کراچی (آر ایس ایف) مورخہ 28 نومبر 2021ء کو کراچی ارتقا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز میں ایک روزہ مارکسی اسکول کا انعقاد کیا گیا۔ سکول مجموعی طور پر دو سیشنوں پر مشتمل تھا۔ سکول کی اوپنگ ڈاکٹر حسیب نے کی، جس میں انہوں نے لا کالج میمن گوٹھ، کراچی یونیورسٹی، لیاری یونیورسٹی، مرشد میڈیکل کالج اور وفاقی اردو یونیورسٹی سے آئے ہوئے طلبہ اور دیگر شرکا کو ویلکم کیا۔

پہلے سیشن کو چیئر میر مرتضیٰ نے کیا۔ سیشن کے آغاز میں عامر کریم اور دانش چانڈیو نے انقلابی شاعری پڑھ کر سنائی۔ شاعری کے بعد ’عالمی و ملکی تناظر‘ پر فیاض چانڈیو نے لیڈ آف دی۔ فیاض نے عالمی و ملکی سیاسی، سماجی و معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ، چین، انڈیا، افغانستان اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کی معیشت، سماج اور سیاسی معاملات پہ سیر حاصل بحث کی اور سرمایہ دارانہ نظام کی تمام تر خباثتوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نظام نے اور اس کے حواریوں نے اپنے منافعوں کے چکر میں اس کرۂ ارض کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے جس کی ایک مثال موجودہ موسمی تبدیلیوں اور ماحولیاتی تباہی کی صورت میں سب کے سامنے ہے کہ کس طرح گرمی کی شدت، طوفانوں اور بارشوں میں اضافہ ہوا۔ ایسے خطوں میں جہاں کبھی درجہ حرارت میں اتنا اضافہ نہیں ہوا تھا ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کو گرمی کی شدت کا سامنا کرنا پڑا۔ کامریڈ نے آخر میں کہا کہ اگر ہمیں ان تمام تر اذیتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو ہمیں ایک سوشلسٹ سماج کی تشکیل کے لیے جدوجہد کو تیز کرنا ہو گا۔ لیڈ آف کے بعد سوالات اور کنٹریبیوشنز ہوئے جس میں دانش زؤنر، رزاق بھگیو، فرحان، ڈاکٹر حسیب، ذکا، علی مرتضیٰ اور ماجد نے بحث میں حصہ لیا اور آخر میں فیاض نے سوالات کی روشنی میں بحث کا اختتام کیا۔

چائے کے وقفے کے بعد لیاری یونیورسٹی کے طالب علم افضل شر (انفارمیشن سیکرٹری آر ایس ایف کراچی) نے نوجوانوں اور طالب علموں کے مسائل اور طلبہ کی جدوجہد میں آر ایس ایف کے کردار کی اہمیت پر بات رکھی۔

اسی طرح سکول کے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا جس کو چیئر دانش زؤنر نے کیا اور عامر ساحل، یاسر جلبانی اور دانش چانڈیو نے انقلابی شاعری سے ماحول کو گرمایا۔ شاعری کے بعد حاتم نے ’ریاست اور انقلاب‘ کے ایجنڈے پر لیڈ آف دیتے ہوئے کہا کہ اس دنیا میں جب سے انسانی سماج کا ارتقا ہوا تو اس میں قدیم اشتراکی سماج، غلام دارانہ سماج، جاگیردرانہ سماج رہے ہیں اور اس کے بعد موجودہ نظام سرمایہ دارانہ ہے۔ ان ادوار میں ریاست کی مختلف شکلیں رہی ہیں لیکن ان میں جو قدر مشترکہ رہی وہ ہے جبر و تشدد کیونکہ ریاست جبر کا ایک آلہ ہے اور اس جبر کے ذریعے حکمران طبقے نے یہاں کے عام لوگوں اور طبقاتی بنیادوں پر ابھرنے والی تحریکوں کو ہمیشہ دبائے رکھا۔ اس طرح انہوں نے کہا کہ ریاست کا وجود نہ تو ازل سے تھا اور نہ ہی ابد تک رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس ریاست کے مقابلے میں ہمیں ایک ایسی ریاست کی تشکیل دینی ہو گی جس پر صرف و صرف پرولتاریہ کی حاکمیت ہو گی اور ضرورت کے مطابق سب کو سہولیات دی جائیں گی۔ لیڈ آف کے بعد سوالات ہوئے اور کنٹریبیوشنز کا سلسلہ جاری ہوا جس میں عمر، مزمل اور جنت نے حصہ لیا۔ آخر میں حاتم نے سوالات کی روشنی میں سم اپ کیا اور انٹرنیشنل گا کر اسکول کا اختتام کیا گیا۔