لال خان

تلخیص و ترجمہ: فرہاد کیانی

2017ءمیں سائیکس پیکو معاہدے کے 100 سال مکمل ہونے پر ڈاکٹر لال خان کا ایشین مارکسسٹ ریویو کیلئے لکھا گیا یہ آرٹیکل قارئین کے لئے اُردو میں شائع کیا جا رہا ہے۔

سائیکس پیکو معاہدہ

1916ءمیں برطانوی اور فرانسیسی سامراجیوں کے درمیان مشرق وسطیٰ کی بندر بانٹ کے لیے سائیکس پیکو معاہدہ طے پایا۔ مشرق وسطیٰ میں بسنے والے عربوں اور دوسری اقوام کی امنگوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نقشے پر من مانی لکیریں کھینچ دی گئیں۔ اس خطے میں آج تک جاری مسلسل بحرانات کی بڑی وجہ یہ سامراجی معاہدہ ہے۔ آج شام اور عراق میں خانہ جنگی، داعش کا عروج و زوال، لبنان میں مفلوج حکومت، ترکی میں آمریت کی پیش قدمی اور فلسطین میں اےک نئے انتفادہ کی چنگاریاں اس معاہدے کو پھر سے زیر بحث لے آئی ہیں۔

1917ءکا بالشویک انقلاب

سائیکس اور پیکو نامی حکومتی اہلکارں کے مابین سامراجی لوٹ مار کا ےہ خفیہ معاہدہ خفیہ ہی رہتا اگر 1917ءمیں روس میں بالشویک انقلاب نہ آتا۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قےادت میں زار روس اور بعد ازاں کرنسکی حکومت کا تختہ الٹ کر روسی محنت کش طبقے نے اقتدار حاصل کیا تو بالشویکوں کو سرکاری ریکارڈ میں یہ معاہدہ ملا۔ لینن نے اسے ”نو آبا دیاتی چوروں کا سمجھوتہ“ قرار دیا۔

بالشویک حکومت نے اس سامراجی سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے اسے شائع کر کے یہ ثابت کر دیا کہ ان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد محکوم طبقات کے مفادات اور ’دنیا بھر کے محنت کشو‘ اےک ہو جاﺅ‘ کا مارکسی اصول ہے۔ ان کی خارجہ پالیسی حکمران طبقات اور قومی ریاستوں کے محدود مفادات کی بجائے محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی پر مبنی تھی۔

23 نومبر 1917ءکو (اس معاہدے کے 556 دن بعد) پیٹرو گراڈ سوویت کے سابقہ چیئرمین اور خارجہ امور کے عوامی کمیسار لیون ٹراٹسکی نے اسے سوویت پرچوں’ پراودا‘ اور’ از وستیا‘ میں شائع کروا دیا۔ یہ برطانوی اور فرانسیسی سامراجیوں کے لیے بہت بڑا دھچکا اور باعث ہزیمت تھا اور ان کے ’عرب اتحادیوں‘ کے ساتھ ان کی دھوکہ دہی بری طرح سے بے نقاب ہو گئی۔ بالخصوص برطانیہ کے شریف مکہ حسین بن علی اور صیہونیوں کے ساتھ بیک وقت متضاد معاہدے منظر عام پر آ گئے۔

سلطنت عثمانیہ

1516ءتا 1924ءقائم رہنے والی سلطنت عثمانیہ کی سرحدیں کبھی ویانا کے مضافات سے لے کر مراکش کے ساحلوں تک ہوا کرتی تھیں لیکن پہلی عالمی جنگ کے آغاز سے قبل اسے ’ےورپ کا مرد بیمار‘ کہا جانے لگا تھا۔ اس کے انہدام سے پہلے کے سو سالوں کے دوران اس کے بہت سے علاقوں پر ےورپ کی ابھرتی ہوئی نو آبادیاتی طاقتوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ جنگ سے پہلے برطانیہ اور فرانس نے صرف یہ طے کرنا تھا کہ سلطنت عثمانیہ کے عرب علاقوں کی بندر بانٹ کےسے ہو گی۔ دونوں سامراجی طاقتوں کے خطے میں اپنے اپنے مفادات اور عزائم تھے۔

بیروت اور کوہ لبنان کے علاقوں میں فرانس کی بہت بڑی مالیاتی سرمایہ کاری تھی اور اس کے ساتھ متعدد فرانسیسی مذہبی اور ثقافتی ادارے موجود تھے۔ فرانسیسی ریلوے کمپنیوں کی شام کے اندرونی شہروں اور موجودہ ترکی میں جنوبی اناطولیہ کے قلیقیہ کے علاقوں میں اہم تنصیبات تھیں۔ بحری فوجی اعتبار سے فرانس کی شمالی افریقہ میں الجزائر، تیونس اور مراکش کی نو آبادیات سے قربت کی وجہ سے فرانس کو بحیرئہ روم کی مشرقی ساحلی پٹی میں بہت دلچسپی تھی۔ برطانیہ بھی ساحل کی رسائی چاہتا تھا۔ بحیرئہ روم میں فلسطین میں حیفا کی بندر گاہ اور خلیج میں بصرہ کی بندر گاہ کے ذریعے۔ موجودہ عراق کے علاقوں میں تیل کی نئی دریافت بھی برطانیہ کے لیے بہت پر کشش تھی۔

