احسن جعفری

جب بھی سماج کے مسائل پر بات کریں تو بہت سے افراد کا سب سے زیادہ زور اس بات پر ہوتا ہے کہ زیادہ تر مسائل کی وجہ ناخواندگی اور جہالت ہے اور تعلیم کے ذریعے ان تمام مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی سوچ عموماً درمیانے طبقے کے پڑھے لکھے افراد کی ذہنی استطاعت کا شاخسانہ ہوتی ہے جو مسائل کو انتہائی سطحی انداز میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ طبقاتی سماج کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں سماج کے ہر مظہر پر حکمران طبقات کی ترجیحات حاوی رہتی ہیں۔ اخلاقیات، مذہب، فن، ادب، سائنس حتیٰ کہ تعلیم کا مقصد بھی حکمران طبقے کے مفادات کے ارد گرد گھومتا ہے۔ اسی لئے ایک طبقاتی سماج میں تعلیم کا کردار بھی طبقاتی ہی رہتا ہے۔

سرمایہ دارانہ صنعتی انقلاب کے بعد تعلیم کے میدان میں بہت بڑی پیش رفت ہوئی اور بہت بڑے بڑے تعلیمی اور تحقیقی ادارے بنائے گئے جن کی شاخیں اب پوری دنیا میں پھیلتی جا رہی ہیں۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ حکمرانوں کو تعلیم اور تحقیق سے عشق ہو گیا تھا بلکہ اس وقت بھی اور آج بھی تعلیم یافتہ و ہنرمند محنت کش اور جدید ترین تحقیق حکمرانوں کی تجوریوں کو بھرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ تمام تحقیقی اور تعلیمی ادارے زیادہ تر ریاستی سرپرستی میں چلے جس کی وجہ سے آبادی کی وسیع اکثریت کو تعلیم و تحقیق کے مواقع ملے اور سائنس و تکنیک کی بے مثال ترقی دیکھنے میں آئی۔ لیکن اس تمام تحقیق و ترقی کا مقصد منافعوں میں اضافہ تھا۔ اس لئے کرہِ ارض پر رہنے والی اکثریتی آبادی اس کے ثمرات سے آج بھی محروم ہے۔

نیو لبرل معاشی پالیسیوں کے نفاذ کے بعد سے زیادہ تر ریاستیں تعلیم اور صحت جیسی بنیادی انسانی ضرورتوں سے اپنے ہاتھ کھینچتی جا رہی ہیں۔ منڈی کی اندھی قوتوں کے رحم و کرم پر تعلیم جیسی بنیادی انسانی ضرورت کو چھوڑ دینے کا مطلب تعلیم کے میدان میں ایک ہیجانی کیفیت کو پیدا کرنا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیمی ادارے تعلیم، تخلیق اور تحقیق کے مراکز کے بجائے منافع کمانے کی فیکٹریاں بنتے چلے گئے۔ آج صحت کے ساتھ تعلیم بھی ایک انتہائی منافع بخش کاروبار ہے۔ نجی تعلیمی ادارے کھمبیوں کی طرح اگتے چلے آ رہے ہیں لیکن فہم و ادراک کے چشمے سوکھتے جا رہے ہیں۔ ان نجی تعلیمی اداروں میں طالب علم نہیں بلکہ گاہک ہوتے ہیں اور جلد سے جلد گاہک کو اپنے کاروبار سے منسلک کرنے کے لئے اب چھوٹی سے چھوٹی عمر کے بچوں کو اسکول میں داخل کیا جاتا ہے۔ بلکہ بعض اداروں میں تو پیدائش کے وقت ہی بچوں کو رجسٹر کروانا پڑتا ہے۔

ایک طرف پیدائش پر ہی بچوں کو اسکول میں رجسٹر کروانے کا رجحان ہے تو دوسری طرف آبادی کی ایک وسیع اکثریت بچوں کو اسکول بھیجنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ پاکستان جو اپنے جنم سے ہی ایک بحران زدہ ریاست رہی ہے میں حالات ہمیشہ ہی دگر گوں رہتے ہیں۔ پاکستان میں 5 سے 16 سال کی عمر کے 22.8 ملین بچے اسکول نہیں جا سکتے۔ یہ پاکستان میں اس عمر کے بچوں کا 44 فیصد بنتا ہے جو کہ دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ پوری دنیا میں تقریباً 258 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

