عمران کامیانہ

بلوچستان میں ماورائے عدالت ہلاکتوں، جبری گمشدگیوں اور عمومی ریاستی جبر کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ اور اسلام آباد میں جاری دھرنے نے ایک بار پھر اس ملک کے طول و عرض میں سلگتے قومی سوال کو منظر عام پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ احتجاج حالیہ سالوں میں یہاں کی محکوم قوموں میں ابھرنے والی چھوٹی بڑی احتجاجی تحریکوں کی ہی ایک کڑی ہے۔ پختونخواہ (بالخصوص قبائی علاقہ جات) میں پی ٹی ایم کا ابھار ہو یا کشمیر میں مہنگی بجلی کے خلاف انتہائی جاندار اور وسیع تحریک، گلگت بلتستان میں گندم کی سبسڈی کے خاتمے کے خلاف جاری ایجی ٹیشن ہو یا سندھ میں جعلی پولیس مقابلوں میں قتل و غارت کے خلاف دھرنے… یہ تحریکیں اور احتجاج اس بحران زدہ سرمایہ دارانہ ریاست کے پسماندہ خطوں اور محکوم قوموں میں پائے جانے والی محرومی کے جذبات اور ان پر جاری مسلسل استبداد کی غمازی کرتے ہیں۔ ان آوازوں کو عوام دشمن حکمران سیاست اور ریاست کے جبر کے نیچے دبانے کی بھرپور کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن اس کے باوجود انہیں محروم اور محنت کش طبقات میں بھرپور پذیرائی ملی ہے اور یہ ملک کے موجودہ سیاسی و سماجی منظر نامے کی تشکیل میں انتہائی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ یہ صورتحال ایک بار پھر اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ نہ صرف سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود یہاں کا تاخیرزدہ اور بحرانوں میں گھرا سرمایہ دارانہ نظام قومی مسئلے کو حل کرنے سے یکسر قاصر ہے بلکہ وقت کے ساتھ قومی سوال کی شدت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ مزید برآں یہ کیفیت صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہندوستان سمیت جنوب ایشیا کی بیشتر ریاستوں میں قومی سوال حل طلب ہے۔ اگرچہ مختلف صورتوں میں اس کی ظاہریت، شدت، وسعت اور ترکیب مختلف ہو سکتی ہے۔ لیکن طریقہ ہائے واردات میں فرق کے باوجود نوآبادیاتی قبضے سے جنم لینے والی ان ریاستوں کا طبقاتی کردار ایک دوسرے سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ ان ریاستوں کے سامراجی قبضوں کی تاریخ 1947ء سے ہی شروع ہو جاتی ہے جس میں ایک طرف بلوچستان اور کشمیر پر فوج کشیاں کی گئیں تو دوسری طرف نہرو جیسے ’’ترقی پسند‘‘ حکمرانوں نے بھی حیدر آباد پر حملہ کر کے اسے ہندوستان میں ضم کرنے اور کشمیر کے باقی ماندہ حصے پر قبضہ کرنے میں دیر نہیں لگائی۔

مخصوص تاریخی عوامل کے نتیجے میں تشکیل پانے والے اداروں اور طبقات کا کردار بالعموم دہائیاں اور صدیاں گزر جانے کے بعد بھی نہیں بدلا کرتا۔ یوں وسیع تر تاریخی تناظر میں یہ جنوب ایشیائی ریاستیں اسی نوآبادیاتی ریاست کا ہی تسلسل ہیں جسے اس خطے کے عوام کو سیاسی، سماجی اور نفسیاتی طور پر مطیع اور مجروح رکھنے اور یہاں کے وسائل کی گہری اور وسیع و عریض لوٹ مار کے لئے تشکیل دیا گیا تھا۔ یہی صورتحال ہمیں افریقہ اور لاطینی امریکہ جیسے دوسرے پسماندہ خطوں میں بھی نظر آتی ہے۔ پہلے سینکڑوں سالوں کی براہِ راست نوآبادیاتی ڈاکہ زنی کے ذریعے ان براعظموں کو معاشی و ثقافتی حوالے سے بری طرح گھائل کیا گیا اور دنیا کے ایک بڑے حصے کی بربادی سے مغربی سرمایہ داری کی ترقی اور چکاچوند نے جنم لیا۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد کی مخصوص صورتحال میں نوآبادکاروں کے چلے جانے کے باوجود یہاں جو ’’آزاد‘‘ ریاستیں تشکیل پائیں وہ ایک نئے سامراجی نظام کا ہی کل پرزہ تھیں۔ جس کا مقصد ان خطوں سے دولت اور وسائل کے مسلسل بہاؤ کو سامراجی مراکز کی طرف یقینی بنانا تھا۔ ایسے میں ان ریاستوں کے حکمران طبقات اسی طرح کاسہ لیسی اور کمیشن ایجنٹی پر مبنی ’کمپراڈور‘ کردار کے حامل رہے جس طرح نام نہاد آزادیوں سے پہلے تھے۔ ا ن میں نہ صرف حاکم بلکہ محکوم قوموں کے حکمران بھی شامل ہیں۔ قوم، مذہب، زبان، وسائل کی حصہ داری اور سیاسی اثر و رسوخ میں فرق یا تفاوت کے باوجود ان حکمران طبقات کے آپسی تعلق کو ایک ایسے سامراجی فریم ورک کے طور پر ہی دیکھنے کی ضرورت ہے جو طبقاتی و قومی جبر و استحصال کو قائم رکھتا ہے۔ مزید برآں یہ پسماندہ ریاستیں جہاں ایک طرف خود عالمی سامراج کی آلہ کار اور مطیع ہیں وہاں اپنے زیر قبضہ خطوں میں خود ایک سامراجی کردار کی حامل ہیں۔ جن میں محکوم قوموں کے حکمران طبقات کا حاکم اقوام کے حکمران طبقات سے کم و بیش وہی رشتہ استوار ہوتا ہے جس میں حاکم اقوام کے حکمران طبقات عالمی سامراج سے جڑے ہوتے ہیں۔ یوں نیچے سے اوپر تک استحصال اور لوٹ مار میں حصہ داری کی ایک پوری درجہ بندی قائم ہو جاتی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں ریاستی اداروں بالخصوص فوج کے انتہائی حاوی سیاسی و معاشی کردار کی وجہ سے عسکری اشرافیہ بھی اس درجہ بندی کا اہم حصہ بن جاتی ہے جس میں پھر محکوم قوموں سے تعلق رکھنے والے اہلکار بھی شامل ہوتے ہیں۔ لیکن محکوم قوموں کے حکمران طبقات یا بالادست پرتوں کے اس گماشتگی پر مبنی کردار کے باوجود قومی محرومی اور جبر و استحصال کی موجودگی سے کسی طور انکار ممکن نہیں ہے۔ تاہم دوسری طرف قوم پرستی کے ساتھ بھی مارکسزم کی کوئی مفاہمت اور مصالحت ممکن نہیں۔

