قمر ا لزماں خاں

پاکستان کی پوری تاریخ مختلف اقسام کے بحرانوں اور پھر ان کے عارضی تدارک کی تلاش پر مبنی ہے۔ اپنی تاریخی محدودیت اور ساخت کے اعتبار سے پاکستانی ریاست کسی ترقی یافتہ یا فلاحی ماڈل کی طرز اختیار کرنے سے قاصر رہی ہے۔ نہ ہی ایسی کوئی گنجائش موجود ہے۔ اس لئے بحرانوں کا کوئی مستقل حل بھی موجود نہیں ہے۔ لہٰذا تدارک کے ہر فارمولے کے بعد پھر ایک نیا بحران جنم لیتا ہے۔ جس کی شدت پچھلے بحران کے مضمرا ت اور گھاؤ کو بھلا دیتی ہے۔ تدارک کے متبادل نہ بننے بلکہ زیادہ ہولناک بحران کے پھوٹ پڑنے کے سبب کئی مرتبہ ماضی کے ہولناک ادوار کو رومانوی رنگ دے کر یاد کرنے کی روش بھی نظر آتی ہے۔ ایسی رومانیت پسندی کا اظہار رسوائے زمانہ مصرعہ ”تیرے جانے کے بعد…تیری یاد آئی“ کی بازگشت میں پایا جاتا ہے۔ یہ دراصل ماضی کی نسبت موجودہ عہد سے زیادہ بیزاری کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ عہد سے مناسبت رکھنے والی بہتری نہ ہونے کے سبب پچھلے بدتر اور موجود بدترین دور کے موازنوں کی نفسیات کے پنپنے کے لئے بڑی گنجائش پیدا ہو چکی ہے۔ اسی مجبوری کی نفسیات اور کیفیت کو حکمران ساز ادارے بڑی مکاری اور ظالمانہ انداز سے استعمال میں لا تے ہیں۔ اسی طرح ستر سالوں کی پے در پے اذیت اور حملوں نے سماج کی کچھ پرتوں کو اذیت پسند بھی بنا دیا ہے۔ چنانچہ بڑی برائی اور چھوٹی برائی کی مجرمانہ تاویل کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ہم بحرانوں کا جائزہ لیں تو ان کے مضمرات اور نقصانات کی شدت کا رخ طبقاتی نظر آتا ہے۔ ہر سیاسی، معاشی، انتظامی اور حاکمیت کے بحران کا نزلہ محنت کش طبقے، غریبوں، مزدوروں اور ہاریوں پر پڑتا ہے۔

اب تک کی سات دہائیوں کے مختلف حکمرانوں کے تجربات کے نتائج میں محنت کش طبقے کے لئے مجموعی طور پر زیادہ فرق نہیں ہے۔ حکمران گروہوں، دھڑوں اور اقسام میں بنیادی فرق اس لئے نہیں ہے کہ اطلاق کے طریقوں کے برعکس ان کا نظام اور معیشت کاقبلہ ایک ہے۔ یوں یہ سب ایک دوسرے کے متبادل نہیں ہیں بلکہ اپنے ذاتی اختلافات کے باوجود اس نظام زر کے معاونین ہیں۔ ایسے ہی محنت کش طبقے کے تاریخی مفادات اور نصب العین کے نقطہ نظر سے نون لیگ کا متبادل آج کی پیپلز پارٹی نہیں ہے۔ نہ ہی پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا متبادل مقتدرہ کی گھڑی ہوئی ق لیگیں یا تحریک انصاف جیسے عسکری تجربے ہیں۔ اسی طرح سویلین اور غیر سویلین حکومتیں بھی ایک دوسرے کا بدل نہیں ہیں۔ 68-69ء کی تحریک سے جنم لینے والے حالات اور 70ء کی اسمبلی میں اس تحریک کے نئے کرداروں کے استثنا کے ساتھ اگر بغور دیکھا جائے تو ان تمام مختلف ناموں یا کرداروں میں کبھی معمولی کبھی زیادہ اختلافات کے باوجود گہری یکجہتی بھی موجود ہے۔ سویلین کہلانے والی ان تمام پارٹیوں میں بیشتر کی قیادت 1857ء کی جنگ آزادی کے غدار گھرانوں، بٹوارے کے ذمہ دار کھوٹے سکوں اور 47ء کے بعد لوٹ مار کے رسوائے زمانہ کرداروں پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے زیادہ کی تربیت گاہ فوجی آمریت کے ادوار رہے ہیں۔ پچھلی دو درجن سے زائد حکومتوں کی کابینہ کے اراکین معمولی رد و بدل کے ساتھ انہی خاندانوں پر مشتمل ہیں جو کبھی نام نہاد جمہوری اور کبھی آمریت کی چھتری تلے عوام کو لوٹنے کا دھندہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہی ناکام ہوتے ہیں اور انہی میں سے کچھ ’متبادل‘قرار دیئے جاتے ہیں۔

