عمر عبداللہ
جدید ہتھیاروں اور جنگی صلاحیتوں سے لیس چند بین الاقوامی اجارہ داریوں کی محافظ سامراجی ریاستوں کے حلقہ اثر میں بٹی دنیا، جو ایک ایسے عالمی نظام کے تحت چلائی جا ئے جس کا واحد دھرم سرمایہ پرستی اور کل منطق بے رحم مقابلے بازی ہو، جب بھی بحران میں داخل ہو گی تو اس کا جنگی شکلوں میں اظہار ناگزیر ہے۔ اس کی انتہا عالمی جنگ کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے بن جانے سے اگرچہ عالمی جنگ جیسے انتہائی مرحلے میں داخل ہونے کے امکانات کافی کم ہو گئے ہیں لیکن دوسری طرف عالمی سامراجی تضادات نے پراکسی جنگوں کی شکل اختیار کر لی ہے جنہیں ایک لمبے عرصے میں دیکھیں تو پہلی دونوں عالمی جنگوں سے زیادہ خونریز اور وحشیانہ ہیں۔
حوثی باغی
حوثی باغیوں نے چند ماہ قبل انسانی تاریخ میں اپنی نو عیت کا حیران کر دینے والا کام کر دکھایا۔ رومی سلطنت سے لے کر آج تک کی تاریخ میں نیول بلاکیڈ (بحری ناکہ بندی) صرف وہ لگا سکتا تھا جس کے پاس باقاعدہ ڈیب سی نیوی موجود ہو۔ لیکن بحریہ صرف وہ ملک رکھ سکتا ہے جس کے پاس بڑا جی ڈی پی اور وسائل ہوں اور وہ ان کا ایک بڑا حصہ نیوی پر خرچ کر سکے۔ مگر حوثی باغیوں نے سستی ٹیکنالوجی کی مدد سے بغیر باقاعدہ بحریہ کے نیول بلاکیڈ لگا کر جدید جنگ کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے پرسب کو مجبور کر دیا۔ یاد رہے یہاں سستی ٹیکنالوجی سے مراد کم تر درجے کی ٹیکنالوجی ہرگز نہیں ہے بلکہ ہائے ٹیک ٹیکنالوجی جو کموڈیفائی ہو کر نسبتاً سستی ہو چکی ہے۔ مثال کے طور پر حوثی باغیوں کا ڈرون دو ہزار ڈالر کا ہے اور دوسری طرف پنٹاگان والے اس کے گرانے کے لئے جو میزائل استعمال کر رہے ہیں وہ دو ملین ڈالر کا ہے۔ حوثیوں کی پسماندگی ان کے لئے یہاں ایک فائدہ بن گئی اور امریکی کیلکولیٹر لے کر حساب کرنے میں مصروف ہیں۔ کم و بیش اسی طرح کے مسائل انہیں افغانستان میں بھی پیش آئے۔ مثال کے طور پر افغانستان میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم آئس بنانے کی ساری فیکٹریاں اڑا دینگے اور غالباً جہاز سے یا ہیلی کاپٹر سے انہوں نے کئی ملین ڈالر لگا کر وہ ساری فیکٹریاں برباد کر دیں۔ مہینے بعد پتا چلا کہ وہ اتنی سستی تھیں کہ ساری دوبارہ بن گئیں۔ ان واقعات میں یہ سبق بھی ہے کہ جنگوں یا خانہ جنگیوں وغیرہ میں گوریلا وارفیئر جیسے حالات میں نسبتاً کمزور اور غیرمنظم فوجیں بھی ٹیکنالوجی کو بائی پاس کر کے بڑی طاقتوں کے لئے دردِ سر بن جاتی ہیں۔ حوثیوں کا تعلق یمن سے ہے جو جزیرہ عرب کے جنوب میں بحیرۂ احمر کے بالکل دروازے پر واقع ہے۔ یہ نسبتاً ماڈریٹ سوچ رکھنے والا شیعہ گروہ ہے جسے ایران کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ حوثیوں نے غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کے ردعمل میں ان مال بردار جہازوں کو نشانہ بنا نے کا اعلان کیا تھا جو اسرائیل کے لئے سامان لے کر بحیرۂ احمر سے گزریں گے۔ یہ شمال مشرقی افریقہ اور جزیرہ عرب کے درمیان ایک لمبا پٹی نما سمندر ہے جس کے شمالی کنارے پر واقع سویز کنال اسے بحیرۂ روم سے جوڑتی ہے۔ جو جنوبی یورپی ممالک ترکی، یونان، اٹلی، فرانس اور سپین اور شمالی افریقی ممالک مصر، لیبیا، الجیریا اور مراکش کے درمیا ن واقع ہے۔ یہ ایک بہت ہی اہم تجارتی راستہ ہے جس کے ذریعے دنیا کی تقریباً پندرہ فیصد تجارت ہوتی ہے۔ اس سے پہلے یہ راستہ مصر کے جمال عبدالناصر نے سویز کنال برطانوی سامراج سے چھین کر بند کر دیا تھا جس کے نتیجے میں اسرائیل نے مصر پر حملہ کر کے مغربی سامراج کی مشرق وسطیٰ میں گماشتہ ریاست ہونے کا دعویٰ ثابت کیا تھا۔ مشرق کی طرف سے آنے والے جہازوں کے لئے یورپ پہنچنے کا یہ سب سے چھوٹا راستہ ہے اور اس کے بند ہونے کی صورت میں جہازوں کو جنوبی افریقہ میں کیپ آف گڈ ہوپ کا چکر لگا کر یورپ پہنچنا ہو گا۔ جس کا مطلب ہے سفر میں دس دنوں کا اضافہ یعنی تقریباً پچاس فیصد اضافی خرچہ اور سپلائی چین میں دس دنوں کا تعطل۔ حوثیوں کی اس بحری ناکہ بندی کے بعد دنیا کی بیشتر بڑی شپنگ کمپنیوں (جن میں ‘مائر سک’، بلجیم کی ‘ یورناو’، تائیوان کی ‘ ایور گرین ’ اور جرمنی کی ‘ ہاپاگ للویڈ ’ اور ‘بی بی’ جو تیل کی بہت بڑی کمپنی ہے) نے بحیرۂ احمر سے گزرنے کے بجائے جنوبی افریقہ والا راستہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہونے جا رہا ہے کہ جب جہازوں کے کرائیوں، تیل کی قیمتوں اور انشورنس وغیرہ میں مہنگائی کی وجہ سے ویسے ہی اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف یوکرائن اور روس کی جنگ کی وجہ سے یورپ میں پہلے ہی توانائی کا بحران چل رہا ہے اور پھر سپلائی چین میں آنے والا تعطل بھی پیداوار سے لے کر ترسیل اور صارفین تک ہر چیز کو متاثر کرے گا جو پہلے سے موجود مہنگائی کے حوالے سے ایک اور طوفان ثابت ہو گا۔ بالکل ویسے ہی جیسے لاک ڈاؤن کے دوران سپلائی چین کے متاثر ہونے کے بعد مہنگائی کا ایک سیلاب آیا تھا جو ابھی تک پوری دنیا کو متاثر کر رہا ہے۔ یوں تو گلوبل سپلائی چین میں خرابی سے پوری دنیا ہی متاثر ہو گی لیکن یورپ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو گا۔
سعودی عرب
یمن کے شمال میں بحیرۂ احمر کے کنارے جزیرہ عرب کا دوسرا ملک سعودی عرب ہے جو اس راستے پر امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی بھی ہے اور اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنے کی طرف تیزی سے پیش رفت کر رہا تھا کہ 18 اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیل پر کیے گئے حملے کے بعد سارے منصوبوں پر پانی پھر گیا۔ لیکن اس ناکہ بندی پر سعودی عرب کی طرف سے بمشکل ایک زبانی مذمت سامنے آئی ہے۔ سعودی عرب کی خاموشی کی کئی وجوہات ہیں لیکن اسکا خاموش رہنا اور کچھ نہ کرنا امریکہ کے خطے میں کم ہوتے سیاسی اثر و رسوخ کامنہ بولتاثبوت ہے۔ یہ ایک ڈھلتے ہوئے سامراج کا منظر ہے کہ ایک جنگ زدہ ملک کا ایک باغی گروہ اسے چوک میں کھڑا ہو کر آنکھیں دکھا رہا ہے اور اس کا سب سے بڑا حمایتی خاموش تماشائی بنا کھڑا ہے۔ سعودی عرب کی اس واقعہ پر خاموشی کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں بر بریت مچائی ہوئی ہے اور اس کی ذمہ داری کوئی نہیں اٹھانا چاہتا۔ فلسطین میں جنگ بندی کے حق میں ہونے والے حالیہ احتجاج ویت نام کی جنگ کے خاتمے کے لئے کئے جانے والے احتجاجوں کے بعد سب سے بڑے احتجاج ہیں۔ دوسری طرف جہاں امریکہ خطے میں کمزور ہو رہا ہے وہیں چین اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے اور حال ہی میں اس نے انہونی کو ہونی میں بدل کے دکھایا ہے اور سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس میں یمن میں جنگ بندی کی شق بھی شامل ہے۔ تیسری وجہ امریکی صدر بائیڈن ہے۔ جمال خاشقجی کے مسئلے پر بائیڈن نے کافی بڑھک بازی کی تھی جس پر محمد بن سلمان نے کافی برا منایا تھا۔ ویسے بھی جو حالات چل رہے ہیں اور جو آئندہ چند ماہ میں مہنگائی کا نیا طوفان آنے والا ہے بائیڈن کے دوبارہ جیتنے کے امکانات بہت کم ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ ٹرمپ الیکشن جیت جائے گا۔ بشرطیکہ اسے بھی عمران خان کی طرح نا اہل نہ کر دیا جائے۔ بحر حال اگر ٹرمپ واپس آ جاتا ہے تو اسے سعودیوں کو سنبھالنا بہتر طور سے آتا ہے او ردوسری طرف سعودی چینیوں کے ساتھ جتنا بھی فلرٹ کر تے رہیں فی الحال وہ امریکیوں کو بھی چھوڑنے والے نہیں ہیں۔
ایران
اگرچہ ایران براہ راست بحیرۂ احمر پر تو نہیں بیٹھا لیکن حوثی باغیوں کی شکل میں وہ وہاں موجود بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حماس اور حزب اللہ میں بھی ایران کی گہری جڑیں ہیں۔ ایران مشرق وسطیٰ میں چین کاسب سے بڑا اتحادی اور خطے میں امریکی عزائم کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے ایران کو چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی اس عمل میں کھل کے کودنا پڑا ہے۔ جس کی ہمیشہ کی طرح سب سے بڑی وجہ پھر ایران کے اندرونی حالات ہیں۔ ایران کی رجعتی ملاں حکومت داخلی طور پر شدید پریشر کا شکار ہے۔ خصوصاً حالیہ وقت میں جب ایران کے اندر چلنے والی محنت کش طبقے اور خواتین کی تحریکوں نے بظاہر ناکامی کے باوجود ایرانی رجیم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری طرف ایرانی ریاست پر یہ دباؤ بھی ہے کہ آپ دہائیوں سے امریکہ اور اسرائیل دشمنی کا چورن بیچ کر حکومت قائم رکھے ہوئے ہیں لہٰذا اب ان کے خلاف کچھ کر کے بھی دکھائیں۔ اس لئے حالیہ چند مہینوں میں ایران کی طرف سے کاروائیوں میں شدت آئی ہے۔ چاہے وہ شام، عراق اور پاکستان میں براہِ راست حملے ہوں یا پھر پراکسیوں کے ذریعے کاروائیاں۔ دوسری طرف امریکی ریاست کا ایک دھڑا جس میں زیادہ تر ٹرمپ انتظامیہ کے لوگ یا حمایتی ہیں، لگاتار ایران پر مزید سخت پابندیاں لگانے یا حملے کی حد تک جانے کے لئے زور لگا رہا ہے۔ بظاہر تویہ لوگ ایران کے ایٹمی پروگرام کو جواز بناکر یہ ساری واردات کر رہے ہیں لیکن پھر دوسری طرف ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اور اوباما دور کے معاہدے کو جسے ٹرمپ نے منسوخ کر دیا تھا، دوبارہ بحال ہونے سے روکنے کی بھی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ان میں کچھ تو ایسے ناسور ہیں جو ایک طرف اس طرح کی لابیوں کو فنڈ کر رہے اور دوسری طرف سونے کی قیمتوں کے چڑھنے پر جوا لگا کر بیٹھے ہیں۔ جبکہ یہ بھی ایک خیال ہے کہ امریکہ کا رعب اور ہیبت ختم ہو چکا ہے اور ہمیں ایران کو تاراج کر کے پھر سے اپنا دبدبہ بنا نا پڑے گا۔
