حسن جان

مذہبی بنیاد پرستی کا عفریت جنوب ایشیائی برصغیر کو چیر پھاڑ رہا ہے۔ مذہبی بنیادوں پر ہجومی تشدد اور بلوے ایک معمول بنتے جا رہے ہیں۔ 6 دسمبر کو سیالکوٹ میں ایک وحشی ہجوم، جن میں فیکٹری کے مزدور بھی شامل تھے، نے فیکٹری کے ایک ہندو منیجر پریانتھا کمارا، جس کا تعلق سری لنکا سے تھا، کو توہین مذہب کا الزام لگا کر تشدد کر کے قتل کر دیا۔ بعد میں اس کی لاش کو بیچ سڑک پر رکھ کر جلا دیا گیا۔ اس دوران یہ وحشی ہجوم نفرت انگیز نعرے لگاتے ہوئے اپنے اس عمل پر جشن منا رہا تھا۔ بعد میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ فیکٹر ی کے کچھ ملازمین فیکٹری کے انتظامی معاملات میں سری لنکن منیجر کی سختی سے نالاں تھے۔ یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ شاید اس سختی کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ واقعہ کی فوری وجہ کے بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں اور اندازے لگائے جا سکتے ہیں لیکن اگر بڑے زاویے سے دیکھا جائے تو یہ پاگل پن اور وحشت اس سماج کی رگوں میں براہ راست نو آبادیاتی حکمرانی کے خاتمے کے وقت برطانوی سامراج پہلے ہی انڈیل گیا تھا جب اس خطے کو مذہب کی بنیاد پر چیرا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ سماجی معاشی بحران کی شدت نے سماج کی بوسیدگی اور شکست و ریخت کی رفتار کو مزید تیز کر دیا ہے جس سے یہ نظام اور سماج یہاں کے باسیوں کے لیے ایک عذاب مسلسل میں بدل گیا ہے۔

اسی طرح کی مذہبی نفرت اور درندگی بھارت میں بھی جاری ہے۔ گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگا کر مسلمانوں کو ہجومی تشدد کے ذریعے قتل کرنے کے واقعات ہر دن بڑھتے جا رہے ہیں۔ دائیں بازو کے ہندو بنیادپرستوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے جو گلیوں میں دندناتے پھرتے ہیں اور مذہبی اقلیتوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہریدوار میں ہندو بنیاد پرستوں کے مذہبی اجتماع کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر آج کل بہت وائرل ہے جس میں مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے لوگوں کو اکسایا جا رہا ہے۔ اسی طرح دارالحکومت دہلی سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع گڑگاؤں کے علاقے میں پچھلے دو مہینے سے ہندو بنیاد پرستوں کے ٹولے اشتعال انگیزی کر رہے ہیں اور جمعہ کی نماز کے اجتماع کی جگہ پر قصداً تنازعہ کھڑا کر رہے ہیں۔ کبھی اجتماع کی جگہ پر اکٹھے ہو کر ہندو مذہبی گیت گاتے ہیں اور کبھی اس جگہ پر گائے کا فضلہ پھینک کر اشتعال انگیزی کرتے ہیں۔ نمازیوں کا کہنا ہے کہ وہ سالوں سے اس جگہ پر جمعہ کی نماز ادا کرتے آئے ہیں لیکن کبھی کوئی ایسا مسئلہ پیش نہیں آیا۔ اس سال بھارت میں سات مختلف شہروں میں کرسمس کی تقریبات کو ہندو بنیاد پرستوں نے بد نظمی کا شکار کر کے تہہ و بالا کیا۔ بی جے پی کے پچھلے آٹھ سالہ دور میں اس طرح کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔

