قمرالزماں خاں
انسانی تاریخ میں موجودہ عہد کئی حوالوں سے نہ صرف منفرد بلکہ بہت گنجلک اور پیچیدہ ہے۔ ماضی کی دہائیوں میں بڑے واقعات اتنے تواتر سے رونما نہیں ہوتے تھے۔ مگر آج ہر روز نئے واقعات کا جنم ہوتا ہے اور بعض اوقات تو وہ اپنی پرکھ کا وقت دیئے بغیر ہی اور نئے واقعات کے پیچھے غائب ہو جاتے ہیں۔ اس وقت کا دوسرا بڑا امتیاز بڑے واقعات کے باوجود معاشروں کی تاریخی پیش رفت میں تعطل ہے۔ سطح کے نیچے تبدیلیوں کا عمل تو مسلسل جاری رہتا ہے۔ لیکن حرکت تیزتر ہونے کے باوجود سفر آہستہ ہونے کا دلچسپ منظر اگر کسی زندہ سماج میں دیکھنا مطلوب ہو تو پاکستان اس کے لئے بہترین جگہ ہے۔ یہاں پچھلی سات دہائیوں میں بہت کچھ بدلا ہے مگر اس کے باوجود بہت کچھ ویسا ہی ہے۔ کیا وجہ ہے؟ یہ جاننا بطور خاص سماجی سائنس اور سیاسیات کے طالب علموں کا بنیادی فریضہ ہوتا ہے۔ معروف سائنس دان آئن سٹائن کے مطابق، ”یہ پاگل پن ہی ہو گا کہ ایک جیسے تجربات کو دہرا کر مختلف نتائج کی امید رکھی جائے۔“ یہ فقرہ آئن سٹائن نے جس بھی تناظر میں لکھا ہو مگر پاکستان کے بحرانوں کو حل کرنے کی حکمرانوں کی کوششوں پر پوری طرح منطبق ہوتا ہے۔ پاکستان کے آج کے حالات اور واقعات نوعیت کے اعتبار سے تو ’موجودہ‘ ہو سکتے ہیں مگر ہیئت کے اعتبار سے ان میں بہت کچھ پرانا ہی ہے۔ پاکستان میں سرکاری پالیسی سازوں اور دانشوروں سے لے کر مروجہ سیاسی پارٹیوں اور مختلف حکمران مکاتب فکر کے ماہرین تک کی اکثریت نے جملہ بحران اور اس کے مختلف پہلوؤں کو ہمیشہ ایک وقتی خرابی کے طور پر دیکھا اور اپنے تئیں اسے حل کرنے کی کوشش بھی کی۔ مگر اگر اس سلسلے میں کچھ دوررس کوششیں کرنے کی سعی بھی کی گئی تو وہ کسی مستقل حل یا استحکام کا باعث نہ بن سکی۔ بلکہ سٹیرائیڈز سے لاعلاج بیماری کے ’علاج‘ کی طرح مرض کی شدت بڑھتی ہی چلی گئی ہے۔ اس وقت یہ معاشرہ جس قسم کے معاشی، سیاسی، قومی اور سماجی بحرانوں کی گرفت میں ہے ان کا جائزہ لینے کے لئے ایک وسیع تر تاریخی نقطہ نظر اور تناظر کی ضرورت ہے۔
جنوب ایشیائی سماجوں کا حقیقی مسئلہ کیا ہے؟ یہ پتا چلانا بہت ضروری ہے۔ تب ہی کوئی حل تجویز ہو سکتا ہے۔ یہ 1980ء کی دہائی تھی جب پاکستان کے بحران اور مسائل کا تجزیہ ایک بالکل مختلف نکتہ نگاہ سے دیکھنے کو ملا۔ گویا نظریاتی حبس کے موسم میں تازہ ہوا کا کوئی جھونکا ہو۔ یہ ایک غیر معمولی تجزیہ و تناظر تھا۔ اس تناظر میں پاکستانی سرمایہ داری کے پیدائشی بحرانوں کو تاریخی حقائق، وجوہات، ارتقا اور مضمرات کے آئینے سے سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس جانچ میں جذباتی اور ہوائی باتوں کی بجائے ٹھوس حقائق کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ تاریخی تضادات اور پاکستانی ریاست کی کیفیت اور حدود کو جانا گیا۔ اس تناظر کے خدوخال اور نکات کو مارکسی سماجی سائنس کے اصولوں کے تحت زیر بحث لایا گیا۔ یہ سارانظریاتی کام یا سٹڈی جس رہنما کی قیادت میں ہو رہی تھی اسے دنیا ڈاکٹر لال خان کے نام سے جانتی ہے۔ اس وقت پاکستان کی کوئی سیاسی پارٹی، رہنما یا سیاسی کارکن ایسا نہیں ہے جو لال خان نام کے اس شعلہ فشاں انقلابی قائد کو نہ جانتا ہو۔ جس کے نظریات، خیالات، تقاریر اور تحاریر آج بھی وہ لائحہ عمل اور طریقے فراہم کرتی ہیں جو شکستہ نظریات، فرسودہ روایات اور متروک سماجی و سیاسی ڈھانچوں کے بوجھ تلے دبے اس معاشرے کا مقدر بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اپنے وجود کا جواز پیش نہ کر پانے والے بائیں بازو کے مختلف رجحانات آج ایک نحیف حالت میں ہی سہی لیکن لال خان کے کام اور سوشلزم کے عظیم نظریات کے دفاع کی چالیس سال پر محیط جدوجہد کی وجہ سے ہی کسی حد تک پنپنے کے قابل ہیں۔ لیکن بند گلی میں کھڑی حکمران طبقے کی سیاست کے پاس مظاہر کو سمجھنے اور سمجھانے کا کوئی متبادل طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ چنانچہ ان میں بھی کوئی سنجیدہ یا تھوڑی بہت ترقی پسند سوچ رکھنے والے لوگ موجود ہیں تو وہ پھر ملکی بحرانوں اور مختلف گنجلک معاشی و سیاسی مسائل کی اساس کو سمجھنے کے لئے لال خان سے رجوع کرتے نظر آتے ہیں۔ لال خان نے اپنی پوری انقلابی زندگی کے دوران ہر سال ’پاکستان تناظر‘ کو نئے اور جامع دلائل، زاویوں اور نکات سے مزین کیا۔ خطے، پاکستانی ریاست، انتظامی ڈھانچوں، قومی مسائل، معیشت، کالے دھن کی سرایت اور دیگر پہلوؤں پر لال خان کے تناظر نے تجزئیے اور لائحہ عمل کے نئے راستوں کا تعین کیا۔ ان مسائل پر حکمران طبقے کے ماہرین کے سطحی اور عارضی آرا اور ٹامک ٹوئیوں کے برعکس لال خان نے ان کی پیدائش کی حقیقی وجوہات اور تاریخی پس منظر کی نشاندہی کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ انقلابی سوشلسٹ پروگرام کیساتھ ان کے مستقل حل کی ناگزیریت کو ٹھوس دلائل سے واضح کیا۔ انہوں نے پاکستان جیسی سابق نو آبادیاتی ریاست کی ناکامی کے تاریخی اسباب کی بنا پر واضح کیا کہ یہاں نہ تو کلاسیکی سرمایہ داری کے اصولوں سے مطابقت رکھنے والی ترقی یافتہ معیشت قائم ہو سکتی ہے نہ یہاں کا حکمران طبقہ جدید سرمایہ دارانہ ریاست قائم کرنے کے قابل ہے۔ مزید برآں انہوں نے ثابت کیا کہ پاکستان میں جدید اور وسیع صنعتی ڈھانچے کی تشکیل، قوموں کے حقوق، صنفی مساوات، مذہبی اقلیتوں اور پسے ہوئے سماجی حصوں کی جنات، زرعی اصلاحات اور زمینوں کی تقسیم اور مذہب کو ریاست سے الگ کرنے جیسے سرمایہ داری کے بنیادی تاریخی فرائض کی تکمیل کے لئے بھی سوشلسٹ انقلاب ناگزیر ہے۔ انہوں نے کشمیر سے لے کر بلوچستان تک ملک کے طول و عرض میں سلگتے قومی مسئلے کی پیچیدگیوں کی وضاحت کی اور اس کے حل کو سامراجی تسلط کے خاتمے اورغیر طبقاتی سماج کی تعمیر کے ساتھ منسلک کیا۔ سامراجی جکڑ بندی، تاریخی تاخیرزدگی اور ریاست کی مخصوص ساخت کی بنا پر پاکستانی معیشت کی پسماندگی اور گراوٹ بھی کامریڈ لال خان کی دلچسپی کا موضوع رہا۔ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کے پیش منظر کو عالمی سرمایہ داری کے بحران، تاریخی استرداد اور زوال کے تناظر میں پیش کیا۔ وہ برملا سمجھتے اور کہتے تھے کہ دنیا کے پیداواری وسائل کو دنیا بھر کے محنت کشوں کی اشتراکی دسترس اور جمہوری کنٹرول میں دیئے بغیر غربت، جنگوں، جبر، استحصال اور پسماندگی جیسے مسائل کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ وہ زمین پر قومی سرحدوں کی شکل میں کھینچی گئی جعلی سامراجی لکیروں کو غیر فطری قرار دیتے ہوئے انہیں استحصال زدہ انسانوں کی یکجہتی اور امن کے خلاف حکمران طبقے کا ایک اہم اوزار اور واردات سمجھتے تھے۔
آج ریاست پاکستان کے گہرے زوال اور سنگین بحران کی نوعیت ہو یا سماجی خلفشار کی انتہائی شکلیں ہوں۔ یہ تمام مظاہر وہی ہیں جن کو چالیس سالوں میں لال خان اور ان کے ساتھیوں کے تجزئیے اور تناظر میں واضح کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ برصغیر کے پونے دو ارب انسانوں کے لئے سوشلسٹ فیڈریشن کی بنیادوں پر ایک متحدہ، سیکولر اور آسودہ حال انسانی سماج کی تشکیل بھی کامریڈ لال خان کا ایک ایسا خواب تھا جو علاقائی تنازعوں، جنگوں، پراکسی جھگڑوں، دہشت گردی، مذہبی بنیاد پرستی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری سے مکمل نجات کا روڈ میپ دیتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ برصغیر (اور اسی تناظر میں دنیا بھر) کی رضاکارانہ فیڈریشن کی تشکیل ہی استحصال کا شکار قوموں کی نجات، ترقی اور برابری کا ایسا نظریہ ہے جو سوشلسٹ خطوط پر استوار ریاست اور معاشرے میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ ایک ایسا سماج جس کی ترقی اور بلندی کے سفر میں استحصال کی بجائے سانجھ، اشتراک اور مشترکہ جدوجہد بنیادی کردا ر ادا کرے گی۔ اشتراکی ترقی کے ثمرات سماج کے تمام حصوں کو ہر قسم کی محرومیوں سے نجات دلانے کا ذریعے بنیں گے۔ لال خان نے صرف نظریاتی ترویج یا بحثوں کے لئے اس سماج کا عرق ریزی سے تجزیہ نہیں کیا بلکہ اس تجزیہ کی بنیاد پر عملی جدوجہد اور لائحہ عمل کو استوار کرنے کے لئے انقلابی پارٹی کی مضبوط بنیادیں بھی رکھیں۔ طبقاتی جدوجہد کے نام سے جس تنظیم کی پرورش اور تربیت ڈاکٹر لال خان نے اپنی زندگی کی چار دہائیوں کی محنت سے کی‘ اس نے تما م تر مشکلات کا سامنا انقلابی تدبر، جرات اور حوصلے سے کیا۔
بہت سے دوسرے انقلابیوں کی طرح کامریڈ لال خان کا جنم بھی ایک نسبتاً مراعت یافتہ گھرانے میں ہوا۔ جس کا سوشلزم اور انقلاب سے کوئی خاص واسطہ نہیں تھا۔ لیکن اس فرسودہ اور انسان دشمن نظام سے بغاوت کی تڑپ نے مخصوص سیاسی اور سماجی مد و جذر کے حالات میں لال خان کو سماج کو یکسر بدل ڈالنے کی جدوجہد کی طرف گامزن کر دیا۔ یہاں لال خان نے مارکسزم کے نظریات سے واقفیت حاصل کی اور سوشلسٹ انقلاب کی تاریخ میں اپنی سیاسی و تنظیمی زندگی کا روشن اور لازوال باب رقم کر دیا۔ انہوں نے سائنسی بنیادوں پر انسانی معاشرے کی حرکیات کا ادراک حاصل کیا اور محنت کش طبقے کی سماج کو بدلنے کی صلاحیت کو ٹھوس نظری اور عملی طریقے سے پرکھا۔ بے شمار نظریاتی وسعت، بلند حوصلے، مستقل مزاجی اور سنجیدگی کے باوجود لال خان کوئی خشک انسان نہیں تھا بلکہ ایک زندہ دل، ہر لمحہ خود کو جدت دینے والی، مطالعے کی شائق، فنون و علوم سے عشق کرنے والی، موسیقی اورکھیل کی دلدادہ، سیاحت اور انقلاب کی آمیزش سے لطف اندوز ہونے والی اور مسلسل تخلیق میں سرگرداں شخصیت کا مالک تھا۔ شعلہ بیان مقرر ایسا کہ الفاظ اپنے تمام تر سحر کے ساتھ اس کے سامنے انتخاب کے لئے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔ دلکش قد و قامت اور وضع قطع والا انسان لیکن سادگی کا پیکر، منافقت اور بناوٹ سے نفرت کرنے والا، اپنے اساتذہ کے احترم میں ہمیشہ دست بستہ مگر خود ایک عاجز اور شفیق استاد، انقلابی ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ زندگی کا حظ اٹھانے، محفلیں سجانے اور محفلوں کی جان بننے کے ہنر میں یکتا۔ لڑائی اس کی سرشت کا لازمی جزو تھی۔ لیکن کمزوروں، محروموں یا اپنوں کیساتھ نہیں بلکہ طاقتور سامراجی حکمرانوں، ان کے سارے نظام اور اس نظام کی دلالی اور گماشتگی میں نظریاتی و سیاسی واردات کرنے والوں کے ساتھ۔ ایسا روشن ذہن تھا جس کا خمیر محنت، امید، کامیابی پر یقین اور جہد مسلسل سے اٹھتا تھا۔ اس کی زندگی کاہر لمحہ اس کی زندگی کے بنیادی مقصد یعنی سوشلسٹ انقلاب کے لئے وقف تھا۔
لال خان کی زندگی کے دوران سے لے کر اس کے جسمانی طور پر بچھڑ جانے کے بعد تک اس کی شخصیت اور نظریاتی میراث پر متعدد سنگین حملے کیے گئے۔ لیکن موقع پرستوں کے یہ وار، سازشیں اور گروہ بندیاں اپنے پست عزائم اور نظریاتی کھوکھلے پن کے سبب فیصلہ کن شکست سے ہم کنار ہوتی چلی گئیں۔ گو لال خان جیسے قد آور انقلابی قائد کی ناگہانی اور نسبتاً جلد وفات برصغیر اور دنیا بھر کے انقلابیوں کے لئے ایک بڑا صدمہ ہے۔ لیکن پھر اس عظیم انسان کی نظریاتی و سیاسی میراث کو لے کر چلنے والے نئی نسل کے انقلابیوں کے لئے یہ ایک چیلنج بھی ہے کہ وہ اپنی سنجیدگی، لگن اور پختگی سے ہر سازش، ردِ انقلابی حملے اور تضحیک کو جھٹک کر انقلابی سفر کی کٹھنائیوں اور مشکلات کا سامنا کریں۔
اِس خطے میں سوشلسٹ انقلاب کوئی ذاتی خواہش یا شوق نہیں بلکہ اربوں مفلوک الحال اور مصیبت زدہ انسانوں کی نجات اور بقا کا واحد راستہ ہے۔ اس حقیقت کو تاریخ نہ صرف ثابت کر چکی ہے بلکہ ہر روز کرتی جا رہی ہے۔ ہم عزم کرتے ہیں کہ وہ سرخ پرچم جو لال خان نے اپنے نظریاتی پرکھوں سے پکڑ کر تاریک ترین وقتوں میں بھی سربلند رکھا‘ اس کی حرمت اور تقدیس کے تقاضوں کو کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے اور دنیا کو بدل دینے کے انقلابی نصب العین پر کسی اور مقصد کو ترجیح نہیں دیں گے۔ ہم بھی وہی کہیں گے جو کامریڈ لال خان کہا کرتے تھے: ”سچے جذبوں کی قسم‘ جیت سوشلسٹ انقلاب کی ہو گی۔“