راہول

بحرالہند میں واقع سوا دو کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والا ملک سری لنکا آج اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ عوام گزشتہ کئی ماہ سے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے شدید لوڈشیڈنگ، ادویات کی کمی اور خوردنی اشیا کی قلت کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عوام کی اکثریت تین وقت کا کھانا کھانے سے محروم ہو چکی ہے۔ غذا اس قدر مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہے کہ لوگ خرید کرنے سے قاصر ہیں۔ ملک کے پیٹرول پمپوں پر ڈیزل دستیاب نہیں ہے جبکہ سرکاری پاور کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ تیل کی عدم دستیابی کے سبب 13 سے 14 گھنٹوں تک بجلی کی لوڈشیڈنگ جاری رہے گی۔

گزشتہ کئی ماہ سے جاری اس بحران میں 12 اپریل کے روز سری لنکا نے ہارڈ ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کو عارضی طور پر معطل کر نے کا اعلان کیا ہے۔ سری لنکن مرکزی بینک کے گورنر کا کہنا تھا کہ ملک کو ایندھن جیسی ضروری اشیا کی درآمد کے لیے اپنے محدود زرمبادلہ کے ذخائر کی ضرورت ہے اس لیے وہ قرضوں کی ادائیگی نہیں کر سکتا۔ گورنر پی نندلال ویرا سنگھے نے مزید اعلان کیا کہ زرمبادلہ کے ذخائر اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ قرض کی ادائیگی کرنا اب ناممکن ہے۔ لہٰذا وہ قرضوں کی تشکیل نو اور ہارڈ ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے یہ اقدام کر رہے ہیں۔

اس کیفیت میں عوام میں گزشتہ کئی ماہ سے صدر راجہ پکسا کی حکومت کے خلاف شدید غصہ پنپ رہا تھا۔ 31 مارچ کی شب حکومت کے خلاف ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین صدر راجہ پکسا کے استعفے کا مطالبہ کرنے لگے۔ یہ لوگ کسی اپوزیشن جماعت کی کال پر نہیں بلکہ خود رو طور پر ان احتجاجوں میں شریک ہوئے تھے۔ کولمبو سے شروع ہوئے مظاہرے چند ہی گھنٹوں بعد ملک کے کئی بڑے شہروں تک پھیل گئے اور حکومت نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔

ایمرجنسی کے باوجود بھی یکم اپریل کو یہ مظاہرے تھم نہ سکے بلکہ مزید شدت اختیار کر گئے۔ دارالحکومت کولمبو میں لاکھوں لوگ حکومت کے خلاف سڑکوں پر تھے۔ مضافاتی علاقوں سے لے کر یونیورسٹیوں کے کیمپسوں تک ہر کوئی صدر کے استعفے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ عوام کے اس پرُ امن احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے پو لیس نے آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا جس کے نتیجے میں صورتحال پر تشدد شکل اختیار کر گئی۔ مظاہرین نے ٹائروں کو نذر آتش کیا جبکہ دارالحکومت کی مرکزی شاہراہ کو بلاک کر دیا گیا۔ اسی دوران فوج کی دو بسوں اور ایک جیپ کو بھی آگ لگا دی گئی جبکہ پولیس پر پتھراؤ کی خبریں بھی رپورٹ کی گئیں۔ پولیس و مظاہرین کے مابین جھڑپوں میں کئی لوگ زخمی ہوئے جبکہ 664 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

مظاہروں کی روک تھام کے لیے حکومت نے فوری طور پر 36 گھنٹوں کے لیے کرفیو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا اور پولیس و فوج کے دستے شہروں میں گشت کرنے لگے۔ مگر سڑکوں پرسکیورٹی فورسز کی بھاری نفری بھی عوام کے حوصلوں کو نہ توڑ سکی جبکہ آنسو گیس اور واٹر کینن سمیت پولیس کاہر ہتھکنڈا انہیں منتشر کرنے میں ناکام رہا۔ حکومت کے کرفیو کے اعلان کے بعد ہزاروں کے مظاہرے لاکھوں میں تبدیل ہو گئے اور لوگ اپنے نومولود بچوں سے لے کر بوڑھے ماں باپ تک اس حکومتی جبر اور معاشی استحصال کا انتقام لینے کے لئے سڑکوں پر ڈٹے رہے۔

