راہول
صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل کرنے سے قاصر رہنے کے بعد بالآخر دوسرے مرحلے میں طیب اردگان 52.16 فیصد ووٹ حاصل کر کے ترکی کا ایک بار پھر صدر منتخب ہو چکا ہے۔ جبکہ حزب اختلاف کی ریپبلکن پیپلز پارٹی کے امیدوار کمال قلیچ دار اوغلو (کے کے) 47.84 فیصد ووٹ حاصل کر سکے۔ انتہائی دائیں بازو کے رجحان سے تعلق رکھنے والے امیدوار اوگان نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں حیران کن طور پر پانچ فیصد ووٹ حاصل کیے۔ جس کے بعد دوسرے مرحلے میں انتہائی دائیں بازو کی اسی حمایت کے نتیجے میں اردگان تیسری بار صدر بننے میں کامیاب ہو سکا۔
انتخابات میں فتح کے بعد اپنی پہلی تقریر کرتے ہوئے اردگان نے کہا کہ وہ ”دہشت گردوں“ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا اور وہ 2016ء سے قید سیاست دان صلاطین دیمیرتاس کو آئندہ بھی رہا نہیں کرے گا۔ سلاطین دیمیرتاس ایک کرد لیڈر ہے اور اس وقت ”دہشت گردی“ کے الزامات میں حساس سکیورٹی جیل میں قید ہے۔ یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے 2020ء میں اس کے متعلق فیصلہ دیا تھا کہ ترکی کو دیمیرتاس کو رہا کرنا چاہیے کیونکہ اس کی قید سیاسی وجوہات کی بنا پر تھی مگر ترک حکومت نے اسے رہا کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ دیمیرتاس کے کردستان ورکرز پارٹی (PKK) سے تعلقات ہیں جو ترکی کے خلاف 1984ء سے جنگ لڑ رہی ہے۔
اردگان کا یہ لہجہ ظاہر کرتا ہے کہ صدارتی انتخابات میں اس کی کامیابی گزشتہ بیس سالوں سے مسلسل جاری بدترین جبر، معاشی ناہمواری اور کرپشن کو مزید پانچ سالوں کے لیے ترک معاشرے پر مسلط کرنے کا باعث بنے گی۔ کردوں کے خلاف جبرکے ساتھ ساتھ خواتین، ایل جی بی ٹی کمیونٹی اور بائیں بازو کے خلاف مزید سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ اسی طرح محنت کشوں کی مراعتیں چھیننے کے عمل میں نہ صرف تیزی آئے گی بلکہ اردگان اس وقت پہلے سے زیادہ جابر ہو کر مزید کٹوتیوں کی پالیسیاں نافذ کرے گا۔ درحقیقت اردگان کی یہ جیت ایک انتہائی منفی پیش رفت قرار دی جا سکتی ہے جس کے نتیجے میں معاشی بحران کے مزید گہرے ہونے کے ساتھ ساتھ سماج کے پسے ہوئے طبقات پر اس کا سیاسی و معاشی جبر بڑھے گا۔ قوی امکانات تھے کہ اگر اردگان انتخابات میں ہار جاتا تو ڈونلڈ ٹرمپ، بولسنارو اور عمران خان وغیرہ کی طرح اپنی شکست تسلیم نہ کرتا اور جلاؤ گھیراؤ کے ہتھکنڈوں پر اتر آتا۔
ان حالات میں اردگان کو اپنے اقتدار کو مستحکم رکھنے کے لیے فروری میں آنے والے زلزلے (جس میں 60 ہزار افراد ہلاک ہوئے) سے متاثرہ جنوبی صوبوں کی تعمیر نو کے لیے اربوں ڈالر کی رقوم درکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق زلزلے میں ہوئی تباہی کی قیمت 100 بلین ڈالر سے زیادہ ہے اور اسے آنے والے ایک سال کے اندر 319,000 نئے گھر بنانے ہیں۔ موجودہ معاشی اعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تمام تر اہداف آنے والے کئی سالوں تک پورے ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ زلزلے سے متاثرہ لوگوں کے لیے موصول ہونے والی امداد بھی کرپشن کی نذر ہو رہی ہے۔ اردگان کے پچھلے ادوارِ حکومت میں اقربا پروری اور کرپشن میں تیز اضافہ ہوا ہے اور ’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘ کے مطابق شفافیت کے معاملے میں ترکی کی رینکنگ 2008ء میں 58 سے کم ہو کر اس وقت 101 پر جا پہنچی ہے جس میں آنے والے پانچ سالوں میں مزید کمی ہونے کا خدشہ ہے۔