سرمایہ داری کے عالمی بحران کا اظہار سماج کے ہر مظہر میں ہو رہا ہے اور اس کا اثر تعلیم پر بھی اسی طرح پڑ رہا ہے۔ سرمایہ داری نے اپنے عروج کے زمانے میں جو ترقی پسند اقدامات کیے وہ سب واپس کیے جا رہے ہیں۔ تعلیمی نصاب کو سیکولر اور سائنسی بنیادوں پر مرتب کرنا بھی انہیں اقدامات میں سے ایک تھا۔ لیکن آج پھر دوبارہ سے تعلیمی نصابوں پر ماضی کے تعصبات حاوی ہو رہے ہیں۔ امریکہ جیسے ملک میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے زور دیا جا رہا ہے کہ بائیولوجی کی کتب میں انجیل کے بابِ پیدائش کو شامل کیا جائے اور اس پر عدالتوں میں مقدمات تک چلائے جا رہے ہیں۔ امریکہ کے تعلیمی نظام کے زوال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں رہنے والے 41 فیصد افراد اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ انسان اور ڈائنوسار ایک ہی وقت میں دنیا میں گھومتے تھے۔ جبکہ ڈائنوسار تقریباً 6.5 کروڑ سال پہلے معدوم ہو گئے تھے اور پہلا انسان نما ہومو ہیبلس تقریباً 24 لاکھ سال پہلے زمین پر نمودار ہوا۔

پاکستان میں تعلیم کبھی بھی حکمران طبقے کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی اور نہ ہی یہاں کے حکمران طبقے میں تاریخی اہلیت تھی۔ جس کی بنیاد پر اعلیٰ معیار کے تعلیمی اور تحقیقی ادارے بنائے جا سکتے۔ پاکستان میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت سرکاری تعلیمی اداروں کو برباد کیا گیا۔ فنڈز کی مسلسل کمی اور عدم توجہی سرکاری تعلیمی اداروں کو مسلسل بردباد کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا فقط 1.5 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ غیر سائنسی تعلیم اور رجعتی ریاستی بیانیہ ہمیشہ سے یہاں کے نصاب کا حصہ رہا ہے۔ خاص کر افغان جنگ کے دوران جس طرح سے تعلیمی نصاب اور تعلیمی اداروں کو آلودہ کیا گیا ہے اس کی نظیر پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ جیسے جیسے سرمایہ داری کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے حکمران رجعتی عناصر کے حملوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ اشرافیہ کے لئے مخصوص اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھی مولویوں اور موٹیویشنل اسپیکرز کے روپ میں چھپے رجعتی عناصر کو خطاب کے لئے بلایا جاتا ہے۔ سائنسی تعلیم اور سائنسی طرزِ فکر کو باقاعدہ نشانہ بنایا جاتا ہے اور ایسے اساتذہ کو تعلیمی اداروں سے نکالا تک جاتا ہے جن پر ذرا برابر بھی شک ہو کہ وہ سائنسی طرزِ فکر کے فروغ کا باعث ہوں گے۔ بات اب یہاں تک آ گئی ہے کہ نصابی کتب اور شاگردوں کی نوٹ بکس میں مقدس شخصیات کے ناموں کے لکھنے اور پڑھنے کا طریقہ بھی ریاست کی طرف سے بتایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف مدرسہ تعلیم بھی جاری ہے جس کے مسلسل بڑھنے کی وجہ سماج میں پھیلی غربت ہے۔ مدرسہ تعلیم میں جس طرح کا اور جتنا قدیم نصاب پڑھایا جاتا ہے وہ کسی بھی طرح سے ایک انسان کو جدید عہد میں سوچنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ دونوں طرح کی تعلیم شاگردوں میں غیر سائنسی اور انتہائی رجعتی فکر کو پروان چڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔

نجی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کا استحصال بھی عروج پر نظر آتا ہے۔ انتہائی کم اجرتوں اور انتہا سے زیادہ کام کے بوجھ تلے دبے اساتذہ کو نہ صرف اداروں میں کام کرنا پڑتا ہے بلکہ گھر واپس جا کر بھی بہت سی اسائنمنٹس پوری کر نی ہوتی ہیں۔ خواتین اساتذہ کے ساتھ ہونے والا استحصال ہر جگہ کی طرح دو گنا ہی ہوتا ہے۔

سرمایہ داری کے ڈی این اے میں موجود منفی مقابلہ بازی کا رجحان جب تعلیم میں اپنی جلوہ گری دکھاتا ہے تو ایسے ایسے گل کھلاتا ہے کہ جن کی نظیر ماضی میں کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر یونیورسٹی اور پی ایچ ڈی لیول تک یہ گھٹیا اور غیر تعمیری قسم کی مقابلہ بازی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ نمبروں اور گریڈز کی دوڑ میں شاگردوں کو مسلسل بھاگنا پڑتا ہے۔ سماج میں یہ مقابلہ بازی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ پلے گروپ اور نرسری کے بچوں کے نتائج کے کارڈ اور کلاس میں ملنے والے انعامات سوشل میڈیا پر گردش کرتے پائے جاتے ہیں۔ خاندانی کشمکش میں اب بچوں کے امتحانی نتائج بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ گریڈز اور نمبرز کی دوڑ شاگردوں پر تلوار بن کر لٹکی رہتی ہے اور ان کا پورا تعلیمی کیریئر ڈپریشن میں گزر تا ہے۔ بلکہ ڈپریشن کے شکار شاگردوں میں خود کشی کا رجحان خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ انڈیا جس کی ترقی اور تعلیم کی مثال دیتے پاکستان کے لبرل تھکتے نہیں میں شاگردوں کی خود کشیاں دنیا بھر میں سرِ فہرست ہیں۔ سال 2020ء میں انڈیا میں ہر 42 ویں منٹ پر ایک طالب علم نے خود کشی کی۔ کارپوریٹ انڈیا کی جاب مارکیٹ میں داخل ہونے کے لئے جس قسم کی بھگدڑ مچی ہوئی ہے اس میں گر کر کچلے جانا بعید از قیاس نہیں اور یہی دیکھنے میں بھی آ رہا ہے۔

تعلیم مہنگی ہونے کی وجہ سے والدین کو داخلے اور تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ادھار لینا پڑتا ہے۔ سرمایہ داری کے سرخیل اور عالمی سامرج امریکہ میں تعلیمی کی خاطر لیے گئے قرضوں کا مسئلہ انتہائی گھمبیر صورتحال بن چکا ہے۔ فوربس میگزین کی مئی 2022ء کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں تعلیمی قرضوں کا حجم اس وقت 1750 ارب ڈالر کو چھو رہا ہے جو کہ کریڈٹ کارڈز اور گاڑیوں کے قرضوں سے زیادہ اور تمام طرح کے قرضوں میں دوسرے نمبر پر ہے۔ پہلے نمبر پر گھروں کیلئے لیے گئے قرضے ہیں۔

تعلیم کا اصل اور بنیادی مقصد انسانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنا، انسان کے اندر فطری طور پر موجود تجسس کو مہمیز کرنا اور تنقیدی سوچ کی آبیاری کرنا ہے۔ لیکن طبقاتی سماج میں ان تمام مقاصد کو بنیادی حیثیت حاصل نہیں ہوتی بلکہ یہاں تعلیم کا بنیادی مقصد سماجی تانے بانے کو چھیڑے بغیر اسے جوں کا توں چلانے کی صلاحیت سے مالا مال اور فرمانبردار انسان پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اسی لئے تعلیم کے اصل مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے سماج کو طبقات سے پاک کرنا ضروری ہے جو کہ ایک انقلابی جراحی کے بغیر ناممکن ہے۔ طبقات سے پاک ایک سوشلسٹ سماج میں ہی انسان تعلیم کے زیور سے درست طوپر پر آراستہ ہو کر نسل انسان کی اجتماعی و اشتراکی ترقی کی منازل کی جانب گامزن ہو سکے گا۔