سائیکس پیکو معاہدے کی شرائط

معاہدے کی رو سے ’میسو پوٹیمیا‘، ےعنی بغداد کے شمال سے لے کر بصرہ اور جزیرہ نما ئے عرب کے مشرقی ساحل تک کا علاقہ، برطانیہ کو ملنا تھا۔ فرانس کے لیے حیفا سے جنوبی ترکی تک کا ساحل اور اناطولیہ کا کچھ اندرونی حصہ تھا۔ یہ برطانیہ اور فرانس کی صوابدید تھی کہ وہ ان علاقوں پر براہ راست حکومت کریں یا مقامی تابع فرما حکمرانوں کے ذریعے۔ اس کے علاوہ برطانیہ اور فرانس کو حلقہ اثر بھی ملنا تھے جہاں وہ اپنے زیر سایہ آزاد عرب ریاستیں یا کنفیڈریشنیں قائم کر سکیں۔ اس کے علاوہ تقریباً موجودہ اسرائیل اور مغربی کنارے پر مشتمل علاقے کو برطانیہ، فرانس اور روس کے زےر انتظام انٹرنیشنل زون ہونا تھا۔ مشرقی ساحل کے سوا جزیرہ نمائے عرب‘ عرب کنٹرول میں رہنا تھا۔ معاہدے کے متن اور خط و کتابت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا مقصداےک دوسرے کے خلاف اپنے مفادات کا تحفظ تھا۔ اس میں ساحل سمندر تک رسائی اور محصولات پر تو بہت بحث ہے لیکن مقامی آبادیوں کے مفادات کا ذکر تک نہیں۔

زمین اور وسائل کی ہوس میں اندھی سامراجی طاقتوں کو خطے میں بسنے اور محنت کرنے والے عوام کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ نقشے پر کچی پنسل سے سیدھی لکیریں کھینچ کر اقوام، قبائل اور نسلی گروہوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔

مقامی رد عمل

سامراجیوں کے نزدیک عرب خود مختار حکومت کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ یہ بھی فرض کر بیٹھے کہ عربوں کی جانب سے کوئی رد عمل نہیں ہو گا اور وہ وفادار رعایا بن کر رہیں گے۔ اس کے بر عکس سامراجیوں کے اس آمرانہ رویے نے پہلے سے پنپتی ہوئی عرب قوم پرستی کے جذبات کو مزید بھڑکا دیا۔ برطانوی سامراج نے جب شریف مکہ کو عثمانیوں کے خلاف بغاوت کے صلے میں اس کی حکومت میں قائم اےک آزاد عرب ریاست کا خواب دکھایا تووہ خود عرب قوم پرستی کو ابھارنے کا کردار ادا کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ برطانوی فوج میں بڑی تعداد میں ہندوستانی مسلمان سپاہی موجود تھے جو ’خلافت‘ کے خاتمے سے متعلق خاصی تشویش اور بے چینی میں مبتلا تھے جس کی خفیہ رپورٹس ملٹری انٹیلی جنس کے ذریعے مل رہی تھیں۔ فوج میں بغاوت کا خطرہ تھا اور برطانوی ان فوجیوں کو مشتعل نہیں کرنا چاہتے تھے۔

نومبر 1917ءمیں برطانیہ نے فلسطین میں اےک یہودی رےاست کے قیام کے لیے بالفور ڈیکلیریشن جاری کیا جس سے صیہونی تحریک کو تقویت ملی۔ اس کے علاوہ عثمانیوں کی شکست کے بعد کمال اتا ترک کی قیادت میں ترک قوم پرست فوج بہت دلیری سے لڑی اور ایک نئی مضبوط ترک ریاست قائم کی جو کہ سائیکس پیکو معاہدے کا حصہ نہیں تھی۔ دوسرے لفظوں میں مقامی قوتیں خاموشی سے برطانوی اور فرانسیسی سامراجوں کی من مانی کو تسلیم نہیں کر رہی تھیں۔

