حارث قدیر
بھارتی دارالحکومت دہلی میں مسلسل تیسری مرتبہ کامیاب ہونے کے بعد حالیہ ریاستی انتخابات میں ’عام آدمی پارٹی‘ نے ریاست پنجاب میں بھی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد حکومت قائم کی ہے۔ جبکہ گووا بھارت کی ایسی تیسری ریاست ہے جہاں پر عام آدمی پارٹی کو ئی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی مسلسل کامیابیوں کے ساتھ ساتھ عام آدمی پارٹی بھی ایک ایسا مظہر ہے جو بھارتی سماج میں بظاہر آگے بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی نے ہندو انتہا پسندی کو فروغ دینے، نفرتوں اور تعصبات کو بڑھاوا دینے کی پالیسی اپناتے ہوئے انتہائی دائیں بازو سے محنت کشوں کو درپیش فوری مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے ابتدائی کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس تسلسل کو جاری رکھنے کیلئے بھارتی سماج کو بری طرح سے مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر دیا ہے۔ قومی شاؤنزم کو بھیانک انداز میں استعمال کرتے ہوئے ہر مخالف آواز کو کچلنے کا ہتھیار بنا کر فسطائیت کا غلبہ قائم کر دیا ہے۔ دوسری طرف عام آدمی پارٹی نے درمیانے طبقے بالخصوص شہری مڈل کلاس کو اپنی جانب راغب کرنے کیلئے کرپشن کے خاتمے اور صاف پاک قیادت کے نام پراسی فسطائیت کی راہ اپناتے ہوئے اپنی جگہ بنانی شروع کر رکھی ہے۔
بھارتی حکمرانوں کی روایتی پارٹی کانگریس کی ٹوٹ پھوٹ اور محنت کش طبقے سے مسلسل کیے جانے والے دھوکوں اور کمیونسٹ پارٹیوں کے مرحلہ واریت پر مبنی نظریاتی بانجھ پن کے پیچھے اس نظام کی سہولت کاری اور اقتدار کی موقع پرستی نے سیاست میں جو خلا پیدا کیا ہے اس خلا کو پر کرنے کیلئے فسطائی رجحانات نے درمیانے طبقے اور ہندو انتہا پسندی کو اپنا ہتھیار بنا لیا ہے۔ اسی کیفیت میں محنت کش طبقہ انتقام کے ووٹ کی صورت انتخابات میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
سی پی آئی ایم کے جنرل سیکرٹری سیتا رام یچوری نے پارٹی کی 23 ویں کانگریس کے بعد دیئے گئے ایک انٹرویو میں بہت کھل کر یہ واضح کیا کہ بھارت کو سیکولر جمہوری ملک بنانے اور آئین کی بالادستی کو قائم کرنے کیلئے جدوجہد کی ضرورت ہے۔ تب ہی ملک کی سالمیت اور خود مختاری بھی برقرار رہ سکتی ہے اور معاشی خود مختاری بھی مل سکتی ہے۔ اس وقت مودی حکومت نے آئین کو مفلوج کرتے ہوئے فرقہ وارایت کی پالیسی کو اپنایا ہوا ہے۔ ہندوتوا کی فرقہ واریت کی وجہ سے بھارت کا سیکولر چہرہ داغدار ہو چکا ہے۔ انہوں نے انٹرویو کے آخر میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ سیکولر جمہوری بھارت کے حصول اور آئین کی بالادستی سے ہی سماجی اور معاشی انصاف کا راستہ ہموار ہو گا اور پھر سوشلزم کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔ کم و بیش یہی مرحلہ وار اور اصلاح پسند وچار باقی کمیونسٹ پارٹیوں اور گروہوں کے بھی ہیں۔