سیالکوٹ واقعہ کے فوراً بعد بہت سارے لوگ اس دلخراش واقعے کو ضیا الحق کی اسلامائزیشن اور مذہبی انتہا پسندی کی پالیسی کے نتائج سے منسوب کر رہے تھے۔ یہ ایک انتہائی سطحی تجزیہ ہے۔ مسئلہ اس طرح کے لبرل تجزیوں سے زیادہ گہرا ہے جو یہ فرض کرتے ہیں کہ ضیا آمریت کے دوران ہی مذہبی تنگ نظری اور انتہا پسندوں کا جنم ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی انتہاپسندی کا زہر مختلف شکلوں میں اور مختلف سطحوں پر ضیا سے بھی پہلے موجود تھا۔ یہی بات بھارت پر بھی صادق آتی ہے جو بظاہر ایک سیکولر ملک ہے لیکن اقلیتوں اور مسلمانوں کے خلاف بلوے آزاد ی کے بعد ہی شروع ہو گئے تھے۔ حتیٰ کہ ملک کے بانی موہن داس گاندھی کو ایک ہندو انتہا پسند نتھو رام گوڈسے نے 1948ء میں قتل کر دیا تھا۔ قاتل محض ایک فرد نہیں تھا بلکہ انتہا پسندوں کے ایک بڑے ٹولے کی نمائندگی کرتا تھا جو سربراہ مملکت کو قتل کرنے کی اہلیت بھی رکھتے تھے۔ برصغیر ہندوستان کی مذہبی تقسیم مستقبل کے لیے ایک انتباہ تھا کہ آگے کیا وحشت آنے والی ہے۔ تاہم پاکستان میں 1968-69ء کی انقلابی تحریک کی شکست اور افغان ثور انقلاب کے خلاف ڈالر جہاد کے ردِ انقلاب نے پہلے سے موجود مذہبی انتہا پسندی کو مزید مہمیز اور توانائی فراہم کی جسے پھر ضیاالحق کی آمریت نے ایک باقاعدہ شکل دی۔

اسلامی بنیاد پرستی کے بیج تو 1947ء میں برصغیر کی مذہبی تقسیم کے ساتھ ہی بو دیئے گئے تھے۔ پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین (1951-53ء)نے ایک دفعہ کہا تھا، ”میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ مذہب ایک انفرادی مسئلہ ہے اور نہ ہی اس بات کو مانتا ہوں کہ ایک اسلامی ریاست میں ہر شہری کو بلا تفریق نسل، ذات یا عقیدے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔“ اس بیان سے پاکستان کے حکمران طبقات کی رجعتی ذہنیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو آج تک اسی طرح ہے۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ہی ہندوؤں کے خلاف مذہبی دنگوں کا آغاز ہوا۔ ان میں سب سے بڑا دنگا 1950ء میں مشرقی پاکستان میں ہوا جس کے دوران ہزاروں ہندوؤں کا قتل عام اور خواتین کی عصمت دری کی گئی جبکہ ہزاروں بے گھر ہوئے۔ ہندو علاقوں اور دیہاتوں پر حملے کیے گئے اور گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔ ان کارروائیوں میں پولیس، مشرقی پاکستان کے انصار، مشرقی پاکستان رائفل اور دیگر مذہبی انتہا پسند عناصر پیش پیش تھے۔ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہندو بھارت کے مغربی بنگال میں ہجرت پر مجبور ہوئے۔ پاکستان کے مغربی حصے میں چند سال بعد 1953ء میں قادیانیوں کے خلاف اسی طرح کے بلوے ہوئے جس کے نتیجے میں لاہور شہر میں نظام زندگی تین مہینے تک معطل رہا۔

مذہبی منافرت کا یہی عمل بھارت میں بھی جاری رہا جہاں پہلے مسلمان دشمن فسادات بھارت کے صوبے گجرات میں 1969ء میں ہوئے جس میں سات سو کے قریب لوگ (زیادہ تر مسلمان) مارے گئے اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوئے۔ اس کے اگلے سال مہاراشٹرا میں اسی طرح کے مذہبی فسادات ہوئے جن میں سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بنے۔ ایسے واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے جو آج تک جاری ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان میں سے بیشتر واقعات اُس وقت ہوئے جب اپنے آپ کو سیکولر کہنے والی کانگریس اقتدار میں تھی۔ بھارتی سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے بحران کی وجہ سے اگرچہ اب ان واقعات کی رفتار میں مزید تیزی آئی ہے۔

