راہول

گزشتہ تین ماہ میں نیوزی لینڈ اور سری لنکاسمیت دنیا کے مختلف علاقوں میں ہوئی دہشت گرد کاروائیوں کی بدولت بنیاد پرستی اور دہشت گردی ایک بار پھر بین الاقوامی میڈیا کی سرخیوں میںآئی ہے۔ دل دہلادینے والے ان واقعات میں چارسو سے زائد عام لوگ بیدردی سے د ہشت گردوں کی کاروائیوں کا نشانہ بنے۔ جہاں کرائسٹ چرچ میں ہوئے قتل عام میں عورتوں اور بچوں سمیت 49 افرادہلاک ہوئے وہیں سری لنکا میں ایسٹر کے تہوار پر ہوئے خود کش دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 359 تک جا پہنچی ہے۔ جبکہ ایک بہت بڑی تعدادایسے لوگوں کی ہے جواب تک اپنے زخموں کی تاب نہ لاسکنے کی وجہ سے بستر مرگ پر پڑے ہیں اور ان کی صحت کے بارے میں کچھ کہنا فی الحال ممکن نہیں۔ کرائسٹ چرچ میں دو مساجد اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ سری لنکا میں جاں بحق ہونے والے تمام افراد کا تعلق مسیحی برادری سے تھا جو ایسٹر کی خوشیاںبانٹنے اور عبادت کے لئے گرجا گھروں میں اکھٹے ہوئے تھے۔

جہاں نیوزی لینڈ میں ہوئی واردات میں ایک عیسائی دہشت گرد ملوث تھا وہیں سری لنکا میں اُس کے مبینہ جوابی حملے کی ذمہ داری عالمی دہشت گرد تنظیم ’داعش ‘ نے قبول کی ہے۔ گرجا گھروں میں ہوئے یہ سات مختلف خود کش حملے نو افراد کے ذریعے سرانجام دیئے گئے جو تمام کے تمام ایک مقامی اسلامی بنیاد پرست تنظیم سے وابستہ تھے۔خودکش دھماکے کرنے والوں میں ایک ہی مسلمان خاندان کے تین افراد بھی شامل تھے۔ ان میں سے دو بھائی اسماتھ ابراہیم اور الحام ابراہیم ایک امیر باپ کے بیٹے تھے۔ ان کا والد ابراہیم کولمبو کے نواح میں ایک پوش علاقے میں رہائش پذیر تھا اوراطلاعات کے مطابق جب اس کے گھر چھاپہ مارا گیا تو خودکش دھماکہ کرنے والے ایک فرد کی بیوی نے تین پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد خود کو بھی دھماکے سے اڑادیا۔ کہا جا رہاہے کہ امریکہ میں نائن الیون کے واقعات کے بعد سری لنکا میں ہوئے یہ دھماکے کسی ایک دہشت گردکاروائی میں ہوئی ہلاکتوں کے اعتبار سے اب تک کا سب سے خونریز واقعہ ہے۔

سری لنکا میں ہوئی اس خونریز دہشت گردی نے وہاں قلیل تعدادمیں موجود غریب مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں جنہیں تحقیقات کے نام پر ذلیل ورسواکیا جارہا ہے۔ البتہ اس واقعے نے کئی نئے سوالات کو بھی جنم ضرور دیا ہے۔ ملوث افراد کا تعلق کھاتے پیتے خاندانوں سے بتایا جا ر ہا ہے۔ اسی طرح امریکہ کے کلبوں میں ہوئی کاروائیاں ہوں یا بنگلہ دیش میں ہوئی دہشت گردی‘ کئی واقعات میں ملوث دہشت گردوں کا تعلق کسی پڑھے لکھے گھرانے یا درمیانے طبقے سے ہوتا ہے۔

