اداریہ جدوجہد

کراچی میں شدید بارشوں سے پھیلنے والی تباہی نے جہاں اس بدنصیب شہر کے ڈیڑھ کروڑ باسیوں کی زندگیوں کو نئے مصائب سے دوچار کر دیا ہے‘ وہاں کئی سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ اس طبقاتی سماج میں غریبوں کے جھونپڑے تو آفتوں کا شکار ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن ڈی ایچ اے اور کلفٹن جیسے اشرافیہ کے علاقوں کا پانی میں ڈوب جانا اور کئی دنوں تک ڈوبے رہنا واضح کرتا ہے کہ ملک کے بڑے شہروں کا انتظام کس حد تک بگڑ چکا ہے۔ یہ کیفیت موسمیاتی تبدیلیوں کے گھمبیر ہوتے مسئلے کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے۔ اس وقت شہر کے بیشتر علاقے سیلاب کی زد میں ہیں۔ ریاستی مشینری صورتحال سے نبٹنے میں مکمل طور پر مفلوج نظر آتی ہے۔ بجلی کئی دنوں سے منقطع ہے۔ لوگ گھروں کی بالائی منزلوں میں محصور ہو چکے ہیں۔ لاکھوں محنت کش خاندانوں کی کُل جمع پونجی پانی کی نذر ہو چکی ہے۔ اب تک 41 افراد کی اموات میڈیا ذرائع نے رپورٹ کی ہیں۔ مالی نقصان بے حد و حساب ہے۔ عالمی ذرائع کے مطابق یہ کراچی میں 1931ء میں بارشوں کی پیمائش کا ریکارڈ شروع ہونے کے بعد سے اب تک کی شدید ترین بارشیں ہیں۔ ابھی آنے والے دنوں میں ملک کے جنوبی اور جنوب مغربی علاقوں میں مزید بارشیں متوقع ہیں جن سے نہ صرف کراچی کی صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے بلکہ دوسرے کئی شہروں میں بھی ایسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔

ان حالات میں میڈیا پر لایعنی بحثوں اور تبصروں کا شور مسلسل جاری ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور انتظامیہ کے ادارے مسلسل ایک دوسرے کو دوش دے رہے ہیں۔ الزامات اور تکرار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا ہے۔ کراچی کی سندھ سے علیحدگی اور وفاق کے حوالے کرنے کے تخریبی اور رجعتی منصوبے بھی پیش کیے جا رہے ہیں۔ روشنیوں کے اس شہر کو گزشتہ تقریباً چار دہائیوں کے دوران لسانیت، قتل و غارت اور ذلت کے اندھیروں میں ڈبونے والے بھی کراچی والوں کے غم میں نڈھال ہوئے جا رہے ہیں۔ حکمرانوں کے ہر دھڑے کی انگلی دوسرے کی طرف ہے۔ لیکن ان میں سے کون ہے جو کراچی کا انتظام چلانے والی وفاقی، صوبائی یا ضلعی حکومتوں کا حصہ نہ رہا ہو؟ کون ہے جس کا نام ملک کے اس صنعتی مرکز کو نوچ نوچ کر کھانے والوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا جا سکتا؟ کون ہے جس نے اس بربادی سے مال نہیں بنایا ہے؟ تاہم کارپوریٹ میڈیا پر بیہودہ شور و غل کی یہی واردات ہے جس کے ذریعے حقائق پس پشت ڈال دئیے جاتے ہیں۔ بربادیوں کو غریب عوام کا مقدر اور نصیب بنا دیا جاتا ہے۔ جس نظام کے یہ سب رکھوالے ہیں اس کا ذکر غائب کر دیا جاتا ہے۔