اگلے روز حکومت نے ملک بھر میں مواصلاتی نظام کو بھی جام کر دیا اور اُن تمام موبائل ایپس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بلاک کر دیا گیا جن کی مدد سے لوگ اکھٹے ہو رہے تھے۔ حکومت کے ان تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود بھی وہ احتجاجوں کے اس سلسلے کو نہیں روک سکے۔ کولمبو سمیت ملک کے کئی شہروں میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے احتجاج ریکارڈ کیے گئے جس کے نتیجے میں کئی حکومتی وزرا نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا جبکہ تادم تحریر صدر راجہ پکسا ڈھٹائی کے ساتھ اپنے عہدے پر قائم ہے۔ جبکہ اس کے خلاف عوامی احتجاجوں کا سلسلہ بھی اب تک جاری ہے جو آنے والے دنوں میں پھیل بھی سکتا ہے۔

2009ء میں طویل خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد سے لے کر اب تک سری لنکا راجہ پکسا خاندان کے زیر تسلط ہی رہا ہے۔ سامراجی اداروں کی آشیرباد رکھنے والا یہ خاندان سری لنکا کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ نہ صرف ان کی کرپشن نے معاشی طور پر ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے بلکہ گزشتہ کئی سالوں سے یہ خاندان یہاں مسلسل آئینی بحرانات اور جمہوری قدغنوں کا باعث بنتا رہا ہے۔ اس خاندان کی حکومت کے دوران چین نے سری لنکا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جس میں گمان کیا جاتا ہے کہ راجہ پکسا حکومت نے بھاری کمیشن خوری کی۔ ’ہمبن توتا‘ بندرگاہ نہ چلنے کے باعث بعد میں اسے قرضوں میں معافی کے عوض 99 سال کی لیز پر چین کو سونپ دیا گیا۔

اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی بڑے پیمانے پر کرپشن اور بھاری کمیشنوں کے ذریعے یہ خاندان خود کو نوازتا رہا اور ان کی دولت میں اضافہ ہوتا رہا۔ موجودہ سیٹ اپ میں گوٹا بایا راجا پکسا ملک کا صدر، اس کا بڑا بھائی مہندر راجہ پکسا وزیر اعظم، چھوٹا بھائی باسل وزیر خزانہ، بڑا بھائی چمل وزیر زراعت جبکہ اس کا بھتیجا نمل کھیل کا وزیر ہے۔ یہی سبب ہے کہ موجودہ مظاہروں اور تحریک کا مطالبہ راجہ پکسا کا استعفیٰ ہے جوکہ عوام میں اس خاندان کے خلاف پلنے والی نفرت کا واضح اظہار ہے۔

موجودہ صدر 2019ء میں ”مہنگائی کے خاتمے“ کے پروگرام سے برسر اقتدار آیا تھا۔ اقتدار سنبھالتے ہی اُس نے ’VAT‘ کی شرح کو 15 فیصد سے کم کر کے 7 فیصد کر دیا جبکہ سالانہ ٹیکس دینے والوں کی آمدنی کی حد کو 5 لاکھ سری لنکن روپوں سے بڑھا کر تیس لاکھ روپے کر دیا گیا۔ راجہ پکسا کی ان پالیسیوں کے نتیجے میں بجٹ خسارے میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا اور حکومتی اخراجات پورے کرنے کے لیے نوٹ چھاپنے کی پالیسی کا بے دریغ استعمال کیا گیا جس سے کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی ہونا شروع ہو گئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف سال 2021ء میں 1.2 ٹریلین روپوں کے نئے نوٹ جاری کیے گئے جو کہ کُل سری لنکن جی ڈی پی کا 12 سے 15 فیصد بنتا ہے۔

روپے کی گرتی قدر کے باوجود حکومت کی جانب سے امریکی ڈالر کو مسلسل پانچ ماہ تک مصنوعی طور پر 200 سری لنکن روپے پر قائم رکھا گیا جس کے نتیجے میں ڈالر کے ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہونے لگی۔ مرکزی بینک کے مطابق مارچ 2021ء تک سری لنکا کے ڈالر ذخائر 150 ملین ڈالر تک سکڑ چکے تھے جبکہ اس وقت ایک امریکی ڈالر 315 سری لنکن روپوں میں فروخت کیا جا رہا ہے۔

