ظفر اللہ

21 فروری کو کامریڈ لال خان کینسر سے لڑتے لڑتے چل بسے۔ اس مہلک مرض کے درپیش خطرات کی وجہ سے ہم اکثر کامریڈ کی زندگی کے حوالے سے پریشان رہتے ہی تھے مگر پھر بھی اُن کے زندہ رہنے کی امید دلوں کے کسی کونے میں ہمیشہ موجود رہتی تھی۔ دراصل ہمیں کبھی خیال ہی نہیں آیا تھا کہ انقلاب کے اس سفر میں کبھی کامریڈ لال خان کی رہنمائی میسر نہیں آئے گی اور ان کے بغیر جدوجہد کی ان کی میراث کو لے کر چلنا پڑے گا۔ سماج کی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے تبدیلی پر ان کے لازوال یقین اور اس احساس کو چار دہائیوں سے پاکستان کے انقلابیوں میں پوری توانائی کے ساتھ سرائیت کرانے کی ان کی لازوال جدوجہد سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی ضمانت تصور کی جاتی ہے۔ ان کی زندگی اور موت پاکستان کی مزدور تحریک پر آنے والے لمبے عرصے تک اثرات مرتب کرتی رہے گی۔

میں دو دہائیاں قبل ان کے اس انقلابی کارواں میں شریکِ سفر ہوا جو وہ چالیس سال سے لے کر چل رہے تھے، جن میں سے سولہ برس زیادہ قریب سے کام کرنے کے سال ہیں۔ وہ آخری سانس تک انقلابی سوشلزم کی ناقابلِ مصالحت جدوجہد کے انتھک سپاہی تھے۔ جس کے بعد وہ مارکسی دانشور، مصنف اور کالم نویس تھے۔ یہ جنگ کے مختلف محاذ تھے جہاں انہیں بیک وقت لڑنا پڑتا تھا۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ کامریڈوں کی تربیت کے لئے لکھنا اور لٹریچر تخلیق کرنا جتنا ضروری ہے اتنا ہی مشکل بھی ہے۔ در اصل 80ء کی دہائی کے آخر میں وہ جن حالات میں جلا وطنی سے واپس آئے وہ عالمی سوشلسٹ تحریک کے زوال اور انتہائی مایوسی کا عہد تھا۔ کچھ ہی سالوں بعد سوویت یونین کے انہدام اور دیوارِ برلن کے گرنے جیسے واقعات نے مزدور تحریک کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا اور پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملکوں میں کہیں زیادہ بھیانک اثرات مرتب ہوئے۔ جہاں ماسکو اور بیجنگ یہاں کے سٹالنسٹ بائیں بازو کے کامریڈوں کے لئے کعبے کی حیثیت رکھتے تھے اس کے ساتھ ہی یہاں کے بائیں بازو کی نظر میں پاکستان میں انقلاب سوویت یونین کی حمایت سے ہی ممکن تھا۔ سوویت انہدام نے یہاں بائیں بازو کا کم و بیش صفایا کر دیا۔ دیانتدار عناصر کو مایوسی اور موقع پرستوں کو مفاد پرستی کی دلدل میں دھکیل دیا۔