حال ہی میں شام اور اردن کے بارڈر پر ایک ڈرون حملے میں تین امریکی فوجی مارے گئے جس کی ذمہ داری ایران نے قبول نہیں کی لیکن امریکی صدر بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا، ‘‘میں اس کا ذمہ دار ایران کو ٹھہراتا ہوں اور وہ اس طرح کہ اسلحہ انہوں نے ہی فراہم کیا ہے۔’ـ’ اس پر امریکہ کا رد عمل کیا ہو گا کے جواب میں اسکا کہنا تھا ‘‘ہمارا رد عمل کئی دنوں پر مشتمل ہو گا۔ جس میں ہم متعدد اہداف کو نشانہ بنائیں گے۔ ’ـ’ الیکشن کے پریشر میں بائیڈن سخت پوزیشن لے تو رہا ہے لیکن بائیڈن انتظامیہ اور پنٹاگون دونوں مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر جنگ کھولنے کے فی الحال حامی نظر نہیں آ رہے۔ ایران سے بیک ڈور مذاکرات کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں اور چند ماہ قبل جو بائیڈن نے چینی صدر سے ملاقات میں بھی چین کو ایران کے ساتھ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے امریکہ کے خلاف پراکسی کاروائیاں رکوانے کا کہا تھا۔ ویسے بھی نہ تویہ2003ء ہے اور نہ ہی ایران’ عراق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو غزہ پر زمینی حملہ کرنے سے روک دیا تھا۔ ہاں البتہ پراکسی وار میں دونوں طرف سے شدت آ سکتی ہے اور حال ہی میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی برسی پر ہونے والے خود کش دھماکے جیسے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر ٹرمپ جیت جاتا ہے تو اس کی اسرائیل اور ایران کے معاملے میں اپنی بھی کافی جارحانہ پوزیشن ہے۔ چنانچہ مشرق وسطیٰ میں جاری خونریزی اور امریکی جارحیت بڑھ سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بڑے پیمانے پر جنگ کھولنے کا فیصلہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔
عراق
اگر امریکی سامراج ایران اور اس کی حمایت یافتہ پراکسیوں کے ہاتھوں چوک میں ذلیل ہو رہاہے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا ہے۔ یاد رہے عہد حاضر میں پراکسی وار کی ماں امریکی ریاست ہی ہے۔ جس نے نام نہاد مجاہدین کو افغانستان میں ثور انقلاب اور سوویت یونین کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کیا جس کے بطن سے پھر القاعدہ، طالبان اور پتا نہیں کیا کیا وحشت پیدا ہوئی۔ اس شیطانی حکمت عملی سے خود امریکیوں نے ہی پوری دنیا کو روشناس کرایا ہے۔ بلکہ وطن عزیز کے حکمرانوں کو تو انگلی پکڑ کر سکھایا۔ جب پوری دنیا اسرائیل کی غزہ پرجارحیت کی طرف متوجہ تھی تو امریکی مشرق وسطیٰ کے ان نئے حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک بار پھر عراق کو بیس کیمپ بنانے میں مصروف تھے۔ داعش جس کو کئی سال پہلے ختم کر کے میڈل بھی لے لیے گئے تھے اور جس کا کریڈٹ ٹرمپ اپنی موجودہ انتخابی مہم میں بھی لے رہا ہے ‘اچانک’ دوبارہ نمودار ہو گئی ہے۔ ایک خفیہ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پینتیس ہزار کے قریب داعش کے جنگجو عراق میں موجود تھے جن میں سے پچیس ہزار مارے گئے باقی دس ہزا ر ‘گم ’ہو گئے تھے جو اب پھر سے نمودار ہو رہے ہیں۔