برصغیر میں مذہبی انتہا پسندی کی موجودہ کیفیت کی متعدد وجوہات ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ یہاں مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی ایک لمبی تاریخ بھی رہی ہے جو ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد اور بعد میں برطانوی راج کی ہندوستان پر براہ راست حکومت نے اس مذہبی ہم آہنگی کا خاتمہ کر دیا۔ اپنی حکمرانی کو مضبوط کرنے کے لیے برطانوی راج نے ہر طریقے سے مذہبی نفرتوں (بالخصوص ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان) کو ہوا دینے کی کوشش کی۔ قدیم روم کے حکمرانوں کی واردات ’تقسیم کر کے حکمرانی کرو‘ ان کی پالیسی تھی۔ کمپنی اور بعد میں برطانوی راج کے دور میں ہی تمام اقسام کے مذہبی انتہا پسند گروہ سر اٹھانے لگے۔ گائے بچاؤ تحریک انیسوی صدی کے اواخر میں شروع ہوئی اور گائے ذبح کرنے پر پہلا فساد 1893ء میں ہوا۔ برصغیر میں مقدسات کی توہین کے حوالے سے کوئی قانون سرے سے تھا ہی نہیں اور نہ ہی یہاں پر ایسا کوئی مسئلہ تھا۔ توہین کے قوانین ایک یورپی تصور ہیں جہاں عہد وسطیٰ میں یہ قوانین لاگو تھے۔ برطانوی سامراج نے ان قوانین کو برصغیر میں متعارف کروا کر مذہبی خونریزی کی بنیاد رکھی۔

اسی طرح برطانوی راج نے جان بوجھ کر ایسے تنازعات تخلیق کیے جو آج تک بھارت اور پاکستان میں سیاسی منظرپر چھائے ہوئے ہیں۔ مثلاً بابری مسجد کے تنازعے کو قصداً ایک برطانوی افسر فرانسس بوچھانان نے اس وقت تخلیق کیا جب اس نے بابری مسجد کا سروے کر کے ایک دعویٰ کیا کہ یہ مسجد دراصل ایک مندر کے اوپر بنائی گئی ہے۔ پچھلی دو صدیوں سے ہندو اور مسلمان مذہبی دایاں بازو اس تنازعے کے گرد اپنی رجعتی سیاست کر رہے ہیں جس میں اب تک بے شمار فسادات ہوئے ہیں اور ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

معاشی اور سماجی تباہ کاری کے ساتھ ساتھ برطانوی نو آبادیاتی حکمرانوں نے برصغیر کی تاریخ کو مسخ کر کے ایسے انداز میں پیش کیا جس سے انہوں نے اپنی قبضہ گیریت کو جواز فراہم کیا۔ یہاں کی تاریخ کو انتہائی تنگ نظری کی بنیاد پر صرف ہندو مسلم چپقلش کے طور پر پیش کیا گیا۔ عہد وسطیٰ کے ہندوستان میں ہونے والی تمام تر جنگوں اور حملوں کو صرف مذہبی رنگ دیا گیا یعنی ہندوؤں اور اسلامی فوجوں کے درمیان جنگ کے طور پر پیش کیا گیا۔ ہندوؤں کو مظلوم اور مسلمانوں کو ظالم قوتوں کے طور پربیان کیا گیا۔ لیکن حقائق ان لبرل تجزیوں سے بہت مختلف تھے۔ جیسا کہ ششی تھرور نے لکھا ہے، ”حقائق واضح ہیں: مذہبی بنیادوں پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تنازعہ نو آبادیاتی دور میں ہی شروع ہوا۔ نو آبادیاتی حکمرانوں نے اپنے مشرقی اندازوں (کہ ہندوستانی سماج میں مذہب بنیادی تقسیم ہے) کی بنیاد پر بہت سے سماجی تنازعات کو مذہبی قرار دیا۔ اس بات پر ایک عمومی اتفاق موجود ہے کہ انیسویں صدی سے پہلے ایک مجسم ہندو یا مسلمان شناخت کا وجود غیر یقینی ہے“ (ششی تھرور، ”شرمناک سلطنت: برطانیہ نے ہندوستان کے ساتھ کیا کیا؟“)۔ مسلمان اور ہندو بادشاہوں کے درمیان ہونے والی جنگیں برطانوی راج کے متعصب تجزیوں سے بہت مختلف مظاہر تھے۔ مثلاً بہت سے ہندو راجوں کی فوج میں بہت سے مسلمان سپہ سالار اور سپاہی ہوتے تھے جو مسلمان بادشاہوں کی فوج سے لڑتے تھے جن کی فوج میں بہت سے سپہ سالار اور سپاہی ہندو ہوتے تھے۔