جلا وطنی کے دوران عالمی مزدور تحریک سے جڑت کی بدولت کامریڈ لال خان ٹراٹسکی ازم کے جو نظریات پاکستان لائے تھے وہ یہاں کے سوویت یونین کے زیرِ اثر بائیں بازو کے لئے ”انقلاب دشمن“ نظریات تھے۔ سوویت یونین اور اس سے باہر کے ممالک میں بھی سٹالنزم کی ٹراٹسکی کے نظریہ مسلسل انقلاب کے خلاف عالمی مہم کی پاکستان میں بھی گہری جڑیں تھیں۔ ساٹھ کی دہائی میں ٹراٹسکی ازم کے کمزور اور معمولی تعارف کے بعد کامر یڈ لال خان واحد آدمی تھے جنھوں نے یہاں ٹراٹسکی کے نظریات پر پاکستان میں تاریخ کی بڑی اور مضبوط تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اور یہ عظیم الشان اور حیران کن حاصلات اُس وقت ہو رہی تھیں جب سوشلزم ایک تضحیک کی علامت بن چکا تھا۔ یہ ایک غیر معمولی کام تھاجس کے پیچھے بلا شبہ لال خان کی توانائی سے بھر پور غیر معمولی قیادت اور ان کے ساتھ ابتدائی کام کرنے والے کامریڈ سرگرم عمل تھے۔ مارکسیوں کے نزدیک تاریخ میں فرد کا کردار بہت اہم رہا ہے اور بعض اوقات مبالغہ آرائی کی حد تک اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے کہ افراد تاریخ اور تحریکوں کے حوالے اور روحِ رواں بن جاتے ہیں۔ یہ حقیقی معنوں میں تاریخی دھارے کے خلاف لڑائی تھی۔ کامریڈ لال خان اور ساتھی ویرانے میں ایک گمنام آواز تھے جو آج پاکستان میں انقلابی سوشلزم کے حاوی رحجانات بن چکے ہیں۔ افراد بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہو سکتے ہیں۔ لال خان بھی ایسا ہی ایک فرد تھا جس کی صلاحیتوں کو جلا وطنی کی زندگی اور عالمی مزدور تحریک سے شناسائی اور جڑت نے بھرپور توانائی فراہم کی۔ جس کے بلبوتے پر وہ اس رجعتی عہد سے ٹکرا گیا۔ ا س نے پاکستان میں مزدور تحریک اور محروم قومیتوں پر سٹالنزم کے مرحلہ وار انقلاب کے فرسودہ نظریے کے اثرات کے خلاف اکیلے بے رحمانہ لڑائی لڑی۔ یہ نظریاتی لڑائی کا وقت تھا جہاں انقلابی سوشلزم اور نظریہ مسلسل انقلاب پر ایک انقلابی تنظیم کی ٹھوس بنیادیں استوار کرنا عددی بڑھوتری سے زیادہ بڑا اور اہم کام تھا۔ تنظیم اور تحریک کی ٹھوس اور درست بنیادوں کی تعمیر کا وقت تھا جو اب نظریے کے اعتبار سے ناقابلِ تسخیر بن چکی ہیں۔ یہی ایک کارنامہ لال خان کو انقلابی جدوجہد کے روشن آسمان پر ایک چمکتے ستارے کی حیثیت دلانے کے لئے کافی ہے۔

یہ تاریخ کی ستم ظریفی بھی ہے کہ وہ اس عہد میں جدو جہد کر رہے تھے جو انقلابی تبدیلی کے حوالے سے ایک بانجھ عہد تھا۔ اور بلا شبہ عہد کا کردار ایک بہت ہی طاقتور عنصر ہوتا ہے۔ مارکس جیسی دیوہیکل ہستیاں بھی بعض اوقات زوال پذیر عِہدوں میں مجبور ہوتی ہیں لیکن ان کی جدو جہد کا مخصوص عہد کی مناسبت سے تجزیہ کیا جائے تو میرے خیال میں وہ کسی کامیاب انقلاب سے کسی طور بھی کم نہیں ہے۔ ان کی انقلاب کر جانے والی موضوعی شخصیت کی بھر پور توانائی کا بڑا حصہ اس ردانقلابی عہد میں کوئی بڑا واقعہ برپا کیے بغیر ایسے خرچ ہو گیا جیسے گرم لوہا پانی کو بھاپ بنا کر اڑا دیتا ہے۔ یہ ایک اندھے اور مشکل معروض کا جبر تھا جس کے آگے لال خان جیسی بڑی انقلابی شخصیات بے بس تھیں۔

