طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز نے کامریڈ لال خان کی دوسری برسی کے موقع پر ان کی منتخب تصانیف تین جلدوں میں شائع کی ہیں جن کی باقاعدہ رونمائی 13 مارچ 2022ء کو طبقاتی جدوجہد کی 40 ویں کانگریس میں کی جائے گی۔ ہم اپنے قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر اس اشاعت کا تعارف اور ہر جلد میں موجود تحریروں کی فہرست یہاں شائع کر رہے ہیں۔


کامریڈ لال خان کا شمار بلامبالغہ تاریخ کی عہد ساز شخصیات میں کیا جا سکتا ہے۔ اپنی سیاسی زندگی کی ساڑھے چار دہائیوں کے دوران کسی نظرئیے کو اپنی ذات اور شخصیت کے اندر سمو کے اس کی مجسم شکل بن جانے کے مظہر کو وہ انتہاؤں تک لے گئے۔ یہ انسانیت کی معراج کی وہ منزلیں ہوتی ہیں جہاں نظریہ صرف انسان کی سوچ، نفسیات اور شعور کا ہی نہیں بلکہ جبلت اور لاشعور کا بھی لازمی جزو بن جاتا ہے۔ لیکن نظرئیے اور وقت و حالات کا بھی عجیب تال میل ہوتا ہے۔ مخصوص تاریخی حالات‘ مخصوص نظریات کے لئے زرخیز ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں ایسے عہد بھی آتے ہیں اور آتے رہیں گے جب سچے اور کھرے نظرئیے اور فلسفے پر قائم رہنا دنیا کا کٹھن ترین نصب العین بن جاتا ہے۔ کامریڈ لال خان نے ایک ایسے ہی وقت اور عہد میں انقلابی مارکسزم کا پرچم بلند کیا جب نہ صرف دیوارِ برلن گر رہی تھی اور سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا بلکہ محنت کش طبقہ دنیا کے بیشتر خطوں میں سیاسی، نظریاتی اور معاشی حوالوں سے ایک پسپائی سے دوچار تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے مخصوص موضوعی و معروضی حالات میں ایک نئی زندگی پانے والی سرمایہ داری اپنی ایک بے رحم اور بیہودہ یلغار جاری رکھے ہوئے تھی۔ایسے حالات و واقعات کے تھپیڑوں سے لڑنا اور لڑتے چلے جانا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ انسانیت بحیثیت مجموعی ابھی اس تہذیبی اور ثقافتی مقام تک نہیں پہنچی جہاں انسانوں کی اکثریت اس قابل ہو سکے۔ ایک طبقاتی سماج چاہے جتنی بھی ترقی کر جائے، اس کی حدود و قیود میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ سرمایہ داری کا انسان روحانی طور پر بہت غریب ہے۔غیر انقلابی حالات میں ہر انسان سے جرات اور ہمت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ان حالات میں بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو ایسے کڑے امتحانوں میں کامیاب ہوتے ہیں اور ان غیرمعمولی معیاروں پہ پورے اترتے ہیں۔ ایسے مٹھی بھر لوگوں کی فہرست میں کامریڈ لال خان کا نام ہمیشہ بہت اونچا اور بہت نمایاں رہے گا۔ وہ ایک عہد ساز شخصیت ہی نہیں بلکہ عہد شکن انسان بھی تھے۔ جنہوں نے رجعت اور ردِ انقلاب کی اتھاہ ظلمتوں میں مارکسزم اور انقلابی سوشلزم کی شمع نہ صرف جلائی بلکہ کئی دہائیوں تک تند و تیز ہواؤں میں روشن بھی رکھی۔ ان کی ذات کئی غیرمعمولی صلاحیتوں کے حسین امتزاج پر مشتمل تھی۔ وہ ایک بے باک ایجی ٹیٹر، انتھک ایکٹوسٹ اور تیزدھار منتظم ہی نہیں بلکہ انتہائی وسیع النظر، گہرے اور باخبر نظریہ دان بھی تھے۔ اور ان میں سے ہر ایک خاصیت دوسری کو جلا بخشتی تھی۔ لیکن ان سب کی قوت محرکہ مارکسزم کے بنیادی نظریات پہ وہ غیرمتزلزل یقین اور عبور تھا جو انہیں سرمایہ داری کی ہر قسم کی نظریاتی یلغار اور پراپیگنڈہ کو چیر کر آگے بڑھ جانے اور اپنے ساتھیوں کو بھی آگے کا راستہ دکھانے کا حوصلہ اور شکتی عطا کرتا تھا۔ اس حوالے سے وہ آنے والی نسلوں کے لئے نہ صرف اپنی عملی جدوجہد بلکہ تحریروں کی شکل میں بھی وہ نشان راہِ چھوڑ گئے ہیں جو انقلابی منازل کی تعین کے لئے ہمیشہ کام آتے رہیں گے۔ طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز نے کامریڈ لال خان کی دوسری برسی کے موقع پر ان کی ایسی ہی بیش قیمت تصانیف کو کتابی شکل میں ڈھالنے کی سعی کی ہے جو سرمایہ دارانہ بحران کے اِس گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوں گی اور نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے انقلابیوں کے لئے اس رہنمائی، شکتی، ہمت اور حوصلے کا باعث بنیں گی جو اس بوسیدہ اور متروک نظام کو پاش پاش کرنے کے لئے درکار ہے۔

