دادو (رمیز میصرانی) مورخہ 20 اکتوبر 2019ء کو دادو میں ایک روزہ مارکسی اسکول منعقد کیا گیا جو دو ایجنڈوں ”مظلوم اقوام کی جدوجہد اور حق خود ارادیت“ اور”ماحولیات کی تباہی اور سرمایہ داری کا بحران“ پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن کو چیئر شاہ زیب نے کیا جب کہ بحث کا آغاز کرتے ہوئے سجاد جمالی نے کہا کہ صدیوں سے مظلوم اقوام کا استحصال جاری و ساری ہے بس صرف سامراج کی شکل تبدیل ہوئی ہے۔ جمالی نے کہا کہ یہ قومی تضاد سرمایہ دارانہ نظام نے حل کرنا تھا مگر سرمایہ داری نے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں اپنی قومی حدود سے نکلتے ہوئے سامراجی روپ اختیار کر لیا جو آج تک جاری ہے۔ قومی سوال آج بھی برقرار ہے اور یہ اب سرمایہ دارنہ نظام کے خاتمے کے بغیر حل نہیں ہو سکتا، کیونکہ ہم نے دیکھا کہ فلسطین اور کشمیر پر قومی جبر پراقوام متحدہ کے اجلاسوں میں سینکڑوں بار قراردادیں پاس ہوئیں مگر جبر آج تک جاری ہے۔ پاکستان بھی قومی جبر کا جیل خانہ بن چکا ہے جہاں سندہیوں، بلوچوں اور پشتونوں پر قومی جبر جاری ہے۔ مظلوم اقوام کے جاگیردار‘سرمایہ دار اورسامراجیوں کے ساتھ قومی لوٹ مار میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ اس لیے قومی لڑائی کی فتح تب تک ممکن نہیں ہے جب تک تمام اقوام کے مظلوم محنت کش طبقاتی بنیادوں پر اکھٹے ہو کر سامراج کے ساتھ لڑائی نہیں لڑتے۔ اس سیشن میں کنٹریبیوشن کرنے والوں میں پکا چانگ سے راشد شر، شبانہ پیرزادہ اور صدام خاصخیلی شامل تھے جب کہ سیشن کا سم اپ حنیف مصرانی نے کیا۔

دوسرے سیشن”ماحولیات کی تباہی اور سرمایہ داری کا بحران“ کے چیئر کے فرائض فیصل مستوئی نے سرانجام دیے جب کہ لیڈآف دیتے ہوئے عمران نے کہا کہ ماحولیات کی تباہی کا ذمہ دار یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ فاسل فیول کے بے تحاشا استعمال اورگرین ہاؤس گیسز کے بڑھ جانے سے گلوبل وارمنگ میں شدید اضافہ دیکھنے میں آ رہاہے۔ ماحولیات پر جتنے عالمی اجلاس و کانفرنسیں ہوئیں وہ سب ناکام ہوئیں۔ کوئی بھی سرمایہ دار ملک اس ایشو پر سنجیدہ نظر نہیں آ رہا۔ اگر اس پر ایکشن نہ لیا گیا تو امکانی طور پر پچاس برس کے اندر زمین ایسے ماحول میں داخل ہو سکتی ہے جس میں انسان کا رہنا ہمیشہ کے لیے ناممکن ہو جائے۔ مگر یہ سرمایہ دارنہ نظام اپنے منافعے کی حوس کی وجہ سے اس ایشو کو نظر انداز کر رہا ہے جب کہ دنیا بھر میں اس ایشو بارے نوجوانوں کی تحریکیں اور مظاہرے ہورہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ماحولیات کا کوئی حل نہیں ہے، جب کہ دوسری طرف مسخ شدہ سوشلسٹ ریاست کیوبا میں انقلاب کے بعد سے اب تک جنگلات میں تین سو فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سوشلزم ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔ سیشن میں احسان کنبھر نے کنٹربیوشن کیا۔ اس کے بعد حنیف مصرانی نے اس سیشن اور اسکول کامجموعی سم اپ کیا اور آخر میں مزدوروں کا عالمی ترانہ گا کر اسکول کا اختتام کیا گیا۔