شریف مکہ

جولائی 1914ءمیں پہلی عالمی جنگ کے آغاز پر شکستہ سلطنت عثمانیہ برطانیہ، فرانس اور زار روس کے خلاف جرمنی اور آسٹریا ہنگری سلطنت کے جنگی اتحاد میں شامل ہوئی۔ اس کے بعد سے مشرق وسطیٰ کی حکومتوں اور نقشوں میں تبدیلیاں شروع ہو گئیں۔ عثمانی خلیفہ نے جہاد کا اعلان کر دیا اور اپنی سلطنت کے اندر اور باہر مسلمانوں کو اس میں شامل ہونے کی کال دی۔ برطانوی ہندوستان کے سمندری راستوں اور ہندوستان پر اپنے قبضے کا تحفظ چاہتے تھے۔ انہیں برطانوی فوج میں شامل ہندوستانی مسلمان فوجیوں میں بے چینی کا خطرہ تھا۔ اس کے علاوہ برطانوی نہیں چاہتے تھے عرب بھی اس جہاد میں شامل ہوں۔ ےہی وجہ ہے کہ انہوں نے شریف مکہ سے ایک خود مختار عرب ریاست کا پر فریب وعدہ کیا جس کی سرحدیں دمشق سے ےمن تک ہونا تھیں اور اس میں بغداد، ےروشلم اور مکہ اور مدینہ کے مقدس شہر شامل ہونا تھے۔ عربوں بشمول فلسطینیوں کو فوری آزادی کا یقین دلایا گیا۔

سائیکس پیکو معاہدے کو خفیہ رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ شریف مکہ، جس نے آزاد عرب ریاست کے بدلے عثمانیوں کے خلاف بغاوت کی تھی، سے کیے گئے وعدوں سے انحراف تھا ۔

عرب لیڈر سمجھتے تھے کہ جنگ کے بعد انہیں لیگ آف نیشنز کے چارٹر کے آرٹیکل 22 کے مطابق ”آزاد قوم“ تسلیم کیا جائے گا۔ فلسطینیوں کو بتاےا گیا کہ وہ بھی تمام معاہدوں میں شریک ہیں لیکن بعد میں وہ سب محض کاغذ کے ٹکڑے ثابت ہوئے۔

عربوں نے عثمانیوں کے خلاف بغاوت کی لیکن جنگ کے بعد برطانویوں نے شریف مکہ اور برطانوی اہلکار لیفٹنٹ کرنل ہنری میک موہن کے درمیان خط و کتابت کو با ضابطہ معاہدہ تسلیم کرنے سے انکار دیا۔ سائیکس پیکو معاہدہ عربوں سے کیے گئے معاہدوں سے متضاد تھا۔

بالفور ڈیکلیریشن

اسی دوران برطانوی سامراج نے فلسطین میںےہودی ریاست کے قیام کا ذمہ بھی اٹھا لیا۔ یہ بھی سائیکس پیکو معاہدے سے متضاد تھا۔ 2 نومبر 1917ءکو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے صیہونی تحریک کے لیڈر چیم وزمین کے قریبی دوست بارون والٹر روتھ چائلڈ کو ایک خط میں لکھا کہ ”برطانوی حکومت فلسطین میں یہودی لوگوں کے قومی مسکن کے قیام کو مثبت طور پر دیکھتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے برطانیہ اپنی بہترین کوشش کرے گا۔“

بالفور اعلامیہ سے حوصلہ پا کر فلسطین کی جانب یہودی ہجرت تیز تر ہو گئی۔ 1919ءسے 1921ءکے دوران 18,500 ےہودی فلسطین میں آباد ہوئے۔ حالات میں تناﺅ آنے لگا اور اپریل 1920ءمیں یروشلم میں ہونے والے فساد میں پانچ ےہودی اور چار عرب ہلاک ہو گئے اور دو سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ 1921ءمیں جافا میں یوم مئی کے جلوسوں کے دوران یہودی کمیونسٹوں اور صیہونیوں کے درمیان لڑائی میں قبائلی عربوں کی مداخلت سے 47 یہودی اور 48 عرب ہلاک ہو گئے۔ بالفور کے خط میں لکھا تھا کہ مقامی غیر یہودی آبادی کے حقوق اور مفادات کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ لیکن ےہ تضادات پہلے سے ہی پھٹ رہے تھے۔

بالفور اعلامیے سے فلسطین با ضابطہ طور پر صیہونیوں کے حوالے کر دیا گا۔ فلسطینیوں کے لیے اس سے مراد مستقل قبضہ، صیہونی نو آبادی، جنگ اور انتشار تھا۔ محروم اور بے دخل فلسطینی آج تک تقسیم کرو اور حکومت کرو کی سامراجی پالیسی کے تاریخی جرائم کی سزا بھگت رہے ہیں۔ 1920ءمیں برطانیہ نے ایک برطانوی صیہونی ہربرٹ سیمیول کو پہلے برطانی ہائی کمشنر کے طورپر فلسطین میں تعینات کر کے اسرائیل کے قیام کے منصوبے کو مزید تقویت دی۔ اسی برس لیگ آف نیشنز نے فلسطین میں برطانوی مینڈیٹ کو رسمی طور پر تسلیم کر لیا۔