ترقی یافتہ مغرب میں قومیں یا یکساں قومی ترکیب رکھنے والی قومی ریاستیں سرمایہ داری کے ایک مخصوص عہد کے پیداوار تھیں جن کی تشکیل میں انقلابات، جنگوں اور صنعتکاری نے اہم کردار ادا کیا۔ یہ بنیادی طور پر بورژوا جمہوری انقلابات کا عرصہ تھا۔ قومی ریاستوں کی تشکیل کے حوالے سے انقلاب روس کے قائد کامریڈ لینن نے اس عرصے کی نشاندہی 1789ء سے 1871ء کے درمیان کی ہے جس کے اختتام تک مغربی یورپ ’’بورژوا ریاستوں کے ایک معین نظام میں بدل چکا تھا جو بالعموم قومی طور پر یکساں ریاستیں تھیں۔‘‘ لیکن اپنے دوسرے تاریخی فرائض کی طرح سرمایہ داری دنیا کے ایک نسبتاً چھوٹے سے حصے میں ہی قومی مسئلے کو حل کر پائی۔ آج نہ صرف قومی جمہوری انقلابات ماضی بعید کا قصہ بن چکے ہیں بلکہ سرمایہ داری عرصہ قبل قومی حدود کو پھلانگ کر ایک سامراجی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں بقول لینن ’’قومی جبر نے وسعت اور ایک نئی تاریخی بنیاد حاصل کر کے شدت اختیار کر لی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ہمیں سوشلزم کی انقلابی جدوجہد کو قومی سوال سے متعلق انقلابی پروگرام سے جوڑنا ہو گا‘‘ (انقلابی پرولتاریہ اور قوموں کا حق خودارادیت، 1915ء)۔

آج دنیا کے بیشتر پسماندہ خطے قومی طور پر یکجا یا یکساں (Homogeneous) ریاستوں کی بجائے کثیرالقومی ریاستوں پر مشتمل ہیں جہاں قومی سوال مختلف شدتوں کیساتھ موجود ہے۔ جس کی بنیادی وجہ پھر ان ریاستوں کی تاریخی تاخیرزدگی ہے۔ جس میں ایک طرف ان کی افسر شاہی اور حکمران طبقات کی مذکورہ بالا سامراجی نفسیات اور عزائم کارفرما ہیں۔ دوسری طرف یہ اقتصادی طور پر بھی اتنی نحیف اور کنگال ہیں کہ اپنے زیر اثر قوموں اور علاقوں کو ہموار اور یکساں ترقی دینے سے قاصر ہیں۔ نہ ہی ان کے پاس اتنی تاریخی گنجائش اور معاشی آسودگی و صلاحیت موجود ہے کہ یہ مختلف قوموں کو صحت مندانہ طریقے سے ضم کر کے ایک یکجا قوم کی تشکیل کر سکیں۔ ان حالات سے جنم لینے والا قومی سوال اپنی اساس میں ایک پیچیدہ سوال ہے جو بعض صورتوں میں انتہائی گنجلک بھی ہو سکتا ہے اور جس کے حل کا کوئی ایسا ریڈی میڈ فارمولا پہلے سے پیش نہیں کیا جا سکتا جسے ہر جگہ منطبق کیا جا سکے۔ لیکن اس مسئلے پر مارکسی اساتذہ کا ضخیم کام کچھ بیش قیمت عمومی اصول ضرور وضع کر سکتا ہے۔ جنہیں مدنظر رکھنا انقلابیوں کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ان خطوں میں قومی مسئلے کو معقول انداز میں مخاطب کیے بغیر کوئی انقلابی سوشلسٹ پروگرام وضع نہیں کیا جا سکتا۔ لینن اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھا اور قومی سوال پر مارکس اور اینگلز کے موقف کو آگے بڑھاتے ہوئے بالشویک پارٹی نے محکوم قوموں کے سامنے قومی نجات کا جو پروگرام پیش کیا وہ بالشویک انقلاب کی کامیابی میں کلیدی اہمیت کا حامل تھا۔ ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ میں کامریڈ لیون ٹراٹسکی نے روس میں موجود قومی سوال اور اس کی طرف لینن کی پالیسی کا جو خلاصہ پیش کیا ہے وہ آج بھی پڑھنے اور سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے: ’’روس ایک قومی ریاست کے طور پر نہیں بلکہ قومیتوں پر مشتمل ریاست کے طور پر تشکیل پایا تھا۔ یہ اِس کے تاخیرزدہ کردار کی وجہ سے تھا… یوں ایک ایسی سلطنت تخلیق پائی جس کا صرف 43 فیصد حصہ حکمران قومیت پر مبنی تھا۔ باقی 57 فیصد میں مختلف سطحوں کی تہذیب اور محکومی کی قومیتیں شامل تھیں… لینن بہت پہلے ہی روس میں مرکز گریز قومی تحریکوں کے پنپنے کی ناگزیریت کو بھانپ چکا تھا۔ اِسی لئے کئی سال تک بالخصوص روزا لکسمبرگ کے خلاف پرانے پارٹی پروگرام کے پیراگراف 9 کے لئے سختی سے لڑتا رہا جو قوموں کے حق خودارادیت یعنی ریاستوں کے طور پر اُن کی یکسر علیحدگی کے حق پر مبنی تھا۔ اِس طرح سے بالشویک پارٹی کسی طور پر بھی علیحدگی کی تبلیغ نہیں کر رہی تھی بلکہ کسی قومیت کو بڑی ریاست کی حدود میں زبردستی مقید رکھنے سمیت قومی جبر کی ہر شکل کے خلاف بے رحم جدوجہد کا فریضہ اپنے لئے متعین کر رہی تھی۔ روسی پرولتاریہ صرف اِسی طرح سے محکوم قومیتوں کا اعتماد بتدریج حاصل کر سکتا تھا… لیکن یہ معاملے کا صرف ایک رُخ تھا۔ قومی میدان میں بالشویزم کی حکمت عملی کا ایک دوسرا رخ بھی تھا جو بظاہر پہلے رخ سے متضاد تھا لیکن درحقیقت اُسے مکمل کرتا تھا۔ پارٹی اور بالعموم تمام مزدور تنظیموں کے ڈھانچے میں بالشویزم ایک غیرلچکدار مرکزیت پر زور دیتا تھا اور قوم پرستی کے ہر اُس کلنک کے خلاف بے رحم جنگ کرتا تھا جو مزدوروں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرے یا اُنہیں غیرمتحد کرے۔‘‘

یہ چند سطور انتہائی خوبصورتی سے قومی سوال کی طرف لینن کی وضع کردہ پالیسی کی اساس بیان کرتی ہیں جس کا بنیادی نکتہ حاکم اور محکوم قوموں کی موجودگی اور یوں قومی بنیادوں پر جبر و استحصال کے وجود کو تسلیم کرنا ہے۔ لینن نے حاکم اور محکوم قوموں کی تقسیم کو سامراجیت کی اساس اور سامراج کے خلاف انقلابی جدوجہد کے نقطہ نظر سے ’’انتہائی اہم‘‘ قرار دیا تھا۔ یہ ایک المیہ ہے کہ آج کے بیشتر خود ساختہ مارکسی تجزیوں میں ان بنیادی حقائق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک حالیہ مثال یوکرائن کی جنگ کا معاملہ ہے جس پر بہت سی مارکسی تنظیمیں انقلابی ڈیفیٹزم کی پالیسی زبردستی منطبق کرتی نظر آئی ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو ہر بات پر لینن اور ٹراٹسکی کے اقوال پیش کرتے نہیں تھکتے لیکن یہاں مغربی سامراج کی مخالفت کی آڑ میں پیوٹن کے غیر سرکاری ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ لینن نے سامراجیت کو کسی ایک سامراجی طاقت یا سامراجی کیمپ کے طور پر نہیں بلکہ مختلف چھوٹی بڑی سامراجی طاقتوں یا کیمپوں کے درمیان کشمکش کے طور پر بیان کیا تھا۔ اسی طرح جنگوں اور انقلابات کے تجزئیے میں لینن قوموں کے درمیان محکومی اور استحصال پر مبنی تعلقات کو ہمیشہ ملحوظ رکھتا تھا اور اسی بنیاد پر اس نے نہ صرف محکوم قوموں کے حق خودارادیت، جسے وہ بنیادی طور پر جمہوری حق قرار دیتا ہے، کو پارٹی پروگرام میں شامل کرنے کی پرزور وکالت جاری رکھی بلکہ بارہا واضح کیا کہ حق علیحدگی کے بغیر حق خودارادیت ایک بے معنی لفاظی اور منافقت بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں اس نے قومی جبر کی ہر شکل (ثقافتی، لسانی، سیاسی وغیرہ) کی مخالفت کو پرولتاریہ اور اس کی پارٹی کے لئے لازم قرار دیا۔ مثلاً وہ کسی ایک زبان، جو بالعموم حاکم قومیت سے وابستہ ہوتی ہے، کو سرکاری حیثیت دے کر دوسری قومیتوں پر مسلط کرنے اور اس طرح کی دوسری قومی مراعات کا سخت مخالف تھا۔ لینن کے نزدیک قوموں کا حق خودارادیت سوشلسٹ انقلاب کے بنیادی فرائض میں شامل تھا جس سے انکار کو اس نے سوشلزم سے غداری تک قرار دیا۔