دوسری طرف بھارتی حکمران طبقے کی روایتی پارٹی انڈین نیشنل کانگریس بھی طویل اقتدار اور ریاستی سرمایہ داری کو نہرووین سوشلزم کے لبادے میں قائم رکھنے اور بعد ازاں نوے کی دہائی میں نجکاری کے ذریعے سے سرمایہ داروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے مواقع دینے کے بعد بھارتی سماج میں اپنی اہمیت بتدریج کھوتی جا رہی ہے۔ کانگریس بھی اس نظام کو جاری رکھنے کیلئے آئین اور سیکولرازم کی بالادستی میں ہی تمام مسائل کا حل تلاشنے میں مصروف ہے۔
کمیونسٹ پارٹیوں کے زیر اثر بھارتی ٹریڈ یونین قیادتیں بھی اس نظام کے ساتھ مصالحت کی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے محنت کش طبقے کی طاقت اور قوت کو زائل کرنے کے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔ ہر سال ایک یا دو مرتبہ بھارت بند کی کال دی جاتی ہے۔ ایک یا دو روزہ ہڑتال میں شریک محنت کشوں کی تعداد گنتی کر کے بغیر کسی لائحہ عمل اور پروگرام کو وہ ہڑتال ختم بھی کر دی جاتی ہے۔
اس بڑی تعداد میں محنت کش طبقے کی سیاست میں مداخلت نے حکمرانوں پر ایک خوف ضرور مسلط کر رکھا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر نجکاری کرنے اور نیو لبرل پالیسیوں کے یکدم نفاذ میں جھجک رہے ہیں۔ تاہم اس احتجاج کے باوجود حکمرانوں نے نیو لبرل پالیسیوں کے نفاذ کا سلسلہ بتدریج جاری رکھا ہوا ہے۔ اس نظام کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کو استوار کیے بغیر محنت کش طبقے کے دکھوں کا حقیقی مداوا بھی ممکن نہیں۔ اور نہ ہی حکمرانوں کو زیادہ دیر تک محنت کشوں پر وار کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔
یہی وہ حالات ہیں جنہوں نے فسطائی رجحانات کو پنپنے کاموقع فراہم کیا ہے۔ جہاں کمیونسٹ پارٹیاں اور کانگریس سیکولر ازم اور آئین کی بالادستی سے مسائل کے حل کو مشروط قرار دے رہے ہیں وہیں نریندر مودی نے چائے والے کے بیٹے کے طور پر خود کو پیش کرتے ہوئے روزگار کی فراہمی، تعمیر و ترقی، رہائش اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات کی فراہمی جیسے بنیادی مسائل حل کرنے کے اعلانات اور دعوے کر کے نہ صرف درمیانے طبقے اورہندو بنیاد پرستی کو اپنا گرویدہ بنایا بلکہ محنت کش طبقے کی پسماندہ پرتوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔
عام آدمی پارٹی کا آغاز اور بنیادیں پاکستان میں عمران خان کی تحریک انصاف سے مماثل ہیں۔ عام آدمی پارٹی کی بنیاد نومبر 2012ء میں اروند کیجریوال اور اس کے ساتھیوں نے رکھی تھی۔ اروند کیجریوال نے ایک نیم فسطائی شخص انا ہزارے کی کرپشن کے خلاف سول سوسائٹی تحریک کے ذریعے سے شہرت حاصل کی۔ تاہم بعد ازاں انا ہزارے اور کیجریوال کے مابین اختلافات کے باعث کیجریوال نے اپنی سیاسی جماعت قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ایک سابق سرکاری ملازم کیجریوال نے سول سوسائٹی کی اس تحریک اور درمیانے طبقے کی بے چینی کو استعمال کرتے ہوئے کرپشن سے پاک ایماندار قیادت کے ذریعے سے مسائل حل کرنے کے دعوے کے تحت دہلی کے ریاستی انتخابات میں ابتدائی کامیابی حاصل کر کے مخلوط حکومت قائم کی۔ تاہم 49 دنوں کے اندر ہی ’جن لوک پال‘ بل کو منظور کروانے میں ناکامی کی صورت استعفیٰ دے دیا تھا۔ جس کے بعد اگلے انتخابات میں 70 میں سے 67 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے دوبارہ وزیر اعلیٰ منتخب ہو گیا۔ جبکہ 2020ء میں تیسری مرتبہ بھی 62 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد کیجریوال کی عام آدمی پارٹی نے دہلی میں سرکار قائم کی۔
