدوجہد
کچھ واقعات انسانیت کی تاریخ پہ ایسے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں جو مٹائے نہیں مٹتے۔ نومبر 1917ء کا بالشویک انقلاب 104 سال گزر جانے کے باوجود آج بھی ان واقعات میں سرِ فہرست ہے۔ اپنے وقت کے ایک پسماندہ ترین ملک میں برپا ہونے والا یہ انقلاب، جو بنیادی طور پر کئی ذیلی واقعات کا تسلسل تھا، دنیا پر اس گہرے انداز سے اثر انداز ہوا کہ انسانی سماج کی تاریخ اب ہمیشہ اس سے پہلے اور اس کے بعد کے زمروں میں تقسیم کی جائے گی۔ انقلابات روز روز برپا نہیں ہوتے۔ یہ تاریخ کی انتہائی استثنائی صورت ہوتے ہیں۔ لیکن ایک بار جب وہ پھٹ پڑیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اپنے تاریخی مقاصد حاصل کر نے میں کامیاب ہو جائیں تو صرف نظام نہیں بدلتے بلکہ ان نظاموں سے جڑی سوچیں، رویے، رشتے، اقدار، ثقافتیں اور جغرافیے تک بدل ڈالتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ابھرے ہوئے محکوم طبقات زمانے بدل ڈالتے ہیں۔ دہائیوں اور صدیوں سے بظاہر ایک جگہ رکے ہوئے معاشرے تاریخی طور پر حرکت پذیر ہوتے ہیں۔ اس حرکت کے دوران وہ پرانی سماجی تنظیم کی ساری بیڑیاں توڑ ڈالتے ہیں۔ متروک نظاموں کا سارا نظم و نسق بکھر جاتا ہے۔ پورے کے پورے سماج نئی بنیادوں پر از سرِ نو منظم ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی دیوہیکل اتھل پتھل ہوتی ہے کہ مروجہ سوچ اور شعور کے حامل بڑے بڑے دانشور اور مفکر بھی اسے سمجھ پانے سے عاری رہتے ہیں۔ انہیں یہ سب کچھ ایک سازش، ایک پاگل پن اور بے ربط واقعات کا سلسلہ ہی معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ جس نظام کی فکر و دانش کی نمائندگی وہ کر رہے ہوتے ہیں اس کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ سوچنے اور دنیا کو پرکھنے کا وہ سارا انداز ہی متروک ہو چکا ہوتا ہے۔ پرانے حکمران طبقے کی معزولی کا وقت آ چکا ہوتا ہے۔ تاریخ اپنا فیصلہ ایک نئے طبقے کی بغاوت کی صورت میں صادر کر رہی ہوتی ہے جسے اقتدار میں آ کے اگلے طویل عرصے تک اپنے تاریخی فرائض ادا کرنے ہوتے ہیں۔ ایسا بار بار ہوتا آیا ہے۔ لیکن ہر بار ایک استحصالی طبقے کی جگہ ایک دوسرا استحصالی طبقہ لیتا رہا ہے۔ تاہم بالشویک انقلاب وہ تاریخ ساز واقعہ تھا جس میں پہلی بار استحصالی طبقات کے اقتدار کو اکھاڑ پھینک کر استحصال زدہ طبقات نے طاقت اپنے ہاتھوں میں مرکوز کی۔ یہی بنیادی فرق اسے تاریخ کے پچھلے سارے انقلابات سے ممتاز کر دیتا ہے اور آنے والے وقتوں کے محکوم و مظلوم انسانوں کے لئے مشعل راہ بنا دیتا ہے۔ روس کے صنعتی پرولتاریہ کی قیادت میں محنت کشوں نے ثابت کیا کہ ایک ایسے انسانی معاشرے کی تعمیر ممکن ہے جس میں انسان‘ انسان کے ہاتھوں ذلیل و رسوا نہ ہو۔ جس میں دولت کی پیداوار میں محنت کی چوری شامل نہ ہو۔ جہاں معیشت منڈی اور منافعوں کی اندھی قوتوں کے تابع نہ ہو اور سیاست و ریاست کا مقصد اس استحصالی معاشیات کا دوام نہ ہو۔ جہاں اکثریت کی غربت‘ اقلیت کی امارت کی شرط نہ ہو۔ بلکہ انسان شعوری طور پر اپنی معاشی، سیاسی اور سماجی زندگی کو اپنے اجتماعی اور اشتراکی مفادات کے تابع کرے۔ تاریخ انسان اور انسان کے آپسی تضاد سے نہیں بلکہ انسانوں کی یکجہتی اور اتفاق سے مرتب ہو۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور منڈی کی منافع خوری کے عناصر کو جب انسانی رشتوں اور رویوں میں سے نفی کیا گیا تو صدیوں کی ذلت اور جہالت میں غرق روسی معاشرے کو ایک ایسا نکھار ملا جس کی مثال ساری انسانی تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ بینکاری، فنانس اور ذرائع پیداوار کو اشتراکی ملکیت میں لیا گیا۔ یوں منافعوں کی بجائے انسانی ضروریات پر مبنی سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے تحت روس نے چند دہائیوں میں وہ ترقی حاصل کی جو سرمایہ داری کے تحت کئی صدیوں میں بھی ممکن نہ تھی۔ اور یہ سب کچھ روس سے کئی گنا زیادہ ترقی یافتہ سامراجی ممالک، جن کے تصرف میں پوری دنیا میں پھیلی نوآبادیات کے وسائل تھے، کی مسلسل عسکری، معاشی اور سیاسی یلغار کے باوجود ممکن ہوا۔ یہاں صرف ایک ایسے اشاریے کا ذکر ہی کافی ہے جو باقی سارے معاشی و سماجی اشاریوں کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ کروڑوں لوگوں کو لقمہ اجل بنا ڈالنے والی دو عالمی جنگوں اور ایک انتہائی تباہ کن خانہ جنگی اور عالمی سطح پر مکمل معاشی و سیاسی تنہائی کے باوجود سوویت یونین میں اوسط انسانی عمر نہ صرف دو گنا ہوئی بلکہ 1960ء کی دہائی کے دوران کچھ عرصے کے لئے امریکہ سے بھی تجاوز کر گئی۔ حالیہ عرصے میں ڈی کلاسیفائی کی گئی سی آئی اے کی دستاویزات کے مطابق ایک عام سوویت شہری‘ ایک امریکی شہری کے مقابلے میں بہتر اور زیادہ صحت بخش غذا کھاتا تھا۔ تعلیم، صحت اور رہائش کا کاروبار، جو آج عام انسانوں کے لئے ایک عذابِ مسلسل بن گیا ہے، ایک جرم تھا۔ بیروزگاری کا تصور نہیں تھا۔ لیکن اتنی ترقی کے باوجود سوویت یونین کے بنیادی سیاسی اور معاشی ڈھانچے میں کئی طرح کے سنگین بیوروکریٹک مسائل موجود تھے۔ جو روس کی تاریخی پسماندگی اور انقلاب کے ترقی یافتہ خطوں میں نہ پھیل سکنے کی ناگزیر پیداوار تھے۔ ان حالات میں انقلاب برپا کرنے والی بالشویک پارٹی کو کچل کر ابھرنے والی بیوروکریسی رفتہ رفتہ ایک آزادانہ وجود حاصل کرنے لگی۔ جوں جوں سوویت معیشت پھیل کے وسیع اور زیادہ پیچیدہ ہوتی گئی اور روسی معاشرہ سماجی و ثقافتی طور پر ترقی کرتا گیا‘ یہ تضادات زیادہ شدید اور سنگین ہوتے گئے۔ اور ایک وقت میں آ کے ساری منصوبہ بند معیشت اور اس پر کھڑی مسخ شدہ مزدور ریاست کے انہدام پر منتج ہوئے۔ لیکن تاریخ اپنے پیچھے نتائج اور اسباق چھوڑ جاتی ہے۔ جو پھر نئی نسلوں کو نئے سماجی اور سیاسی تجربات کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اسی لئے تاریخ ہمیشہ خود کو بلند تر پیمانے پر دہراتی ہے۔ اپنی تمام تر کمزوریوں اور نقائص کے باوجود بالشویک انقلاب آج بھی دنیا بھر کے محنت کشوں کے لئے راہِ نجات پیش کرتا ہے۔ جس پر چلتے ہوئے انسانیت کو غربت، بیروزگاری، مہنگائی، قلت، حسد، منافقت، رجعت، جنگوں، دہشت گردی اور ماحولیاتی تباہی جیسے سنگین مسائل پر قابو پانا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنا ہے جہاں انسان نہ صرف معیشت، ریاست اور سیاست بلکہ اپنی روح، احساس اور جبلت کو بھی اپنے شعور کے تابع کر کے اشتراکی فلاح کے لئے بروئے کار لا سکے۔ اور دنیا و کائنات کی تسخیر کی ایسی منزلیں اپنے لئے منتخب کرے جن کے بارے میں اس بوسیدہ، گلے سڑے، متروک اور انسان دشمن سرمایہ دارانہ نظام میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