آصف رشید

بطور امریکی صدر‘بائیڈن کا مشرق وسطیٰ کا یہ پہلا دورہ تھا۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں امریکی سامراج نے بالخصوص گزشتہ تین دہائیوں کے دوران وحشت ناک جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ عراق و شام پہ خونریز جنگیں مسلط کیں۔ ان گنت فوجی بغاوتوں، بادشاہوں اور آمروں کے وحشیانہ جبر کی حمایت کی۔ لاکھوں لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور لاکھوں کو جلا وطنی پر مجبور کیا گیا۔ اسرائیل جیسی دہشت گرد ریاست کی ہمیشہ بھرپور پشت پناہی کی گئی۔ سامراجی جرائم کی فہرست ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ لیکن اب بائیڈن سامراجی جارحیت اور جبر و استحصال میں مزید اضافہ کر نا چاہتا ہے۔ وہ مشرق وسطیٰ میں اپنے دو اہم اتحادیوں اسرائیل اور سعودی عرب کو نئے اہداف اور سامراجی منصوبوں میں اہم ذمہ داریاں دینے کے لیے آیا تھا۔ بائیڈن کا اسرائیل کا دو روزہ دورہ مقبوضہ فلسطین کے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ فلسطین کے سلسلے میں بائیڈن نے ٹرمپ انتظامیہ کی اختیار کی گئی پالیسیوں کو نہ صرف جاری رکھا ہوا ہے بلکہ اس میں شدت لائی جا رہی ہے۔ اس کا مقصد مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی بالادستی میں اضافہ اور اپنے سامراجی عزائم کو تیز تر کرنا ہے۔ امریکی پشت پناہی میں اسرائیل کا متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے ساتھ ’امن معاہدہ‘ بھی اسی سلسلے کی ہی لڑی ہے۔ سامراجیوں کا کوئی بھی ”امن معاہدہ“ بد امنی کا ہی شاخسانہ ہوتا ہے۔ یہ رجعتی عرب ریاستیں پہلے بھی اسرائیل کے ساتھ کسی حقیقی جنگ میں نہیں ملوث تھیں بلکہ در پردہ تمام اقتصادی اور سامراجی عزائم میں اسرائیل کی شراکت دار تھیں۔

اس سب کے باوجود یہ کوئی بہت کامیاب دورہ نہیں تھا۔ سعودی حکمرانوں نے سرد مہری کے ساتھ بائیڈن کا استقبال کیا۔ امریکہ کے اندر بھی انسانی حقوق کے علمبرداروں کی طرف سے اس دورے کی کافی مخالفت کی جا رہی ہے لیکن سامراج کی تمام پالیسیاں اپنے مالی و سیاسی مفادات کے لیے ہوتی ہیں۔ انسانی حقوق ان سامراجیوں کے لیے فریب اور مکاری کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے۔ اب امریکی صدر بائیڈن اپنی جیو سٹریٹجک مجبوری اور اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے اپنے پرانے درباریوں کی چوکھٹ پر حاضر ہو ا ہے۔ وائٹ ہاؤس کا ایک مقصد خطے کے خونخوار ڈکٹیٹروں کے ساتھ واشنگٹن کے گٹھ جوڑ کو مضبوط کرنا اور انہیں یوکرائن میں روس کے خلاف امریکہ کی پراکسی جنگ کے پیچھے کھڑا کرنا تھا۔ جس جنگ کو بائیڈن نے جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خلاف انسانی حقوق کی جنگ کے طور پر جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم بائیڈن کو اس دورے میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودیوں نے نیٹو کی روس کے خلاف پابندیوں کے بل پر دستحط کرنے سے انکار کیا ہے۔