ایک عراقی خفیہ ایجنسی کے افسر کے مطابق 2017ء میں یہ جنگجو شام کی طرف بھاگ گئے تھے۔ پھر 2019ء میں ابوبکر بغدادی کی موت کے بعد عبداللہ قارداش نیا خلیفہ مقرر ہوا اور اس نے از سر نو تنظیم سازی کی اور شام کے بارڈر سے یہ دوبارہ عراق میں داخل ہو گئے۔ ایک اور عراقی ایجنسی کے افسر کے مطابق عراق میں موجود امریکی فوج ان کی بارڈر کراسنگ میں مدد کر رہی ہے۔ اس کا کہنا تھا، ‘‘امریکی عراقی فورسز ’ خاص طور پر پاپولر موبلائزیشن یونٹس پر شیلنگ کر کے داعش کے جنگجوؤں کے لئے راستہ صاف کر رہے ہیں۔’’
ایک عراقی رکن اسمبلی کا کہنا ہے کہ عراق اور سعودی عرب کے بارڈر پر عراق میں حوران ویلی میں داعش کے جنگجو کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور امریکی سرپرستی میں تربیت بھی حاصل کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف آپریشن ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ امریکی فوج ابھی تک عراق میں دراصل داعش کے ہی خلاف لڑنے کا بہانہ کر کے ـ بیٹھی ہوئی ہے۔ حال ہی میں عراقی پارلیمنٹ نے پہلی دفعہ غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے حق میں ووٹ دیا ہے اور وزیر اعظم شیعہ السوڈانی نے انہیں نکل جانے کو بھی کہا ہے۔ جسے امریکیوں نے جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھا۔ بلکہ بجائے انخلا کے پندرہ سو مزید فوجی عراق اور شام بھیج دئیے ہیں۔
داعش نے پورے زور و شور کے ساتھ اپنی کاروائیوں کا آغاز کیاہے۔ عراق میں مارے گئے ایرانی جنرل کی برسی کے موقع پر ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی ہے۔ اس کے علاوہ لبنان، شام، پاکستان، افغانستان اور افریقہ میں ہونے والی نئی کاروائیاں بتا رہی ہیں کہ انہیں پیسہ، تربیت اور نیا خون مل رہا ہے۔ افغانستان میں بھی امریکی فوج کے انخلا اور طالبان کے قبضے کے قریب قریب ہی داعش نمودار ہو گئی تھی اور آنے والے دنوں میں اس کی کاروائیوں میں مزید شدت آ سکتی ہے۔
برکس (BRICS)
اگست 2023ء میں برکس میں کچھ نئے ممبران کا اضافہ ہوا جن کا تعلق مشرق وسطیٰ سے تھا۔ متحدہ عرب امارات اور مصر کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور ایران کا اکٹھے برکس کا ممبر بننااپنے اند ر ایک غیر معمولی بات ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات ان نئے ممبر ممالک کا محل وقوع ہے۔ یہ سب اسی تجارتی راستے کے ارد گرد واقع ہیں جس نے آج کل یورپیوں، امریکیوں اور دیگر اتحادیوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ بحیرۂ احمر کے شمال مغرب میں مصر سویز کنال کو کنٹرول کرتا ہے، شمال مشرق میں سعودی عرب ہے، اسکے نیچے جنوب مشرق میں یمن اور حوثی باغی یعنی ایران ہے۔ لیکن ایک اور ملک اتھیوپیا بھی برکس میں شامل ہوا ہے جو بحیرۂ احمر کے جنوب مغرب میں واقع ہے اور جس کو جمع کر لیں تو پزل پوری ہو جاتی ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے حوثیوں کی کاروائیوں پر سعودی عرب کی محض علامتی مذمت کے علاوہ نہ مصر نے کوئی پوزیشن لی اور نہ ہی اتھیوپیا نے۔ حالانکہ اتھیوپیا کے حوثیوں کے ساتھ مختلف تنازعات بھی موجود ہیں اور اکثران کے سینگ بھی آپس میں پھنسے رہتے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ چین مختلف علاقائی طاقتوں کو اپنے ساتھ ملا کر ا مریکی سامراج کے لئے حالات تنگ کر رہا ہے۔