پاکستان جیسے پسماندہ اور نیم رجعتی معاشرے میں انقلابی سوشلزم کے پیغام کو پھیلانا کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا۔ مختلف قومیتوں اور ہمہ گیر ثقافتوں اور روایات کے حامل سماج کے افراد پر مشتمل ایک انقلابی قوت کی تشکیل لال خان کی تنظیمی صلاحیتوں اور قربانی کی ایک زندہ مثال ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پاپولسٹ مظہر کے علاوہ ایسی کوئی مثال پاکستان میں موجود نہیں جہاں ایک شخصیت اپنے انقلابی کردار کی بدولت اس ملک کے محکوم طبقات کی مختلف پرتوں اور قومیتوں کے لئے یکساں قابلِ قبول اور ہر دل عزیز ہو۔ پاکستان جیسے ملکوں میں شخصیت پرستی اور شخصیت کے حاوی کردار کے خطرے کے پیشِ نظر لال خان مسلسل شخصیت پرستی کے خلاف برسرِپیکار رہتے تھے۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے کامریڈوں کو اندازہ ہے کہ انہیں شخصیت سے اندھی عقیدت سے کتنی نفرت تھی۔ انہیں علم تھا کہ ایک انقلابی تنظیم کے لئے یہ کتنی مہلک چیز ہے۔ کامریڈ کی ایک نمایاں خاصیت تھی کہ وہ اپنے ساتھ جڑے مختلف رویوں، عادات و اطوار اور مزاجوں کے حامل افراد سے انہی کے مطابق ڈھل جاتے۔ یہ ایک مشکل اور غیر معمولی کام ہے۔ شاید پاکستان جیسے سماجوں میں تنظیم کی تعمیر کے لئے اس عادت کو ضروری تصور کرتے تھے۔ یہ قربانی اور اپنے آپ کو مٹا دینے والا رویہ اور عاجزی ہے جو کامریڈ لال خان کا بہت سے اہم موقعوں پہ خاصا رہا۔ اگرچہ لال خان کی تعمیر کی ہوئی تنظیم پاکستانی سماج کے حجم کے اعتبار سے اتنی متاثر کن نہیں لیکن اپنے معیار اور نظریات کے پیش نظر استحصال زدہ طبقے کی ہراول پرتوں کے لئے وہ نجات دہندہ تصور ہوتی ہے۔ ان کی وفات پر مجھ سے رابطہ کرنے والے بہت سے ایسے افراد کے تاثرات سے مجھے اندازہ ہوا کہ ہم ایسے کامریڈ سے محروم ہو گئے جو لوگوں میں ہماری توقعات سے کہیں زیادہ انقلابی تبدیلی کا استعارہ تھا۔

کامریڈ لال خان نے انقلاب کا پیغام صرف نظریات کے بلبوتے پر نہیں پھیلایا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ صرف درست نظریات کافی نہیں ہوتے بلکہ ان کو پھیلانے اور لوگوں کو جیتنے کے لئے جرات، عزم اور مستقل مزاجی جیسے رویے زیادہ اہمیت کے حامل بن جاتے ہیں۔ بالخصوص ان ردِ انقلابی اور رجعتی ادوار میں۔ وہ لینن کے اس قول کو اکثر دہراتے تھے کہ تسلسل، مستقل مزاجی اور صبر ایک انقلابی تنظیم کی تعمیر کے لئے کلیدی خاصیتیں ہیں۔ کامریڈ لال خان نے نظریات کو انتہائی آسان بنا کر اس میں جذباتیت اور رومانویت کے پہلو شامل کرنے کا طریقہ کار متعارف کرایا۔ تنظیم کی سالانہ کانگریسوں میں ان کا طریقہ کار اس طرح کامیاب رہا کہ تنظیم موجودہ مقام تک پہنچی۔ وہ نوجوانوں سمیت ہر عمر کے کامریڈوں میں اتنا جوش اور ولولہ بھر دیتے جس سے ردِ انقلابی وقتوں میں آگے بڑھتے جانے کی شکتی اور حوصلہ پیدا ہو سکے۔ میرے خیال میں اس طریقہ کار کے بغیر پاکستان میں بائیں بازو کی اتنی بڑی قوت ایک نمایاں رحجان کے طور پر پروان نہ چڑھ سکتی۔ ان کے سابقہ ساتھی اگرچہ ان سے علیحدگی کے بعد کانگریس کے اس طریقہ کار کو ان کی مخالفت میں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن ایک وقت میں اس کے سب سے بڑے معترف تھے۔