لیکن سوشلسٹ انقلاب کا مقصد قومی مسئلے کا حل نہیں بلکہ ہر طرح کے جبر اور استحصال کی بنیادوں کو ہی نیست و نابود کر دینا ہے۔ لہٰذا مارکس اور اینگلز کی طرح لینن کسی بھی قومی مسئلے سمیت ہر جمہوری سوال کو تاریخی تناظر میں ہی دیکھتا تھا اور اس کی طرف محنت کش طبقے کے تاریخی مفادات کے تحت ہی کوئی موقف اپناتا تھا۔ کیونکہ ایک ایسا سماج جس میں تمام دولت کی پیداوار طبقاتی استحصال پر مبنی ہو وہاں طبقاتی تضاد بنیادی ترین اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں لینن نے بار بار واضح کیا کہ انقلابی سوشلسٹوں کے لئے قومی سوال کوئی مجرد معاملہ نہیں ہے بلکہ اسے ٹھوس سیاق و سباق کیساتھ ہی سمجھا جا سکتا ہے: ’’یہ مارکسی تھیوری کی قطعی شرط ہے کہ کسی بھی سماجی معاملے پر تحقیق کرتے ہوئے اس کا جائزہ مخصوص تاریخی حدود میں لیا جائے… مارکسسٹوں کے لئے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ عمومی تاریخی اور ٹھوس ریاستی حالات کو مدنظر رکھے بغیر اپنا قومی پروگرام تشکیل دیں‘‘ (قوموں کا حق خودارادیت، 1914ء)۔ اسی طریقہ کار کے تحت اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ یا منافقت کے یہ بھی ہمیشہ واضح کیا کہ سامراجی سرمایہ داری کے عہد میں ہمارے لئے قومی سوال‘ محنت کش طبقے کے تاریخی نصب العین کے تابع ہے۔ مثلاً پولش سوشلسٹ پارٹی کے ساتھ ایک بحث میں لینن نے اس نکتے کو یوں بیان کیا، ’’ہم معاملے کی اساس کی طرف آتے ہیں: کیا سوشل ڈیموکریسی  (یعنی مارکسسٹوں) کے لئے لازم ہے کہ وہ ہمیشہ اور غیر مشروط طور پر قومی آزادی کا مطالبہ کریں؟ یا مخصوص حالات میں ہی ایسا کیا جانا چاہئے؟ پولش سوشلسٹ پارٹی کا ہمیشہ سے یہ جواب رہا ہے کہ (قومی آزادی کے مطالبے کو) غیرمشروط طور پر تسلیم کیا جانا چاہئے… بد قسمتی سے یہ بورژوا جمہوری نعروں سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے… ان نعروں کے فریب میں گرفتار ہو کے پولش سوشلسٹ پارٹی نے ثابت کیا ہے کہ اس کا پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہد سے تعلق کس قدر کمزور نظریاتی پس منظر اور سیاسی سرگرمیوں کا حامل ہے۔ لیکن اسی (طبقاتی) جدوجہد کے مفادات کا تقاضا ہے کہ ہمیں قومی آزادی کے مطالبے کو اس کے تابع کرنا ہو گا۔ قومی سوال کی طرف ہمارے رویے اور بورژوا جمہوری رویے میں یہی تو فرق ہے۔ ایک بورژوا جمہوریت پسند کا خیال ہوتا ہے کہ جمہوریت‘ طبقاتی جدوجہد کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ اسی لئے وہ اپنے تمام سیاسی مطالبات ایک مجرد اور ’’غیرمشروط‘‘ انداز میں ’’سارے لوگوں‘‘ کے مفادات کے نقطہ نظر سے پیش کرتا ہے۔ لیکن ایک سوشل ڈیموکریٹ ہمیشہ اور ہر جگہ اس بورژوا خوش فہمی کو بے رحمی سے بے نقاب کرتا ہے…‘‘ (ہمارے پروگرام میں قومی سوال، 1903ء)۔ اسی تحریر میں آگے جا کے لینن مثالوں کی مدد سے واضح کرتا ہے کہ مارکس اور اینگلز بھی قومی سوال کو اسی طرح لیتے تھے۔ انہوں نے جہاں پولینڈ کے حق خودارادیت کی حمایت کی وہاں جنوبی فرانس پر شمالی فرانس کے جبر کے معاملے میں موقف اپنایا کہ قومی جبر ہمیشہ آزادی کی ایسی امنگوں کو جنم نہیں دیتا جو جمہوریت اور پرولتاریہ کے مفادات سے میل کھائیں۔ اس طرح بے شمار دوسری مثالیں بھی موجود ہیں جن میں مارکس اور اینگلز نے قومی جنگوں اور جدوجہدوں کا تجزیہ پرولتاری بین الاقوامیت کے نقطہ نظر سے ہی کیا اور اسی طور سے لائحہ عمل اور مطالبات پیش کیے۔ یوں بورژوا جمہوری مطالبات کی حمایت میں بھی پرولتاریہ کی آزادانہ سیاسی اور تنظیمی حیثیت کو برقرار رکھنا لازم ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں لینن وضاحت کرتا ہے، ’’کوئی ایک بھی جمہوری مطالبہ ایسا نہیں ہے جسے مخصوص حالات میں بورژوازی‘ محنت کشوں کو دھوکہ دینے کے لئے استعمال نہ کر سکے یا اس نے استعمال نہ کیا ہو…عملی طور پر پرولتاریہ اپنی آزادی کو تب ہی برقرار رکھ پائے گا جب وہ جمہوریہ کے مطالبے سمیت تمام جمہوری مطالبات کی جدوجہد کو بورژوازی کے دھڑن تختے کی انقلابی جدوجہد کے تابع کرے‘‘ (سوشلسٹ انقلاب اور قوموں کا حق خودارادیت، 1916ء)۔