1920ءکی سان ریمو کانفرنس

سلطنت عثمانیہ کے خاتمے اور شام، فلسطین اور عراق پر قبضے کے بعد برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کے علاقوں کو تقسیم کرنے کا خیال ترک کر دیا جیسا کہ سائیکس پیکو معاہدے میں طے پاےا تھا۔ برطانیہ وقتی طور پر دوسری یورپی طاقتوں کے مقابلے میں مضبوط پوزیشن میں تھا۔ اس نے ماضی میں کیے گئے وعدوں سے نکلنے کی کوشش کی لیکن 1920ءکی سان ریمو کانفرنس میں اسے جنگ کی حاصلات بانٹنے پر مجبور کیا گےا۔ اس کانفرنس میں مقبوضہ عرب علاقوں کی اگلے سو سالوں کی قسمت کا فیصلہ کر دیا گےا۔

مشرق وسطیٰ کی موجودہ قومی ریاستیں 1920ءکی سان ریمو کانفرنس میں ہی طے پائی تھیں اور اگلے دس سالوں کے دوران ان کی سرحدوں کا تعین ہوتا رہا۔ عرب علاقوں کو سٹریٹجک اور مالیاتی مفادات کے تحت برطانوی اور فرانسیسی سامراجیوں کے درمیان تقسیم کر دیا گےا۔ آج اس خطے میں جاری تنازعات، فرقہ وارانہ خون ریزی اور دہشت گردی کی بنیادیں ےہی ظالمانہ اور مصنوعی تقسیمیں ہیں۔ ایک پوری تہذیب کو بے رحمی سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گےا۔

قلیقیہ کا بیشتر علاقہ مصطفی کمال اتا ترک کی زیر قیادت نئی ترک ریاست کا حصہ بن گےا۔ فلسطین اور عراق میں برطانیہ کے کئی مفا دات تھے لیکن اہم ترین ہندوستان تک بحری رسائی کے لیے بحیرئہ روم اور خلیج فارس کے درمیان مختصر ترین راستے کا کنٹرول تھا۔ اس کے علاوہ مصری سرحد کی دوسری جانب (موجودہ فلسطین و اسرائیل) کسی ایسی ریلوے کی تعمیر نہ ہونے دینا تھا جس کے ذریعے ترک اپنی فوج کو تیزی سے حرکت دے سکیں۔

جنگ بندی کے معاہدے کے بعد امریکی صدر وڈرو ولسن نے عربوں اور سلطنت عثمانیہ کے دیگر محکوم عوام سے ”زندگی کے بلا شک و شبہ تحفظ اور خودمختار ترقی کے بلا روک ٹوک مواقع“ کا وعدہ کیا۔ لیکن 9 مارچ 1919ءکو پیرس کانفرنس میں سامراجیوں نے عربوں کی تقدیر کے فےصلے کر لیے۔ اس پر مصر میں آزادی کے لیے عوامی تحریک شروع ہو گئی۔ ریل، تار، سرکاری املاک کا جلاﺅ گھیراﺅ ہوا۔ برطانوی سامراج نے حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے فوجی بھیجے اوران کے جبر سے جانی نقصان بڑھنے لگا۔ 800 افراد ہلاک اور 1600 زخمی ہوئے۔ انقلابی قیادت کے فقدان اور برطانوی سامراج کی چالبازیوں سے تحریک ماند پڑ گئی۔ امریکہ اور فرانس نے بھی مصرکو برطانوی ’حفاظت‘ میں تسلیم کر لیا۔ بدلے میں شام پر فرانسیسی عملداری کو برطانیہ نے تسلیم کر لیا۔

لیوانت کی تقسیم

یکم اکتوبر 1918ءکو شریف مکہ کا تیسرا اور مقبول ترین بیٹا شریف الفیصل اپنی عرب فوج کے ساتھ دمشق میں داخل ہوا۔ تب عربوں کے نزدیک شام کا علاقہ موجودہ اسرائیل، فلسطین، شام، لبنان، اردن اور عراق کے کچھ حصوں کو مانا جاتا تھا۔ برطانویوں نے عثمانیوں کے خلاف بغاوت کے صلے اور اس کے باپ سے کیے معاہدوں کی بنا پر فیصل کو شام کا بادشاہ مقرر کیا۔ سارا شام بغاوت کی لپیٹ میں تھا۔ فیصل شام کو ایک حقیقی خود مختار ریاست بنانا چاہتا تھا جس میں فلسطین اور اردن بھی شامل ہوں۔ شامی قوم پرست بھی ےہی چاہتے تھے اور 1919ءکی منتخب پارلیمان میں ان کی اچھی خاصی تعداد تھی۔

پیرس کانفرنس کے مطابق 1920ءمیں فرانس نے دمشق اور اس کے شمال میں علاقوں کا انتظام سنبھال لیا۔ فیصل اور قوم پرستوں نے آزاد ’مملکت شام‘ کا اعلان کر دیا۔ فرانس نے بھاری فوج اور توپ خانے سے حملہ کر دیا۔ فیصل کو شکست دے کر برطرف کر دیا گےا۔ اس کے بعد تقریباً پچیس برس تک موجودہ شام اور لبنان پر فرانس کا غیر مستحکم فوجی قبضہ برقرار رہا۔

