قمرالزماں خاں
29 ستمبر 2025ء سے پاکستان کے زیرِ انتظام جموں کشمیر میں عوامی حقوق تحریک کا ایک نیا فیز شروع ہوا۔ جو اپنی نوعیت میں گزشتہ مرحلے کا ہی تسلسل تھا۔ 2023ء کی تحریک نے اپنے دو بڑے مطالبات (آٹے پر سبسڈی اور بجلی کا فی یونٹ تین تا چھ روپے مقرر کرنے) میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اگر پاکستان میں بجلی کے نرخوں کو سامنے رکھا جائے تو تین روپے فی یونٹ پر بجلی حاصل کرنا ایک غیر معمولی کامیابی تھی۔ بلکہ عالمی سطح پر بھی گزشتہ عرصے میں ابھرنے والے تحریکوں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ تحریک بڑی حاصلات جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ تاہم عوامی حقوق تحریک کی قیادت کرنے والی مرکزی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے دیگر مطالبات مذاکرات کے باوجود تعطل کا شکار رہے۔
اسی پس منظر میں ستمبر 2025ء میں تحریک کا نیا مرحلہ شروع ہوا۔ تحریک میں معروضی حوالے سے وہ تمام مادی عوامل موجود تھے جو کسی بڑی عوامی بغاوت کو جنم دیتے اور آگے بڑھاتے ہیں۔ تاہم کشمیر حکومت کے وزرا کے اشتعال انگیز بیانات اور سابق و موجودہ وزرائے اعظم کی دھمکیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ تحریک کو روکنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ مگر عوامی جوش و خروش اور عزم میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ ایک طرف مذاکرات شروع ہوئے تو دوسری جانب 500 سے زائد کشمیری شہریوں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیے گئے۔
کچھ نکات پر ڈیڈ لاک برقرار رہنے کے بعد پاکستانی وفاق کے نمائندے طارق فضل چوہدری و دیگر کے دھمکی آمیز بیانات نے حالات کو مزید خراب کیا۔ دوسری جانب پورے جموں کشمیر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بند کر دی گئی۔ سینکڑوں متحرک کارکنان گرفتار کیے گئے۔ اس جبر نے عوامی اشتعال کو بھڑکا دیا اور یوں پونچھ سمیت کشمیر کے طول و عرض سے مظفرآباد کی جانب لانگ مارچ کی راہ ہموار ہوئی۔
اسلام آباد سے 2 ہزار پولیس اہلکاروں اور بڑی تعداد میں رینجرز کی طلبی اور راستوں میں ریاستی اہلکاروں و مسلم کانفرنس کے غنڈوں کے حملے ریاستی تشدد کے آغاز کا اعلان تھے۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز گردش کرتی رہیں جن میں سردار عتیق کے کارندے کھلے عام فائرنگ کرتے دکھائی دئیے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی بیشتر ریلیاں پُرامن رہیں۔ لیکن 29 ستمبر کو نیلم پل پر پولیس فائرنگ سے ایک نوجوان کی شہادت نے صورتِ حال بدل دی۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ریاستی جبر کے مقابلے میں عوامی اشتعال شدت اختیار کر گیا۔ اسلام آباد سے بھیجے گئے پولیس دستوں کا رویہ درشت اور جارحانہ تھا۔ بعد ازاں کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوارالحق اور وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ”تشدد سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ مسائل کا حل مذاکرات میں ہے۔“ اگرچہ تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