اس بنیادی مارکسی لائحہ عمل کی وضاحت لینن نے اپنی کئی دوسری تحریروں میں بھی کی۔ مثلاً روزا لکسمبرگ کے ساتھ مناظرے میں قومی سوال کی طرف میکانکی طرز عمل کو یوں تنقید کا نشانہ بنایا، ’’ہر قوم کے معاملے میں علیحدگی کے سوال کا ’’ہاں‘‘ یا ’’ناں‘‘ میں جواب شاید بہت ’’عملی‘‘ لگتا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں یہ بالکل فضول بات ہے۔ نظریاتی طور پر یہ مابعد الطبیعاتی ہے۔ جبکہ عملی طور پر پرولتاریہ کو بورژوازی کی پالیسی کے تابع کر دیتا ہے۔ بورژوازی ہمیشہ اپنے قومی مطالبات کو سامنے رکھتی ہے… جبکہ پرولتاریہ کے لئے یہ مطالبات‘ طبقاتی جدوجہد کے مفادات کے تابع ہیں… پرولتاریہ کے لئے سب سے اہم اپنے طبقے کی ترقی ہے۔ جبکہ بورژوازی کے لئے اہم یہ ہے کہ وہ ’’اپنی‘‘ قوم کے مقاصد کو پرولتاریہ کے مقاصد پر حاوی کرتے ہوئے اس ترقی کے راستے میں روڑے اٹکائے… ہر قوم کی قوم پرست بورژوازی کے نقطہ نظر سے قومی مسئلے میں پرولتاریہ کا فریضہ ’’غیر عملی‘‘ ہے… لیکن پرولتاریہ ایسی عملیت پسندی کا مخالف ہے… اس کے لئے سب سے اہم تمام قوموں کے محنت کشوں کا اتحاد ہے اور وہ ہر قومی مطالبے اور ہر قومی علیحدگی کا تجزیہ محنت کش طبقے کی جدوجہد کی نقطہ نظر سے ہی کرتا ہے‘‘ (قوموں کا حق خودارادیت، 1914ء)۔ اسی تناظر میں لینن نے تمام قوموں کے محنت کشوں کے اتحاد کو اولین ترجیح دیتے ہوئے یہ بنیادی کلیہ بھی وضع کیا کہ انقلابیوں کو قومی جبر کے خلاف ہر مطالبے کی بڑھ چڑھ کر حمایت کرنی چاہئے۔ چاہے وہ محکوم قوم کے بورژوا حلقوں کی جانب سے ہی پیش کیا جا رہا ہو۔ لیکن ساتھ ہی بورژوا قوم پرستی کی ہمیشہ مذمت اور مخالفت کی جانی چاہئے۔ مزید برآں اس نے حق علیحدگی کی حمایت نہ کرنے کو حاکم قوم کی بورژوازی اور دوسرے رجعتی طبقات کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف قرار دیا۔

یوں تمام قوموں کے محنت کشوں کی یکجہتی مارکسی اساتذہ کا اولین مطمع نظر رہی ہے اور قوم پرستی سمیت محنت کشوں کے اتحاد میں دراڑیں ڈالنے والے ہر رجحان کو مسترد کرنا انقلابیوں کا فریضہ بن جاتا ہے۔ روزا لکسمبرگ کے ساتھ بحثوں میں لینن نے یہ بھی واضح کیا کہ قوموں کی برابری اور محکوم قوموں کے حق خودارادیت کی حمایت کسی طور بھی ’’قوم پرستی‘‘ نہیں ہے لیکن قوم پرستی کی مخالفت میں حق خودارادیت سے انکاری ہو جانا بھی کوئی معقول طرزِ عمل نہیں۔ مثلاً قوم پرستی کیساتھ انقلابی مارکسزم کے تعلق کو بیان کرتے ہوئے لینن کہتا ہے، ’’کسی بھی محکوم قوم کی بورژوا قوم پرستی میں جبر کے خلاف ایک عمومی جمہوری مواد موجود ہوتا ہے اور یہی وہ مواد ہے جس کی ہم غیرمشروط حمایت کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ہم اس کے اور قومی اختصاصیت (باقی قوموں سے کٹ جانے) کے رجحان کے درمیان سخت تمیز برتتے ہیں‘‘ (قوموں کا حق خودارادیت، 1914ء)۔ اسی نکتے کو وہ ایک اور جگہ کچھ یوں بیان کرتا ہے، ’’جاگیردارانہ غنودگی سے عوام کی بیداری اور ہر قومی جبر کے خلاف عام لوگوں اور قوم کی خودمختاری کے لئے ان کی جدوجہد ایک ترقی پسندانہ عمل ہے۔ اس لئے یہ ہر مارکسسٹ کا لازمی فریضہ ہے کہ قومی سوال کے تمام پہلوؤں کی طرف انتہائی پختگی اور تسلسل پر مبنی جمہوریت پسندی کا مظاہرہ کرے… لیکن قوم پرستی کی حمایت میں پرولتاریہ اس سے ایک قدم آگے نہیں جا سکتا۔ کیونکہ اس سے آگے بورژوازی کی جانب سے قوم پرستی کو مضبوط کرنے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہے‘‘ (قومی سوال پر تنقیدی تبصرہ، 1913ء)۔

یہاں ’’قومی ثقافت‘‘ کا معاملہ بھی وضاحت کا متقاضی ہے جسے کوئی سنجیدہ سیاسی و معاشی پروگرام پیش کرنے سے عاری قوم پرستانہ رجحانات کی طرف سے انتہائی رجعتی انداز میں اچھالا جاتا ہے۔ جس میں ’’ثقافت‘‘، جسے لباس اور موسیقی تک محدود کر دیا جاتا ہے، کی انتہائی سطحی اور ظاہریت پر مبنی نمائش کو اپنی قومی برتری ثابت کرنے کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔ طبقاتی جدوجہد کی وقتی پسپائی کی کیفیت میں یہ مظہر شناخت کے بحران کی غمازی بھی کرتا ہے جس میں لوگ کبھی مذہبی فرقوں، کبھی ذات پات اور کبھی لسانی شناخت میں پناہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ ثقافت کو اس کے حقیقی اور وسیع تر معنوں میں انسانی رویوں اور رشتوں کیساتھ لیا جائے تو تمام قوموں سمیت اس خطے کے معاشرے اس قدر گراوٹ اور بحران کا شکار ہیں کہ یہاں زندگی عذاب مسلسل بن چکی ہے۔ اس سلسلے میں لینن نے ثقافت کا تجزیہ بھی طبقاتی بنیادوں پر ہی کیا اور کسی بھی قومی ثقافت میں ترقی پسندانہ اور رجعتی رجحانات کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ لیکن اس کا خیال تھا کہ مجموعی طور پر کسی بھی قوم کی ثقافت پر حکمران طبقات کے تعصبات اور مفادات کی چھاپ موجود ہوتی ہے۔ بالکل جیسے عام حالات میں سماج پر حکمران طبقات کے نظریات ہی حاوی ہوتے ہیں۔