اسی طرح برطانوی مورخین نے انتہائی شاطرانہ انداز میں مسلمان حکمرانوں کے ہاتھوں مندروں کی مسماری کو ہندو مذہب کی بے حرمتی کے طور پر پیش کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مندروں کی مسماری کا تعلق مذہبی جذبات یا عقیدے سے نہیں تھا۔ مسماری کا مقصد دراصل اُس مخصوص بادشاہ کی تذلیل اور اس کی طاقت کو للکارنا ہوتا تھا۔ ایسی کئی جنگوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں جن میں ہندو راجوں نے اپنے ہم مذہب حریف بادشاہوں کے علاقوں میں گھس کر مندروں کو مسمار کیا۔ جیسا کہ ششی تھرور نے اپنی کتاب میں لکھا ہے، ”سینتھیا ٹیلبوٹ اور رچرڈ ایٹن نے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تحقیق کر کے یہ انکشاف کیا ہے کہ مندروں کی بے حرمتی دراصل اپنی سرحدوں کو آگے پھیلانے کا ایک مظہر تھا جو جنگوں اور مسلح کشمکش کے دوران ہوتا تھا۔ ایٹن کا ماننا ہے کہ پورے ہندوستان میں ترک اور دیگر مسلمان حکمرانوں کی جانب سے مندروں کی مسماری ان بادشاہتوں میں ہوتی تھی جنہیں فتح کیا جا رہا ہو۔ ایک شاہی مندر دراصل بادشاہ کی طاقت کی علامت ہوتی تھی اور اس کی مسماری دراصل بادشاہ کی تضحیک ہوتی تھی۔ آندراپردیش میں مسلمانوں کے پھیلاؤ پر ٹیلبوٹ کی تحقیق کے نتائج بھی یہی نکلے۔ دوسرے الفاظ میں مندروں پر حملوں کے مقاصد سیاسی ہوتے تھے نہ کہ مذہبی۔ ایٹن اور ٹیلبوٹ کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کو بت شکن کے طور پر پیش کرنا حقائق سے کوسوں دور ہے“ (ایضاً)۔ مختصر یہ کہ برصغیر ہندوستان ایک انتہائی پیچیدہ سماج تھا جسے برطانوی راج نے اپنی مجرمانہ حکمرانی کو مضبوط کرنے کی خاطر محض مذہبی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی۔

برطانوی سامراج کے یہ تمام تر جرائم 1947ء میں اُس وقت اپنے عروج کو پہنچے جب انہوں نے جنوب ایشیائی برصغیر کے زندہ جسم کو مذہبی تعصب کی بنیاد پر کاٹ کر دو الگ ملک بنائے۔ اس مذہبی تقسیم کے دوران لاکھوں لوگ مذہبی نفرت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دونوں ملکوں کے نئے حکمران طبقات نے برطانوی راج کی اسی مذہبی تقسیم کی میراث کو مزید آگے بڑھایا۔ بھارت صرف کاغذی طور پر ہی سیکولر ہے اور تیزی سے ایک ہندو راشٹرا کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پاکستان تو پہلے سے ہی ایک مذہبی ریاست ہے۔ یہ مذہبی تعصب نو آبادیاتی نظام کی براہ راست پیداوار ہے۔ دونوں اطراف کے حکمران طبقات اپنی حکمرانی کے لیے مذہبی تعصب پر ہی انحصار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہیں۔ ان خونی لکیروں کی موجودگی میں یہاں مذہبی رواداری اور ہم آہنگی پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ عالمی سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے بحران کی وجہ سے حکمران طبقات پہلے سے زیادہ مذہبی تعصب اور رجعتی تقسیموں پر منحصر ہیں تاکہ طبقاتی بغاوتوں کو زائل کیا جا سکے اور سماجی بے چینی کے رخ موڑے جا سکیں۔ ان سرمایہ دارانہ ریاستوں اور نظاموں کو اکھاڑ پھینک کر ہی حقیقی معنوں میں ایک انسانی معاشرہ تعمیر کیا جا سکتا ہے۔