کشمیر (بدر رفیق) جے کے این ایس ایف (جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن) اور آر ایس ایف (ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ) کے زیر اہتمام پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں تین روزہ یوتھ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ موسم گرما 2022ء کا مارکسی سکول 12، 13 اور 14 اگست کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے ضلع پونچھ کے صدر مقام راولاکوٹ شہر سے 3 کلو میٹر مشرق کی جانب واقع سیاحتی مقام میں منعقد کیا گیا۔ مارکسی سکول میں پاکستان بھر سے آر ایس ایف اور زیر انتظام جموں کشمیر سے این ایس ایف کے 250 سے زائد نوجوانوں نے شرکت کی جن میں 35 خواتین بھی شامل تھیں۔ تین روزہ مارکسی سکول میں شرکت کے لئے 11 اگست کی شام ملک بھر سے سینکڑوں میلوں کا سفر طے کر کے کامریڈز راولاکوٹ پہنچے۔ 12 اگست کی صبح سکول کا باضابطہ آغاز کیا گیا۔ پہلے دن دو ایجنڈوں پر بحث کی گئی۔ دوسرے دن ایک ایجنڈا پر بحث کے بعد سیاحتی سرگرمی اور این ایس ایف کا مرکزی اجلاس منعقد کیا گیا جبکہ تیسرے اور آخری دن ایک ایجنڈا پر بحث ہوئی۔ اس طرح مجموعی طور پر 4 موضوعات زیر بحث آئے ۔ جبکہ ان مباحثوں کے علاوہ سیاحتی مقام کی سیر اور ثقافتی سرگرمیاں (مشاعرہ و موسیقی) بھی سکول کا حصہ رہے۔

12 اگست کی صبح ناشتے کے بعد تین روزہ مارکسی سکول کا باضابطہ آغاز کیا گیا۔ این ایس ایف کے سابق صدر راشد شیخ نے پاکستان بھر سے آئے انقلابی نوجوانوں کو خوش آمدید کہا۔ راشد شیخ نے ابتدائی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج سے سو سال قبل سوویت یونین کی باضابطہ بنیاد 1922ء میں لینن کی قیادت میں رکھی گئی تھی اور اس لیے آج سو سال مکمل ہونے پر اس سکول کو سوویت یونین کی سالگرہ کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے۔ ابتدائی کلمات میں انہوں نے گزشتہ عرصے میں بچھڑ جانے والے این ایس ایف کے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر کامریڈ عثمان عزیز اور انصر منارف سمیت دیگر ساتھیوں کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ بچھڑ جانے والے کامریڈز کی جدوجہد کو نہ صرف یاد رکھا جائے گا بلکہ اسے زندہ رکھتے ہوئے آگے بڑھا نے میں یہ سکول اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔

پہلے دن کے پہلے سیشن کے چیئر کے فرائض آر ایس ایف کراچی کے جنرل سیکرٹری حاتم خان نے ادا کیے جبکہ ’بحرانات و تحریکوں میں گھری آج کی دنیا‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والے اس سیشن میں این ایس ایف جامعہ پونچھ کے چیئرمین مجیب خان نے بحث کا آغاز کیا۔ اپنی لیڈ آف میں مجیب خان نے موجودہ عالمی معاشی، سیاسی، ماحولیاتی اور سماجی صورتحال پر سیر حاصل گفتگو کی۔ مجیب خان نے اپنی لیڈ آف میں عالمی معیشت کی زوال پذیری کے اثرات کے طور پرعالمی پراکسی جنگوں (بالخصوص روس یوکرائن جنگ)، کمزور معیشتوں کے دیوالیہ پن، انتشار، ماحولیاتی تباہیوں، تحریکوں اور پاکستان و زیر انتظام علاقوں میں موجود معاشی، سیاسی و سماجی عدم استحکام، سیلاب کی تباہ کاریوں سمیت دنیا بھر میں جاری دیگر بحرانات و تحریکوں کے پس منظر، محرکات اور مستقبل کے امکانات پر تفصیلاً روشنی ڈالی۔ اسی کے ساتھ کشمیر کی حالیہ تحریک، پاکستان کی سیاسی و سماجی کیفیت، سری لنکا میں جاری بحران و تحریک اور افغانستان کے تناظر پر بھی تفصیلی بحث رکھی۔ لیڈآف کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور عروبہ ممتاز، نواب چانڈیو، اکرم مصرانی، علی تراب، عبدالرحمان، علیزہ اسلم، ارسلان شانی، فائزہ خان، عامر وزیر اور عمران کامیانہ نے بحث میں حصہ لیا جبکہ سیشن کے اختتام پر خکلہ باچا نے سوالات کی روشنی میں تمام تر بحث کو سمیٹا۔