’’تمام تر لبرل بورژوا ثقافت محنت کشوں میں بدترین بدعنوانی کے بیج بوتی ہے اور آزادی و پرولتاری طبقاتی جدوجہد کے مقصد کو گہرا نقصان پہنچاتی ہے۔ اس بورژوا رجحان کو جب ’قومی ثقافت‘ کے نعرے میں چھپایا جاتا ہے تو یہ اور بھی خطرناک بن جاتی ہے۔ اس قومی ثقافت کے لبادے میں ہی… تمام قوموں کی بورژوازی نے اپنی غلیظ اور رجعتی واردات جاری رکھی ہوئی ہے… قومی ثقافت کا نعرہ ایک بورژوا فراڈ ہے۔ ہمارا نعرہ ہے: جمہوریت اور عالمی محنت کش طبقے کی جدوجہد پر مبنی بین الاقوامی ثقافت‘‘ (ایضاً)۔ ثقافت کا مزید گہرائی میں تجزیہ کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے، ’’جمہوری اور سوشلسٹ ثقافت کے عناصر اگرچہ ابتدائی شکل میں ہی سہی لیکن ہر قومی ثقافت میں موجود ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہر قوم میں محنت کش اور استحصال زدہ طبقات موجود ہوتے ہیں جن کے حالات زندگی ناگزیر طور پر جمہوریت اور سوشلزم کے نظریات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ لیکن ہر قوم ایک بورژوا ثقافت کی بھی حامل ہوتی ہے۔ جو صرف (ابتدائی نوعیت کے) ’عناصر‘ کی شکل میں نہیں بلکہ حاوی ثقافت کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔ اس لئے عمومی ’قومی ثقافت‘ جاگیرداروں، پادریوں اور سرمایہ داروں کی ثقافت ہوتی ہے… جب ہم ’جمہوریت اور عالمی محنت کش طبقے کی جدوجہد کی بین الاقوامی ثقافت‘ کا نعرہ لگاتے ہیں تو ہم ہر قومی ثقافت میں سے اس کے جمہوری اور سوشلسٹ عناصر ہی لیتے ہیں۔ اور ان عناصر کو ہم یکسر طور سے ہر قوم کی بورژوا ثقافت اور بورژوا قوم پرستی کے برخلاف لیتے ہیں…جو کوئی بھی محنت کش طبقے کی خدمت کرنا چاہتا ہے اسے تمام قوموں کے محنت کشوں کو ایک کرنا ہو گا اور بورژوا قوم پرستی کے خلاف غیرمتزلزل لڑائی لڑانا ہو گی۔ چاہے یہ قوم پرستی مقامی ہو یا غیرملکی‘‘ (ایضاً)۔ آخر میں لینن ان متضاد رجحانات کے درمیان انتہائی بے رحمی سے یوں لکیر کھینچتا ہے، ’’بورژوا قوم پرستی اور پرولتاری بین الاقوامیت دو ناقابل مصالحت نعرے ہیں جو پوری سرمایہ دارانہ دنیا میں دو دیوہیکل طبقاتی کیمپوں سے وابستہ ہیں اور قومی سوال کی طرف دو پالیسیوں بلکہ دنیا کو دیکھنے کے دو طریقوں کی غمازی کرتے ہیں‘‘ (ایضاً)۔ اسی تحریر میں وہ ایک بار پھر برملا اعلان کرتا ہے کہ قوم پرستی جتنی بھی مہذب ہو جائے اس کی مارکسزم سے مصالحت نہیں ہو سکتی ہے۔ اسی طرح وہ پرولتاری بین الاقوامیت اور مزدور یکجہتی کی مادی بنیادیں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے، ’’قوم پرستی کی ہر شکل کی جگہ مارکسزم بین الاقوامیت کو فروغ دیتا ہے۔ یعنی ایک بلند تر اتحاد میں تمام قوموں کا گھل مل جانا۔ ایک ایسا اتحاد جو ہماری آنکھوں کے سامنے تعمیر ہوتی ریلوے لائن کے ہر میل کیساتھ، ہر بین الاقوامی ٹرسٹ کیساتھ اور ہر مزدور انجمن کی تشکیل کیساتھ پروان چڑھ رہا ہے۔‘‘ علاوہ ازیں بورژوا قوم پرستی کی منافقت اور قومی سوال پر طبقاتی تضاد کے غلبے کو یوں بیان کرتا ہے، ’’جوائنٹ سٹاک کمپنیوں کے بورڈز میں ہمیں مختلف قوموں کے سرمایہ دار مکمل اتحاد و اتفاق سے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ فیکٹریوں میں مختلف قوموں کے مزدور شانہ بشانہ کام کرتے ہیں۔ ہر اہم اور گہرے سیاسی معاملے میں طرفداری کا تعین قوم نہیں بلکہ طبقہ کرتا ہے‘‘ (ایضاً)۔ اسی نکتے کو ایک اور جگہ پہ یوں اجاگر کرتا ہے، ’’سرمایہ دار اور جاگیردار ہر قیمت پر مختلف قوموں کے محنت کشوں کو تقسیم رکھنا چاہتے ہیں جبکہ خود منافع بخش کاروباروں میں حصہ داروں کے طور پر ہنسی خوشی ایک ساتھ رہتے ہیں… لیکن طبقاتی طور پر باشعور محنت کش‘ مزدوروں کی ہر تعلیمی، سیاسی اور ٹریڈ یونین تنظیم میں تمام قوموں کے محنت کشوں کا مکمل اتحاد چاہتے ہیں‘‘ (محنت کش طبقہ اور قومی سوال، 1913ء)۔ اور ایک بار پھر: ’’سوشل ڈیموکریسی کو تمام قومیتوں کے پرولتاریہ اور دوسرے محنت کش طبقات کو پرزور تنبیہ کرنا ہو گی کہ ’ان کی اپنی‘ بورژوازی کے قوم پرستانہ نعرے کھلے فریب پر مبنی ہیں۔ جو ’ہماری آبائی سرزمین‘ بارے اپنی میٹھی یا جذباتی تقریروں کے ذریعے پرولتاریہ کو تقسیم کرنے اور اپنی بورژوا وارداتوں سے اس کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ خود دوسری قوموں کی بورژوازی اور زارشاہی کے ساتھ معاشی اور سیاسی اتحاد بناتے جاتے ہیں‘‘ (قومی سوال پر تھیسس، 1913ء) ۔

ٹراٹسکی نے بھی جب انقلاب روس کے تناظر میں محکوم قوموں کی قوم پرستی کو ’’نابالغ بالشویزم کا بیرونی خول‘‘ قرار دیا تھا تو اس کا مطلب تھا کہ قومی تحریکوں میں سے ایسے انقلابی رجحانات برآمد ہو سکتے ہیں جو تیزی سے مارکسزم کے پروگرام کو اپنانے کی طرف جائیں۔ تاہم اس کے یہ معنی کسی صورت نہیں ہیں کہ قوم پرستی بحیثیت مجموعی خود کوئی ترقی پسندانہ یا انقلابی نظریہ ہے۔ جیسا کہ وہ ٹھوس مثالوں کی مدد سے واضح بھی کرتا ہے، ’’قومی تحریکوں کی جانب سے انقلاب کے بنیادی عمل، یعنی پرولتاریہ کی اقتدار کے لئے جدوجہد، کی اطاعت یکدم نہیں بلکہ مختلف مراحل میں اور مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے مکمل ہوئی۔ یوکرائنی، سفید روسی اور تاتاری مزدور، کسان اور سپاہی جو کیرنسکی، جنگ اور رسیفیکیشن (یعنی روسی سامراجیت اور ثقافتی بالادستی) کے مخالف تھے، اپنی مصالحت پسندانہ قیادت کے باوجود پرولتاری سرکشی کے اتحادی بن گئے۔ بالشویکوں کی معروضی حمایت سے آگے کے مرحلے میں وہ مجبور ہو گئے کہ فیصلہ کن طور پر بالشویک راستے پر گامزن ہو جائیں۔ فن لینڈ، لیٹویا، ایسٹونیا اور نسبتاً کمزور انداز میں یوکرائن میں قومی تحریک کی طبقہ بندی اتنی واضح شکل اختیار کر چکی تھی کہ صرف بیرونی دستوں کی مداخلت ہی پرولتاری انقلاب کی فتح کو روک سکتی تھی۔ ایشیائی مشرق، جہاں قومی بیداری زیادہ قدیم شکلوں میں وقوع پذیر ہو رہی تھی، بتدریج اور خاصی تاخیر سے ہی‘ بلکہ پرولتاریہ کے اقتدار پر قبضے کے بعد ہی پرولتاری قیادت کے ماتحت آ سکتا تھا۔ اگر آپ اِس پیچیدہ اور متضاد عمل کو بحیثیت مجموعی لیں تو نتیجہ واضح ہے: زرعی دھارے کی طرح قومی دھارا بھی اکتوبر انقلاب کے دریا میں شامل ہو رہا تھا‘‘ (انقلابِ روس کی تاریخ)۔

