ذیشان شہزاد

سال 2010ء میں بھارتی اداکار عامر خان اور کرن راؤ کی مشترکہ پروڈکشن کے تحت بنائی جانے والی فلم ’پیپلی لائیو‘ میں فلمایا گیا یہ گانا ”سکھی سیاّں تو خوب ہی کمات ہیں، مہنگائی ڈائن کھائے جات ہے“ آج ایک گانے سے زیادہ برصغیر کے مزدوروں، کسانوں اور دہقانوں کے دل کی آواز ہے۔ اس فلم کا مرکزی کردار (جو خود تین بچوں کا باپ ہے) اپنے کنوارے بھائی کے ساتھ مل کر اپنی بوڑھی ماں کے جدید اور مہنگے انگریزی علاج کی خاطر اپنی معمولی زمین گروی رکھوا کر بینک سے قرض کے پیسے تو لے لیتا ہے مگر قرضے کی قسط کی سود سمیت ادائیگی نہ کر سکنے کی صورت میں بینک اس کی زمین کی نیلامی کا اعلان کرتا ہے۔ زمین بچانے کی خاطر وہ اپنے علاقے کے بڑے زمیندار سے رقم کا تقاضا کرتا ہے جہاں سے اس رقم کی بجائے خودکشی کرنے کا مفت مشورہ ملتا ہے۔ جس کے بعد اس کے ورثا کو ’حکومتی امداد‘ کی صورت میں اچھی خاصی رقم ملنے کا بھی اشارہ ملتا ہے۔ یہ سوچ کر کہ زمین بھی بچ جائے اور ورثا کی زندگی کی سانسیں بھی رواں دواں رہیں‘ کنوارہ بھائی اپنے شادی شدہ بھائی کو خودکشی کرنے پر اِس منافقت بھرے انداز سے قائل کرتا ہے کہ تین بچوں کا باپ خودکشی کرنے کے لیے راضی بھی ہو جائے اور کنوارے بھائی کی منافقت کا پردہ بھی چاک نہ ہونے پائے۔ اگلے ہی دن دونوں بھائی نشے کی حالت میں اپنا یہ ’خفیہ منصوبہ‘ ایک چائے والے کے ٹھیلے پر اُگل دیتے ہیں جہاں سے یہ ایک خبر کی صورت میں مقامی اخبار کی زینت بنتا ہے اور پھر اس کی بازگشت نیشنل میڈیا میں سنائی دیتی ہے۔ خبر نشر ہونے کے بعد خودکشی سے روکنے کے لیے سرکار اُن کو ایک ہینڈ پمپ مفت عنایت کرتی ہے جس کو لگوا کر وہ استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ ہینڈ پمپ لگوانے کے پیسے تو سرکار نے دیئے ہی نہیں۔ ’آزاد‘ میڈیا اس مرکزی کردار کی ہر ہر حرکت کو بریکنگ نیوز بنا کر پیش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کی طرف سے کیے گئے بول و براز کے رنگ تک کو بھی کسی طرح چمتکاری ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انڈین ریاست مدھیا پردیش کے کسی دور دراز گاؤں میں عکس بند کی گئی یہ فلم خصوصاً ترقی پذیر ملکوں کی محنت کش آبادی کی حالت زار کو بھرپور انداز سے بیان کرتی ہے۔

قرضوں میں جکڑے مزدوروں اور کسانوں کی اکثریتی آبادی کو جس ڈائن کا سامنا ہے وہ ’مہنگائی‘ کے نام سے جانی جاتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ڈائن صرف محنت کشوں کا خون ہی کیوں چوستی ہے؟ ایک عالمگیر طبقاتی نظام میں مہنگائی کو بھی طبقاتی نقطہ نظر سے سمجھنے، پرکھنے اور اُس کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمگیر سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ایک فیصد طبقہ ایسا ہے جو ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت رکھتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی دولت بھی ان کے ذاتی تصرف میں ہوتی ہے جس کی بدولت ہمہ قسم پرتعیش اخراجات کے لیے اُن کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اُن کے سامانِ عیش و عشرت کے لیے دولت کی فراوانی ’مہنگائی‘ جیسے الفاظ اُن کی سماعتوں سے دور رکھتی ہے۔ اس طبقے کی آپسی گفتگو کا محور و مرکز ہی اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں کہ کیسے وسیع تر انسانوں کا استحصال کر کے ذاتی دولت میں اضافہ کرنا ہے یا یہ کہ کون سے نئے ماڈل کی گاڑیاں خریدنی ہیں یا کون سے اعلیٰ پائے کے تعلیمی اداروں میں بچوں کو بھیجنا ہے یا کون سے ایسے علاج کے مراکز ہیں جو اس طبقے کے شایانِ شان ہیں یا اِن کی خواتین کے لیے کون سے برانڈ سے ملبوسات اور زیورات کی خریداری کی جائے جس سے اپنے طبقے میں اُنہیں کسی قسم کی سُبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پرتعیش اشیا کا استعمال جہاں بالا دست طبقات کو یک گونہ تسکین فراہم کرتا ہے وہیں محنت کشوں کی وسیع اکثریت کی ان سے محرومی بالادست طبقات میں محنت کشوں کے خلاف نفرت اور حقارت کے جذبات کو بھی تقویت دیتی ہے۔ حالانکہ یہ تمام اشیا محنت کشوں کی محنت کے بلبوتے پر ہی بالا دست طبقات کے لیے قابل استعمال بنتی ہیں۔