امریکہ کی حالت اس بوڑھے چوہدری کی سی ہے جس کے رعب اور دبدبے سے کبھی پورا گاؤں سہم جاتا تھا لیکن اب وہ یہ تسلیم نہیں کر پا رہا کہ وہ خاصا ضعیف ہو چکا ہے۔ اگرچہ امریکہ اب بھی دنیا کی سب سے بڑی عسکری اور معاشی طاقت ہے، دنیا کی سب سے طاقتور فوج اس کے پاس ہے، امریکہ کے جی ڈی پی کا حجم آج بھی چین سے بڑا ہے اور اب بھی بڑی حد تک امریکہ کی ٹیکنالو جی پر اجارہ داری قائم ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ چین تمام تضادات اور حالیہ معاشی سست روی کے باوجود ابھر رہا ہے اور امریکہ جس مغربی سرمایہ داری کا باس ہے وہ شدید بحران سے دوچار ہے۔ اس کی کئی مثالیں ہو سکتی ہیں۔ لیکن چینی کمیونسٹ پارٹی کے حالیہ پانچ سالہ منصوبے میں جو اہداف متعین کیے گئے ہیں ان کا جو بائیڈن یا ٹرمپ کی صدارتی مہم کے دوران سامنے رکھے گئے اہداف کے ساتھ تقابلی جائزہ لیں تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے۔ امریکی سفارتی سطح پر بھی ایک بحران کا شکار ہے۔ مسئلہ امریکی صدر کے مودی پر تمام تر دباؤ، جو منت ترلے کی حد تک چلا گیا تھا، کے باوجود یوکرائن کے معاملے پر انڈیا نے اسے کوئی خاص لفٹ نہیں کروائی۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنگ بندی کی قرار داد پر ہوئی ووٹنگ کا نتیجہ ہی دیکھ لیں۔ اگرچہ ہماری نظرمیں چوروں کے اس باورچی خانے کی ان بے معنی علامتی قراردادوں کی جگہ صرف کچرا دان میں ہے لیکن طاقتوں کے توازن کے حوالے سے دیکھیں تو قرارداد کے حق میں صرف دس ووٹ پڑے اور ان میں سے بھی اسرائیل اور ایک آدھ اور ملک کے علاوہ باقی بالکل غیرمتعلقہ ممالک تھے۔ فرانس نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ جرمنی، برطانیہ اور تو اور خود یوکرائن نے بھی ووٹ دینے سے گریز کیا۔ اس صورت حال میں خود یورپ میں امریکی پالیسیوں کو تنقید اور مزاحمت کا سامنا ہے اور پھر اگلا صدر ٹرمپ ہے تو امریکہ کے صورتحال مزید گھمبیر ہو سکتی ہے۔
آج سے کچھ چند دہائیاں پہلے جب سوویت یونین کا انہدام ہوا تو امریکی سامراج نے تو تاریخ کے خاتمے کا ہی اعلان کر دیا تھا۔ لیکن آج حالات اس سامراجی جشن کی جلد بازی اور کھوکھلے پن کو خوب عیاں کر رہے ہیں۔ لیکن پھر سامراج کانام اور جگہ بدل جانے سے سامراجیت ختم نہیں ہو جاتی۔ اس لئے ہماری جدوجہد کا سفر ابھی باقی ہے اور یہ تب تک جاری رہے گا جب تک انسان سامراجیت کی ہر شکل کو شکست دے کر سرمایہ دارانہ غلامی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جان نہیں چھڑا لیتا۔
انتفادہ