پاکستان جیسے معاشروں کے حوالے سے یہ مظہر بھی قابل ذکر ہے کہ لینن نے قومی ثقافتوں کے جن ترقی پسندانہ پہلوؤں کی بات کی ہے‘ یہاں کی ادھوری اور تاخیرزدہ سرمایہ داری اپنے شدید بحران کی کیفیت میں انہیں کچل کے رکھ دیتی ہے۔ جبکہ انہی ثقافتوں کے رجعتی اور پسماندہ عناصر کو زیادہ زہریلا کر کے حاوی کرتی چلی جاتی ہے۔ بالکل جیسے تاریخی طور پر سیکولرازم کا علمبردار یہ نظام آج ہر طرح کی مذہبی فرقہ واریت اور بنیاد پرستی کو انسانیت پر مسلط کرنے کے درپے ہے۔

یوں مارکسی بین الاقوامیت اور سوشلسٹ انقلاب کا مقصد لینن کے نزدیک نہ صرف قومی سرحدوں کو مٹانا اور قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لانا تھا بلکہ انہیں ایک دوسرے میں ضم کر دینا تھا۔ یہ کوئی یوٹوپیائی خواب نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ گلوبلائزیشن نے خود وہ بنیادیں فراہم کی ہیں جن کی بنیاد پر ایسا ممکن ہے۔ لیکن سرمایہ داری کی بین الاقوامیت نہ صرف ادھوری اور تضادات سے لبریز ہے بلکہ جبر اور استحصال پر مبنی بھی ہے۔ سرمایہ داری میں اگر ایک طرف گلوبلائزیشن کا رجحان موجود ہے تو دوسری طرف انسانوں کو تقسیم اور باہم دست و گریبان رکھنا بھی اس نظام کی مجبوری بن جاتی ہے۔ بالخصوص بحران کے ادوار میں یہ نظام بدترین قوم پرستانہ اور فسطائی رجحانات کو سامنے لے آتا ہے جس کی ایک صورت ہم ’’فار رائٹ‘‘ کی مختلف پارٹیوں اور رہنماؤں کے ابھار کی صورت میں آج دیکھ بھی رہے ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ 2008ء کے بعد تجارت اور سرمایہ کاری کے معاملے میں سرمایہ دارانہ گلوبلائزیشن کا رجحان پسپائی کا شکار ہوا ہے اور انسانوں کی بین الاقوامی نقل و حمل، جو ویسے ہی سرمائے کے مقابلے میں بہت محدود ہوتی ہے، زیادہ مشکل ہو گئی ہے۔ ایسے میں پرولتاری بین الاقوامیت ہی وہ نظریہ اورلائحہ عمل بن سکتا ہے جو ماضی کے ہر طرح کے رجعتی اور زہریلے تعصبات کا قلع قمع کرے۔

لینن کے نزدیک قوموں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیے جانا عالمی سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کا ایک پہلو تھا تاکہ مستقبل میں قوموں کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کی راہیں ہموار ہو سکیں (جیسے کہ مارکس کا خیال تھا کہ برطانوی محنت کش طبقے کو آئرلینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کی حمایت کرنی چاہئے تاکہ دونوں قوموں کی ایک جمہوری اور رضاکارانہ فیڈریشن تشکیل پا سکے)۔ لیکن لینن کی انقلابی پالیسی کا اس سے بھی اہم پہلو تمام قوموں کے محنت کشوں کی طبقاتی و تنظیمی یکجہتی تھی جس کے تابع اس نے خودارادیت و علیحدگی کے حق کو کیا۔ کیونکہ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب حکمران طبقات اپنے اقتدار کو بچانے یا طبقاتی مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے ایسے حالات میں علیحدگی کا نعرہ بلند کر سکتے ہیں جب یہ وسیع تر محنت کش طبقے اور خود محکوم قوم کی اکثریتی پرتوں کے مفادات سے متضاد ہو۔ اس صورت میں محنت کش طبقے کو یہ اختیار حاصل ہونا چاہئے کہ وہ اپنے طبقاتی مفادات اور تاریخی نصب العین کی مناسبت سے علیحدگی کے خلاف ایجی ٹیشن کر سکے۔ مثلاً بالشویک انقلاب کے وقت بہت سی محکوم قوموں کے حکمران طبقات، جو تاریخی طور پر زار شاہی کے کاسہ لیس اور قومی جبر میں اس کے آلہ کار رہے تھے، اس وقت قومی آزادی اور علیحدگی کے علمبردار بن گئے جب انقلاب ان کے علاقوں میں سرایت کرنے لگا۔ لیکن مختلف قوموں کے محنت کشوں کی یکجہتی کے حوالے سے بھی لینن اپنی تحریروں میں مسلسل زور دیتا رہا کہ یہ تبھی ممکن ہے جب حاکم قوم کا پرولتاریہ ہر قسم کے قومی جبر اور مراعات کی مخالفت کرے، قومی برابری کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بنائے اور محکوم قوموں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرے۔ انہی بنیادوں پر وہ محکوم قوم کے محنت کشوں کا اعتماد جیت کر طبقاتی جڑت قائم کر سکتا ہے اور اس کے بغیر ’’بین الاقوامیت ایک بے معنی اصطلاح ہی رہے گی۔‘‘ جبکہ دوسری طرف محکوم قوم کے محنت کشوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ اپنے طبقے کو قومی بنیادوں پر تقسیم کرنے والی بورژوا قوم پرستی کو کوئی رعایت نہ دیں اور حاکم قوم کے محنت کشوں کیساتھ طبقاتی جڑت کو ہر ممکن حد تک فروغ دیں تاکہ ایک آزادانہ پرولتاری جدوجہد کی راہ ہموار ہو سکے۔ اسی طبقاتی جڑت اور جدوجہد کی بنیاد پر جب محنت کش طبقہ ایک انقلابی تحریک میں ابھرتے ہوئے خود کو قوموں کی قیادت میں لائے گا تو قومی جبر و استحصال کی بنیادوں کو ہی مٹا کے قومی سوال کو کسی تلخی اور علیحدگی کے بغیر حل کر سکے گا۔