سائیکس پیکو معاہدے کے مطابق شام کے خطے کو برطانیہ اور فرانس میں بانٹ دیا گےا۔ قوم پرست بغاوت کو کنٹرول کرنے کے لیے فرانس نے مزید تقسیم کی اور اپنے اتحادیوں مارونیہ عیسائیوں کے لیے لبنان قائم کیا اور تاریخی طور پر شام کے کئی علاقے بھی لبنان میں شامل کر دیئے۔ اس کے بعد شمال میں ”ریاست حلب“ اور ”دولت العویین“ بھی قائم کیں۔ جبل دروز کو الگ کر کے موجودہ ترکی کا کچھ حصہ شامل کر دیا گےا اور اسے ”ریاست دمشق“ کا نام دیا گیا۔

شام کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے سے کوئی استحکام پیدا نہ ہوا۔ سنی آبادی عمومی طور پر اس تقسیم کے خلاف تھی۔ جبکہ دیگر ریاستیں کہیں زیادہ خود مختاری چاہتی تھیںجو فرانسیسی دےنے کو تیار نہ تھے۔ فرانس کے خلاف بغاوت ہوئی جس میں مختلف گروہ شریک تھے۔ قومی تحریک کے دباﺅ میں آ کر 1932ءمیں فرانس نے دمشق اور حلب کی ریاستوں کو یکجا کر کے ’ریاستِ شام‘ قائم کی جو بعد میں ’جمہوریہ شام‘ کہلائی۔ بعد ازاں اس میں جبل دروز اور علوی علاقے بھی شامل کر دیے گئے۔ دوسری عالمی جنگ میں اس علاقے پر برطانیہ کا قبضہ ہوا اور 1943ءمیں جا کر شام با ضابطہ طور پر آزاد ہوا۔ اس کے بعد بھی تین برس تک فرانسیسی فوج وہاں رہی اور شام مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔

عراق

برطانیہ اور فرانس نے عرب علاقوں میں ”قومی حکومتوں“ کے قیام کا وعدہ کیا تھا لیکن 1920ءکی سان رےمو کانفرنس میں جب عراق کو برطانیہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ ہوا تو پورے عراق میں برطانیہ کے خلاف بغاوت برپا ہو گئی۔ اس منظم بغاوت سے برطانیہ کو سنجیدہ خطرہ لاحق تھا اور ہندوستان سے فوجی کمک بھیجی گئی۔ اکتوبر 1920ءتک اس بغاوت کو ظالمانہ طریقے سے کچل دیا گےا۔ 2200 برطانوی اور 8450 عراقی ہلاک یا زخمی ہوئے۔

مکہ کے شریف اور اس کے خاندان کو عثمانیوں کے خلاف بغاوت کے صلے میں دمشق سے سارے عرب پر حکمرانی دےنے کا وعدہ کیا گیا لیکن حسین کے حصے میں صرف حجاز کی حکمرانی آئی۔ جو کہ عرب کا اندرونی اور صحرائی علاقہ تھا۔ شریف حسین (شریف مکہ) وہاں بھی محفوظ نہیں تھا اور بالآخر برطانیہ کی حمایت سے نجد کے بدو سردار عبدالعزیز بن سعود نے وہابی انتہا پسندوں کے ساتھ مل کرمکہ، مدینہ اور سارے حجاز پر قبضہ کر لیا۔ شریف حسین کے خاندان کو عراق کی بادشاہت دی گئی اور ان کا آخری فرما روا فیصل دوم 1958ءکے انقلاب میں مارا گےا۔ اس کے خاندان کی اےک دوسری شاخ آج تک اردن پر حکمران ہے جسے برطانیہ نے عجلت میں شام سے الگ کیا تھا۔

آلِ سعود

سائیکس پیکو کی طرح دسمبر 1915ءمیں برطانیہ اور ابن سعود میں سامراجی سازش پر مبنی دوستی کا معاہدہ ہوا جس سے سعودی خاندان برطانیہ کا دست راست بن گیا۔ ابن سعود کے لیے برطانوی فوجی تحفظ اور رسد نے خطے میں عثمانی ترکوں کی بالا دستی کا خاتمہ کر دیا۔ 1917-26ءکے دوران ابن سعود اور اس کے وہابی جنگجوﺅں نے برطانوی فوجی مدد کے ساتھ نجد اور حجاز کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ بالآخر شریف حسین کا خاندان دسمبر 1925ءمیں مدینہ کے آخری معرکے میں ابن سعود کے آگے ہتھیار ڈال گیا۔