اسی طرح اردگان نے یہ فتح ایسے نازک حالات میں حاصل کی ہے جب ملک گہرے معاشی بحران کی زد میں ہے۔ اردگان کے صدر منتخب ہوتے ہی ملکی کرنسی (لیرا) کی قدر ڈالر کے مقابلے میں پانچ فیصد تک گر گئی جبکہ گزشتہ پانچ سالوں میں اس کی قدر میں 80 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ اکانومسٹ کے مطابق ”اردگان کی اس فتح نے سرمایہ کاروں کو حیران جبکہ ملک کی معاشی بدحالی کو مزید گہرا کر دیا ہے۔“ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق افراط زر کی شرح 80 فیصد ہے جبکہ غیر سرکاری اعداد کے مطابق یہ شرح 180 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ ایسے میں ترک محنت کش عوام کی اکثریت بدترین مہنگائی اور غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور افراط زر کے مسلسل بڑھنے کی وجہ سے عام لوگوں کے معیار زندگی میں گراوٹ آ رہی ہے۔ پانچ سال قبل جو بیرونی قرضہ جی ڈی پی کے پچاس فیصد پر کھڑا تھا اب ساٹھ فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔ سرمائے کی شرح منافع بھی بتدریج زوال پذیر ہے۔
ماہرین اقتصادیات موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار اردگان کی شرح سود میں کمی کی غیر روایتی پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔ درحقیقت ترکی کی معیشت حالیہ مہینوں میں روس اور خلیجی ممالک سے موصول ہونے والی رقوم کے سہارے کھڑی ہے۔ قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ترکی کے مرکزی بینک میں اربوں ڈالر جمع کرانے کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالر کے سرمایہ کاری فنڈز قائم کیے ہیں جبکہ روس نے گیس کی وصولیاں موخر کر دی ہیں اور ساتھ ہی ترکی کے پہلے نیوکلیئر پاور سٹیشن میں بھی روس نے اسے رعایت دی ہے۔ یہی سبب ہے کہ وینٹی لیٹر پر پڑی ترکی کی معیشت اب تک دیوالیہ ہونے سے محفوظ رہی ہے۔ مگر موجودہ اقتصادی پالیسی کو لمبے عرصے تک قائم نہیں رکھا جا سکتا اور جلد ترکی کو اپنی بیرونی ادائیگیوں کے لیے مزید غیر ملکی زر مبادلہ درکار ہو گا۔ کم شرح سود، سیاسی عدم استحکام اور عالمی سطح پر معاشی بحران کے پیش نظر یہ بہت مشکل نظر آتا ہے۔
اردگان کے پچھلے ادوار کے دوران گروتھ ریٹ میں ہوا عارضی اضافہ بھی معاشی ناہمواری اور سماجی بے چینی میں مسلسل اضافے کا باعث بنا ہے۔ کامریڈ لال خان نے ترکی کی معیشت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”اردگان کی جارحانہ نیو لبرل پالیسیوں سے امیر، امیر تر ہوتے گئے ہیں۔ اس معاشی نسخے کی اصل واردات یہ ہوتی ہے کہ نسبتاً بلند معاشی شرح نمو سے درمیانے طبقے کی پرت کسی حد تک پھیلتی ہے جو نیچے کی وسیع غربت اور محرومی کو اوجھل کر دیتی ہے۔ یہ درمیانہ طبقہ اکثریت میں نہ ہونے کے باوجود اپنی مخصوص سماجی حیثیت کے پیش نظر مقابلہ بازی، منافقت اور نمود و نمائش کی ایسی اقدار اور نفسیات پورے سماج پر مسلط کرتا ہے جو حکمران طبقات کے مفادات کو تقویت دیتی ہیں۔“
