کشمیر (ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ) پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے سیاحتی مقام کوئیاں (راولاکوٹ) میں تین روزہ نیشنل مارکسی سکول 6، 7 اور 8 اگست کو منعقد کیا گیا۔ ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ (RSF) اور جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن (JKNSF) کے زیر اہتمام منعقدہ مارکسی سکول میں پاکستان کے چاروں صوبوں اور زیر انتظام علاقوں سے کورونا وبا کے دوران انتہائی نامساعد معاشی، سماجی اور سیاسی حالات کے باوجود 270 سے زائد نوجوان مرد و خواتین نے شرکت کی۔ ملک بھر سے سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے آنے والے کامریڈوں نے تین روز نہ صرف مختلف موضوعات پر سیر حاصل بحثیں کیں، ملک بھر میں نوجوانوں کو انقلابی نظریات سے لیس کرنے اور طبقاتی جدوجہد کو منظم کرنے کیلئے حکمت عملی اور لائحہ عمل مرتب کیا بلکہ انتہائی اعلیٰ معیار کی مشترکہ سیاحتی اور ثقافتی سرگرمیوں کا بھی انعقاد کیا۔

سابق مرکزی صدر جے کے این ایس ایف راشد شیخ نے سکول کا آغاز کیا اور ملک بھر سے آئے تمام کامریڈوں کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ ساتھ نیشنل مارکسی سکول کو جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق مرکزی صدر کامریڈ امجد شاہسوار سے منسوب کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران بچھڑنے والے تمام انقلابی ساتھیوں اور قائدین کے مشن کی تکمیل تک اس جدوجہد کو جاری و ساری رکھا جائیگا۔

نیشنل مارکسی سکول کا پہلا سیشن ’عالمی و ملکی صورتحال‘ سے متعلق تھا۔ اس سیشن کے دوران چیئر کے فرائض اکرم مصرانی نے سرانجام دیئے جبکہ آر ایس ایف کراچی کے آرگنائزر فیاض چانڈیو نے بحث کا آغاز کیا اور دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے اثرات اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دنیا کے مختلف خطوں کی معاشی اور سیاسی صورتحال پراعداد و شمار کی روشنی میں تفصیلی بحث رکھی۔

اس سیشن میں بحث کو آگے بڑھانے کیلئے بشریٰ عزیز (کشمیر)، بینش کاظم (کشمیر)، اویس قرنی، ثورہ خان (فیصل آباد)، عمر رشید، ساروان (حیدر آباد)، حاجی شاہ (حیدر آباد)، حسن جان (کوئٹہ) نے مختلف خطوں اور پاکستان کے مختلف حصوں کی صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی اور مستقبل کے تناظر پر بحث کی۔ جبکہ فیاض چانڈیو نے تمام تر بحث کو سوالات کی روشنی میں سمیٹا۔

سکول کے پہلے روز کا دوسرا سیشن ’انقلاب چین 1949ء‘ تھا۔ اس سیشن کے دوران چیئر کے فرائض ثورہ خان نے سرانجام دیئے جبکہ جے کے این ایس ایف کے ممبر سنٹرل کمیٹی بدر رفیق نے بحث کا آغاز کیا اور چین کی پانچ ہزار سالہ تاریخ اور بالخصوص 1925-27ء کے انقلاب، لانگ مارچ اور 1949ء کے انقلاب کے واقعات، محرکات، تاریخی پس منظر اور حاصلات پر تفصیلی بات رکھی۔

اس سیشن میں بحث کو آگے بڑھانے کیلئے حاتم خان (کراچی)، عمیر خورشید (کشمیر)، سکندر زؤنر (دادو) نے انقلاب کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جبکہ عمران کامیانہ نے 1978ء کے بعد کے چین پر تفصیلی بات رکھی۔ انقلاب چین کے ایجنڈا پر تمام تر بحث کو بدر رفیق نے سوالات کی روشنی میں سمیٹتے ہوئے سیشن کا اختتام کیا۔