یوں تو مشرق وسطیٰ پچھلی دو دہائیوں سے سامراجی جنگوں اور پراکسی تنازعات کا میدان بنا ہوا ہے جس میں اب تک لاکھوں معصوم لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ پورے پورے سماج تاراج کر دئیے گئے ہیں اور ان کے کھنڈرات سے برآمد ہونے والی انسانی ہڈیوں کو دیکھ کر عہد بربریت بھی مہذب لگنے لگتا ہے۔ اس خونریزی کے نئے مرحلے کا آغاز 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے ہوا جس کے بعد سے لے کر اب تک اسرائیلی فسطائی ریاست جدید جنگی آلات کیساتھ غزہ کی پٹی میں محصور لاکھوں بچوں، عورتوں اور بزرگوں کے قتل عام میں مصروف ہے۔ اسرائیلی فورسز اب تک تقریباً تیس ہزار سے زیادہ معصوم شہریوں کو قتل کر چکی ہیں اور ساٹھ ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ جبکہ غزہ کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ دوسری طرف معصوم نہتے شہریوں کے قتل عام کے لئے امریکہ اب تک دس ہزار ٹن کے قریب اسلحہ اور گولہ بارود اسرئیل کو دے چکا ہے۔ اس جنگ کے معاشی، سفارتی اور عسکری مضمرات نہ صرف پورے خطے بلکہ دنیا بھر میں مرتب ہو رہے ہیں۔ جس میں مقامی و عالمی سامراجی قوتوں کا خونی کھیل شامل ہے۔ ایسے میں یہ صورتحال مزید بھڑک بھی سکتی ہے۔
لیکن جہاں پورے مشرق وسطیٰ بلکہ پو ری دنیا پر وحشت اور بربریت کے اندھیرے چھائے ہیں وہیں غزہ کی پٹی سے لے کر لندن تک اور برلن سے لے کر امریکہ تک لاکھوں محنت کشوں اور نوجوانوں نے اس خونریزی کو مسترد کیا ہے اور فلسطینیو ں کے ساتھ طبقاتی جڑت اور یکجہتی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ ان احتجاجوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ویت نام جنگ کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے بعد یہ موجودہ عہد کے سب سے بڑے مظاہرے ہیں۔ دوسری طرف غزہ کی پٹی کے اندر رہ کر محنت کش خواتین اور مردوں بالخصوص نرسز، ڈاکٹروں، پیرا میڈکس، صحافیوں، رضاکاروں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں نے جس جرات، ہمت، حوصلے اور بہادری کا مظاہرہ کیا ہے وہ رہتی دنیا تک انسانوں کے لئے ایک درخشاں مثال اور مشعل راہ ہے۔ ایک انگریز ڈاکٹر جو غزہ میں کام کر رہی تھی سے جب اس کے سٹاف کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ جب ہمیں کیمپ میں شفٹ کیا گیا تو میری آخری بار اپنی ایک ساتھی سے فون پر بات ہوئی۔ اس نے جب ڈاکٹر سے غزہ سے نکلنے کے بارے میں پوچھا تو اس بہادر خاتون نے جواب دیا، ‘‘نہیں! میں اپنے مریضوں کو…اپنے لوگوں کو چھوڑ کر نہیں آ سکتی۔ انہوں (اسرائیلیوں) نے اگر ہمیں مارنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو مجھے اپنے لوگوں ساتھ ان زخمیوں کو بچاتے ہو ئے مرنا منظور ہے۔ـ’ ’ یہ واقعہ سناتے ہوئے وہ زار و قطار رو پڑی اور اس نے کہا کہ جتنی جرات ان لوگوں میں ہے اس کی آدھی بھی مجھ میں آ جائے تو میں خود کو کامیاب سمجھوں گی۔
دوسری طرف خود اسرائیل میں نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف نوجوانوں اور محنت کشوں کے لگاتار احتجاج جاری ہیں۔ پہلا سیز فائر جو کچھ وقت کے لئے ہوا تھا کرنے کے لئے بھی اسرائیلی ریاست تب مجبور ہوئی جب اسرائیل کے اندر احتجاج منظم ہونا شروع ہو گئے۔ یہی وہ باریک نکتہ ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ ریاستیں چاہے وہ بادشاہتیں ہوں، مذہبی ریاستیں ہوں، جمہوریتیں ہوں یا جو بھی ہوں ان کے اپنے اپنے استحصالی و سامراجی عزائم ہیں۔ ان کے نظام کو سوشلسٹ بنیادوں پر اکھاڑے بغیر ان کی وحشت و استحصال سے نجات نہیں مل سکتی۔