یہ مضامین، جنہیں کم و بیش ایک ہی سائز کی تین جلدوں میں ڈھالا گیا ہے، 2011ء سے 2019ء کے اواخر تک لکھے گئے اور ملک کے نامور انگریزی اور اردو اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتے رہے۔ لیکن ان بورژوا جریدوں میں اشاعت سے قبل انہیں اکثر سنسرشپ کی چھری کے نیچے سے گزارا جاتا تھا۔ اس کے باوجود یہ ملک کے اندر اور باہر ہزاروں لاکھوں لوگوں تک مارکسزم کے نظریات کی ترسیل کا ذریعہ بنتے رہے۔ تاہم یہاں یہ مضامین اپنی اسی اصل شکل میں شائع کیے جا رہے ہیں جس طرح پندرہ روزہ طبقاتی جدوجہد کے پرچے یا ویب سائٹ پر شائع کیے جاتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ہم قاری سے بین السطور پڑھنے اور سمجھنے کی امید کرتے ہیں کیونکہ ایک طبقاتی سماج میں آزادی اظہار کی حدود و قیود ہوتی ہیں۔ جو سرمایہ داری کے موجودہ عہد میں اور پھر پاکستان جیسے سماجوں میں ویسے بھی مسلسل سکڑتی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ یہ تحریریں کامریڈ لال خان کی نظریاتی زندگی کے عروج اور بلوغت کے عرصے سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کی تقریباً چار دہائیوں پر مشتمل انقلابی زندگی کے اسباق کا نچوڑ ہیں۔ یہ مضامین، جن میں سے زیادہ تر گیارہ سے تیرہ سو الفاظ پر مشتمل ہیں، شاید ایسے تمام موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں جن سے آج ایک انقلابی کا واسطہ پڑ سکتا ہے۔ کامریڈ لال خان نے اپنی اِن تحریروں میں مارکسی نقطہ نظر سے برصغیر جنوب ایشیا کے معاشروں کا جائزہ لیا ہے اور یہاں انقلابی مارکسزم کے نظریات پر مبنی طبقاتی جدوجہد کا تناظر، طریقہ کار اور لائحہ عمل وضع کیا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے بہت جائز اور خوبصورت طور سے انقلابِ روس کے قائد لیون ٹراٹسکی کے ’ناہموار اور مشترک ترقی‘ اور ’انقلابِ مسلسل‘ کے ان نظریات کا بھرپور استعما ل کیا ہے جن کے بغیر پسماندہ ممالک کے سرمایہ دارانہ سماجوں کو سمجھا جا سکتا ہے نہ بدلا جا سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جنوب ایشیا کی مارکسی تحریک میں کامریڈ لال خان کا وہ کلیدی کارنامہ ہے جس کے لئے انہیں جتنا بھی خراجِ تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔ یہ پاکستان جیسے سماجوں کا میکانکی اور خشک انداز میں لیا گیا جائزہ نہیں ہے (جیسا کہ ماسکو اور پیکنگ نواز سٹالنسٹ بائیں بازو کا خاصہ رہا) بلکہ وہ تاریخی، سماجی، معاشی، طبقاتی، ثقافتی اور نفسیاتی حوالے سے انتہائی گہرائی میں جا کے ان تضادات کو آشکار کرتے ہیں جن کی بنیاد پر نہ صرف ماضی کے واقعات میں ربط تلاش کیا جا سکتا ہے اور موجودہ صورتحال کو سمجھا جا سکتا ہے بلکہ مستقبل کا تناظر اور لائحہ عمل بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کا تجزیہ و تناظر صرف پاکستان یا جنوب ایشیا کے سماجوں تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ مارکسی بین الاقوامیت سے اپنی ناگزیر اور ان ٹوٹ وابستگی کے حوالے سے وہ یہاں کی کیفیات کو پھر پوری دنیا (بالخصوص ترقی یافتہ ممالک) کے حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یوں یہ مضامین انتہائی عام فہم زبان اور اندازِ بیاں میں بین الاقوامی و قومی سطح پر سرمایہ دارانہ معیشت، سیاست و سفارت کے تضادات و بحرانات، عسکری تنازعوں، سامراجیت، بنیاد پرستی، تاریخی عوامل اور واقعات، انقلابی تحریکوں، قومی سوالات، سماج، آرٹ، ثقافت، مارکسی فلسفے اور مستقبل کے تناظروں جیسے دلچسپ، بنیادی، پیچیدہ اور ضخیم موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں اور سرمایہ داری کے خلاف سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد میں سرگرم انقلابیوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