سکول کے پہلے ہی دن دوپہر کے کھانے کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز کیا گیا۔ دوسرے سیشن میں عمران کاسی نے چیئر کے فرائض سر انجام دئیے جبکہ ’مارکسزم کا فلسفہ‘ پر عمارہ ضیا نے بحث کا آغاز کیا۔ عمارہ نے اپنی لیڈ آف میں فلسفے کے تاریخی پس منظر، آغاز، فلسفہ کی ضرورت و اہمیت اور اس کے ارتقا سمیت مارکسی فلسفہ کے بنیادی اجزا اور جدلیاتی مادیت کے قوانین پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ عمارہ ضیا کے علاوہ مارکسی فلسفہ کے موضوع پر بینش کاظم، عمیر خورشید، راہول ڈیسر، حاتم خان، رحمان مانی اور آصف رشید نے بحث میں حصہ لیا۔ اس دوران سوالات کا سلسلہ بھی جاری رہا اور آخر میں سیشن کی بحث کو سہیل چانڈیو نے تمام تر سوالات کی روشنی میں سمیٹتے ہوئے پہلے دن کے دوسرے اور آخری سیشن کا باضابطہ اختتام کیا۔

13 اگست کی صبح ناشتے کے بعد سکول کے دوسرے روز کے واحد اور مجموعی طور پر تیسرے سیشن کا آغاز کیا گیا۔ ’عہد حاضر میں سامراجیت‘ کے موضوع پر منعقدہ اس سیشن میں چیئر کے فرائض عابد نے ادا کیے جبکہ بحث کا آغاز آر ایس ایف شمالی پنجاب کے آرگنائزر عمر عبداللہ خان نے کیا۔ عمر عبداللہ نے اپنی لیڈ آف کے دوران سرمایہ داری کے مختلف مراحل، قومی حدود میں آزاد مقابلہ بازی، اجارہ داری، قومی حدود کو پھلانگ کر نو آبادیاتی قبضے، سامراجیت اور بالخصوص سرمایہ دارانہ سامراجیت کی جدید ترین شکل اور طریقہ ہائے کار پر تفصیلاً روشنی ڈالی۔ جبکہ سامراجیت کی ہر شکل پر تنقید کرتے ہوئے اس کے مستقبل کے امکانات اور اس کے خلاف تحریکوں کے کردار کی مفصل وضاحت کی۔ سوالات کے سلسلے کے ساتھ ہی راجیش کمار، مسعود، انعم اختر، لقمان، معیز اختر، صائمہ بتول اور علی تراب نے بحث میں حصہ لیا جبکہ آخر میں عمران کامیانہ نے تمام تر سوالات کی روشنی میں بحث کو سمیٹتے ہوئے دوسرے دن کے واحد سیشن کا باضابطہ اختتام کیا۔

دوسرے روز دوپہر کے کھانے کے بعد ملک بھر سے آئے نوجوان کامریڈز نے مشترکہ سیاحتی سرگرمی کے لئے 25 کلو میٹر مشرق کی جانب سطح سمندر سے تقریباً 9 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع خوبصورت سیاحتی مرکز تولی پیر کادورہ کیا۔