باغ کے ایک مقامی رہنما کے مطابق تحصیل دھیرکوٹ کے نواحی علاقے چمیاٹی کے مقام پر فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ سے کم از کم تین کارکنان اور تین پولیس اہلکار جان سے گئے۔ جبکہ 150 سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ جانی نقصان تحریک کو ایک نیا رخ دینے والا عامل ثابت ہوا۔ تاخیر سے ہونے والے مذاکرات میں حکومت کی نمائندگی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ان رہنماؤں نے کی جنہیں نہ صرف کشمیر بلکہ پاکستان کے عوام بھی مسترد کرتے ہیں۔ عوامی قیادت کے بیشتر اراکین کو مذاکرات میں شریک نہیں ہونے دیا گیا۔ نتیجتاً ایک کمزور، غیر متوازن اور مبہم سا معاہدہ سامنے آیا جس میں کئی نکات کو ”آئندہ مشاورت“ کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
حیران کن طور پر سمجھوتے کا پہلا نکتہ خود ریاستی تشدد کو قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔ یعنی تشدد کے واقعات پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہوں گے۔ خواہ وہ ریاستی اہلکاروں کے ہاتھوں ہی کیوں نہ ہوئے ہوں۔ کیا ریاست اپنے ہی جرم کو تسلیم کرے گی؟ اس سوال کا جواب ان آڈیو ریکارڈنگز میں بھی موجود ہے جو سوشل میڈیا اور واٹس ایپ وغیرہ پر گردش کر رہی ہیں اور جن میں اسلام آباد پولیس کی جانب سے کشمیریوں کے خلاف نسلی بنیادوں پر تشدد کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
یہ وہ موقع ہے جب ہمیں یہ سوال اٹھانا ہو گا کہ اس تحریک نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ اگر سارے مطالبات بھی تسلیم کر لیے جاتے تو کیا کشمیری عوام کے مسائل ختم ہو جاتے؟ جموں کشمیر کا مسئلہ محض آٹے یا بجلی کے نرخوں کا نہیں (اگرچہ یہ بھی اہم مسائل ہیں)۔ بلکہ اس خطے کی تاریخی جکڑ بندی کا ہے۔
تاریخی تناظر
1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے وقت جموں کشمیر اُن بدقسمت علاقوں میں سے تھا جہاں عوامی خواہش کے بغیر طاقت کے زور پر الحاق کا فیصلہ مسلط کیا گیا۔ برطانوی نوآبادیاتی نظام کے تحت جموں کشمیر ایک شاہی ریاست تھی جس میں مہاراجہ کے شخصی راج کے خلاف عوامی بغاوت کو دونوں نومولود ریاستوں نے مداخلت اور قبضے کے ایک موقع کے طور پر لیا۔ اس بغاوت کی آڑ میں پاکستانی ریاست نے قبائلی حملہ آوروں کو جموں کشمیرمیں داخل کر دیا۔ جبکہ بھارت نے مدد کے بہانہ مہاراجہ کو الحاق پر مجبور کیا۔ جو کسی قدر پہلے سے ہی بھارت کے ساتھ الحاق کے لیے راہ ہموار کرنے میں مصروف عمل تھا۔ جغرافیائی، آبی اور تذویراتی بنیادوں پر اس خطے پر قبضے کے حصول کی ان کوششوں نے دو نومولود ریاستوں کے مابین پہلی جنگ کی بنیاد رکھی۔
تب سے لے کر آج تک‘ 78 سال گزر چکے ہیں اور ہر جنگ، ہر بم، ہر میزائل سیز فائر لائن (لائن آف کنٹرول) کے آرپار بسنے والے کشمیریوں کے لہو سے تر ہوتی ہے۔ جبکہ اس تنازعے کو جنگی جنون ابھار کر انڈیا اور پاکستان کے پونے دو ارب انسانوں کے حقیقی مسائل کو دبانے اور ان پر بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام کا جبر مسلط رکھنے کے لیے بار بار استعمال کیا جاتا ہے۔
جموں کشمیر ایک طویل عرصے سے جنگوں اور دو یا تین طرفہ نوآبادیاتی قبضوں کے درمیان پسا ہوا ہے۔ کنٹرول لائن کے دونوں طرف ایک کروڑ 70 لاکھ کشمیری معمول کی زندگی سے محروم ہیں۔ انہیں روزگار کے لیے بڑی تعداد میں ہجرت کرنی پڑتی ہے۔ حتیٰ کہ صرف لاہور میں تقریباً 35 لاکھ کشمیری آباد ہو چکے ہیں۔