اقتدار کے حصول کے پاگل پن میں اردگان نے الیکشن مہم کے دوران خوب اپنے ماضی قریب کے خیر خواہوں امریکہ اور نیٹو کے خلاف لفاظی کرتے ہوئے اُن کی طاقت کو چیلنج کیا۔ وہ درحقیقت مادی حقائق سے یکسر کٹ کر دور دراز تک اپنی ’خلافت‘ کے خواب دیکھنے لگا ہے اوررواں سال لوزان معاہدے (Treaty of Lausanne) کے سو سال مکمل ہونے پر اُسے یہ خوش فہمی ہے کہ وہ دوبارہ ’سلطنتِ عثمانیہ‘ کی بنیاد رکھ کر خو د ’سلطان‘ بن سکتا ہے۔ سامراج کے سنجیدہ تجزیہ نگار پہلے سے اس کا سر بڑا ہونے کی باتیں کر رہے ہیں۔ حال ہی میں انتخابات پر تجزیہ کرتے ہوئے اکانومسٹ لکھتا ہے کہ ”خارجہ پالیسی پر بھی حکومت اور اپوزیشن کے لہجے میں واضح اختلاف موجود ہے۔ دونوں اطراف سے میل جول کی کوششوں کے باوجود بھی اردگان کا شہری آزادیوں کو نظر انداز کرنا اور سخت قوم پرست لہجہ اس کے مغرب کے ساتھ تعلقات کو دشوار بنا دیتا ہے۔ حال ہی میں سویڈن کی نیٹو میں شامل ہونے کی درخواست کو اس نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ (سویڈن) کرد دہشت گردوں کوپناہ دیتا ہے۔ اردگان کی حکومت سستی گیس درآمد کرنے سے لے کر قرضوں اور حال ہی میں نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر کے لیے تکنیکی سپورٹ تک ہر طرح کی معاشی مدد کے لیے روس پر انحصار کرتی ہے۔“ درحقیقت سامراجی پالیسی سازوں کے نزدیک اردگان اب ایک اثاثے کی بجائے بوجھ بنتا جا رہا ہے۔ ان حالات میں اس خطے میں پہلے سے جاری پراکسی تنازعات مزید خونریزی اختیار کر سکتے ہیں۔
داعش کی حمایت سے لے کر کردوں کے خلاف وحشیانہ فوجی جارحیت، گرتی ہوئی معاشی شرح نمو، مہنگائی، معاشی نابرابری اور اردگان کا سلطنت عثمانیہ کے سلطان بننے کا خواب سماج کی باشعور پرتوں کے لیے ناقابل قبول بنتا جا رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ حالیہ انتخابات میں شدید سیاسی پولرائزیشن دیکھی گئی ہے۔ عوام کا ایک غیر معمولی ٹرن آؤٹ حالیہ الیکشن میں یہ ظاہر کرتا ہے کہ عوام تبدیلی کے خواں ہیں۔ پیپلز ریپبلکن پارٹی کے امیدوار کے کے کو اس قدر ووٹ ملنا بے شک معاشرے میں جبر کے باوجود ابھرتی ہوئی مزاحمت کی غمازی کرتا ہے جو آنے والے دنوں میں نئی جہتیں اختیار کر سکتی ہے۔ تاہم بغیر کسی خوش فہمی کے یہ بات مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے پیپلز ریپبلکن پارٹی محض بورژوا لبرل پارٹی ہے۔ اس کا ایجنڈا آج بھی وہی سرمایہ داری ہے جو مصطفی کمال کا تھا۔ مصطفی کمال پاشا، جو جدید ترکی کا ’والد‘ کہلاتا ہے، دراصل ایک سیکولر ’جمہوری آمر‘ تھا جس نے ترکی میں بورژوا جمہوری انقلاب کے فرائض ادا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ مصنوعی جدیدیت ترکی کی قدامت پرستی کو جڑوں سے اکھاڑ نہیں سکی۔آج بھی پسماندہ دیہی علاقوں کی قدامت پرست پرتیں اردگان کی سیاسی و سماجی بنیاد ہیں۔
بائیں بازو کی پارٹیوں کے الائنس کو بھی گیارہ فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں جبکہ اُنہوں نے تقریباً اُتنی ہی سیٹیں جیتی ہیں جو پہلے اُن کے پاس موجود تھیں۔ ایسے میں اردگان کے اقتدار کو بائیں بازو کی ایک مضبوط مزاحمت کا سامنا ہو گا۔ انتخابی میدان کے باہر جہاں اردگان کے بائیں بازو اور ترقی پسند قوتوں پر حملے تیز ہوں گے وہیں سماج کی نچلی پرتوں میں پلنے والی بغاوت کا لاوا ایک بار پھر 2013ء کی طرح پھٹ سکتا ہے۔