دوسرے ہی روز شام 5 بجے مرکزی صدر خلیل بابر کی زیر صدارت این ایس ایف کے مرکزی اجلاس کا انعقاد بھی کیا گیا۔ اجلاس میں تعلیمی اداروں کے انفراسٹرکچر کی تعمیر سمیت طلبہ حقوق کی بحالی کے لیے ملک گیر مہم کے آغاز کا اعلان کیا گیا۔ اس مہم کے دوران مجموعی طور پر 7 کنونشنز منعقد کروانے کا فیصلہ کیا گیا جن میں 4 ضلعی کنونشنز، 1 برانچ کنونشن، 2 تعلیمی اداروں کے کنونشنز کی مہم کو طلبہ حقوق اور تعلیمی اداروں کے انفراسٹرکچر کی تعمیرکے حوالہ سے منسوب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ این ایس ایف کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ میں باغ کے ضلعی کنونشن کی حتمی تاریخ 24 ستمبر مقرر کی گئی۔ طلبہ حقوق و تعلیمی اداروں کے بنیادی ڈھانچے سے منسوب کردہ ملک گیر مہم میں شامل دیگر سرگرمیوں میں ضلع مظفر آباد، ضلع پونچھ، ضلع سدھنوتی، ضلع کوٹلی اور راولپنڈی برانچ سمیت جامعہ پونچھ اور ڈگری کالج ہجیرہ کے کنونشنز کے انعقاد کے اہداف بھی طے کر لیے گئے۔ اس مہم کے دوران 7 کنونشنز کے علاوہ این ایس ایف کے آئین و منشور کی از سر نو اشاعت، جواں نسل کے انقلابی شعور کے ترجمان ’عزم‘ کی اشاعت سمیت پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں موجودہ تحریک پر مزید لٹریچر کی اشاعت کے اہداف بھی مقرر کیے گئے ہیں۔ اس اجلاس میں مرکزی صدر خلیل بابر، سیکرٹری جنرل باسط ارشاد، ایڈیٹر عزم بدر رفیق، ڈپٹی آرگنائزر ارسلان شانی، چیئرمین سٹڈی سرکل ڈاکٹر سعد الحسن، جوائنٹ سیکرٹری انعم اختر، چیئرمین مالیاتی بورڈ دانش یعقوب، ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجیب اکبر، ضلعی چیئرمین سبحان عبد المالک ممبر سی سی عبد القادر، سابق عہدیداران میں سے سابق مرکزی صدر بشارت علی خان اور سابق چیف آرگنائزر تیمور سلیم، صائمہ بتول، وقاص بشیر، شاہزیب خان، اسرار شبیر، ماجد خان، فائزہ خان، فیضان طارق کے علاوہ تعلیمی اداروں کے نمائندگان مجیب خان، علیزہ اسلم، عادل خان، عبد الوہاب، دانش فدا، حنان بابر، سیف اللہ، اذان علی، مونی خان اور مریم خان سمیت متعدد نوجوانوں نے شرکت کی۔

سکول کی تیسری صبح کو بعد از ناشتہ مجموعی طور پر سکول کے چوتھے اور آخری سیشن کا آغاز کیا گیا جس میں چیئر کے فرائض این ایس ایف راولپنڈی برانچ کے آرگنائزر معیز اختر نے ادا کیے۔ اس سیشن کا موضوع ’نوجوانوں میں انقلابی کام کی حکمت عملی‘ تھا جس پر آر ایس ایف کے مرکزی آرگنائزر اویس قرنی نے اپنی لیڈ آف کے ذریعے بحث کا آغاز کیا۔ اس سیشن کے دوران تمام ریجنوں کی موجودہ صورتحال اور مستقبل کے اہداف پر تفصیلی رپورٹس بھی پیش کی گئیں۔ شمالی پنجاب سے عمر عبداللہ، کشمیر سے علیزہ اسلم، وسطی پنجاب سے علی تراب، کراچی سے افضل شر، جامپور سے سقراط، لاہور سے یاسر رسول، دادو سے عبدالعزیز، جنوبی پنجاب سے اظہار چوہدری، خیبر پختونخواہ سے ناموس، بلوچستان سے عبد الرحمان اور حیدر آباد سے فیصل مستوئی نے رپورٹس پیش کیں۔ اس کے علاوہ ملتان و جنوبی خیبر پختونخواہ کی رپورٹس پر مجموعی اہداف مقرر کیے گئے۔ تمام تر رپورٹس کے بعد این ایس ایف کے چیئرمین سٹڈی سرکل ڈاکٹر سعد الحسن خان نے پاکستان اور زیر انتظام جموں کشمیر کے نوجوانوں کی جدوجہد کے مشترکہ کردار پر گفتگو کرتے ہوئے سیشن کی بحث کو آگے بڑھایا جس کے بعدحسن علی، مقدس مشتاق، سیف اللہ، علی تراب، این ایس ایف کے مرکزی صدر خلیل بابر اور عمران کامیانہ نے بھی اوپن ڈسکشن میں حصہ لیا۔

اس کے بعد میزبان ریجن کشمیر سے حارث قدیر نے سکول کے انعقادمیں انتظامی، مالی و دیگر معاملات پر رپورٹ پیش کرتے ہوئے پورے پاکستان سے شریک ہونے والے نوجوانوں کو کامیاب سکول کے انعقاد پر مبارکباد پیش کی۔ آخر میں آر ایس ایف کے مرکزی آرگنائزر اویس قرنی نے آخری سیشن کی بحث سمیت تین روزہ نیشنل مارکسی سکول کے چاروں موضوعات پر بحث اور تمام تر سیاحتی و ثقافتی سرگرمیوں پر سکول کے اختتامی کلمات ادا کیے۔ اختتامی کلمات کے بعد تمام کامریڈز نے یک آواز محنت کشوں کے عالمی ترانے سے سکول کا باضابطہ اختتام کیا اور انقلابی سوشلزم کے نظریات کو پورے خطے اور دنیا بھر کے طول و عرض میں لے جانے کے عزم و ارادے کے ساتھ رخصت ہوئے۔