نجی ملکیت اور سرمائے کے تسلط میں اکثریتی محنت کش طبقات کے لیے مہنگائی کے معنی اور اثرات یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ وہ تمام تر اشیائے ضروریات کے تخلیقی عمل کا کلیدی حصہ ہونے کے باوجود روز مرہ استعمال کی اہم اور ضروری اشیائے خوردونوش بھی خریدنے سے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ اُجرتی غلامی کے نظام میں اُن کو صرف اتنی ہی اجرتیں ملتی ہیں جس سے اس طبقے کی صرف سانسیں بحال رہ سکیں۔ سانسیں تو بحال رہ جاتی ہیں مگر روز روز کی کسمپرسی کی حالت اُن کو ایک ایسی کیفیت میں دھکیل دیتی ہے جہاں ضروریاتِ زندگی سے محرومی اُن کو ذہنی اور نفسیاتی کچوکے لگاتی ہے۔

ذاتی گھر اور اُس کی پرتعیش آرائش کے خیال کی بجائے محنت کش اسی سوچ میں غرق رہتے ہیں کہ مکان کا کرایہ دینے کے بعد دیگر ضروریات کو محدود کرنا ناگزیر ہے۔ اس کے بعد گھر کا کچن چلانے کے معاملات محنت کشوں کو ہمہ وقت ذہنی اذیت میں مبتلا رکھتے ہیں۔ خوراک سے مراد کوئی اعلیٰ قسم کے پکوان اور کھابے ان محنت کش طبقات کا مقدر نہیں بنتے بلکہ دو وقت کی روٹی روکھی سوکھی کھانے کو ہی اکثریتی محنت کش طبقہ خوراک سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے جس سے وہ کوئی لمبی اور صحت مند زندگی نہیں گزار پاتے۔ الٹا محنت کشوں کی نسلیں نامکمل نشوونما کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ بالادست طبقات کی طرح عالمی اجارہ داریوں کا صاف شفاف پانی پینے کے برعکس غلیظ اور زہریلا پانی پینے پر مجبور محنت کش طبقات بے تحاشہ بیماریوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں اور اِن بیماریوں سے شفایابی کے لیے جو علاج اُن کو درکار ہوتا ہے وہ اُن کی آمدن کی نسبت بہت مہنگا ہونے کے سبب ناقابل حصول رہتا ہے۔ قابل علاج بیماریوں سے مر جانے کو محنت کش طبقے کا مقدر گرداننا سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کے حامی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ تن ڈھانپنے کی بات آئے تو محنت کش طبقات صرف عید تہوار پر کوئی ڈھنگ کے کپڑے خریدنے کی بابت سوچتے ہیں ورنہ اُترن اور لنڈے کے کپڑوں سے گزارا کرتے ہیں۔ محنت کشوں کے لیے صحت اور علاج کی کمیابی، خوراک کی مہنگائی اور کام کی جگہوں پر مسلسل ذہنی تناؤ اور جبر کی کیفیت میں بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا تو کُجا سرکاری سکولوں میں تعلیم کا حصول بھی ان کی کثیر تعداد کو دیوانے کا خواب لگتا ہے۔ اُن کے نزدیک بچوں کو تعلیم دلوانا پیسے کا ضیاع ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بچوں کو بھی چائلڈ لیبر کی بھٹی میں جھونک کر ہی کُل خاندان کا گزارا ہر دن کے حساب سے ممکن ہو سکتا ہے۔ چائلڈ لیبر میں جسمانی اور جنسی استحصال کی بے تحاشہ خوفناک وارداتیں بھی اس کو ختم نہیں کر سکتیں کیونکہ زندگی کی تلخیاں غریب محنت کش خاندانوں کو حادثات پر تڑپنے کے لیے وقت کی فراہمی جیسی عیاشی بھی دینے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح ذرائع نقل و حمل کی تفریق بھی طبقاتی نظام کی تفریق کی طرح بے حد وسیع ہے۔ بالادست طبقات ذاتی جہاز سے لے کر ہر قسم کی سفری عیاشی کے متحمل ہو سکتے ہیں جبکہ محنت کش طبقات گھر سے کام کی جگہوں تک جانے کے لیے بھی جن ذرائع نقل و حمل اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں وہ کسی عذابِ الٰہی سے کم نہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ایسا سفر ذہنی اور جسمانی استعداد کو زنگ لگا دیتا ہے۔ اس کیفیت میں سڑکوں پر ہونے والے ٹریفک حادثات جہاں قیمتی انسانی زندگیوں کے ضیاع کا باعث بنتے ہیں وہیں باقی ماندہ افراد کو بھی ساری عمر کے لیے قدم قدم پر یادداشتوں کے زہر میں بجھے تیر سے زخمی کرتے رہتے ہیں۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی بات کی جائے تو اس سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے سب سے سنجیدہ جریدے دی اکانومسٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2018ء سے اکتوبر 2021ء تک کے تین سالہ تبدیلی والی پارٹی کے دور حکومت میں ستر سال کی نسبت مہنگائی میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ آئی ایم ایف سے ہونے والے چھ ارب ڈالر کے قرضوں کے حصول کے لیے کیے گئے مذاکرات کے بعد ان کی سخت ترین شرائط کے دباؤ کے تحت مہنگائی کی تازہ لہر نے محنت کشوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے اور ان کی پہلے سے تباہ کن معاشی صورت حال میں مزید گھمبیرتا پیدا کر دی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں ہر سلیب کی بنیادی قیمت میں اوسطاً ایک روپیہ فی یونٹ مزید اضافہ کر دیا گیا ہے اور بجلی کے بلوں میں ایف پی اے کی مد میں 4.75 روپے یونٹ کا حالیہ اضافہ تاریخ کی اس مد میں سب سے بڑی وصولی ہے جو محنت کشوں پر ایٹم بم بن کی گری ہے۔ گھی اور چینی کی قیمتیں دو سال پہلے کی نسبت دو گنا ہو چکی ہیں۔ ڈالر اور پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ دوائیوں کی قیمتوں میں پانچ سو فیصد تک کا اضافہ محنت کشوں کو غیر سائنسی علاج کروانے اور سسک سسک کر مرنے پر مجبور کر رہا ہے۔