طلبہ یونین پر پابندیوں کے بعد مخصوص گھرانوں یا فوجی فونڈریوں سے ہٹ کر ابھرنے والی عوامی لیڈر شپ کے امکانات کم سے کم ہی ہوتے چلے گئے ہیں۔ پاکستانی جمہوریت اور براہ راست آمریت کی پاسنگ آؤٹ ایک ہی جگہ سے ہوتی آ رہی ہے۔ اس لئے جب بھی کسی سیاسی جماعت یا اتحاد کی حکومت ناکام ہوتی ہے تو پیچھے بیٹھے سرکاری سول اور غیر سول ہرکارے، سلیکٹرز، پیش کار، تخلیق کار اور ہدایت کار بھی اس ناکامی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ جہاں حکمران طبقے اور گروہوں کی تاریخی نا اہلی، گراوٹ اور بد عنوانی ان کا مشترکہ ٹریڈ مارک ہے وہیں اس ساری صورتحال کے گھمبیر تر ہونے کی فیصلہ کن وجہ یہ ہے کہ حاکمیت کے یہ تمام کردار ایک ہی سامراجی نظام کے نمائندگان ہیں۔ عالمی مالیاتی نظام کے معمولی کارندوں کی حیثیت میں ان کا کردار متعین شدہ ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان کے حکمران گروہ غیر ملکی سرمایہ کاری، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سامراجی ممالک کے مفادات کے مقامی نگہبان کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈالر کی شرح تبادلہ، منصوبہ بندی، مقامی پیداوار اور خدمات سے لے کر تجارت تک کا رخ ملکی مفادات کی بجائے بیرونی قوتوں کے مفادات کی تکمیل کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اس سب کا معاوضہ ان کے ملک اور بیرون ملک اثاثوں، محلات، شان و شوکت اور دولت کی بہتات کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں جہاں ملکی معاملات میں ناکام نظر آتی ہیں وہاں بیرونی آقاؤں /قوتوں کے دئیے گئے اہداف کے حصول میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ملتی ہیں۔ بدقسمتی کی انتہا ہے کہ ملک میں بیشتر ترقیاتی منصوبے بھی کلیدی طور پر بیرونی قوتوں کے مفادات کے لئے ہوتے ہیں۔ گو ان منصوبوں کے ’ٹریکل ڈاؤن‘ اثرات میں کچھ مقامی افادیت بھی موجود ہوتی ہے جس کو سیاسی حمایت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لہٰذا حقیقی متبادل وہ نہیں ہیں جو عوامی مفادات کے ضمن میں 1947ء سے لے کر 2023ء تک بننے والی حکومتوں میں ناکام نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے کارپوریٹ میڈیا کی یہ کتنی بڑی بد دیانتی ہے کہ طاقت کے مراکز اور غیر سیاسی فیصلہ سازوں کے ناکام سیاسی گروہوں کو ادل بدل کر کے نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اتنا شور، پراپیگنڈہ اور مالیاتی جبر ہے کہ کوئی اور آواز تک نہیں ابھرنے دی جا رہی۔ کئی درجن ڈیجیٹل سکرینوں پر فقط ملکی اور عوامی مفادات کے ضمن میں ناکام و نامراد اور بین الاقوامی مالیاتی طاقتوں کی گماشتگی کرنے والوں کو متبادل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حقیقی متبادل جو کہ پاکستان کا محنت کش طبقہ ہے‘ اس کو میڈیائی جارحیت میں معمولی عنصر یا فریق کے طور پر بھی شامل نہیں کیا جاتا۔ وہ پارٹیاں جن کا تکیہ کسی عہد میں محنت کش طبقے سے متعلق نعرہ بازی پر تھا‘ سوویت یونین کے انہدام سے پہلے ہی اپنا قبلہ سرمائے کی حاکمیت کو قرار دینے کی تیاری کر چکی تھیں۔ لہٰذا وہاں بھی اب پارٹی پالیسیوں کا تعین بازار حصص کے کاریگر کرتے ہیں۔ ہر پارٹی کے ’مانڈوی والا‘ اور ’ڈھیڈی‘ اقتصادیات کے تعین کے ذمہ دار ہوں تو وہاں محنت کش طبقے کو سرمایہ داری کی اکنامکس کے تحت ایک ماتحت اور معمولی اکائی سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ اسی سوچ کے تحت ان کی اجرت، اوقات کار، حالات زندگی، سیاسی حیثیت اور مستقبل کا تعین کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں کہ سیاسی مانڈوی والا ٹائپ پارٹیوں کے پالیسی ساز صرف محنت کش طبقے کو اس نگاہ سے نہیں دیکھتے (یا دیکھنا نہیں چاہتے) جو اس کا تاریخی اور طبقاتی جوہر عیاں کرے بلکہ ان کے پاس اپنی معیشت کو صحت مندانہ طور پر آگے بڑھانے کا بھی کوئی راستہ نہیں ہے۔

پاکستانی معیشت کی استواری کو تاریخی عوامل کی وجہ سے روز اول سے ہی سرمایہ داری کی کلاسیکی شکل میسر نہیں ہے۔ ریاست کی غیر صحت مندانہ، نحیف اورشکستہ بنیادوں نے سرکاری معیشت کے قرض (جو کہ سرمایہ داری نظام کالازم جزو ہے) کے ساتھ ساتھ امداد، خیرات اور پھر کرائے کی جنگوں کے معاوضے پر مبنی معیشت کو ساتھ ساتھ آگے بڑھایا۔ 80ء کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران اور بعد میں کالی معیشت کے تیز ترین ارتقا نے اس کو تقریباً سرکاری معیشت کے برابر لاکھڑا کیا۔ یوں سماجی و سیاسی منظر نامے کی تشکیل بھی مندرجہ بالا معاشی صفات کے عکس کے مطابق ہوتی گئی۔ جتنی بے ہنگم، متغیراور بیمار معیشت پروان چڑھتی گئی اس نے سیاست، سماج، ادب، تعلیم اور ثقافت کو بھی اسی قدر سے آلودہ کیا۔ شعور کے تعین کے لئے صف آرا متضاد، پست، شکستہ اور مجرمانہ عوامل نے جس قسم کا معاشرہ تشکیل دیا ہے وہاں سے اٹھنے والی سیاسی، انتظامی اور معاشی کیفیات نے پورے پاکستان کو تاریخ کے بدترین بحران اور اس کے مضمرات کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ حقیقی متبادل نہ ہونے کے سبب جس قسم کے حل کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں یہ بھی اس عہد کی شدید گراوٹ کی آئنہ دار ہیں۔ سرمایہ داری کے تجزیہ نگار ریاستی فرائض سے فراریت، معاشی پالیسوں پر عالمی لٹیروں کی حاکمیت، نجکاری، نام نہاد سبسڈی کے بھی خاتمے اور کم محنت سے زیادہ منافع کمانے یعنی ڈاؤن سائزنگ سے آگے نہیں جھانک سکتے اور نہ ہی انہیں اس کی اجازت ہے۔ مندرجہ بالا اقدامات کا براہ راست اثر محنت کش طبقے پر پڑتا ہے۔ بے روزگاری اور غربت میں اضافے کے ساتھ معیار زندگی گرتا جاتا ہے۔ سامراجی اداروں کے جبر کے نیچے آئی پی پیز طرز کی بے لگام اور بے رحم منافع خوری کے راستے کھولے جاتے ہیں۔ بس سرمایہ داروں کے شرح منافع میں اضافہ مقصود ہوتا ہے۔