بائیڈن ایران مخالف اتحاد کو بھی مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے جس کے لیے وہ مشرق وسطیٰ میں فضائی دفاعی نظام کو مربوط کرے گا۔ جس سے خطے پر مزید گہری نظر رکھی جائے گی۔ جنوری 2021ء سے اسرائیل کو بھی اس اتحاد میں شامل کر لیا گیا ہے۔ لیکن یہ لائن اپ صرف روس کے خلاف ہی نہیں ہے بلکہ یہ معدنی دولت سے مالا مال مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اور سیاسی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے بھی ہے۔ چین خطے کا سب سے بڑا تجارتی اور معاشی پارٹنر بن چکا ہے۔ جس نے پچھلے کچھ سال سے امریکہ اور یورپ دونوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ امریکن انٹر پرائز انسٹیٹیوٹ کے مطابق گزشتہ 16 سالوں میں چین‘ سعودی عرب میں 43.47 ارب ڈالر، یو اے ای میں 36.16 ارب ڈالر، عراق میں 30.05 ارب ڈالر، کویت میں 11.75 ارب ڈالر، قطر میں 7.8 ارب ڈالر، اومان میں 6.62 ارب ڈالراور بحرین میں 1.42 ارب ڈالرتک تعمیراتی منصوبوں اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ سعودی عرب نے چین اور روس دونوں کے ساتھ وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری اور تجارت پر اتفاق کیا ہے۔ چین پہلے ہی سعودی عرب کے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ سعودیوں نے حال ہی میں اپنے پیداواری بوجھ کو کم کرنے کے لیے روسی تیل درآمد کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے جس کو مقامی سطح پر ڈی سیلینیشن پلانٹس میں استعمال کیا جائے گا تاکہ برآمدات کو بڑھایا جا سکے۔ اسی طرح مصر کے روس کے ساتھ وسیع معاہدے ہیں۔ روس نے وہاں 25 ارب ڈالر مالیت کے جوہری ری ایکٹر کی تعمیر شروع کی ہے۔ جبکہ چین قاہرہ سے 35 کلومیٹر دور مصر کے نئے انتظامی دارالحکومت کی تعمیرمیں بھی اہم کردار اد ا کر رہا ہے اور اس کے علاوہ نہر سویز کے ساتھ نئے تعمیر کیے جانے والے صنعتی زون کا زیادہ تر حصہ بھی اسی کے کنٹرول میں ہے۔ قطر کے ایران کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات ہیں۔ اس کی چین کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی گیس فیلڈ کی تعمیر اور طویل المدتی گیس کی برآمد پر بھی بات چیت ہو رہی ہے۔ جبکہ ایران کا چین کے ساتھ سستے تیل کے بدلے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں سرمایہ کاری اور خلیج فارس میں بحری چوکیوں کے قیام کے معاہدہ ہو چکا ہے۔ عراق نے چین کے ساتھ اگلے دو سالوں کے دوران ایک ہزار سکولوں کی تعمیر کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ سب کچھ امریکی سامراج کے لیے بہت تشویشناک ہے۔

چند ہفتے قبل نیٹو کے سربراہی اجلاس میں بائیڈن کے مغربی اتحاد کے لیے نئے ”سٹریٹجک تصور“ میں چین کو ایک انتظامی ”چیلنج“ کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور اس کی پالیسیوں کو جابرانہ اور دنیا بھر میں اس کے سائبر آپریشن کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔ بائیڈن نے کہا کہ ماسکو کے ساتھ ساتھ بیجنگ ”قواعد وضوابط پر مبنی بین الاقوامی نظام“ کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ واشنگٹن کے سیاسی اور اقتصادی تسلط کے لیے ایک رکاوٹ ہیں۔ روس کے ساتھ جنگ اور چین کا خطے میں بڑھتا ہو اثر و رسوخ امریکہ کا بڑا درد سر بنا ہو ا ہے۔ یہی مجبوری تھی جس کی وجہ سے بائیڈن کو اپنی اس انتخابی بڑھک کو رد کرنا پڑا کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ ایک ”کمتر ریاست“ والا سلوک کرے گا۔ بالخصوص محمد بن سلمان کے حکم پر جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل کے تناظر میں وہ سعودی حکمرانوں کو ”سیدھا“ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اس کا حالیہ دورہ سعودیوں‘ بالخصوص محمد بن سلمان کے لیے ایک اہم کامیابی ہے کہ ان کا ناراض باپ خود چل کر ان کے دروازے پر آیا ہے۔