نجات کا راستہ

جہاں نسل انسانی کی اکثریت ایسے حالات زندگی میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جینے پر مجبور ہو وہاں حکمران طبقے کی اولادوں کی شادیوں پر ہونے والے بے تحاشہ اخراجا ت، بے ہودہ نمائش اور اس نمائش پر مخالف حکمرانوں کی جانب سے کی جانے والی بے ہودہ تنقید‘ محنت کشوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ستر سالہ تاریخ کے چور اور لٹیرے حکمران ہوں یا تبدیلی والی پارٹی کے ’صادق و امین‘ حکمران‘ تمام سرمایہ دارانہ نظام کے ہی پیروکار ہیں جس کی متروکیت ان حکمران طبقات کو عوام کا گلا مزید گھونٹنے پر مجبور کرتی رہتی ہے۔ اس لئے مسئلہ افراد یا شخصیات کی چوری یا کرپشن نہیں ہے بلکہ طبقاتی تفریق اور نجی ملکیت پر مبنی یہ نظام ہے جس میں ایک فیصد بالادست طبقے کی زندگی کی عیاشیاں ننانوے فیصد محنت کش طبقے کے استحصال اور محرومی پر مبنی ہیں۔ اس جبر و استحصال میں مسلسل اضافہ ہی اس نظام کی اساس ہے۔ لیکن جیسا کہ عظیم مارکسی استاد ڈاکٹر لال خان نے کہا تھا کہ ”اس نظام نے محنت کشوں کا خون نچوڑ نچوڑ کر انہیں پتھر بنا دیا ہے اور پتھروں سے مزید خون نہیں نچوڑا جا سکتا۔ پتھر صرف برس سکتے ہیں۔“

اس اذیت بھری زندگی سے نجات کے حصول کے لیے اسی نظام میں رہتے ہوئے حکمران تبدیل کرنے کی بجائے حالات سرمایہ دارانہ نظام کی تبدیلی کے متقاضی ہیں۔ ایک ایسا نظام جس میں ذرائع پیداوار نجی ملکیت سے نکال کر مزدوروں کے جمہوری اور اشتراکی کنٹرول میں دے کر اشیائے ضروریات کی پیداوار کا مقصد نجی منافع کے حصول کی بجائے اجتماعی منصوبہ بندی کے تحت کثیر آبادی کی ضروریات کو پورا کرنا ہو۔ جو صرف سوشلسٹ انقلاب سے ہی ممکن ہے۔ اور جیسا کہ عظیم انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی نے کہا تھا:

ہم مٹا ڈالیں گے سرمایہ و محنت کا تضاد
یہ عقیدہ یہ ارادہ یہ قسم لے کے چلو!