یہاں ایک بار پھر یہ حقیقت بیان کرنا ضروری ہے کہ لینن مزدور تنظیموں یا پارٹیوں کی قومی بنیادوں پر تقسیم یا علیحدگی کا سخت مخالف تھا۔ یہی اصول اس نے انقلابی پارٹی کے لئے بھی وضع کیا: ’’پارٹی کو ایک وفاقی ڈھانچہ نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی قومی بنیادوں پر سوشل ڈیموکریٹک گروہ تشکیل دینے چاہئیں۔بلکہ کسی بھی علاقے میں تمام قوموں کے محنت کشوں کو یکجا کرنا چاہئے، مقامی پرولتاریہ کی تمام زبانوں میں پراپیگنڈا اور ایجی ٹیشن کرنی چاہئے، ہر قسم کی قومی مراعت کے خلاف تمام قوموں کے محنت کشوں کی مشترکہ جدوجہد کو فروغ دینا چاہئے اور مقامی و ریجنل تنظیموں کی خودمختیاری کو تسلیم کرنا چاہئے‘‘ (قومی سوال پر تھیسس، 1913ء)۔ مزید برآں جیسا کہ ٹراٹسکی کی مندرجہ بالا تحریر میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مارکسسٹوں کے نزدیک حق علیحدگی کو تسلیم کرنے کا مقصد علیحدگی کی وکالت بالکل نہیں ہے بلکہ قوموں کے درمیان یگانگت اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنا ہے۔ لینن اس امر کی وضاحت کچھ یوں کرتا ہے، ’’رجعتی لوگ طلاق کی آزادی کی مخالفت کرتے ہیں… اور باآوازِ بلند کہتے ہیں کہ اس کا ’مطلب خاندان کی ٹوٹ پھوٹ ہے۔‘ تاہم جمہوریت پسندوں کا کہنا ہے کہ یہ رجعتی لوگ منافق ہیں اور ایک جنس کی مراعات اور خواتین پر بدترین جبر کا تحفظ کر رہے ہیں۔ ان (جمہوریت پسندوں) کا خیال ہے کہ درحقیقت طلاق کی آزادی سے خاندانی رشتے ’ٹوٹ پھوٹ‘ کا شکار نہیں ہوں گے بلکہ الٹا جمہوری بنیادوں پر زیادہ مضبوط ہوں گے… اسی طرح حق خودارادیت یعنی حق علیحدگی کے حامیوں پر علیحدگی کی حوصلہ افزائی کا الزام لگانا بھی اتنا ہی احمقانہ اور منافقانہ ہے جتنا طلاق کی آزادی کے حامیوں پر خاندانی رشتوں کی تباہی کا الزام لگانا‘‘ (قوموں کا حق خودارادیت، 1914ء)۔ استثنائی صورتوں سے ہٹ کے نہ تو مارکس اور اینگلز اور نہ ہی لینن اور ٹراٹسکی نئی قومی سرحدوں کی تشکیل اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں انسانوں کی تقسیم کو کوئی ترقی پسندانہ یا مثبت پیش رفت سمجھتے تھے۔ اس ضمن میں لینن کا دوٹوک موقف تھا کہ پرولتاریہ کی ہراول پرتوں کی ہمیشہ کوشش ہو گی کہ جمہوریت اور قومی مساوات کے اصولوں پر ہر ممکن حد تک وسیع ریاست تشکیل پائے اور ’’ہم ہر قیمت پر چھوٹی قوموں کو برقرار رکھنے کے حق میں نہیں ہیں۔ وفاقی تعلقات کے پیٹی بورژوا خیال کے برعکس برابری کی بنیادوں پر ہم صریحاً مرکزیت کے حمایتی ہیں‘‘ (عظیم روسیوں کا قومی غرور و تکبر، 1914ء)۔ بعد کے سالوں میں اس نکتے کو لینن نے یوں آگے بڑھایا، ’’ہم محکوم قوموں کے حق خودارادیت اور حق علیحدگی کا مطالبہ اس لئے نہیں کرتے کہ ہم ملک کی معاشی طور پر تقسیم کا خواب دیکھتے ہیں یا چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی تشکیل کے خواہاں ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس کہ ہم بڑی ریاستیں اور قوموں کا قریبی اتحاد بلکہ ادغام چاہتے ہیں۔ لیکن صرف حقیقی جمہوریت اور حقیقی بین الاقوامیت کی بنیاد پر‘ جو علیحدگی کی آزادی کے بغیر ناممکن ہے۔ جیسے مارکس نے 1869ء میں آئرلینڈ کی علیحدگی کا مطالبہ برطانیہ اور آئرلینڈ کے درمیان تقسیم کو ابھارنے کے لئے نہیں بلکہ بعد ازاں ان کے آزادانہ اتحاد کے لئے کیا تھا۔ اس کا یہ مطالبہ ’آئرلینڈ کے لئے انصاف‘ سے زیادہ برطانوی پرولتاریہ کی انقلابی جدوجہد کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لئے تھا…‘‘ (انقلابی پرولتاریہ اور قوموں کا حق خودارادیت، 1915ء)۔ اور اس کے تقریباً ایک سال بعدـ: ’’(حق خودارادیت کے) اس جمہوری سیاسی مطالبے کا مطلب علیحدگی کے حق میں ایجی ٹیشن کرنے کی آزادی اور علیحدگی کی خواہش رکھنے والی قوم میں ریفرنڈم کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرنے کی آزادی ہے۔ نتیجتاً یہ مطالبہ کسی طور بھی علیحدگی، تقسیم اور چھوٹی ریاستوں کی تشکیل کا مطالبہ نہیں ہے… جوں جوں ریاست کا جمہوری نظام علیحدگی کی مکمل آزادی کے قریب آنے لگتا ہے‘ علیحدگی کی عملی کوشش اسی قدر نایاب اور کمزور ہونے لگتی ہے۔ کیونکہ نہ صرف معاشی ترقی بلکہ عوام کے مفادات کے نقطہ نظر سے بھی بڑی ریاستوں کے فائدے شک و شبہ سے بالا ہیں… خودارادیت کے حق کو تسلیم کرنے کا مطلب وفاق کو اصول بنانا نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک انسان اس اصول کا سخت مخالف اور جمہوری مرکزیت کا حامی ہو لیکن اس کے باوجود جمہوری مرکزیت تک کے واحد راستے کے طور پر فیڈریشن کو قومی نابرابری پہ فوقیت دے۔ بالکل یہی وجہ تھی کہ مارکس اگرچہ ایک مرکزیت پسند تھا لیکن اس نے آئرلینڈ کی برطانیہ کے ہاتھوں جبری محکومی پر آئرلینڈ کی برطانیہ کیساتھ فیڈریشن کو ترجیح دی‘‘ (سوشلسٹ انقلاب اور قوموں کا حق خودارادیت، 1916ء)۔