8 جنوری 1926ءکو عبدالعزیز ابن سعود نے برطانوی ایجنٹوں کی چالوں کی مدد سے عرب کی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ 23 ستمبر 1932ءکو اسے سعودی عرب کی بادشاہت کا نام دیا گےا۔ یہ رجعتی بادشاہت امریکی سامراجی حمایت سے آج تک کھڑی ہے اور ساری دنیا میں انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ تشدد کو فروغ دیتی رہی ہے۔ حال ہی میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے کی جانے والی سماجی ’اصلاحات‘ اسی جبر کو تسلسل دےنے کی تازہ ترین چال ہے۔

برطانوی سامراج کی جانب سے اپنے عرب اتحادیوں سے غداری کوئی نئی بات نہیں۔ اس منافقت کی سب سے بڑی مثال فلسطین ہے جہاں 1882ءمیں پہلے یورپی ےہودی آبادکاروں سے لے کریورپی ممالک مسلسل غیر قانونی آباد کاری کی حمایت اور مدد کرتے رہے۔

کُرد

3 کروڑ سے زیادہ کُرد مشرق وسطیٰ کے مقامی لوگ ہیں اور ترکی، عراق، شام، ایران اور آرمینیا میں ان کی آبادی ہے۔ کرد مشرق وسطیٰ کی چوتھی بڑی قوم ہیں لیکن آج تک اپنی قومی ریاست نہیں بنا سکے جس کی وجہ سامراجی طاقتوں کی منافت اور دھوکہ دہی ہے جو صرف اپنے مفادات اور کرد علاقوں میں تیل کے ذخائر میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد 1920ءکے سیورز کے معاہدے میں کرد ریاست کی گنجائش رکھی گئی اور آرمینیا کے ساتھ ایک چھوٹا سا علاقہ بھی مختص کیا گیا۔ ایک ریفرنڈم میں کردوں سے پوچھا جانا تھا کہ وہ بچی کھچی سلطنت عثمانیہ میں رہنا چاہیں گے یا اپنی آزاد ریاست چاہتے ہیں۔ شام اور عراق میں رہنے والے کردوں کے لیے ریفرنڈم نہیں تھا کیونکہ فرانس اور برطانیہ اپنے مقبوضہ علاقے چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔

1920ءمیں کمال اتاترک کی قیادت میں ’نوجوان ترکوں‘ نے سیورز کے معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور انقرہ میں متوازی حکو مت قائم کر لی۔ اتحادیوں نے فوج کشی کی اور دو سال کی لڑائی کے بعد ترک فتح یاب ہوئے۔ اناطولیہ کی بندر بانٹ کا سامراجی منصوبہ ناکام ہو گیا اور عثمانی خلافت کا خاتمہ ہو گےا۔ آرمینیا کو ترکی میں ضم کر لیا گیا اور کردستان کا ریفرنڈم منسوخ کر دیا گےا۔ 1923ءمیں لوسین کے معاہدے میں اس کو رسمی شکل دی گئی اور سرحدوں کا تعین ہوا۔

برطانیہ اور فرانس اپنے زیر قبضہ علاقوں میں کردستان کے قیام کے کبھی بھی حق میں نہ تھے۔ شمالی عراق میں کردوں نے برطانیہ کے خلاف بغاوت بھی کی جسے بے دردی سے کچل دیا گیا۔ آج بھی کُرد ان ممالک میں قومی جبر کا شکار ہیں اور شام کی خانہ جنگی کے دوران امریکی سامراج کے ہاتھوں دھوکہ کھا چکے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب ترکی کی فوجی یلغار کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔

فلسطین اور عرب حکومتیں

پہلی عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والی تمام عرب رےاستیں برطانوی اور فرانسیسی سامراج کی تخلیق کردہ ہیں۔ اس کی مقامی اشرافیہ سامراج کے خلاف جدوجہد کی بجائے سمجھوتوں اور کاسہ لیسی کے ذریعے اقتدار میں آئی۔ وہ آج تک اپنے سابقہ سامراجی آقاﺅں اور نئے سامراج امریکہ پر انحصار ختم نہیں کر پائے۔

فلسطین میں ےہودی آبادکاری اور قبضے کے خلاف مزاحمت شروع سے ہی موجود تھی جو بالفور اعلامیے کے بعد مزید سخت ہو گئی۔ صیہونی غلبے کے ساتھ ساتھ فلسطینی جدوجہد میں بھی تیزی آتی گئی۔ بالخصوص 1930ءکی دہائی میں۔ صیہونی نو آبادکاری کے خلاف سب سے ممتاز شیخ عزالدین القسام تھے۔ ان کا تعلق شام سے تھا اور وہ ایک اسلامی مبلغ تھے۔ شام میں انہوں نے فرانسیسیوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی۔ جس میں ناکامی کے بعد وہ فلسطین آ گئے اور برطانوی اور صیہونیوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی۔ بالآخر انہیں شکست ہوئی اور وہ مارے گئے۔ یہ حالات 1936ءکی چھ ماہ کی عام ہڑتال پر منتج ہوئے۔ ہمسایہ عرب ممالک سے رضا کار فلسطینی جدوجہد میں شامل ہونے لگے۔ ان کے پاس گوریلا جنگ لڑنے کے لیے ساز و سامان بالخصوص اسلحے کی شدید کمی تھی۔ دوسری جانب عرب حکمران برطانوی سامراج (اور یوں صیہونی تحریک) کے مفادات کی حفاظت کرتے رہے۔ برطانیہ کے کہنے پر مصر، عراق، سعودی عرب اور اردن کی حکومتوں نے فلسطینیوں سے ہڑتال ختم کروانے کی ہر ممکن کو شش کی۔ انہوں نے بہت بڑے زمیندار خاندان کے قدامت پرست رہنما امین الحسینی کے ذریعے دباﺅ ڈالنے کی کوششیں کی۔ امین الحسینی برطانویوں کے ساتھ سمجھوتے کے ذریعے فلسطین کی آزادی کا قائل تھا اور عرب حکمرانوں کا سیاسی اور نظریاتی حلیف تھا۔