کرپشن کے خاتمے، بجلی کے بلوں میں 50 فیصد رعایت، نئی بسوں کی فراہمی اور کرایوں میں کمی، ہزاروں کی تعداد میں نئے سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر اور بے گھروں کیلئے گھروں کی فراہمی سمیت 70 کے قریب ایسے اعلانات اور دعوے کیے گئے تھے جن کی بنیاد پر عام آدمی پارٹی کو پڑھے لکھے درمیانے طبقے کی بڑی حمایت حاصل ہوئی تھی۔
اس مقبولیت کے پیچھے سامراجی این جی اوز کی فنڈنگ کے علاوہ بیرون ملک موجود بھارتی شہریوں اور نوے کی دہائی کے بعد معیشت کو سرمایہ داروں کیلئے کھولے جانے کے باعث ایک بڑے حجم میں پیدا ہونے والی اربن مڈل کلاس کا ایک بڑا ہاتھ تھا۔ سی آئی اے اور فورڈ فاؤنڈیشن کی جانب سے پارٹی کو فنڈز فراہم کرنے کے الزامات بھی سامنے آئے جنہیں بعد ازاں فورڈ فاؤنڈیشن کے مقامی ذمہ داران نے تسلیم بھی کیا۔ امریکہ کے 20 مختلف شہروں میں بھارتی امریکیوں نے نہ صرف کرپشن کے خلاف اروند کیجریوال کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کنونشن منعقد کیے بلکہ بڑے پیمانے پر فنڈز بھی فراہم کیے۔ اسی طرح کرپشن کے خلاف کام کرنے والے اروند کیجریوال نے کرپشن کے خلاف اس جنگ میں ماضی کے کرپٹ سیاسی رہنماؤں کو بھی اپنے ساتھ ملانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ سابق وزیر قانون شانتی بھون نے پارٹی کے قیام کے وقت ایک کروڑ روپے سے زائد کا چندہ فراہم کیا جس کے بدلے میں اس کے بیٹے کو نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی کا رکن بنایا گیا۔
اقتدار میں آنے کیلئے اور اس کے بعد سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے جھوٹ کو اس تواتر سے پھیلایا گیا کہ کوئی کام نہ کر کے بھی اروند کیجریوال کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آنے دی گئی۔ نئے سکولوں کی تعمیر کے نام پر پرانے سکولوں میں ہی کلاس رومز نئے بنانے اور پرانے سکولوں کی تزئین و آرائش کے نام پر کروڑوں روپے کی کرپشن کے الزامات کو وہیں دبا دیا گیا۔ سکولوں میں داخلوں میں اضافے کی بجائے کیجریوال کے دور حکومت میں کمی دیکھنے میں آئی اور الٹا سرکاری سکولوں میں دن کا کھانا فراہم کرنے کا سلسلہ بھی بند کر دیا گیا۔
دوسری طرف کورونا وبا کے دوران معاشی مسائل سے دو چار شہریوں کی نجی سکولوں کی فیسیں ادا کرنے سے معذوری کے بعد بچوں کو سرکاری سکولوں میں منتقل کرنے کی مجبوری کو اپنی کامیابی بنا کر پیش کیا گیا۔ بجلی 200 یونٹ تک مفت فراہم کرنے کے دعوے کی قلعی شہری اپنے بلات سوشل میڈیا پر شیئر کر کے کھول رہے ہیں۔ تاہم اروند کیجریوال اور عام آدمی پارٹی اس کو بی جے پی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کا پروپیگنڈا قرار دینے پر مصر ہے۔