ایسے اقدامات کا ایک ہیرو من موہن سنگھ کو مانا جاتا ہے۔ اس کے سامراجی اطاعت کے بہیمانہ کارناموں کو نیو لبرل اکانومی کا ریفرنس قرار دیا جاتا ہے۔ سرمایہ داری کے نقطہ نگاہ سے (بطور خاص تیسری دنیا کے لئے) یہ ایک بہترین راستہ ہے۔ شدید ترین استحصال، مالیاتی جبر، ریاستی فرائض سے فراریت اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی وسیع تر لوٹ کھسوٹ سے وقتی طور پر گروتھ ریٹ بڑھتا یا مستحکم رہ سکتا ہے مگر جہاں یہ استحکام لا متناہی دوام نہیں حاصل کر سکتا وہیں اس گروتھ ریٹ کی قیمت کروڑوں محنت کش گھرانوں کو بھوک، افلاس، لا علاجی، تعلیم اور ضروریات زندگی سے محرومی کی شکل میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ شائنگ انڈیا کے جعلی نعروں اور من موہن ماڈل کے عقب میں بھارت میں کسانوں اور مزدوروں کی ہڈیوں پر بھاری بھرکم مڈل کلاس کی نمائش کی جاتی ہے۔ ایسی ہی مڈل کلاس جو بھارت میں کم و بیش تیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ مختلف تعریفوں کے مطابق پاکستان میں مڈل کلاس افراد کی تعداد کا اندازہ 60 لاکھ سے 7 کروڑ تک جاتا ہے۔ تاہم پاکستان کے معیاروں کے مطابق دو سے ڈھائی کروڑ کی تعداد عمومی مشاہدے سے میل کھاتی ہے۔ بہرحال اس مڈل کلاس کے رہن سہن اور شان و شوکت کی قیمت اکثریتی آبادی کو ادا کرنا پڑتی ہے جس کی قوت خرید اور معیار زندگی مسلسل گرتا جا رہا ہے۔ مڈل کلاس کی اکثریت اسی کالے دھن کی حامل ہے جس کو ریاستی یا حکومتی سطح پر ایمنسٹی سکیموں کے ذریعے وائٹ کرنے کی بھی گاہے گاہے کوشش کی جاتی ہے۔ کالے دھن کو مزید تقویت بخشنے کے لئے رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں ان کو بے پناہ مراعات اور ٹیکس چھوٹ دی جاتی ہے۔ اس نظام کے تحت پاکستانی سماج کے پہیے کے رواں دواں رہنے میں کالی معیشت اور اس کے حامل طبقہ بالا اور مڈل کلاس کا کردار ناگزیر ہے۔ مہنگائی کی موجودہ بلند شرح کی بنیادی وجہ اگرچہ روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ ہے لیکن اس میں مڈل کلاس طبقہ سے تعلق رکھنے والے تاجر، آڑھتی، امپورٹر اور اسی چین کے مختلف مرحلوں کے حصہ دار بھی شامل ہیں۔ جو روزمرہ استعمال کی اشیا پر بے پناہ منافع کما رہے ہیں۔ ایک طرف معیشت کا یہ حصہ سرکاری معیشت کے عمل دخل اور دائرے سے باہر ہے تو دوسری طرف کنزیومر اکانومی کا اہم عامل ہے۔ پاکستان میں کالی معیشت (قانونی اور غیر قانونی) کو کنٹرول کرنا یا ٹیکس نیٹ میں لانا اس لئے بھی مشکل ہے کہ وہ طاقتور گروہوں اور سیکٹروں پر مبنی ہے۔ یہ طبقہ یا براہ راست اقتدار میں رہتا ہے یا اقتدار پر اس کی مضبوط گرفت رہتی ہے۔ اس طبقے کو ریاستی مشینری یا قانون کے زور پرٹیکس نیٹ یا قابو میں لانے کی کوشش میں سخت مزاحمت اور پوری معیشت کے زمین بوس ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ ایک تضاد بلکہ منافقت کا منظر فوجی فاؤنڈیشن ٹائپ صنعتی اور خدمات کے اداروں کی لمبی فہرست کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے جو عمومی ٹیکسیشن کے عمل سے باہر ہیں۔ ان اداروں کی خدمات اور مصنوعات پر سیلز ٹیکس تو عائد ہے جو دراصل خریدار کو ادا کرنا پڑتا ہے مگر دیگر ٹیکس جو اداروں کو ادا کرنا ہوتے ہیں اس سے ان کو خصوصی چھوٹ دی جاتی ہے۔

جہاں ایک طرف طبقہ امرا اور مڈل کلاس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور رہن سہن میں بہتری آئی ہے اور کاروں سمیت مہنگے لوازمات کا امپورٹ بل ہر سال حاوی رہا ہے وہیں سرکاری معیشت کی اعانت میں اس طبقے (بالخصوص اس کے کاروباری حصوں) کا مثبت کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کے ٹیکس نیٹ سے بالا ہونے کے سبب بجٹ کی آمدن والا حصہ اخراجات سے کافی کم چلا آ رہا ہے۔ جس کے سبب بجٹ خسارے کا عامل تسلسل سے چلا آ رہا ہے۔ پاکستان کے جی ڈی پی کا کل حجم 376.49 ارب ڈالر (2022ء) اورعالمی رینکنگ میں 42 واں نمبر ہے۔ 2005ء سے 2022ء کے دوران ملک کی کل آمدنی اور اخراجات میں خسارہ رہا ہے۔ 1980ء سے لے کر 2022ء تک صرف سال 1985ء میں گروتھ ریٹ 8.5 فیصد رہا ہے باقی سالوں میں شرح تین سے چھ فیصد کے درمیان رہی ہے جبکہ سال 2019-20ء میں شرح نمو منفی بھی رہی ہے۔ آنے والے کئی سالوں تک خاطر خواہ شرح نمو کا امکان مخدوش ہے۔

پچھلے کچھ عرصہ سے پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ گو معیشت کے خدوخال کو سامنے رکھا جائے تو ملک کئی دہائیوں سے دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے۔ ہمیشہ امپورٹ بل ایکسپورٹ سے زیادہ ہوتا ہے اور لمبے عرصے میں یہ خسارہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ آبادی اور فوری اخراجات میں اضافہ، قرضوں کی ادائیگی، تجارتی خسارے اور دیگر بیرونی ادائیگیوں کی مناسبت سے ملکی معیشت کبھی بھی پروان نہیں چڑھ پائی ہے۔ بیرونی ادائیگیوں کے لئے صرف تارکین وطن کی بھیجی ہوئی رقوم وہ اہم عنصر ہیں جس سے معیشت کو کچھ سہارا ملتا آ رہا ہے۔ معیشت کے عملی طور پر دیوالیہ ہونے کی خبر کچھ سال پہلے عمران خان کے وزیر شبر زیدی نے بلند بانگ دی تھی۔ گو یہ کچھ حقیقت بھی ہے مگر یہاں پر ایک گہر اتضاد موجود ہے۔ نسبتاً بڑے سکیل کی منڈی کو دیوالیے اور آبادی کے لحاظ سے اتنے بڑے ملک کو انتشار سے روکنے کی کوشش کی جائے گی۔ مگر حکمرانوں کی طرف سے دیوالیہ دیوالیہ کی رٹ اس لئے بھی لگائی جا رہی ہے کہ عوام میں خوف کی فضا قائم کر کے سامراجی اہداف کے حصول کی تمام رکاوٹیں دور کی جائیں اور کڑی مالیاتی شرائط کے ساتھ نیو لبرل اکانومی کے راستے میں حائل تمام ریاستی رکاوٹیں دور کر کے لوٹ مار کو گہرا کرتے ہوئے اس میں شدت لائی جائے۔ ان معروضات کے ذریعے ہولناک معاشی بحران (جس کی وجہ سے اس وقت غیر اعلانیہ طور پر درآمدات پر بندش ہے اور امپورٹ بند ہونے کی وجہ سے قلت اور مہنگائی کی لہر نے پورے پاکستان کو لپیٹ میں لیا ہو ا ہے) کی شدت کی نفی نہیں کی جا رہی بلکہ اس سے منسلک دیگر عوامل اور تضادات کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کسی دیوالیہ ریاست میں جہاں پہلے ہی عوامی سالمیت مٹ رہی ہوتی ہے وہاں نام نہاد ملکی سلامتی بھی گلیوں اور بازاروں میں بھوکے اور بپھرے ہجوم کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں ادارے زیادہ وحشی اور سرمایہ دار اور زیادہ استحصال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہیں وہ بنیادیں بھی چیلنج ہو جاتی ہیں جن کے سبب مختلف استحصالی اور جبر کے اداروں کے وجود کا دفاع کیا جاتا ہے۔

آج پاکستان میں یہ بحث نہیں ہو رہی کہ عالمی معیشت کے بحران کی نوعیت کیا ہے اور اس کی بغل میں پاکستانی معیشت پر سامراجی پالیسیوں کے کیا مہلک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سامراجی حملوں کا تدارک کرنے کی بجائے یا پھر حتمی طور پر یہ تسلیم کرنے کی بجائے کہ سرمایہ داری کے تحت ملکی معیشت کے خدوخال کو صحت مندانہ بنیادیں فراہم نہیں کی جا سکتیں‘ سارا زور الیکشن اور نئے مینڈیٹ پر ہے۔ اس کی منطق یہ دی جاتی ہے کہ نئے مینڈٹ کے تحت عوام پر حملہ مزید آسان ہو جائے گا۔ یہ افسوسناک موقف سیاست دانوں سے لے کر نام نہاد ماہرین معاشیات اور کارپوریٹ میڈیا پر رائے بنانے والے اینکرز تک سب کا ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ سب یہ جان چکے ہیں کہ اس نظام میں پاکستان کی بحران زدہ معیشت کو بحال نہیں کیا جا سکتا۔ صرف مہنگائی، ڈاؤن سائزنگ، نجکاری، بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافوں سمیت عوام پر معاشی حملوں کو ہی جاری رکھا جائے گا۔ نظام کے رکھوالوں کے پاس سرمایہ داری نظام اور سامراجیت کے حق میں کوئی دلیل باقی نہیں بچی ہے۔ چونکہ ان کی بقا اور لوٹ کھسوٹ اس نظام سے وابستہ ہے چنانچہ اس نظام کے مفاد یافتہ طبقات اور گروہ اسی کو برقرار رکھنے کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں۔ ہر ناکامی کے بعد وہ اپنے ہی مختلف حصوں کو متبادل بنا کر پیش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ کبھی بغیر مینڈیٹ کی آمرانہ حکمرانی اور کبھی الیکشن کے ذریعے فریش مینڈیٹ کے تحت حکمران گروہ اس استحصالی نظام اور اس کے جبر کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اسی کو طبقاتی مفاد کہتے ہیں۔ جب تک یہ نظام برقرار رہے گا‘ محنت کش طبقے پر اس کی ناکامی اور کامیابی دونوں صورتوں میں حملے جاری رہیں گے۔ اس لئے اس صورتحال میں محنت کش طبقے کی تمام پرتوں کے پاس اس ظالمانہ نظام کو برداشت کر نے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لوٹ کھسوٹ کے سامراجی نظام کوختم کرنا ہی واحد حل ہے۔ ایک حقیقی متبادل، جو کہ پاکستان کامحنت کش طبقہ ہے، کو سیاست اور سماجی حرکیات میں شعوری اور طبقاتی مداخلت کرنا ہو گی۔ تب ہی اس استحصالی نظام کی قبر پر ایک حقیقی متبادل تعمیر کیا جا سکتا ہے۔