قمرالزماں خاں
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اس وقت 168 سیاسی پارٹیاں باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں۔ 8 جون 2023ء کو پاکستان میں ایک اور پارٹی بنانے کا اعلان کیا گیا۔ شدید معاشی، سیاسی اور سماجی عدم استحکام کے اس دور میں اس پارٹی کا نام ”استحکام پاکستان پارٹی“ رکھ کر ایک مخصوص پیغام دینے کی کوشش کی گئی۔ پارٹی کے اعلان کے وقت اس میں پاکستان کے ’ایک سو‘وہی سیاست دان شامل کیے گئے ہیں جو ماضی قریب میں ”سیاسی عدم استحکام“ کو فروغ دینے، معاشی بد اعمالیوں میں حصہ داری اور سماجی جرائم کے ذمہ دار رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر وہی لوگ ہیں جو پچھلے تیئس سالوں (1999-2022ء) سے سیاست میں اور تقریباً ہر حکومت میں اقتدار اور اختیار پر فائز رہے ہیں۔ پالیسی سازی میں حصہ دار رہے ہیں۔ اس وجہ سے یہ افراد تمام پارٹیوں کے اچھے اور برے کاموں کے بھی ذمہ دار ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہو گا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے عدم استحکام اور زوال کے اس عہد میں اگر کچھ انتظامی یا حکومتی پہلو سے کسی قدر کم نقصان ممکن تھا تو انہی حضرات کی لوٹ کھسوٹ، بد انتظامی، مافیا گردی، رشوت، بد انتظامی اور نالائقی کی وجہ سے ایسا بھی نہ ہو سکا۔ لہٰذا کم سے کم ان افراد کی وجہ سے پاکستان میں کسی بھی شعبے میں استحکام ممکن نہیں ہے۔
نئی پارٹی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ تادم تحریر پارٹی بنانے کے مقاصد یا عزائم کو کہیں ضبط تحریر میں نہیں لایا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی سیاسی پارٹی ہے جس کا نہ کوئی دستور ہے اور نہ ہی باقاعدہ لکھا پڑا نظریہ یا سیاسی پروگرام۔ بلکہ جس عجلت سے اس کا 8 جون کو اعلان کیا گیا تب یہ بھی کسی کو علم نہیں تھا کہ اس کا باقاعدہ صدر، سیکرٹری وغیرہ کون کون ہوں گے۔ البتہ یہ سب کے علم میں تھا کہ فرنٹ پر اس پارٹی کا گاڈ فادر جہانگیر ترین کو ظاہر کیا جائے گا۔ اگر سیاسی کلاک کو سپریم کورٹ کی طرز سے پیچھے کی طرف لایا جائے تو ان سو افراد میں بیشتر وہی ہیں جنہیں مقدر قوتوں نے آل پاکستان مسلم لیگ، پاکستان مسلم لیگ (ق)، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور بعد ازاں پاکستان تحریک انصاف میں دو مقاصد کیلئے شامل کرایا تھا۔ پہلا مقصد متذکرہ (کچھ) پارٹیوں کی حکومتوں کو سہارا دے کر ”مضبوط“ کرنا تھا۔ دوسرا مقصد بالکل الٹ تھا۔ یعنی انہی پارٹیوں کو بوقت ضرورت کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کرنا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے ان’سیاسی معتبروں‘ یا ”الیکٹ ایبلز“ کو (جن کو عوام الناس’’لوٹا“ کہہ کر پکارتے ہیں) انفرادی طور پر یا چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شکل میں استعمال میں لایا جاتا تھا، اب ان لوٹو ں کے اس ڈھیر کو ایک گٹھری میں باندھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عوام کیلئے اس مضر سیاسی سکریپ کے ڈھیر میں کچھ لوٹے یا مقتدرہ کے کچھ اثاثے ایسے بھی ہیں جن کو بعد از تذلیل اس پیکیج کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ان میں فواد چوہدر ی جیسے ”نظریاتی بے اصول“ سیاست دان بھی ہیں جو پارٹی کے اعلان کے وقت منہ چھپا رہے تھے۔ جیسے ’مالکان‘ کے حکم پر پارٹی کا بدلاؤ ان کی زندگی کا پہلا شرمناک واقعہ ہو! فواد چوہدری نے سوائے ن لیگ کے تمام سیاسی پارٹیوں کے حقے کا پانی دھرا ہے۔ اپنی لمبی سیاسی زندگی میں فواد چوہدری نے مقدرہ کی مکمل حمایت اور امداد سے صرف دو الیکشن جیتے ہیں۔ ورنہ 2002ء کے عام انتخابات کے نتائج میں ان کے حصے 161 ووٹ اورپھر 2013ء کے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 24 میں بطور آزاد امیدوار انہوں نے راجہ محمد اویس کے مقابلے میں صرف 82 ووٹ حاصل کیے تھے۔ فواد چوہدر ی کی طرح جہانگیر ترین بھی زیادہ تر اپنے بہنوئی مخدوم احمد محمودکی مدد سے ان کی جاگیر کے’محفوظ ترین حلقے‘ NA-195 سے جیتنے کی سعادت حاصل کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے صرف ایک دفعہ اپنے طور پر ضمنی الیکشن میں NA-154 لودھراں سے الیکشن جیتا۔ فردوس عاشق اعوان کی طرح دیگران میں بھی بیشتر افراد ایسے ہیں جن کو غیر منتخب مشیر بنا کر طاقتور بنایا گیا۔ پھر انتخابی پہلوان بننے کی تربیت دی گئی۔ استحکام پاکستان پارٹی کے پہلے نامزد صدر علیم خان کی انتخابی فتوحات کی کہانی بھی کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے۔
پاکستان میں اقتدار اعلیٰ کا سوال ہمیشہ پیچیدہ اور متنازعہ رہا ہے۔ براہ راست چار مارشل لاؤں کی وجہ بھی یہی رہی ہے کہ فوج مخصوص تاریخی وجوہات کی بنا پر اقتدار و اختیار پر قبضہ رکھنے کی خواہش مند ہوتی ہے۔ طاقتور عسکری حلقے حاکمیت اور اختیارات میں سیاسی اور سویلین کی شمولیت کو صرف اس وقت قبول کرتے ہیں جب یہ ”سویلین“ ان کے اپنے کنٹرول میں ہوں یا ان کے نامزد کردہ ہوں۔ اس مشق میں معاشی مفادات سے لے کر داخلہ اور خارجہ پالیسی تک پر یکسوئی رکھنا ممکن نہیں رہتا۔ امن اور اخراجات کے معاملات پر اختلافات کا پیدا ہونا ناگزیر ہے کیونکہ سویلین اور عسکری اذہان کی سوچ کے رخ مختلف ٹھہرتے ہیں۔ ان دونوں فریقین کا تناظر جتنا بھی ایک جیسا ہو پھر بھی اس میں دراڑ پید اہو جاتی ہے۔ ایک وجہ تنازعہ کرپشن کا مسئلہ ہے۔ عسکری حکام سویلین حکومتوں یا پھر یوں کہا جائے کہ پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کو زیادہ بدعنوان قرار دیتے اور اس الزام کے تحت انہیں سزا کا مستحق بھی سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ سویلین سیاسی قوتوں کو تو گاہے بگاہے کٹہرے میں کھڑا کرتے اور انہیں علامتی سزائیں دیتے آ رہے ہیں مگر وہ خود کو کبھی بھی اس پیمانے پر جانچنے کی اجازت کسی کو نہیں دیتے۔ بد عنوانی اس نظام زر کی لازمی بدعت ہے جس کا شکار ہوئے بنا اس نظام کا حصہ نہ بنا جا سکتا ہے اور نہ اس میں رہا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے سویلین اور غیر سویلین حلقے جو اقتدار سے فیض یاب ہوتے ہیں وہ سر سے پاؤں تک بد عنوانی میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ مگر صرف بد عنوانی اکیلی صفت نہیں ہے بلکہ نااہلی اور سماج کو آگے نہ بڑھا پانے کی منفی صفت کی وجہ سے سویلین حکمرانوں کا زیادہ بدنام اور رسوا ہونا لازم امر ہے۔ انگریز راج کا نو آبادیاتی ڈھانچہ اپنی جگہ پر موجود ہے جس کو ایک غلام ملک کیلئے وضع کیا گیا تھا۔ 1947ء کے بٹوارے کے بعد کم سے کم پاکستان میں یہ ممکن نہ رہا کہ یہاں پر ادارہ جاتی اصلاحات کاسلسلہ شروع ہوتا۔ پہلے سالوں میں ہی عسکری غلبہ حاصل کر لیا گیا۔ اس دور کے بچے کھچے مسلم لیگی اس قدر بدعنوان، اپاہج اور نااہل تھے کہ انہوں نے ان حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے غیر جمہوری حاکمیت کا بغل بچہ بننے میں زیادہ سہولت اور عافیت سمجھی۔ اس طرح سیاسی عمل کی ابتدا مارشل لاؤں کی چھتری میں ہوئی۔ درمیان میں بغاوت ہوئی۔ 1968-69ء کی تحریک نے سب کچھ بدلنے کی سہولت مہیا کی مگر ماضی کے غلام مستقبل کو بھی واپس موڑ کر نئی فوجی بغاوت کی طرف لے گئے۔ یوں وہی کہانی ازسر نو شروع ہو گئی۔ حکومتیں دینے اور واپس لینے کا گھن چکر پھر سے جاری و ساری ہو گیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی بدعنوان قیادتوں کے زیر اہتمام سویلین حکمران کبھی نہ کبھی اس غلط یا خوش فہمی کا شکار ضرور ہوجاتے ہیں کہ ان کے پاس طاقت اور سیاسی قوت ان کی اپنی مقبولیت کی پیدا کردہ ہے۔ بار بار کے ٹکراؤ کے بعد عسکری حکام نے اپنے طور پر ایک طویل المیعاد منصوبے کی طرح ”عمران خان پراجیکٹ“ کی شکل میں ڈالی مگر زمینی حقائق نے اس تجربے کو پہلے سو دن میں ہی ناکامیوں کے نہ ختم ہونے والے بحران میں ڈال دیا۔ پی ٹی آئی حکومت ناکام بھی ہو گئی اور پھر خود ’ادارے‘ میں بھی متوازی طاقت کو راستہ فراہم کرنے کے بہت بڑے ایڈوانچرکا مرکز بن گئی۔ یہ سب بھی ناکام ہو گیا۔ ایک دس پندرہ سالہ مطلق العنان حکومت جو سامنے موجود تمام مخالفین کو نشان عبرت بنا دے‘ یہ خواب اپنی تعبیر نہ پا کر جس ری ایکشن میں بدلا اس کا انت’9 مئی‘ کی شکل میں نکلا۔ وہ سارا ’کباڑ‘ جس کو پاکستان تحریک انصاف کو مضبوط بنانے کیلئے جمع کیا گیا تھا اسے ’9 مئی‘ کے بعد واپس نکال لیا گیا۔ اب اسی کباڑ کو استحکام پاکستان پارٹی کے نام پر جمع کیا گیا ہے تاکہ اگلی حکومت کو اس کے ذریعے ایسا’استحکام‘ بخشا جائے جس سے کم سے کم وہ حکومت مستحکم نہ ہو سکے۔ اس عدم استحکام کا پہلا منظر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے اختلاف کی شکل میں ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ ن لیگ نے نئی پارٹی ’آئی پی پی‘ کے ساتھ انتخابی اتحاد کا عندیہ دیا ہے۔ اس کا مطلب آصف علی زرداری کے خوابوں کو توڑ دیا جانا ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر پیپلز پارٹی کیلئے پنجاب میں حالات ویسے سازگار نہیں ہوں گے جیسا کہ سوچا گیا تھا۔ عسکری سیاسی حلقوں نے’آئی پی پی‘ کے ساتھ’ٹی ایل پی‘ کو بھی وارم اپ کرنا شروع کر دیا ہے۔ آنے والے وقت میں کوئی نہ کوئی ایسا ایشو بھی پیدا کیا جائے گا جس سے ’ٹی ایل پی‘ کو سیاسی اور (پسماندہ) سماجی منظر نامہ پر اپنے نقوش کو گہرا کرنے کا موقع مل سکے۔ اس طرح عدم استحکام کیلئے ایک سے زیادہ قوتیں ہما وقت میسر ہوں گی۔ ’ٹی ایل پی‘ ہر حلقہ انتخاب میں پانچ دس ہزار ووٹوں کے ذریعے کسی کو ہرانے اور کسی کو جتانے کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی طرح ’آئی پی پی‘ کے لوٹوں کو بھی آنے والے انتخابات تک انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں لے آیا جائے گا۔ اس پارٹی کا یہی استعمال ہے۔ اس سے زیادہ اس کی صلاحیت نہیں ہے۔ یہ پارٹی ایک کنگز پارٹی سے زیادہ ایک بارگینگ ایجنٹ کا کردار ادا کرے گی جو پس پردہ طاقتور فریق کی سیاسی نمائندگی کیا کرے گی۔ ’آئی پی پی‘ پاکستان کے سیاسی افق پر کوئی نیا مظہر نہیں ہے۔ ماضی قریب اور بعید میں اس قسم کے کردار کی حامل پارٹیوں کے جنم اور پھر تاریخ کے کوڑے دان کی زینت بن جانے کی پوری تاریخ موجود ہے۔