اسی طرح میڈیا رپورٹوں کے مطابق ایک ہزار نئی ٹرانسپورٹ بسیں لانے کی بجائے پہلے سے موجود بسیں بھی نصف سے کم رہ گئی ہیں۔ البتہ دیش بھگتی کے نام پر بھاری بجٹ مختص کر کے اپنی نااہلی کو باکمال کارکردگی میں تبدیل کرنے کا راستہ ضرور ہموار کیا گیا ہے۔ دیہی کلینک، پولی کلینک اور بڑے ہسپتال قائم کرنے کے اعلانات بھی اسی نوعیت کے ہی ثابت ہوئے ہیں۔ کرپشن کے الزامات کی بھرمار کے باوجود کیجریوال بضد ہے کہ اس نے کرپشن کا مکمل خاتمہ کرنے سے اتنی بڑی بچت کی ہے کہ تمام تر وعدے پورے کر دیئے ہیں۔ اب اسی طرح کے دعوے اور اعلانات پنجاب میں بھی کیے گئے ہیں۔ اسی ڈھٹائی کے ساتھ وہاں بھی جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہے ہیں۔
بظاہر تو اروند کیجریوال اور نریندر مودی ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں تاہم اپنے فسطائی عزائم، جمہوری اور سیاسی آزادیوں کا گلا گھونٹنے کیلئے قومی شاؤنزم کے استعمال سمیت ہندوتوا کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ایک غیر اعلانیہ اتحادی کے طور پر بھی کام کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ کے خلاف بغاوت اور غداری کے مقدمات قائم کرنے کا سلسلہ ہو، جمہوری آوازوں کو ریاستی جبر کے ذریعے کچلنے کا سلسلہ ہو یا سی اے اے جیسے کالے قانون کی منسوخی کیلئے جدوجہد کرنے والوں کو غدار اور ملک دشمن قرار دینے جیسا عمل ہو‘ اروند کیجریوال اور نریندر مودی نہ صرف ایک پیج پر نظر آتے ہیں بلکہ اس عمل کو اپنے اقتدار کو جاری رکھنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس تمام تر واردات کے اندر نہ صرف نیو لبرل پالیسیوں کا تیزی سے اطلاق جاری رکھا جا رہا ہے بلکہ سرمایہ داروں کی لوٹ مار کی راہ ہموار کرتے ہوئے محنت کش طبقے کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کی کوشش جاری ہے۔
حقیقی متبادل کے فقدان اور بائیں بازوں کی قیادتوں کی مسلسل غداریوں نے محنت کش طبقے کو اس قدر گھائل کیا ہے کہ محنت کش طبقے کی سرگرم سیاست میں مداخلت سے بد ظنی اور بیگانگی نے درمیانے طبقے کو حکمران طبقے کی سیاست کے سہولت کار کے طور پر سامنے لایا ہے۔ سوشل میڈیائی پروپیگنڈے اور حکمرانوں کے مسلسل جھوٹ اور دروغ گوئی کے نتیجے میں محنت کش طبقے کی پسماندہ پرتیں بھی اس فسطائیت سے متاثر ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کے ذریعے سے بھی سماج کو تقسیم کرنے کے عمل میں محنت کش طبقے کی پسماندہ پرتوں کا ہر اؤل کردار بن جاتا ہے۔ جس کا حکمران طبقات اپنے مفادات اور مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
محنت کش طبقے کی ہر اول پرتوں نے بھارت میں بار ہا اپنا سیاسی اظہار کیا ہے۔ قیادتوں کی غداریوں نے انہیں وقتی طور پر پسپا ضرور کیا ہے لیکن ایسا ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے۔ کسانوں کی تحریک کی کامیابی سمیت سالانہ کروڑوں محنت کشوں کی ہڑتالوں میں متحرک ہونے کی روایت محنت کشوں کی ہر اول پرتوں کو تجربات سے سیکھنے پر مجبور کر رہی ہے۔ بھارتی محنت کشوں کو درست نظریات کو اپنانے اور قیادت کی تیاری کے فریضے کو خود ہی انجام دینا ہو گا۔ قیادت کی مسلسل غداریوں اور موقع پرستی سے یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ اس نظام کے خاتمے اور اپنے مقدر تبدیل کرنے کیلئے محنت کش طبقے کو اپنی قیادت اپنے ہاتھوں میں لینا ناگزیر ہے۔ بھارت میں محنت کش طبقے کا تحرک اس خطے میں ایک نئے عہد کے آغاز کا باعث بنے گا۔