1948ءمیں اسرائیل کا قیام عرب حکومتوں کے لیے بہت باعث ہزیمت بنا اور کچھ نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ لیکن یہ جنگ ایک ڈھکوسلہ تھی۔ عرب افواج کے ےہودیوں کے نوزائیدہ ملک کے خلاف مشترکہ حملے کی داستان بھی صیہونیوں کی گھڑی ہوئی ہے۔ فلسطین میں موجود دو بڑی عرب فوجیں اردن اور اسرائیل کی تھیں۔ اردن کی فوج کی کمانڈ برطانوی افسروں کے پاس تھی اور محاذ کافیصلہ پہلے ہی اردن کے امیر عبداللہ اور صیہونی لیڈروں موشے دیان اور گولڈا میئر وغیرہ کے درمیان خفیہ مذاکرات سے طے پا چکا تھا۔ مصری فوج کی تربیت اور ساز و سامان بہت ہی ناقص تھے اور اس جنگ میں انتہائی بری کارکردگی 1952ءمیں مصری بادشاہت کے خاتمے کی بڑی وجہ بنی۔ یہ دونوں عرب فوجیں ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی شکست کی امید کر رہی تھیں۔ اس جنگ میں شام کا کردار انتہائی محدود تھا اور عراقی فوج شروع میں فلسطین میں داخل ہوئی لیکن جلد پیچھے ہٹ گئی۔ 1948ءکے بعد ان عرب حکومتوں نے فلسطینیوں کو جدوجہد سے روکا اور ان کی شناخت ختم کرنے کی کوشش کی اور عربوں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کے محض تماشائی بن گئے۔ جلد ہی یہ عرب حکمران خودساختہ طور پر فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں لگ گئے۔ دراصل وہ 1937ءمیں ہونے والے خفیہ معاہدے کے مطابق فلسطین کا باقی علاقہ ہڑپ کرنا چاہتے تھے۔ اردن نے مغربی کنارا ہتھیا لیا، مصر نے وادیِ سینا اور غزہ کا علاقہ اور شام نے الحمہ کے قریب کچھ علاقہ لے لیا۔ اگلے دو برسوں میں غزہ میں قائم فلسطینی حکومت کا خاتمہ کر دیا گےا اور غزہ مصر کے فوجی انتظام میں آ گیا۔ اگرچہ ےہ ممکن تھا کہ غزہ کو فلسطینی حکومت کی بنیاد کے طور پر قائم رکھا جاتا۔ 1967ءمیں غزہ پر اسرائیلی قبضے تک مصر نے غزہ کی معاشی یا سیاسی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا اور اسے اےسے ہی رکھا جےسے اب اسرائیل نے رکھا ہے۔ ایک رستے ہوئے ننگے زخم کی طرح۔

آج کی صورتحال

اسرائیل کے قیام کو کئی دہائیاں اور سائیکس پیکو معاہدے کو ایک صدی سے زےادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی فلسطینی اپنے ہی علاقے میں غلامی اور اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ امریکی اور یورپی سامراجیوں کی پشت پناہی سے اسرائیل کی صیہونی ریاست ان پر ہر طرح کے مظالم ڈھا رہی ہے۔ فلسطینی اشرافیہ اور قیادت ان کے لیے کچھ بھی کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ آج فلسطینیوں کی حالت بالفور اعلامیہ جاری ہونے کے وقت سے بھی بد تر ہے اور موجودہ معاشی اور سماجی نظام میں نجات کی کوئی صورت نہیں۔ گزشتہ صدی کے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ صرف طبقاتی یکجہتی کے ذریعے ہی صیہونی ریاست اور اس کے سامراجی حامیوں کا غلبہ فیصلہ کن طور پر توڑا جا سکتا ہے۔