ان واقعات سے قبل بھی بیشتر جہادیوں کاتعلق ترقی یافتہ ممالک سے رہا ہے اور خاص طور پر یورپ میں اب یہ ایک خاص رجحان کے طور پر نمودار ہو رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے ہی مغربی صحافیوں کو ذبح کرنا اور ان کی وڈیو بناکر نشر کرنے جیسے واقعات ان کی خاص پہچان رہے ہیں۔ یہ دہشت گرد اپنی مختلف کاروائیوں اور اپنی درندگی کی وجہ سے دیگر جہادیوں میں بھی مقبول ہیں اور ان کے لئے کشش کا باعث بنتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے شہری یا ایسے پڑھے لکھے نوجوان مذہبی جنونیت اور بربریت میں کیونکر ملوث ہو رہے ہیں؟ صرف معاشی پسماندگی یا غربت کو اس رجحان کے لئے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا جیسا کہ آجکل کی کاروائیوں سے ثابت بھی ہورہا ہے۔ 2008ءمیں برطانوی جریدے ’گارڈین‘ کے ہاتھ لگنے والی ’MI5‘ (برطانیہ کی خفیہ ایجنسی) کی رپورٹ میں حیران کن انکشافات کئے گئے تھے۔ رپورٹ میں درج تھا کہ ” ایسے تمام نوجوان صرف مذہبی عقائد کی وجہ سے دہشت گرد گروہوں کا حصہ نہیں بنتے۔ ان میں سے سخت گیر عقائد رکھنے والے مسلمان بہت کم ہیں اور نہ ہی ان کا تعلق زیادہ مذہبی گھرانوں سے ہے۔ جہاد کے لئے جانے والے زیادہ تر نوجوان نہ پکے نمازی تھے نہ ہی ان کا مسجد میں زیادہ آنا جانا تھا بلکہ ان کی اکثریت صرف ’تھرل‘ یا زندگی کے مقصد کی تلاش میں ان سرگرمیوں میں ملوث ہوئی۔ ان جہادیوں اور دوسری غیر مذہبی انتہا پسند جماعتوں کے کارکنان میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ ان کے لئے جہاد مہم جوئی کے ایک ذریعے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔“

القاعدہ کے زوال کے بعد داعش ایک ایسی دہشت گرد تنظیم کے طور پر نمودار ہوئی ہے جس میں ایسے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہے جو محض غربت یا پسماندگی کی وجہ سے ان کا حصہ نہیں بنے بلکہ ان کی اکثر کاروائیوں میں ملوث افراد برطانوی انگریزی بولتے ہیں یا یورپ کے مختلف ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس مظہر کی معاشی، سماجی اور ثقافتی بنیادوں کو جانچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے عمومی زوال خصوصاً 2008ءکے معاشی بحران کے بعد سے نہ صرف مغربی سماجوں میں معاشی محرومی اور مشکلات بڑھی ہیں بلکہ سماجی بیگانگی بھی ناگزیر طور پر شدت اختیار کر گئی ہے۔ مغربی حکمران تیسری دنیا کے تارکین وطن کو ”انسانی ہمدردی“ کے جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے ممالک میں نہیں بلاتے بلکہ ان مہاجرین کی سستی لیبر کے ذریعے بلند شرح منافع حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔

تارکین وطن کی کم اجرتوں کے ذریعے مغرب کے مقامی محنت کشوں پر بھی دبا¶ ڈالا جاتا ہے کہ وہ کم مراعات اور اجرت پر کام کریں۔ مقابلہ بازی کی اس واردات سے محنت کشوں میں نسل، قوم اور مذہب کی بنیاد پر منافرت پیدا کی جاتی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے دائیں بازو کی نیو فاشسٹ قوتیں اپنی سیاست چمکاتی ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی بجائے غیر ملکی محنت کشوں کو تمام تر بیروزگاری اور معاشی بحران کی وجہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسے میں تمام مذاہب و فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو یہ لگتاہے کہ ان کے مسائل کی اصل وجہ دوسرے مذاہب کے لوگ ہیں۔

جہاں سستی لیبر دینے والے تارکین وطن دوہرے استحصال کی وجہ سے شدید محرومی کا شکار ہوتے ہیں وہیں مقامی نوجوان بیگانگی میں غرق ہوتے ہوئے انہیں اپنا دشمن سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کیفیت سے تنگ نظری، نفرت اور نفسیاتی پراگندگی کی وہ کیفیت جنم لیتی ہے جو انہیں بنیاد پرست مذہبی پیشواوں کا اندھا پیروکار بنا دیتی ہے۔ یہ ملا اور پیر فقیر نہ صرف دہشت گردی اور فرقہ وارانہ مقاصد کے لئے ”چندہ“ بٹورتے ہیں بلکہ اپنے مریدوں کی سوچ اور روح کو بھی غریب کر کے رکھ دیتے ہیں۔ مذہب کے اس کاروبار کو چمکانے کے لئے نفرت اور جنون کی آگ میں مزید تیل انڈیلا جاتا ہے۔