لیکن اگر غور کریں تو نہ صرف کراچی بلکہ ممبئی سمیت برصغیر کے بیشتر بڑے شہروں کے یہ حالات جنوب ایشیائی سرمایہ داری کی تاریخی نا اہلی اور ناکامی کا اعلان کرتے ہیں۔ شہروں کا طرزِ تعمیر اور انفراسٹرکچر کسی بھی نظام کی حالت کا پتا دیتا ہے۔ یہ کسی تہذیب کا انتہائی مجتمع شدہ اظہار ہوتا ہے۔ سرمایہ داری نے اپنے ارتقا کی شروعات میں یورپ کے جدید شہروں کی بنیاد رکھی تھی۔ یہی طرز تعمیر پھر نوآبادکاروں کیساتھ دنیا کے دوسرے خطوں میں منتقل ہوا۔ اس خطے کے تقریباً تمام بڑے شہراپنی جدید شکل میں انگریزوں نے آباد کیے تھے۔ ان شہروں کی تعمیر میں منصوبہ بندی کا عنصر شامل تھا۔ شہروں کی گنجائش اور آبادیوں کے درمیان ایک معقول تناسب موجود تھا۔ تعمیر میں ایک ترتیب نظر آتی تھی‘ جو فطرت کی انسان کے ہاتھوں تسخیر کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ لیکن پھر بٹوارے کے بعد جس قدر ناہموار یہاں کی سرمایہ داری کا ارتقا تھا‘ اسی قدر بے ہنگم اور پر انتشار یہ شہر ہوتے چلے گئے۔ جغرافیائی طور پر تمام خطوں کو یکساں ترقی دینے سے یہ نظام قاصر تھا‘ جس میں قومی سطح پر کسی دور رس منصوبہ بندی کی گنجائش سرے سے موجود نہیں تھی۔ چنانچہ پسماندہ علاقوں سے بڑے شہروں کی طرف ہجرت کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے۔ جس سے چند بڑے شہروں کی آبادیاں بڑھتی چلی گئیں اور مضافات میں کسی منصوبہ بندی سے عاری علاقے آباد ہو کے شہروں میں ضم ہوتے چلے گئے‘ جن میں کچی آبادیاں اور جھونپڑ پٹیاں بھی شامل ہیں اور اشرافیہ کے پوش علاقے اور سوسائٹیاں بھی۔ اس سارے عمل میں رئیل اسٹیٹ سے لے کے قبضہ مافیا تک سے وابستہ حکمران طبقے کے دھڑوں اور سرکاری اشرافیہ نے اتنا مال بنایا ہے جس کا کوئی حساب نہیں ہے۔ آج دیکھا جائے تو یہ شہر اپنی اصل گنجائش سے درجنوں گنا زیادہ پھیل چکے ہیں۔ یہ پھیلاؤ بالکل انسانی جسم میں کینسر جیسا ہے۔ ٹریفک کا رش، آلودگی اور شور برداشت سے باہر ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی خاطر خواہ نظام ناپید ہے۔ جرائم بڑھتے جاتے ہیں۔ پانی کی فراہمی اور نکاس کے مسائل بے شمار ہیں۔ کراچی ہی کی مثال لیں تو یہاں بارش کے پانی کا نکاس کرنے والے درجنوں قدرتی نالے ہوا کرتے تھے جن پر اب مکانات اور پلازے تعمیر ہو چکے ہیں۔ یہی حشر گرین بیلٹوں، باغات اور کھیل کے میدانوں کا ہوا ہے۔ نتیجتاً گرمیوں میں یہ شہر دہکتی ہوئی بھٹی بن جاتا ہے اور برسات میں بڑے تالاب کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ آج ان شہروں کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ ان کے موجودہ وجود کے ساتھ بیشتر مسائل ناقابل حل ہیں۔ صرف صاف پانی کی فراہمی اور نکاس کا مسئلہ ہی حل کرنا ہو تو پورے کے پورے شہر اکھاڑنے پڑیں گے۔ بیشتر آبادیاں ختم کرنی پڑیں گی۔ لوگوں کو متبادل رہائش دینا ہو گی۔ اتنے بڑے پیمانے کی اکھاڑ پچھاڑ درکار ہے جس کے بارے میں اس نظام کے اندر سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

اس متروک نظام میں شہروں کے مسائل مزید گھمبیر اور پیچیدہ ہی ہوں گے۔ لیکن غلاظت اور آلودگی سے اٹے سے یہ شہر، جن کا ہر منظر انسان کی روح کو گھائل کرتا ہے اور حس جمالیات کو کچلتا ہے، انسانیت کا مقدر نہیں ہیں۔ ان کی اس حالت سے مستقبل کے سوشلسٹ سماج کا انسان عبرت ہی حاصل کرے گا۔ انسانیت کو تعمیر اور تسخیر کی جو منازل طے کرنی ہیں ان کا ابھی تصور بھی محال ہے۔ جیسا کہ انقلابِ روس کے قائد لیون ٹراٹسکی نے ’لٹریچر اور انقلاب‘ میں لکھا تھا، ”آج کا شہر ناپائیدار اور عارضی ہے۔ لیکن (معاشرے کی سوشلسٹ تعمیر نو کے دوران) یہ واپس پرانے دیہات میں تحلیل نہیں ہو گا۔ اس کے برعکس دیہات بلند ہو کے شہر کی سطح پر آ جائے گا۔ نسل در نسل، اینٹ در اینٹ غیر محسوس انداز میں چیونٹیوں کی طرح ایک دوسرے پر چڑھ جانے والے گھروں اور سڑکوں کی جگہ منصوبہ بندی سے زبردست شہری دیہات تعمیر کیے جائیں گے۔ شہری منصوبہ بندی جیسے دیوہیکل کاموں میں صرف انجینئر ہی نہیں بلکہ عام لوگ بھی گہری دلچسپی لیں گے۔ آرکیٹیکچر عوامی مزاج اور احساسات کے جذبے سے سرشار ہو جائے گا۔ انسانیت اپنی تربیت یوں کرے گی گویا ہر چیز کو اپنی مرضی کے مطابق پلاسٹک کی طرح ڈھال کے دیکھ اور پرکھ سکتی ہو…“

لیکن انسانیت کو مستقبل کی ان بلندیوں سے ہمکنار کرنے کی اولین شرط سرمایہ داری کا خاتمہ ہے۔