2019ء میں ایشیائی ترقیاتی بینک کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سری لنکن معیشت کو ایک ایسا بحران لاحق ہے جس میں ایک طرف ریاستی اخراجات میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے جبکہ دوسری طرف قومی آمدنی تیزی سے سکڑ تی جا رہی ہے۔ انہوں نے سری لنکن معیشت کو ’دوہرے خسارے کی معیشت‘ (یعنی معیشت کے داخلی و خارجی دونوں شعبوں میں خسارہ) قرار دیا جبکہ تمام تر عالمی ادارے اس دوران گہرے ہوتے معاشی بحران کا اندیشہ ظاہر کرتے رہے۔ مگر اس کے باوجود بھی نہ صرف بجٹ کا خسارہ بڑھتا چلا گیا بلکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ معاشی ماہرین کے مطابق گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر آنے والی حکومت کی معاشی بد انتظامی اور تاریخی نااہلی نے موجودہ بحران کو سنگین سے سنگین تر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

اسی کے ساتھ ساتھ موجودہ سنگین معاشی حالات کی ایک اہم وجہ کورونا وبا کے سبب لگائی جانے والی پابندیاں بھی ہیں۔ عالمی طور پر تجارتی سرگرمیوں میں بندش کے سبب جہاں برآمدات میں تیزی سے کمی واقع ہوئی وہیں سفری پابندیوں نے سیاحت کی صنعت کو شدید نقصان پہنچایا۔ سیاحت کی صنعت یہاں کے جی ڈی پی میں 13 فیصد حصہ رکھتی ہے مگر وبا کے بعد اس میں بہت کمی دیکھی گئی۔ غیر ملکی کرنسی کے حصول کے ان اہم ترین شعبوں میں گراوٹ کے سبب ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے سکڑنے لگے۔ صرف گزشتہ دو سالوں میں ان ذخائر میں 70 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے جو کہ سری لنکن تاریخ کی اب تک کی کم ترین سطح ہے۔

کورونا وبا کی پابندیوں کے بعد ابھی معاشی سرگرمیاں شروع ہی ہوئیں تھیں کہ راجہ پکسا حکومت نے 2021ء میں ”آرگینک فارمنگ“ کے نام پر تمام کیمیکل کھادوں پر بھی اچانک پابندی عائد کر دی جس کے نتیجے میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ چاول کی کاشت میں پچاس فیصد کی شدید کمی دیکھی گئی۔ چاول کی کاشت میں اس کمی کے باعث ملک میں پہلی مرتبہ برما سے چاول درآمد کرنے پڑے۔ حکومت پر شدید تنقید کے بعد یہ پابندی جلد ہی ختم کر دی گئی مگر اس فیصلے کے نتیجے میں برآمدات کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا جبکہ درآمدات بڑھتی گئیں۔ اس کے علاوہ سری لنکا کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر گھرانوں کا گزر بسر کاشتکاری کے ذریعے ممکن ہوتاہے لیکن حکومت کی ان پالیسیوں کے سبب دیہی و شہری علاقوں میں غربت میں اضافہ ہوتا چلا گیا جبکہ مسلسل مہنگائی نے محنت کش گھرانوں کا جینا محال کر دیا۔ صرف گزشتہ چھ ماہ میں خوراک کی قیمتوں میں تقریباً 30.2 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ پیٹرولیم مصنوعات 43.5 فیصد تک مہنگی ہو چکی ہیں۔ یونیسف کے مطابق شہری آبادی کی آمدنی میں 37 فیصد گراوٹ جبکہ دیہی آبادی کی آمدنی میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

اب حکومت کے پاس تیل، گیس، غذا اور یہاں تک کہ ادویات بھی درآمد کرنے کی سکت نہیں رہی ہے۔ ہسپتالوں میں آپریشن روک دئیے گئے ہیں کیونکہ جان بچانے والی ادویات نہیں ہیں۔ کاغذ کی عدم دستیابی کے سبب اسکولوں میں امتحانات منسوخ کر دیئے گئے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر محض 500 ملین ڈالر ہی بچے ہیں جبکہ بلومبرگ کے مطابق صرف رواں سال سری لنکا کو 8.6 بلین ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کرنی تھی۔ جبکہ اس سال جولائی تک انہیں عالمی بانڈز کی مد میں ایک بلین ڈالر کی فوری رقم درکار ہے۔ 81 بلین ڈالر کا جی ڈی پی رکھنے والے اس ملک کا کُل بیرونی قرضہ 51 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو کہ اس کے جی ڈی پی کا 79 فیصد ہے۔ لہٰذا اس کیفیت میں اس کی معیشت کا دیوالیہ ہونا ناگزیر تھا۔