سکول کا مجموعی طور پر تیسرا اور دوسرے دن کا واحد سیشن ’مارکسزم کے تین اجزائے ترکیبی‘ سے متعلق تھا۔ اس سیشن کے دوران چیئر کے فرائض عمار یاسر نے سرانجام دیئے جبکہ علی تراب نے بحث کا آغاز کیا اور مارکسزم کے نظریات کے تاریخی تسلسل پر روشنی ڈالتے ہوئے مارکسزم کی بنیاد ’جدلیاتی مادیت‘ کے فلسفہ، تاریخ کو مادی نقطہ نظر سے دیکھنے کے طریقہ کار اور مارکسی معاشیات کا مفصل انداز میں احاطہ کیا۔

اس سیشن کے دوران سنگین باچا (سوات)، اکرام مصرانی (حیدر آباد)، آصف رشید (راولپنڈی)، علی رضا منگول (کوئٹہ)، ذیشان اعجاز (کشمیر)، مشہود (حیدر آباد)، عمر رشید، مسعود افضل (رحیم یار خان) اور اویس قرنی نے مارکسزم کے تین اجزائے ترکیبی سے متعلق بحث کو آگے بڑھایا۔ جبکہ علی تراب نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے سیشن کا اختتام کیا۔

سکول کے دوسرے روز جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی سنٹرل کمیٹی اور کابینہ کااجلاس بھی منعقد کیا گیا۔ اجلاس میں جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی تعمیر کیلئے آئندہ کے اہداف طے کرنے کے علاوہ 9 اکتوبر 2021ء کو مظفر آباد کے مقام پر مرکزی کنونشن منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔

سکول کے دوسرے روز سیشن کے اختتام پر ملک بھر سے آئے ساتھیوں نے راولاکوٹ کے معروف سیاحتی مقام تولی پیر کا دورہ بھی کیا۔

سکول کا مجموعی طور پر چوتھا اور تیسرے روز کا واحد سیشن نوجوانوں کے کام کو منظم کرنے کی حکمت عملی سے متعلق تھا۔ اس سیشن کی چیئر این ایس ایف جامعہ پونچھ کے چیئرمین مجیب خان نے کی جبکہ آر ایس ایف شمالی پنجاب کے آرگنائزر عمر عبداللہ نے اس ایجنڈا پر بحث کا آغاز کیا۔ عمر عبداللہ نے ملک بھر میں نوجوانوں کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریکوں کو منظم کرنے اور نوجوانوں کو نظریات سے لیس کرتے ہوئے ایک انقلابی پارٹی میں ڈھالنے کے حوالے سے مختلف امور پر بات کی۔ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ساتھیوں نے تنظیمی سرگرمیوں سے متعلق رپورٹیں رکھیں اور اوپن ڈسکشن کے دوران مختلف کامریڈوں نے نوجوانوں کے کام کو آگے بڑھانے کے حوالے سے اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔

سکول کے انتظامات اور اخراجات کے حوالے سے تیمور سلیم نے رپورٹ پیش کی۔ انتظامی اور معاشی حوالے سے بھی سکول انتہائی کامیاب رہا۔ آخر میں عمران کامیانہ اور اویس قرنی نے سکول کے اختتامی کلمات ادا کیے۔ جس کے بعد محنت کشوں کا عالمی ترانہ (انٹرنیشنل) گا کر فلک شگاف انقلابی نعروں کی گونج میں سکول کا باقاعدہ اختتام کیا گیا۔ تین روز تک سیشنوں کے دوران دلوں کو گرما دینے والی انقلابی شاعری اور نغموں کا سلسلہ بھی جاری رہا اور باقاعدہ بحث سے ہٹ کر بھی سکول کے شرکا دن رات سیاسی، نظریاتی اور تنظیمی امور پر تبادلہ خیال میں مصروف رہے۔ اس موقع پر ’طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز‘ کا سٹال بھی لگایا گیا تھا جہاں سے لٹریچر بڑے پیمانے پر فروخت ہوا۔ شدید معاشی و سماجی بحران اور کورونا وبا کے کٹھن اور حبس زدہ ماحول میں یہ سکول ملک بھر کے انقلابیوں کیلئے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے جس کے اثرات آنے والے دنوں میں ملک بھر میں انقلابی کام کی تیزی کی صورت میں محسوس کیے جائیں گے۔