انہی کیفیات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکمران طبقات اپنی نفرت انگیز سیاست کو چمکانے کے لئے ایک قلیل تعداد میں پروان چڑھے ان مذہبی رجحانات کو سماج کے عمومی رجحانات قرار دینا شروع کردیتے ہیں اور پورے کے پورے معاشرے کو ایک حقارت آمیز رویے اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اگرمذاہب کے سماج میں کردارکا تاریخی جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مذاہب کا عروج و زوال اور ان کا انسانی سماج میں مختلف طبقات کے ہاتھوں میں ایک قوت کے طور پر موجود ہونا صرف ایک مظہر تھا جس کی حقیقت اس وقت کے سماج میں موجود ملکیت کے رشتے اور طبقاتی کشمکش تھی۔غلام داری سے لے کر جاگیرداری کے عہد تک جو لوگ بھی ایک نظام سے دوسرے نظام کے لئے انقلاب برپا کر رہے تھے وہ اپنے خیالات اور نظریات کا اظہار اس زمانے اور وقت کی حدود و قیود میں رہ کر ہی کرسکتے تھے۔ مذہب کے تاریخی کردار پر کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ میں لکھتے ہیں”کیا یہ سمجھنے کے لئے غیر معمولی بصیرت کی ضرورت ہے کہ آدمی کی مادی زندگی کی حالتوں ، اس کے سماجی رشتوں اور اس کی سماجی زندگی میں جب کبھی تبدیلی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ آدمی کے خیالات ، تصورات اور نظریے ، مختصر یہ کہ آدمی کا شعور بدل جاتا ہے؟ خیالات کی تاریخ نے اس کے سوا اور ثابت ہی کیا کیا ہے کہ جس نسبت سے مادی پیداوار کی نوعیت بدلتی ہے اسی نسبت سے ذہنی نشوونما کی نوعیت بھی بدلتی ہے۔ ہر عہد میں فرماں روائی انہی خیالات کی رہی ہے جو فرماں روا طبقے کے خیالات تھے… پرانے حالات زندگی کے ساتھ ہرقدم پر پرانے خیالات بھی مٹتے جاتے ہیں۔ قدیم دنیا جب آخری ہچکیاں لے رہی تھی اس وقت قدیم مذہبوں پر عیسائیت نے غلبہ پالیااور اٹھارویں صدی میں جب عقلی خیالات کے سامنے عیسائی خیالات نے ہتھیار ڈال دیے اس وقت جاگیردارانہ سماج اپنے زمانے کے انقلابی بورژوا طبقے سے زندگی کی بازی ہار چکا تھا۔ مذہبی آزادی اور ضمیر کی آزادی کے یہ خیالات صرف یہ ظاہر کررہے تھے کہ علم کی دنیا میں آزاد مقابلے کاراج قائم ہوچکا ہے۔“

جہادی ملاں اور مذہبی ٹھیکیداروں کے ساتھ ساتھ سامراجی حکمران اور ان کا نظام بھی اس بربریت کے ذمہ دار ہیں۔ منڈیوں اور وسائل پر تسلط کے لئے ایک کے بعد دوسرے ملک کو تاراج کرنے والا سامراج دانستہ طور پر مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرت کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اسلامی بنیاد پرستی کی سیاسی اور عسکری قوتوں کو سامراجیوں نے ہی سرد جنگ کے دوران پیدا کیا اور پروان چڑھایا تھا۔ داعش آخری تجزئیے میں امریکہ اور اس کے خلیجی اتحادیوں کی ہی پیداوار ہے جو اب اپنے آقا¶ں کے قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ پہلے اسلحے، ٹریننگ اور مالی امداد کے ذریعے شام میں جہادی تیار کئے گئے۔ انہی جہادیوں میں سے داعش برآمد ہوئی جو عراق میں سرائیت کر کے مختلف علاقوں پر قابض ہوتی چلی گئی اور بھاگنے والی عراقی فوج کے چھوڑے ہوئے جدید امریکی اسلحے سے مزید مضبوط ہوئی۔ جس کے بعد امریکہ نے اپنے ہی تیار کر دہ جہادیوں کے زیر استعمال اپنا ہی اسلحہ تباہ کرنے کے لئے اربوں ڈالر کا مزید اسلحہ چلایا اور ان خطوں میں بسنے والی غریب عوام کی پوری کی پوری نسلوں کو برباد کردیا۔

