اداریہ جدوجہد

دنیا بھر کے سماجوں میں آئے روز ہونے والے بڑے واقعات جہاں ایک معمول میں ڈھل چکے ہیں وہاں انہیں سمجھنے، ان میں ربط تلاش کرنے اور ان کی داخلی منطق دریافت کرنے کے لئے بھی ایک بڑی سوچ اور بڑا اندازِ فکر درکار ہے۔ تجربیت اور ظاہریت پرستی پر مبنی تجزئیے مروجہ طرزِ فکر کی محدودیت اور متروکیت کی غمازی ہی کرتے ہیں اور کوئی سنجیدہ تناظر تخلیق کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں کے حالات نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ انسانیت سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے تحت کیسے ہیجان میں مبتلا ہے اور ایک انقلابی انداز میں اس نظام کا خاتمہ نہ کیے جا سکنے کی صورت میں کیسی اجتماعی بربادیوں سے دوچار ہو سکتی ہے۔ سال 2022ء میں ہونے والی پیش رفتیں بھی اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ گزشتہ سال دنیا بھر میں ایسی بیشتر کیفیات نے جنم لیا جو انسانی سماج کے ارتقا کی عمومی سمت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ مثلاً سری لنکا کا دیوالیہ نکل جانا کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے بلکہ اس مظہر کی غمازی کرتا ہے جس میں آنے والے دنوں میں (پاکستان سمیت) سرمایہ داری کی کئی کمزور کڑیاں ٹوٹنے کی طرف جا سکتی ہیں۔ ان حالات میں سری لنکا میں ایک انتہائی جارحانہ عوامی احتجاجی و انقلابی تحریک کا جنم بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس نے ریاست کی بنیادوں کو ہلا ڈالا ہے اور کئی ہفتوں تک ملک میں ایک سرکشی کی کیفیت موجود رہی ہے۔ اس سے جہاں محنت کش عوام کی سماج کو یکسر بدل ڈالنے کی صلاحیت اور شکتی کا واضح اظہار ہوا ہے وہاں یہ بنیادی مارکسی تھیسس بھی ایک بار پھر درست ثابت ہوا ہے کہ مارکسی پارٹی کی صورت میں ایک انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں عوام کی بغاوت بالآخر ہوا میں زائل ہو جاتی ہے۔ لیکن مسئلہ صرف پسماندہ سماجوں کے عدم استحکام کا نہیں ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی معیشتوں کی دگرگوں کیفیات سیاست میں ہیجان برپا کیے ہوئے ہیں۔ اس کا سب سے واضح اظہار گزشتہ ایک سال کے دوران برطانیہ میں ہوا ہے جہاں یکے بعد دیگرے تین وزرائے اعظم تبدیل ہو چکے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت اپنی اس جنم بھومی میں ہی ایک مذاق بن کے رہ گئی ہے۔ اس ساری کیفیت میں یہ حقیقت کلیدی کردار کی حامل ہے کہ برطانیہ کے فی کس جی ڈی پی میں 2007ء کے بعد کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ یہ پندرہ سال پہلے سے بھی نچلی سطح پر کھڑا ہے۔ دوسرے الفاظ میں لوگوں کا معیارِ زندگی نہ صرف جمود بلکہ کئی حوالوں سے کمی کا شکار ہے۔ اس وقت مہنگائی برطانوی عوام کا ایک سلگتا ہوا مسئلہ بن چکی ہے جس کے گرد ایک کے بعد دوسرے شعبے میں دہائیوں بعد محنت کشوں کی ہڑتالیں ہو رہی ہیں۔ مذکورہ بالا اشارئیے کی روشنی میں دیکھا جائے تو کم و بیش یہی کیفیت جرمنی، فرانس اور سپین سمیت بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہے۔ جس کا اظہار مغربی سماجوں میں بڑھتی ہوئی سیاسی پولرائزیشن کی صورت میں بھی ہو رہا ہے۔ یہ طبقاتی کشمکش کے ابھار کا مکمل نسخہ ہے۔ ایسے میں گزشتہ سال روس کے یوکرائن پر حملے سے جہاں روس یوکرائن تنازعہ ایک بڑے پیمانے پر ابھرا ہے اور دنیا ایک تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر جا کھڑی ہوئی ہے وہاں پہلے سے نحیف عالمی معیشت میں افراطِ زر (مہنگائی) کا مسئلہ بھی شدت اختیار کر گیا ہے۔ یہ جنگ اپنی معاشی زوال پذیری سے بوکھلا چکے امریکی سامراج کی جانب سے مزید عسکری پھیلاؤ اور تسلط کی روش اپنانے اور ایک علاقائی سامراجی ریاست کے حلقہ اثر میں مداخلت سے بھڑکی ہے لیکن اس میں دونوں اطراف سے عام سپاہیوں اور سویلین آبادیوں کی صورت میں محنت کش طبقات کے لوگ ہی مارے جا رہے ہیں۔ دہائیوں کی انسانی محنت سے تعمیر ہونے والا انفرسٹرکچر برباد ہو رہا ہے۔ لیکن امریکی سامراج اگر اس کرہ ارض کی رجعتی ترین قوت ہے تو دوسری طرف پیوٹن آمریت بھی کسی ترقی پسندانہ کردار کی حامل نہیں ہے۔ پیوٹن کو بھی ایسے بیرونی تنازعات کی ضرورت رہتی ہے جن کے ذریعے داخلی سطح پر قومی شاونزم کو ابھارا جائے اور جبر کے جواز پیدا کیے جائیں۔ بالخصوص سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مشرقی یورپ اور وسط ایشیا میں روسی ریاست کا کردار انتہائی جابرانہ اور سامراجی رہا ہے۔ اس تنازعے کے مزید بھڑک جانے کے خوفناک امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ مزید برآں آنے والے دنوں میں امریکی سامراج کی جارحانہ روش ایسی مزید جنگوں کو بھی جنم دے سکتی ہے۔ لیکن اس دوران جہاں سامراجی نظام کی تباہ کاریاں بڑے پیمانے پر محنت کشوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں وہاں جابر ایرانی ریاست کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں 22 سالہ مہسا امینی کے بہیمانہ قتل کے خلاف ابھرنے والی جراتمندانہ عوامی تحریک ایک بار پھر دنیا بھر کے محکوموں اور مظلوموں کے لئے ہمت اور حوصلے کا پیغام بنی ہے۔ ستمبر 2022ء میں شروع ہونے والے یہ مظاہرے ایران میں برسراقتدار ملاں اشرافیہ کی لوٹ مار، جبر، معاشی نابرابری، بیروزگاری اور مہنگائی جیسے سلگتے ہوئے مسائل کے خلاف عوام (بالخصوص نوجوانوں) کے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں اور شدید ریاستی جبر، جس میں ملک کے مختلف حصوں میں سینکڑوں مظاہرین کو دن دہاڑے قتل کیا جا چکا ہے، کے باوجود جاری رہے ہیں۔ ایرانی عوام میں معاشی و سیاسی حالات سے عدم اطمینان اور بے چینی کا اظہار گزشتہ کئی سالوں سے مختلف مسائل کے گرد ابھرنے والی احتجاجی تحریکوں سے ہوتا آ رہا ہے جن میں محنت کش طبقے کے کلیدی حصوں کی ہڑتالیں بھی شامل رہی ہیں۔ لیکن حالیہ تحریک شاید 2009ء کے بعد سب سے بڑی اور زوردار ہے جس سے سری لنکا کی طرح ایران میں بھی ریاست لڑکھڑا کے رہ گئی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ پرانے طریقوں سے اپنا رعب اور تسلط سماج پہ قائم رکھنا ایرانی ریاست کے لئے مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔

گزشتہ برس کا ایک اور اہم واقعہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگریس رہی ہے جس کے ذریعے شی جن پنگ نے نہ صرف اپنے اقتدار کو مزید پانچ سال کی طوالت دی ہے بلکہ پارٹی اور ریاست پر اپنی گرفت کو بھی مضبوط کیا ہے۔ کانگریس کے اختتامی سیشن میں سابقہ پارٹی سیکرٹری اور صدر ’ہو جن تاؤ‘ کا نکالا جانا شی جن پنگ کی جانب سے پارٹی میں اپنے مخالفین کے لئے کھلی تنبیہ کے مترادف تھا۔ یہ درست ہے کہ چین نے گزشتہ تقریباً پانچ دہائیوں کے دوران بے نظیر اور ہوشربا ترقی کی ہے جس میں ریاستی ملکیت اور پلاننگ اہم عنصر کے طور پر شامل رہی ہے اور جس کے مارکسی بنیادوں پر سنجیدہ تجزئیے کا فقدان پایا جاتا ہے لیکن اس دوران چینی سماج میں کئی طرح کے تضادات نے بھی جنم لیا ہے جو گہرے ہوتے جاتے ہیں اور آخری تجزئیے میں چینی معیشت اور ریاست کے اپنے متضاد کردار کی پیداوار ہیں۔ شی جن پنگ حالات کے جبر کے تحت معیشت پر ریاستی کنٹرول بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ ایک اہم سوال ہے کہ پارٹی قیادت پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے درمیان ملکیت کی مروجہ تقسیم اور معیشت میں منڈی و منصوبہ بندی کی قوتوں کے توازن کو کس حد تک بدلنے کی طرف جا سکتی ہے۔ بہرحال شی کے لئے آنے والے سال ماضی کی نسبت کہیں زیادہ کٹھن ثابت ہوں گے۔ ایک طرف مغربی سامراج کے ساتھ معاشی و عسکری تضاد بڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف طبقاتی و علاقائی سطح پر بڑے پیمانے کی معاشی ناہمواری، کرپشن، معاشی شرح نمو میں گراوٹ، ماحولیاتی تباہی اور دیوہیکل اربنائزیشن کے تحت نوجوان اور پڑھی لکھی آبادی کی جانب سے جمہوری آزادیوں کی مانگ اس وقت چین کے اہم ایشوز بن چکے ہیں جو آنے والے دنوں میں دھماکہ خیز انداز میں اپنا اظہار کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں گزشتہ سال عمران خان کی حکومت کا خاتمہ بھی دنیا کے اہم واقعات میں شمار کیا جا سکتا ہے جس سے پاکستانی سرمایہ داری کا عمومی بحران ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ ملک کی معیشت یوں تو ازل سے بحرانات کا شکار رہی ہے لیکن اپنی موجودہ کیفیت میں یہ دیوالیے کے دہانے پہ کھڑی ہے۔ اقتصادی بحران اس قدر گہرا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں اسحاق ڈار جیسے پرانے، جگاڑو اور گھاگ معیشت دان کی خصوصی آمد بھی کوئی خاطر خواہ بہتری لانے میں ناکام رہی ہے۔ قرضے و واجبات ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پہ کھڑے ہیں۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر عملاً ناپید ہیں۔ بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگیاں 60 فیصد برآمدات کو ہڑپ کر رہی ہیں جبکہ یہ شرح 2011ء میں صرف 12 فیصد تھی۔ داخلی آمدن و اخراجات کی صورتحال شاید اس سے بھی بدتر ہے۔ ایسے میں عسکری قیادت کی تبدیلی، جس نے ملک کو ایک خانہ جنگی کے دہانے پہ پہنچا دیا تھا، کے باوجود ریاست تاحال منقسم اور متصادم ہے۔ عمران خان ریاست کے حاوی دھڑے کے لئے ایک مسلسل دردِ سر بنا ہوا ہے۔ یہ سارا سیاسی بحران اور انتشار معیشت کو مزید بربادی کی طرف دھکیلتا جا رہا ہے۔ یہ انتخابات کرواتے ہیں تو مرتے ہیں‘ نہیں کرواتے تو مرتے ہیں۔ دوسری طرف مہنگائی اور بیروزگاری کی ذلتوں میں سسکتے محنت کش عوام کی آہ و بکا کو جنسی سکینڈلوں اور آڈیو/ ویڈیو لیکس کے شور میں دفن کر دیا گیا ہے۔ لیکن اگر غور کریں تو نشے کے عادی ایک جنسی مریض، خود پرست، منافق اور توہمات میں غرق رجعتی ترین انسان کا اس ملک کا وزیر اعظم اور پاپولر ترین لیڈر بن جانا اور پھر اقتدار سے بے دخلی کے بعد ریاست کے ناک میں دم کر دینا واضح کرتا ہے کہ یہ معاشرہ اور نظام کتنی گہری گراوٹ سے دوچار ہے۔ لیکن پھر اس ملک کی نام نہاد لبرل و جمہوری بورژوازی اور محنت کشوں کی روایتی قیادتیں حالات کو نہ صرف اس نہج تک پہنچانے کے جرم میں برابر کی شریک ہیں بلکہ اس بحران سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت سے یکسر عاری اور خصی ہیں۔ ان حالات میں صرف محنت کش طبقہ وہ عامل ہے جو اپنے انقلابی عمل کے ذریعے اس معاشرے کو کسی ترقی پسندانہ تبدیلی کا راستہ دکھا سکتا ہے۔