جب جمعہ کی سہ پہر امریکی صدر نے خاشقجی کے قتل کا معاملہ بن سلمان کے سامنے اٹھایا تو شہزادے نے جوابی کاروائی میں واشنگٹن پر منافقت کا الزام لگایا کہ اس نے 2004ء میں عراق میں ابو غریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ امریکی فوجیوں کو بدسلوکی کی اجازت دی اور فلسطینی نژاد امریکی صحافی کے قتل کے بارے میں کچھ نہیں کیا گیا (شیرین ابو عاقلے جو مئی میں مغربی کنارے کے شہر جنین پر اسرائیلی حملے کی کوریج کرتے ہوئے اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہو گئی تھی)۔ یوں یقینا مشرق وسطیٰ میں امریکی سامراج کے انسانیت سوز جرائم کی ایک طویل فہرست ہے لیکن آل سعود کی وحشتوں کی فہرست بھی کچھ چھوٹی نہیں ہے۔ اس نظام کے حمام میں سبھی ننگے ہیں۔

سعودی عرب کے شہر جدہ میں چھ خلیجی ممالک اور مصر، اردن اور عراق کے رہنماؤں کے ساتھ ایک سربراہی اجلاس میں بائیڈن نے کہا کہ ”ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے اور ایسا کوئی خلا نہیں چھوڑیں گے جس کو روس، چین یا ایران پر کر سکیں۔“ اس نے اپنے سامراجی عزائم کے راستے میں ہر قسم کی مزاحمت کو کچلنے کا عندیہ بھی دیا۔ ان باتوں سے در حقیقت بائیڈن نے خطے کے ان ظالم حکمرانوں، جن میں سبھی سماجی آتش فشاں کے اوپر بیٹھے ہیں، کو ایک خالی چیک دیا جو داخلی مخالفت کے خلاف جبر میں واشنگٹن کی بھرپور حمایت کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ اوباما انتظامیہ کی مصری ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو عوامی بغاوت سے بچانے میں ناکامی تھی جس نے 2011ء میں اسے اقتدار سے بے دخل کیا تھا۔ جس کی وجہ سے واشنگٹن اورا س کے عرب اتحادیوں کے تعلقات میں کچھ بگاڑ بھی پیدا ہوا تھا۔

ریاض اور یروشلم کے درمیان سلامتی کے معاملات، انٹیلی جنس کے تبادلے اور تجارتی معاہدوں پر برسوں کے بیک چینل تعاون اور بات چیت کے باوجود سعودیوں نے اسرائیل کے ساتھ کھلے عام ڈیل کرنے سے انکار کر دیا جب تک کہ اسرائیل سعودیوں کی تجویز کردہ ایک چھوٹی فلسطینی ریاست کے قیام پر اتفاق نہیں کرتا۔ تاہم بائیڈن انتظامیہ نے تیران اور صنافیر کے چھوٹے جزیروں کو مصر سے سعودی عرب کو منتقل کرنے کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کا اعلان کیا۔ یہ دونوں جزیرے خلیج عقبہ کے سمندری داخلی راستے کو کنٹرول کرتے ہیں اور تمام جہاز رانی کو ایلات تک پہنچاتے ہیں جو کہ بحیرۂ احمر تک رسائی کے لیے اسرائیل کی واحد بندرگاہ ہے۔ ان جزائر پر سعودی عرب کا کافی پرانا دعویٰ ہے لیکن یہ مصر کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ جزائر امریکہ، مصر اور اسرائیل کے درمیان 1978-79ء کے کیمپ ڈیوڈ معاہدوں کے تابع تھے۔ جس میں امریکی فوجیوں سمیت ایک چھوٹی سی ”امن فوج“ تعینات کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ امریکہ اس سال کے آخر تک اپنی فوج وہاں سے نکال لے گا۔ اس کے بدلے میں سعودیوں نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ اسرائیل آنے اور جانے والی پروازوں کو سعودی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی جس میں اسرائیلی ائیر لائن ایل ال بھی شامل ہے۔ نیز اسرائیل کے عرب مسلمان شہریوں کو مکہ کے مذہبی دوروں کے لیے براہ راست سعودی عرب جانے کی اجازت دی جائے گی۔ جس سے اسرائیل سے مشرق وسطیٰ اور ایشیا جانے کا دورانیہ کم ہو گا۔