کچھ ماہ قبل تک امریکی سامراج کی جانب سے جس داعش کے خلاف اپنی ”فتح “کا اعلان کردیا گیا تھا وہ اب حالیہ کاروائیوں کے ذریعے ہندوستان و دیگر ریاستوں میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا اشارہ دے رہی ہے۔ دراصل مذہبی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے اس کاروبار سے حاصل ہونے والے سرمائے کا حجم اتنا زیادہ ہے کہ اسے دیکھ کر بظاہر خود کو ”پرامن و امن پسند “ کہلوانے والی ریاستوں کے بھی منہ میں پانی آجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ مال کی بندربانٹ پر تو جھگڑا ہوسکتا ہے مگر یہ قوتیں کبھی اس کھلواڑ کو ختم نہیں کرنا چاہیں گی۔ خاص طور پر امریکی سامراج کا اس کھلواڑ کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں گزشتہ نصف صدی سے ایک کلیدی کردار رہا ہے۔ درحقیقت سامراج اور اسلامی بنیاد پرستوں کے تعلقات جتنے بھی کشیدہ رہے ہوں، کبھی منقطع نہ ہوئے ہیں نہ ہی ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ دونوں رجعتی قوتیں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

محنت کش عوام کی تحریک کو توڑنے کے لئے رنگ، نسل، قوم اور خصوصاً مذہب کے تعصبات کا استعمال حکمرانوں کا پرانا وطیرہ رہاہے۔ حالیہ دہشت گرد کاروائیوں جیسے واقعات کا فوری فائدہ سامراجی ریاستوں کو ہی ہوتا ہے۔ ایک طرف مذہبی منافرت کو ہوا ملتی ہے جس سے محنت کشوں کی یکجہتی پر ضرب لگتی ہے تو دوسری طرف ان ریاستوں کو بیرونی جنگوں اور داخلی جبر کے جواز میسر آتے ہیں۔ جنہیں وہ اپنے ممالک کے عوام کو خوفزدہ کرنے اور حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے خوب استعمال کرسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس نظام کو اکھاڑے بغیر ان مسائل سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس خونریزی کی جڑیں لوگوں کے مذہبی جذبات سے نہیں بلکہ کالے دھن کی معاشیات سے جڑی ہیں اور دیگر کارپوریٹ سیکٹر کی طرح مذہبی دہشت گردی بھی ایک منافع بخش کاروبار بن چکی ہے۔

آج پوری دنیا میں بسنے والے اربوں غریب انسانوں کو مالی مفادات کے لئے جاری سامراجی ریاستوں کے اس خونی کھلواڑ کو نہ صرف سمجھنا ہوگابلکہ اس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔ محنت کش طبقے میں پایا جانے والا یہ غم و غصہ آنے والے عرصے میں ناگزیر طور پر سامراج اور اس کے نظام کے خلاف بغاوت کا ایندھن بنتے ہوئے اسے اکھاڑ پھینکے گا اور انقلابی سوشلزم کی بنیاد رکھے گا۔

1905 ءمیں لکھی اپنی ایک تحریر ’سوشلزم اور مذہب‘ میں انقلاب روس کے قائد لینن نے لکھا تھا کہ”ہم ہر قیمت پر پرولتاریہ کی یکجہتی کی وکالت اور دنیا کی سائنسی توجیہہ پیش کرتے ہوئے سکون ، استقلال اور صبر سے حکمرانوں کی مذہبی منافرت کو فروغ دینے کی حکمت عملی کی مخالفت کریں گے۔ ہماری تبلیغ ایسی ہے جو دوسرے درجے کے اختلافات کو ابھارنے جیسی نہیں ہوگی۔ جہاں تک ریاست کا تعلق ہے تو انقلابی پرولتاریہ مذہب کو ایک نجی معاملہ بنانے میں کامیاب ہوگا۔ اوراس سیاسی نظام، جس پر قرون وسطیٰ کی کائی نہیں ہوگی، کے ذریعے معاشی غلامی کے خاتمے کی وسیع اور کھلی جدوجہد کرے گا۔“