مرکزی بینک کے گورنر کے مطابق آنے والے ہفتے میں وہ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کے پروگرام پر بات چیت شروع کرنے والے ہیں جبکہ چین سے بھی مزید 2.5 بلین ڈالر کا قرض لیے جانے کا امکان ہے۔ ہندوستان بھی اس ضمن میں ایک بلین ڈالر کی پیش کش پہلے ہی کر چکا ہے مگر اُن کا زیادہ اسرار کیش کے بجائے ادویات اور ایندھن کی صورت میں یہ امداد فراہم کرنے پر ہے۔ آنے والے عرصے میں اگر آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی ممکنہ ڈیل ہو بھی جاتی ہے تب بھی حالات میں کوئی خاطر خواہ بہتری کے امکان نہیں۔ بلکہ یہ مالیاتی ادارے عوام کے مزید استحصال اور غربت کا باعث بنیں گے۔ اسی طرح اس نظام میں کسی نئے حکومتی سیٹ اپ کی تشکیل کی صورت میں بھی یہی پالیسیاں جاری رہیں گی۔

یہ تمام تر صورتحال واضح کرتی ہے کہ نیو لبرل اکانومی پر مبنی سرمائے کے اس نظام میں رہتے ہوئے کسی بہتری کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ پسماندہ ممالک میں پرانے قرضوں کو ادا کرنے کے لیے نئے قرضوں کا حصول ہی اس نظام کی اساس ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے ان حکمران کمیشن ایجنٹوں کے ذریعے کبھی ”امداد“ کے نام پر تو کبھی ”بیل آؤٹ“ کا جھانسا دے کر سالوں سے یہاں بسنے والے کروڑوں محنت کشوں کا لہو چوس رہے ہیں۔ ان حالات میں حکمران طبقات اپنے مفادات کی اس جنگ میں عوام کو لسانی و قومی تعصبات کے گرد تقسیم کرنے کی بھیانک کوششیں پہلے بھی کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔

موجودہ تحریک کو زائل کرنے یا کچلنے کے لیے بھی ہر قسم کا حربہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تحریک کا آغاز بظاہر خود رو طور پر ہوا مگر مختلف رجحانات کے حامل لوگ‘ خاص طور پر اپوزیشن جماعتیں اب اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ اپوزیشن کی ان پارٹیوں کے پاس موجودہ بحران سے نکلنے کا نہ کوئی پروگرام ہے نہ ہی حل۔ بایاں بازو بھی تاریخی کمزوری اور زوال پذیری کا شکار ہے۔ ایسے میں کسی حقیقی انقلابی قوت کی عدم موجودگی میں فوری مطالبات پر مبنی تحریکوں کی کامیابی کے امکانات بہت محدود ہو جاتے ہیں۔ مگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تویہ ملک محنت کش طبقے کی عظیم جدوجہد اور بائیں بازو کی انقلابی سیاست کی روایات کا امین بھی رہا ہے۔ بالخصوص لنکا سما سماجا پارٹی (LSSP) کی ایک زمانے میں بہت وسیع عوامی بنیادیں ہوا کرتی تھیں۔ نوجوان نسل میں آج بھی اس نظام کے خلاف شدید غصہ پل رہا ہے۔ہم سمجھتے ہیں سری لنکا کے اس دیوالیے کا جو حل اس نظام میں موجود ہے وہ محنت کش عوام کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔ جس طرح پہلے یونان میں کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی کٹوتیوں کی صورت میں سری لنکن عوام کو دہائیوں تک شدید تنگی، مہنگائی اور بیروزگاری کی زندگی گزارنی پڑے گی جس سے جنوب ایشیا کے اس نسبتاً خوشحال سماج کا بیڑا غرق ہو جائے گا۔ اور اس سب کے باوجود بھی قوی امکان یہی ہے بحران ٹلتا رہے گا‘ حل نہیں ہو گا۔ سری لنکا کے مارکسسٹوں کو ان حالات میں جاری احتجاجی تحریک میں بھرپور مداخلت کرتے ہوئے ایک آئی ایم ایف، سامراج اور سرمایہ داری مخالف پروگرام پیش کرنا چاہئے جس میں بیرونی قرضوں کی ضبطی اور تمام بینکوں سمیت سارے مالیاتی شعبے کی نیشنلائزیشن کلیدی نکات ہوں۔ اسی صورت میں اس بحران کو ایک انقلابی انداز میں حل کیا جا سکتا ہے اور محنت کش طبقے کو طویل عرصے کی اذیت ناک کٹوتیوں سے بچایا جا سکتا ہے۔ سری لنکا میں احتجاجی تحریک اگر پھیل کر ایک انقلابی پروگرام کے تحت اس نظام پر گہری ضرب لگانے کے قابل ہوتی ہے تو اس کے مثبت اثرات پورے جنوب ایشیا پر مرتب ہوں گے۔