اداریہ جدوجہد
کورونا وبا کی نئی لہریں جہاں دنیا بھر میں تباہی پھیلا رہی ہیں وہاں ہندوستان میں گزشتہ کچھ دنوں سے ایک بڑا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ ملک میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران ہر روز تین لاکھ سے زیادہ متاثرین سامنے آ رہے ہیں جبکہ روزانہ دو سے ڈھائی ہزار اموات واقع ہو رہی ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق دہلی میں اوسطاً ہر پانچ منٹ میں ایک موت واقع ہو رہی ہیں۔ دارالحکومت نئی دہلی کے علاوہ مغرب میں مہاراشٹر اور گجرات، شمال میں ہریانہ اور وسطی ہندوستان میں مدھیا پردیش‘ سب کو آکسیجن کی قلت کا سامنا ہے۔ شمالی ریاست اتر پردیش میں کچھ ہسپتالوں نے ’آکسیجن سٹاک ختم‘ کے بورڈ لگا دئیے ہیں اور ریاست کے دارالحکومت لکھنؤ میں ہسپتالوں نے مریضوں کو کہیں اور منتقل ہونے کا کہا ہے۔ نہ صرف ہسپتالوں میں مزید بیڈ موجود نہیں ہیں بلکہ اتنی بڑی تعداد میں لاشیں لائی جا رہی ہیں کہ شمشان گھاٹوں میں بھی جگہ ختم ہو گئی ہے۔ لوگ ہسپتالوں کی پارکنگ اور سڑکوں پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کے دم توڑ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں یہ مناظر دیکھ کے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک ہنگامی صورتحال ہے لیکن یہ سب کچھ اچانک یا بغیر کسی پیشگی تنبیہ کے نہیں ہو رہا ہے۔ بی بی سی کے مطابق، ”ڈاکٹروں سے لے کر حکام اور صحافیوں تک جس نے بھی وبائی صورتحال کو بدلتے دیکھا ہے انہیں ایسا لگ رہا ہے کہ یہ سب پہلے بھی ہوا ہے۔ سات ماہ قبل بھی ملک کو آکسیجن کی اسی طرح کی قلت کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ کووڈ کیسوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔ لیکن اس بار یہ صورتحال بد ترین ہے۔“ یوں مودی سرکار واضح طور سے پیشگی آگاہ تھی کہ ایسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجودنہ صرف یہ کہ کوئی تیاری نہیں کی گئی بلکہ ہندوتوا کے رجعتی ایجنڈے کے تحت ’کنبھ‘ کے مذہبی اجتماع کو پورے جوش و خروش سے منعقد کروایا گیا جس میں 30 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی اور میلے کے بعد کورونا کو ملک کے ہر کونے میں لے گئے۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ یہ ہزاروں انسان کیڑوں مکوڑوں کی طرح اس ”شائننگ انڈیا“ میں مر رہے ہیں جس کی ترقی کے گن پچھلے لمبے عرصے سے سامراجی ماہرین گاتے نہیں تھکتے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ صرف ہندوستان کا حال نہیں ہے بلکہ پاکستان سمیت کم و بیش تمام پسماندہ ممالک کو اسی انسانی المیے کا سامنا ہے۔ یہاں پاکستان میں بھی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 17 ہزار لوگ اس وبا سے لقمہ اجل بن چکے ہیں لیکن مرنے والوں کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ تمام بڑے شہروں کے ہسپتال بھر چکے ہیں اور کورونا کے مزید مریضوں کے لئے گنجائش موجود نہیں ہے۔ ونٹی لیٹر ناپید ہیں۔ نجی ہسپتال کووڈ کے مریضوں کی سانسیں بحال رکھنے کے ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے روزانہ تک وصول کر رہے ہیں اور اربوں کے منافعے کما رہے ہیں۔ بیماری کے علاج میں استعمال ہونے والی بیشتر ادویات ایک سال بعد بھی شارٹ ہیں۔ پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر جاری ہے اور بیشتر ماہرین متنبہ کر رہے ہیں کہ حکومتی تیاریوں کا جوحال ہے اس کے پیش نظر اگلے کچھ ہفتوں یا مہینوں میں حالات تیزی سے ہندوستان والی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ جبکہ اس دوران ہندوستان کو ’امداد‘ کی پیش کش جیسے بھونڈے سفارتی سٹنٹ کیے جا رہے ہیں۔ البتہ اس بحرانی کیفیت میں سوشل میڈیا پر یہاں کے باسیوں کی سرحد پار کے عوام کیساتھ طبقاتی یکجہتی کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ دونوں ممالک کے محنت کش طبقے کے دکھ سانجھے ہیں اور غیر معمولی کیفیات میں حکمرانوں کے پھیلائے سارے تعصبات اور جنگی جنون چھٹ جاتے ہیں۔
پاکستان اور ہندوستان دونوں کا شمار دنیا میں اسلحے کے دس بڑے خریداروں میں ہوتا ہے۔ ہندوستان عسکری اخراجات کے حوالے سے امریکہ اور چین کے بعد دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جبکہ اگر جی ڈی پی کے تناسب سے دیکھا جائے تو اس مد میں پاکستان کے اخراجات ہندوستان سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن تباہی و بربادی کے اداروں اور ہتھیاروں پر یہ اخراجات خطے کے وسائل کے ضیاع کا صرف ایک حصہ ہیں۔ یہاں اگر سامراجی مالیاتی اداروں کی سود خوری، ملٹی نیشنل اجارہ داریوں اور مقامی حکمران طبقات کی منافع خوری اور ریاستی افسرشاہی کی بدعنوانیوں، عیاشیوں اور بدقماشیوں کا حساب لگانے کی کوشش کی جائے تو کیلکولیٹر کے ہندسے کم پڑ جاتے ہیں۔ یہ اس نظام کی وہ لوٹ مار ہے جس سے یہاں کے لبرل حلقے بھی بڑی ڈھٹائی سے صرف نظر کر جاتے ہیں۔ اپنی زندگی کی طرز اور معیار کے حوالے سے یہ حکمران کسی اور سیارے کی مخلوق معلوم ہوتے ہیں۔ جن کی بود و باش، ترجیحات اور فیصلہ جات اس خطے کے ڈیڑھ ارب محنت کشوں کے مفادات سے یکسر متضاد ہیں۔ نظامِ صحت کی بات کی جائے تو اس مد میں سرکاری اخراجات ہندوستان میں جی ڈی پی کا صرف 1.26 فیصد جبکہ پاکستان میں 1 فیصد سے بھی کم ہیں۔ یہی حال تعلیم کا ہے۔ ایسے میں بنیادی سماجی خدمات کے سرکاری شعبے، جن کے اوپر پورے سماج کی تعمیر ہوتی ہے، اندر سے کھوکھلے ہو کر ڈھے رہے ہیں۔ جس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ایس او پیز پر عمل درآمد کے لئے بھی فوج طلب کی جا رہی ہے۔ منافع خوری کے لئے کورونا ویکسین پر مٹھی بھر اجارہ داریوں اور سامراجی حکومتوں کے تسلط نے موجودہ صورتحال کو اور بھی گھمبیر کر دیا ہے۔ ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت انتہائی مختصر عرصے میں دنیا بھر کے انسانوں کو ویکسین لگائی جا سکتی تھی۔ لیکن منافع خوری کے اس نظام کے تحت یہ عمل انتہائی سست روی کا شکار ہے اور پسماندہ ممالک میں کئی سال لے سکتا ہے۔ اس دوران یہ موذی مرض نہ جانے کتنے اور گھروں میں صف ماتم بچھائے گا جس کا ذمہ دار اس آدم خور نظام کے رکھوالوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ انسانیت کی زندگی کے لئے اس نظام کی موت لازم ہو چکی ہے۔