کامریڈ لال خان ایک انقلابی تنظیم کی قیادت کا گراں بہا جزو تھے اور ان کی پوری سیاسی، نظریاتی اور ذاتی زندگی اسی تنظیم کی تعمیر کے لئے وقف تھی۔ اس حوالے سے 2011ء سے 2019ء تک ان مضامین کے بنیادی خیالات، تحریر، تدوین، ترجمے، پروف ریڈنگ اور اشاعت اور پھر حالیہ عرصے میں ان کی تالیف اور کتاب سازی تک بیشتر ساتھیوں کا ساتھ شامل حال رہا۔ ان سب کامریڈوں، جن کی زندگیاں سوشلسٹ انقلاب کے لئے وقف ہیں اور جنہیں اسی سبب کامریڈ لال خان کی رفاقت نصیب ہوسکی، کا ذکر کرنا یہاں ممکن نہیں ہے۔ لیکن ایک بار پھر یہ شمولیت کامریڈ لال خان کے بنائے گئے ٹیم ورک اور مختلف آرا کو سننے، سمجھنے اور اپنی تحریروں میں سمیٹنے کی ان کی گراں قدر صلاحیت کے بغیر ممکن نہ تھی۔ علاوہ ازیں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ایک اشتراکی، اجتماعی اور عملی انقلابی جدوجہد کا حصہ بن کے ہی مارکسی اساتذہ کی ایسی تحریروں کے مطالعے کا حق ادا کیا جا سکتا ہے اور انہیں پوری طرح سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔

یہ تحریریں چونکہ تقریباً ایک دہائی کے عرصے پر محیط ہیں لہٰذا ایک سے زیادہ بار ایک ہی موضوع پر قلم اٹھانے کی ضرورت پڑتی رہی۔ ایسے میں کئی نکات کی تکرار ناگزیر ہے۔ لیکن بعض اوقات تکرار بھی کسی نکتے کی اہمیت کا پیمانہ بن جاتی ہے۔ جہاں حکمران طبقات بار بار جھوٹ بول کے اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہوں وہاں انقلابیوں کا فریضہ بن جاتا ہے کہ بار بار اس جھوٹ کو بے نقاب کیا جائے۔ اور کامریڈ لال خان کے نزدیک یہی ان کی تحریروں کا مطمع نظر اور نصب العین تھا۔ لیکن ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ تکرار ان کی زندگی میں جتنی ضروری تھی آج اس سے زیادہ لازم ہو چکی ہے۔ اس لئے بار بار دہرائے گئے ان نکات کو اتنی ہی گہرائی اور پختگی سے سمجھنا ضروری ہے۔ علاوہ ازیں بظاہر تکرار کے باوجود ایک ہی نکتے کو بار بار ایسے انداز اور ایسے تناظر میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر بار اس میں سے کئی نئے نکات برآمد ہوں گے۔

مضامین کی تالیف کے بعد ان کی فہرست بنانے کا مرحلہ بہت غور طلب اور کٹھن تھا۔ صفحات کے نمبروں کے حساب سے فہرست بنا دینا بالکل بے سود اور بے معنی تھا۔ لہٰذا فہرست‘ موضوعات کے لحاظ سے تیار کی گئی ہے۔ ایک عمومی موضوع سے وابستہ مضامین کو اس زمرے میں رکھ کے ان کے صفحہ نمبر آگے دے دئیے گئے ہیں۔ لیکن یہ اتنا آسان اور سادہ نہیں ہے جتنا نظر آتا ہے۔ مارکسزم کے مخصوص طریقہ کار کے پیش نظر بیشتر مضامین میں کامریڈ لال خان نے ایک بنیادی موضوع کو دوسرے کئی موضوعات کیساتھ جوڑ کے پیش کیا ہے۔ یوں ایک ہی مضمون کئی موضوعات کے احاطے پر مبنی ہو سکتا ہے۔ ایسے میں کوشش کی گئی ہے کسی مضمون کو اس کے بنیادی موضوع کے زمرے میں ہی رکھا جائے اور ایک مضمون ایک سے زیادہ زمروں میں ظاہر نہ ہو۔ اسی طرح کتاب کے اندر ہر مضمون کی سرخی کے اوپر ان زمروں کے نام اشارتاً لکھ دئیے گئے ہیں جن میں وہ طبقاتی جدوجہد کی ویب سائٹ پر شائع ہوا تھا(ان زمروں میں اداریہ سے مراد ’پندرہ روزہ طبقاتی جدوجہد‘ کا اداریہ ہے)۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری یہ کاوش قاری کے لئے کتاب کے مطالعے کو آسان بنائے گی۔

آخر میں ہم یہ واضح کرنا چاہیں گے کہ کوئی بھی لکھاری زمان و مکاں کی حدود سے ماورا نہیں ہوتا۔ یوں کوئی بھی تحریر حتمی و آخری نہیں ہوتی۔ایک انسان مخصوص وقت اور حالات میں ہی کسی چیز کا تجزیہ اور تناظر پیش کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے اصل اور بنیادی اہمیت تجزئیے کے طریقہ کار اور اوزاروں کی ہوتی ہے۔ تجزئیے اور تناظر کی تخلیق میں ترویج اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ لیکن کامریڈ لال خان نے اپنی ان تحریروں میں مارکسزم کے بنیادی طریقہ کار کا استعمال انتہائی مہارت، جرات اور خوبصورتی کیساتھ کیا ہے۔ یوں یہ بات بلامبالغہ کہی جا سکتی ہے اس کتاب کے مندرجات وہ ٹھوس بنیاد فراہم کرتے ہیں جس کے اوپر ایک انقلابی تنظیم اپنے تجزئیے و تناظر کی تعمیر کا عمل آگے بڑھاتے ہوئے محنت کش طبقے کا وہ تاریخی اوزار بن سکتی ہے جسے ایک انقلابی جراحی کے ذریعے اس ملک، اس خطے، اس دنیا پر سے سرمایہ داری کے ناسور کو اکھاڑپھینکنا ہے۔

مجلس ادارت ’طبقاتی جدوجہد‘
لاہور
25 فروری 2022ء


فہرست مضامین