اس سب کے باوجود وہ بھی باقی انسانوں کی طرح بہت سی خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ تھے۔ اپنی زندگی میں مختلف وجوہات کی بنا پر کئی لوگوں میں بے تحاشہ متنازعہ رہے۔ بالخصوص سابقہ بائیں بازو میں وہ اپنے نظریات کی وجہ سے پاکستان کی متنازعہ ترین شخصیت تھے۔ تنظیم کی تعمیر کے دوران مختلف ساتھیوں سے بے پناہ اختلافات بھی رہے لیکن وہ ایک بھاری شخصیت تھے اور تمام تر اختلافات کی شکلیں کم و بیش سیاسی اور تنظیمی تھیں۔ میرا ذاتی مشاہدہ رہا ہے کہ وہ تنظیم کے اداروں اور ان کے فیصلوں کی اہمیت پر بہت زور دیتے تھے۔ کئی مرتبہ وہ اپنی رائے میں اقلیت میں ہوتے۔ اپنی رائے پہ قائل کرنے کی ادارے کے اندر کوششیں کرتے اور یہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ آخر کار اکثریتی فیصلوں کاپھر پوری قوت کے ساتھ اطلاق کراتے۔ مختلف اوقات میں تنظیم کے نازک لمحات میں کیے گئے فیصلوں پر جنگ کی طرح انتہائی جرات سے عملدرآمد کرواتے۔ ان کے نزدیک جمہوری بنیادوں پر کیے گئے فیصلوں کی درستگی یا غلطی کوئی اخلاقیات کا مسئلہ نہیں بلکہ تنظیم کو ایک گومگو کی کیفیت سے نکال کر دوبارہ جدوجہد کے راستے پر گامزن کرنے کا سوال ہوتی ہے۔ اپنے اسی طریقہ کار کی وجہ سے علیحدہ ہونے والے ساتھیوں کے لئے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنے۔ ان کی موت ان سب کو بھی دکھی کر گئی۔ آخر کار وہ اپنی خوبیوں اور خامیوں سمیت انقلابی سوشلزم کے بے لوث علم بردار تھے۔ کامریڈ لال خان نے ہماری نسل کے نوجوانوں کی آنکھوں میں ایک سوشلسٹ سماج کا سپنا سجایا تھا۔ یہ سپنا سوتی آنکھوں نے نہیں بلکہ جاگتی آنکھوں نے دیکھا تھا‘ جس سے ان کے تمام ساتھیوں کی آنکھیں روشن ہیں۔ وہ خواب شاید سوشلسٹ انقلاب کے امکان سے کہیں پہلے سجائے تھے اور اندھیری رات کے پہروں میں انقلابی کارواں کی ہمت اور حوصلے بڑھانے کے لئے ضروری تھے۔ ان کے حصے میں شاید یہی کام تھا جو وہ کر گئے۔ منزل اور راستہ دونوں دکھا گئے۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ اب ہم ویرانے میں گمنام آواز نہیں بلکہ آنے والے کَل کی پکار ہیں۔ اور ہمارا وقت قریب ہے۔ چار دہائیوں کی ان کی محنت سے بنایا ہوا تنظیمی ورثہ ان کے مشن کی تکمیل کے لئے ہمارے پاس ہے۔ اِس خطے اور دنیا بھر میں سوشلسٹ سماج کی تشکیل کی شکل میں کامریڈ لال خان کی یادگار بنائیں گے۔ یہی ان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا حقیقی طریقہ کار ہے۔