عرب اسرائیل تنازعے کی وجہ سے مشرق وسطیٰ سو سال سے میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ چار بڑی جنگیں اس کی خاطر ہو چکی ہیں۔ 1979ءاور 1994ءکے امن معاہدوں سے امن کا قیام نہیں ہو سکا۔ فلسطینی مہاجرین اردن، شام اور لبنان میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اسرائیل شام میں گولان کی پہاڑیوں اور لبنان میں شیبا فارمز پر قابض ہے اور غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی علاقوں پر قبضہ نہیں چھوڑ رہا۔ مغربی کنارے میں نئی ےہودی آبادیوں کی تعمیر اور فلسطینیوں کی بے دخلی مسلسل جاری ہے۔ جہاں اسرائیل اور اس کے عرب ہمسائے فلسطینیوں کی اذیتوں کے ذمہ دار ہیں وہاں اس مسئلے کی جڑیں بالفور ڈیکلیریشن کے تضادات میںتلاش کی جا سکتی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی سرحدیں پہلے دن سے آج تک متنازعہ اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔ سامراجیوں کی تخلیق کردہ ریاستیں ٹوٹ کر بکھر رہی ہیں اور عوام جنگ و جدول اور خونریزی میں مبتلا ہیں۔ عراق، یمن اور لیبیا توڑ پھوڑ کے خونریز عمل کا شکار ہیں۔ شام میں ایک طرف جابر ریاست اور دوسری جانب مغربی سامراجیوں اور عرب حکومتوں کے حمایت ےافتہ مذہبی انتہا پسند گروہ اور مافیا سرگرم ہیں۔ شام کبھی نسبتاً خوشحال اور مساوات پر مبنی سماج ہوا کرتا تھا۔ آج تاراج ہے۔ یہ سب سامراجی معاہدوں اور سازشوں کے نتائج ہیں۔ سامراج کے مسلط کردہ کٹھ پتلی حکمران انتہائی رجعتی، کرپٹ، عیاش اور ظالم ہیں۔

اس کے باوجود برطانیہ اور فرانس خطے میں خفیہ سامراجی معاہدے کرنے سے باز نہیں آئے اور 1956ءمیں اسرائیل کے ساتھ ایک خفیہ ڈیل میں نہر سویز پر قبضے اور مصر کے صدر جمال عبدالناصر کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کی گئی۔ برطانیہ، فرانس اور مصر اس جنگ میں عسکری طور پر کامیاب ہو گئے لیکن امریکہ اور سوویت ےونین کے دباﺅ کی وجہ سے انہیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ خفیہ معاہدہ آشکار ہونے پر برطانوی وزیر اعظم انتھونی ایڈن کو مستعفی ہونا پڑا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد نو آبادیاتی دنیا اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں نیم سرماےہ دارانہ اور نیم جاگیر دارانہ سامراجی حکمران گماشتوں کے خلاف انقلابی بغاوتیں ہوئیں۔ اب امریکی سامراج عالمی تھانیدار بن چکا تھا اور اس نے بائیں بازو کی حکومتوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے اسلامی بنیاد پرستی کے عفریت کو ابھارا اور استعمال کیا۔ مصر، پاکستان، افغانستان سمیت کئی اور ممالک میں ایساکیا گےا۔ افغانستان میں بائیں بازو کی حکومت کے خلاف ہونے والے ڈالر جہاد کو انہی رجعتی عرب حکمرانوں کی بہت بڑی مالی مدد حاصل تھی۔ حال ہی میں افغانستان میں امریکہ طالبان معاہدہ پھر سے ثابت کرتا ہے کہ سامراج اور مذہبی بنیاد پرستی اےک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

2011ءمیںابھرنے والی عرب انقلاب کی تحریکیں ان سرحدوں کو رد کرتے ہوئے پورے خطے میں پھیل گئیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قومی بنےادوں پر نجات کی کوئی صورت نہیں ہے۔ بحیرئہ روم سے بحیرئہ عرب کے ساحلو ں تک پھیلی اس تحریک میں بے مثال طبقاتی یکجہتی دےکھنے کو ملی۔ اسرائیلی اور عرب نوجوان اور محنت کش اپنے سماجی و معاشی مسائل کے حل کے لیے ایک ساتھ مظاہرے کر رہے تھے۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہوتے رہے ہیں۔

لیکن ان تحریکوں کو طبقاتی جدوجہد کی پالیسی اور عوامی شمولیت کا تناظر درکار ہے جس کی بنا پر ہی فرسودہ رجعتی ریاستوں اور ان کے بوسیدہ سرماےہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکا جا سکتا ہے۔ سامراجی بربریت اور بنیاد پرستی کی دہشت سے اس خطے کے محروم اور مظلوم عوام کی واحد راہ نجات ایک فتحےاب انقلابی تحریک ہے۔ کسی ایک اہم ملک میں ہونے والی انقلابی فتح سارے خطے میں انقلاب کی چنگاری ثابت ہو گی۔ جو آگے بڑھتے ہوئے مشرق وسطیٰ کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کا قیام عمل میں لائے گی۔