طبقاتی تضادات یہاں بھی نمایاں ہیں۔ کشمیر کی اشرافیہ، کاسہ لیس حکمران طبقے میں شامل ہے۔ جب کہ کشمیری مزدور ہجرت، غربت اور استحصال کا شکار ہے۔ آج پاکستان کا تین بار کا سابقہ وزیر اعظم، موجودہ وزیر اعظم اور سب سے بڑے صوبے کی چیف منسٹر کشمیری نسل سے ہیں۔ لیکن خود جموں کشمیر کے عوام بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔
قیادت کا سوال اور جموں کشمیر کی تحریک
تحریک 29 ستمبر کو اپنے عروج پر پہنچ کر بھی ”جیت کر ہارنے“ کا منظر پیش کرتی ہے۔ اس کی وجوہات صاف ہیں۔ دوررس لائحہ عمل کا فقدان، اہداف کا چھوٹا ہونا اور تحریک کا بڑا ہونا۔ دراصل قیادت کا غیر سیاسی و غیر نظریاتی رویہ (جس کا اعتراف وہ بڑے فخر سے کرتے ہیں!) اور درمیانے طبقے کی محدود سوچ تحریک کی توانائی کو مکمل اظہار سے روکتی رہی ہے۔
اہداف کشمیری عوام کی فوری تکالیف پر مبنی تھے۔ جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ مطالبات اُس وقت موثر بن سکتے تھے جب انہیں بڑے سیاسی و طبقاتی مقاصد سے جوڑا جاتا۔
ترقی پسند عناصر کی بڑے پیمانے پر موجودگی کے باوجود قیادت کی جانب سے تحریک کو ”غیر سیاسی“ قرار دینا خود ایک فریب ہے۔ ہر معاشی، سماجی یا قومی جدوجہد اپنی اصل میں سیاسی ہی ہوتی ہے۔ جب کوئی قیادت خود کو غیر سیاسی یا غیر نظریاتی قرار دیتی ہے تو وہ عوام دشمن قوتوں اور حکمران طبقے کی پارٹیوں کو بالادستی کا جواز فراہم کرتی ہے۔
یوں انجمن تاجران کی قیادت کا درمیانے طبقے کا مخصوص کاروباری کردار اور محدود سوچ تحریک کی زنجیر بن گئی۔ ان کے پاس اتنی بڑی عوامی تحریک کی توانائی کو وسیع تر تاریخی و سیاسی افق پر دیکھنے اور انقلابی راستہ دینے کی صلاحیت نہیں تھی۔
ریاستی جبر، پولیس گردی اور ہلاکتوں کے بعد جب ”کمیٹیوں“ پر کمیٹیوں کا کھیل شروع ہوا تو عوام میں یہ احساس گہرا ہوا کہ نظام کی اصلاح نہیں بلکہ تبدیلی درکار ہے۔ بہرحال گزشتہ چند دنوں کی پیش رفتوں کے بعد جموں کشمیر کے عوام‘ بالخصوص تحریک کی ہراول پرتوں میں نئے سوالات اور نئی بحثیں جنم لیں گے۔ جنہیں اپنے پروگرام و لائحہ عمل کے ذریعے صبر اور مستقل مزاجی سے ایڈریس کرنا انقلابیوں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
تحریک کے اسباق اور آگے کا راستہ
یہ تحریک ثابت کر گئی ہے کہ محکوم عوام لڑنے اور جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بھی واضح ہو گیا کہ مروجہ و برسر اقتدار سیاسی پارٹیاں اصل میں سامراجی ریاست و حکمرانوں کی وکیل ہیں‘ عوام کی نہیں۔ گلگت بلتستان کو بھی شامل کیا جائے اس خطے میں تحریکوں کی یہ لہر بتاتی ہے کہ موجودہ نوآبادیاتی‘ سامراجی نظام کو شکست دیے بغیر معاشی، سماجی یا سیاسی آزادی ممکن نہیں ہے۔
جموں کشمیر کے عوام نے ایک بار پھر یہ ثبوت دیا ہے کہ اُن کا سیاسی شعور بلند ہے۔ وہ جدوجہد کرنے اور قربانی دینے کو تیار ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اتنی بڑی عوامی قوت کو بڑے نظریاتی اور انقلابی مقاصد اور ان مقاصد سے مطابقت رکھنے والی سیاسی فارمیشن کی تعمیر سے جوڑا جائے۔
جموں کشمیر سمیت پورا برصغیر سامراجی سرمایہ دارانہ جبر، استحصال اور معاشی زوال سے عاجز ہے۔ ان سماجوں کی نجات طبقاتی جڑت اور انقلابی قیادت کی تشکیل سے ہی ممکن ہے۔ انہی بنیادوں پر اس خطے کو صدیوں کی محرومی، غربت اور غلامی سے نکالا جا سکتا ہے۔ سرمایہ داری کا انقلابی خاتمہ اور برصغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام ہی جنوب ایشیا کے باسیوں کے لیے امن، انصاف اور ترقی کی ضمانت بن سکتا ہے۔