ٹراٹسکی نے قومی سوال پر لینن کے اس بیش قیمت کام کو ’’انسانیت کے خزانوں‘‘ میں شمار کیا ہے۔ محکوم قوموں کی طرف لینن کی اس پالیسی نے نہ صرف بالشویک انقلاب بلکہ اس کے بعد چھڑ جانے والی انتہائی تباہ کن اور خونریز خانہ جنگی میں سرخ فوج کی فتح کو بھی یقینی بنایا۔ بالشویکوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ قومی حق خودارادیت ان کے لئے محض کھوکھلا نعرہ نہیں تھا۔اقتدار سنبھالنے کے بعد سوویت حکومت نے ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں فن لینڈ کے حق آزادی کو تسلیم کیا۔ جس کے بعد یوکرائن، مالڈووا، لیتھوینیا، اسٹونیا، بیلاروس، پولینڈ اور لیٹویا وغیرہ کی آزادی کی حمایت کی۔ اگرچہ پہلی عالمی جنگ اور اس کے بعد سر پہ منڈلاتی خانہ جنگی کے حالات میں یہ انتہائی پیچیدہ اور کٹھن کام تھا۔ لیکن انقلاب کی فتحیابی سے پہلے بھی بالشویک پارٹی کو قومی مسئلہ سے متعلق نظریاتی طور پر تیار کرنے کے لئے لینن کو سخت جدوجہد کرنا پڑی۔ جیسا کہ ٹراٹسکی بیان کرتا ہے، ’’بالشویک پارٹی نے کسی طور بھی قومی سوال پر وہ موقف فروری انقلاب کے فوراً بعد نہیں اپنایا جسے لمبے عرصے میں اِس کی فتح کا ضامن بننا تھا۔ ایسا نہ صرف کمزور اور ناتجربہ کار پارٹی تنظیموں والے سرحدی علاقوں بلکہ پیٹروگراڈ مرکز میں بھی تھا۔ جنگ کے دوران پارٹی اِتنی کمزور ہو گئی تھی اور اِس کے کیڈروں کا نظریاتی اور سیاسی معیار اِتنا گر گیا تھا کہ لینن کی آمد تک اِس کے باضابطہ رہنماؤں نے قومی سوال پر بھی انتہائی متذبذب اور ادھورا موقف اپنایا‘‘ (انقلابِ روس کی تاریخ)۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ قومی مسئلے پر قوم پرستانہ و مصالحت پسندانہ خوش فہمیاں، تعصبات اور تذبذب نہ صرف محنت کش طبقے بلکہ اپنے عہد کی انقلابی ترین پارٹیوں اور تنظیموں میں بھی سرایت کر سکتے ہیں جن کے خلاف مسلسل نظریاتی و سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ جو لینن نے مرتے دم تک جاری رکھی۔ مثلاً قومیتوں کے کمیسار کی حیثیت سے سٹالن نے جب یوکرائن، بیلاروس، جارجیا، آزربائیجان اور آرمینیا کی آزاد سوویت جمہوریاؤں کو روسی جمہوریہ میں خود مختیار علاقوں کی طور پر شامل کرنے کی تجویز پیش کی تو شدید علالت کے باوجود لینن نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوویت یونین کو مساوی جمہوریاؤں کی فیڈریشن کے طور پر قائم کرنے پر اصرار کیا۔ جس کے سامنے سٹالن کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ لیکن لمبے عرصے میں لینن کی قومی پالیسی سٹالن اور سٹالنزم کے لئے ایک بند کتاب ہی رہی۔ نتیجتاً لینن کی وفات اور ٹراٹسکی کی بے دخلی و جلاوطنی کے بعد ردِ انقلابی سٹالنسٹ افسرشاہی نے سوویت یونین کے اندر اور باہر چھوٹی قوموں کی طرف روسی بالادستی اور جبر پر مبنی جو رویہ اپنایا اس کا مارکسزم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن قومی سوال پر لینن کا کام آج بھی اتنا ہی متعلقہ اور اہم ہے جتنا انقلابِ روس کے عہد میں تھا۔

آج اس خطے میں طبقاتی جبر و استحصال کی انتہا ہو چکی ہے تو قومی مسئلہ بھی پوری شدت سے سلگ رہا ہے۔ یہ سنگین قومی محرومی اور محکومی کے حقیقی جذبات ہی ہیں جو ملک کے طول و عرض میں نہ صرف قومی حقوق کی تحریکوں بلکہ علیحدگی کی امنگوں کو بھی جنم دیتے چلے آ رہے ہیں۔ حالیہ سالوں میں ان تحریکوں میں نئی قیادتیں سامنے آئی ہیں جو نوجوان بھی ہیں اور جن میں خواتین کی بھی کلیدی شمولیت ہے۔ ان میں خاصے ترقی پسندانہ رجحانات اور طبقاتی مطالبات بھی موجود ہیں۔ لیکن ساتھ ہی قوم پرستی سے جڑے ہر طرح کے رجعتی تعصبات اور لبرل سرمایہ داری سے متعلق مضحکہ خیز خوش فہمیاں بھی نظر آتی ہیں۔ جس کی ایک وجہ طبقاتی کشمکش کی وقتی پسپائی اور محنت کش طبقے کا عدم تحرک بھی ہے۔ جس کے نتیجے میں پھر قومی مسئلے کو قوم پرستی کی نظر سے دیکھنے اور اقوام متحدہ جیسے دوغلے اور منافقانہ اداروں یا براہِ راست دوسری سامراجی طاقتوں سے آس لگانے کی روش عام ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود ان تحریکوں کو نہ دھتکارہ جا سکتا ہے‘ نہ نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ نہ ہی بلوچستان کی محرومی اورمحکومی کو غیر مقامی مزدوروں کے قتل، جو یقینا ایک انتہائی رجعتی اور قابل مذمت اقدام ہے، کے پیچھے چھپا کر ہاتھ جھاڑے جا سکتے ہیں۔ یہ ایک طرف انفرادی دہشت گردی کا ذمہ دار پوری قوم کو ٹھہرانے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف یہ سوچ حاکم اور محکوم کو ایک سطح پر کھڑا کر کے ظلم و جبر کے طویل تاریخی پس منظر پر پردہ ڈالنے کا موجب بنتی ہے۔ جس کے نتیجے میں حالات کو اس نہج تک پہنچانے والی سامراجی طاقتیں بری الذمہ ہو جاتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی اس سے مسلح جدوجہد کے طریقہ کار کی محدودیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر جب یہ طریقہ کار معروضی حالات سے ماورا، انقلابی نظرئیے سے محروم اور وسیع تر محنت کش عوام سے جدا ہو کر تنگ نظر قوم پرستی، جلد بازی اور مہم جوئی کے راستوں پر گامزن ہو جائے تو پوری تحریک کو بند گلی میں لے جاتا ہے۔ دوسری طرف اس نظام اور سٹیٹس کو پر یقین رکھنے والی سیاسی اشرافیہ کا ریاستی کاسہ لیسی اور گماشتگی پر مبنی کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ان حالات میں انقلابیوں کا فریضہ ہے کہ لینن کے وضع کردہ لائحہ عمل کے مطابق قومی محکومی اور جبر کی ہر شکل کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے تمام قوموں کے محنت کشوں کو یکجا کرنے کی جدوجہد جاری رکھیں اور عبوری مطالبات کی مدد سے قومی سوال سمیت سماج میں سلگتے ہر بنیادی مسئلے کے حل کا انقلابی سوشلسٹ پروگرام وسیع تر عوام کے سامنے پیش کریں۔ اس عظیم تاریخی نصب العین کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پھر ہر قومی و طبقاتی تحریک میں مداخلت لازم ہو جاتی ہے۔ جس کا مقصد قیادتوں کی خوشنودی کی بجائے تحریکوں میں شامل ہراول اور باشعور ترین عناصر کو اپنے پروگرام پر جیتنا ہی ہو سکتا ہے۔ آج پاکستان میں قومی مسئلہ جس قدر الجھا ہوا ہے اور مختلف قوموں کے افراد کی دوسرے خطوں میں جس بڑے پیمانے پر سکونت اور نقل مقانی کا رجحان موجود ہے اس کے پیش نظر یہ کہنا کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ ایک رجعتی انداز میں قومی بنیادوں پر یہ معاشرے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں تو جو بربادی ہو گی اس کے سامنے یوگوسلاویہ میں ہونے والے لسانی قتل عام بھی ماند پڑ جائیں گے۔ لیکن مارکسزم کے سائنسی نظریات پر یقین اور سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کے ذریعے طبقاتی اور قومی جبر و استحصال پر مبنی اس پرانی اور تاریک دنیا کی جگہ ایک نئی دنیا تعمیر کی جا سکتی ہے۔ جو لینن کے الفاظ میں تمام قوموں کے محنت کشوں کے اتحاد پر مبنی ہو گی۔ ایک ایسی دنیا جس میں کسی خصوصی مراعت اور انسان کے ہاتھوں انسان پر جبر کی ذرہ برابر گنجائش نہیں ہو گی۔ ایک ایسی دنیا جس میں سارے جہاں کے محنت کش بلند تر تاریخی اور مادی بنیادوں پر ایک حقیقی انسانی اور بین الاقوامی ثقافت کی استواری کا عمل شروع کریں گے۔