بن سلمان نے تیل کی پیداوار 15 لاکھ بیرل یومیہ تک بڑھانے کا مبہم سا وعدہ کیا ہے۔ یہ ایک قلیل مدتی اضافہ ہے جس کا تیل کی عالمی قیمتوں پر بہت کم اثر پڑے گا۔ آل سعود ماضی قریب کے خساروں کے بعد تیل کی زیادہ قیمتوں سے فائدہ اٹھانے کر اپنے خزانے کو بھرنے، اگلی دہائی کے ترقیاتی منصوبوں کو فنڈ کرنے اور پورے خطے میں اپنے سیاسی اور اقتصادی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پر عزم ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ نے اپنی طرف سے متعدد اقتصادی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جن میں ’5G‘ اور ’6G‘ ٹیکنالوجی نیٹ ورکس کی ترقی اور سائبر سکیورٹی پر تعاون کا معاہدہ بھی شامل ہے۔ تاکہ چین کی دیوہیکل ٹیلی کا م کارپوریشن کی خطے میں بڑھتی ہوئی اقتصادی رسائی کو محدود کیا جا سکے۔

اس دورے کے دوران بائیڈن نے خلیج تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس میں آئے ہوئے رہنماؤں سے بالمشافہ ملاقاتیں کیں جن میں مصر کا آمر السیسی بھی شامل تھا۔ جس کا بائیڈن نے غزہ میں ”ناقابل یقین مدد“ کے لیے شکریہ ادا کیا۔ یہ وہی السیسی ہے جو کہ مصر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے اور پچھلے ایک سال میں 65 ہزار سے زائد ناقدین کو جیلوں میں قید کر چکا ہے جن میں سے متعددلو گ قید کے دوران غفلت اور تشدد سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس سربراہی اجلاس نے کسی علاقائی دفاعی اتحاد کے قیام کے بارے میں کوئی واضح اعلان نہیں کیا اور نہ ہی مزید بات چیت کا شیڈول طے کیا۔ تل ابیب کے ساتھ تعلقات معمول پر لا کر اسرائیل کے ساتھ ایک ایران مخالف بلاک بنانے کے لیے بھی کوئی جلدی نہیں کی گئی۔ اس لیے کہ مصر اور اردن کے ساتھ ساتھ کئی خلیجی ریاستیں پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تجارت کر رہی ہیں اور اس کی انٹیلی جنس سروسز اور زرعی ٹیکنالوجی کی خریداری کے علاوہ سینٹ کام کے ذریعے مشترکہ فوجی مشقیں بھی کر رہی ہیں۔ لیکن یہ تما م خلیجی ممالک اپنی سلامتی کے لیے اب بھی بڑی حد تک واشنگٹن پرمنحصر ہیں۔ وہ روس اور چین کو امریکہ کے ساتھ سودے بازی کی چپس کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ ساری صورتحال خود امریکی سامراج کی کمزوری کی غمازی بھی کرتی ہے۔ عالمی و علاقائی سامراجیوں کی ان منافقانہ سفارتکاریوں میں محنت کش عوام کے لئے ذلت، بربادی اور استحصال کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