پاکستان جیسے خطوں میں سرمایہ داری کی تاریخی ناکامی نے نہ ختم ہونے والی معاشی و سماجی اذیتوں کو یہاں بسنے والی نسل انسان کا مقدر بنا دیا ہے۔ لیکن آج اس نظام کے امکانات اپنے آبائی خطوں میں بھی زیادہ امید افزا نہیں ہیں۔ 2022ء میں ترقی یافتہ معیشتوں کی شرح نمو صرف 2.4 فیصد رہی ہے جبکہ ہدف 4 فیصد کا تھا۔ اور یہ کوئی استثنائی صورت نہیں ہے بلکہ 2023ء میں معاشی نمو کے اندازے اس سے بھی کم کے ہیں۔ بلکہ نئے سال میں عالمی کساد بازاری (Recession) کے واضح امکانات موجود ہیں۔ حالیہ عرصے میں سرمایہ داری کے کئی سنجیدہ ماہرین کی جانب سے بھی یہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے کہ بڑے پیمانے کی معاشی نمو کے لئے سائنس، ٹیکنالوجی اور مینجمنٹ میں جدت کے ذریعے پیداواریت میں جس اضافے کی ضرورت ہے‘ وہ مزید ممکن نہیں ہے۔ یعنی کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت وغیرہ بجلی اور سٹیم انجن سے بڑی ایجادات نہیں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں سرمایہ داری ذرائع پیداوار کو ترقی دینے اور معیارِ زندگی میں اضافہ کرنے سے قاصر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ ایک نظام کی تاریخی متروکیت کا اعلان ہے۔ لیکن کوئی بھی متروک نظام خود بخود صفحہ ہستی سے نہیں مٹتا۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک مرتا ہوا نظام پورے سماج کو اپنے ساتھ بربادیوں میں غرق کر دے۔ آج کے عہد میں عالمی جنگ کے ساتھ ساتھ اس کی ایک صورت ماحولیات کی بربادی بھی ہو سکتی ہے جس میں کرہ ارض کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے اور اس نظام کے پالیسی ساز نمائشی قسم کی ماحولیاتی کانفرنسوں کے علاوہ کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ کچھ مہینے قبل سرمایہ داری کے نمائندہ جریدے ’اکانومسٹ‘ نے اپنے ایک خصوصی شمارے میں واضح کیا ہے کہ کرہ ارض کے اوسط درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سنٹی گریڈ تک محدود کرنے کا ہدف ناقابل عمل ہے اور دنیا کو اس سے زیادہ اضافے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اس کا مطلب ایسی ماحولیاتی اور سماجی تباہی ہے جس کا ابھی اندازہ بھی محال ہے۔ یوں اس متروک اور انسان دشمن نظام کے ماہ و سال میں بحرانوں کی ذلتوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن ظلم و استحصال کی یہ نہ ختم ہونے والی ذلتیں محنت کشوں اور محکوموں کو انسانی معاشرے کو یکسر بدل ڈالنے والی بغاوتوں پر بھی اکساتی ہیں۔ ماضی کی طرح یہ بغاوتیں نئے سال میں بھی ابھریں گی اور سوشلسٹ انقلاب کے سفر کے سنگِ میل بنیں گی۔ عالمی سطح پر انہیں یکجا، منظم اور مارکسی پروگرام سے مسلح کرتے ہوئے سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے ہی انسانیت کے لئے ایک محفوظ اور خوشحال مستقبل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