شیراز مل

امریکی تاریخ کی سب سے طویل بیس سالہ سامراجی جنگ کے انت پر پچھلے سال فروری میں امریکہ طالبان نام نہاد امن معاہدہ، جسے امریکہ کا شکست نامہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا، وہ موڑ تھا کہ جس کی روشنی میں امریکہ کو نیٹو سمیت (ترکی کے استثنا کے ساتھ) افغانستان سے تقریباً ایک سال کے اندر اپنی فوجوں کے انخلا کو یقینی بنانا تھا۔ جو بائیڈن نے اس انخلا کی تاریخ کو 11 ستمبر 2021ء تک ملتوی کرکے امریکی شکست کی اضطرابی کیفیت کو چھپانے اور اسے 20 سال پرانے اذیت ناک واقعے کے ساتھ جذباتی طور پر جوڑنے کی کوشش کی۔ اب اس انخلا کے عمل کو تقریباً عملی بنایا جاچکاہے۔ امریکہ کی جانب سے افغانستان کے دفاعی اور تذویراتی نوعیت کے نہایت اہم مقام بگرام ہوائی اڈے کو اچانک خالی کردینے جیسے بزدلانہ قدم اور طالبان کی افغانستان کے مضافاتی علاقوں کوتیزی سے فتح کرنے کی خبروں کے تسلسل نے جنگ زدہ افغانستان پر ممکنہ خانہ جنگی اور بدترین بربریت کے گہرے سائے پھیلا دیئے ہیں۔ بیالیس سال سے سامراجی مداخلتوں اور جنگ کا شکار افغانستان ایک بار پھر ”گریٹ گیم“ کا مرکز بن کر شدید خطرات میں گھر چکا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے، امریکی شکست کے پیچھے کارفرماعوامل کا ادراک کرنے اور امریکہ کے فرار کے بعد کے افغانستان کے تناظر کی تشکیل کے لئے ماضی کو مختصراً پرکھنا ہوگا۔ دنیا اور خطے کے بدلتے ہوئے معاشی و سیاسی حالات کے تسلسل میں ہی افغانستان کے مستقبل کا پیش منظر تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ کبھی بھی موجودہ حالات کو مخصوص وقت میں محدود کر کے دیکھنا گمراہ کن ہوتا ہے۔

بیالیس سال پہلے 1979ء میں سوویت فوجوں کے دسمبر میں افغانستان میں داخلے سے چھ مہینے پیشتر امریکہ نے سی آئی اے کے خفیہ آپریشن ”سائیکلون“ کے تحت دہشت گردوں کے پاکستان میں تربیتی کیمپ کھولے۔ افغانستان میں گوریلا کاروائیوں اور اوٹ لے کر افغان ثور انقلاب کے خلاف قتل وغارت کا بازار گرم کرنا شروع کر دیا۔ امریکی سامراج نے سعودی، اسرائیلی، چینی، ایرانی اور پاکستانی حکمران ریاستوں کے ساتھ گٹھ جوڑ میں افغان سرزمین پر پراکسی کارروائیوں اور براہ راست سرگرمیوں کے ذریعے ایک تباہ کن جنگ کی خونی بساط بچھائی۔ امریکہ دراصل سوویت یونین کو انتقاماً ایک ویتنام دینے کے لئے سرخ فوج کے افغانستان میں داخل ہونے کا دام بچھا رہا تھا۔ سوویت یونین موضوعی مسائل، معروضی عوامل اور غلط رپورٹوں کی بنیاد پر افغانستان میں داخل ہوا۔ امریکہ نے نیٹو سمیت درجنوں دیگر ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان میں ڈالر، اسلحہ اور بربادی کا سامان اکھٹا کرنا شروع کیا۔ ڈالروں کے عوض رجعتی جنگجو تیار کیے گئے جنہیں اسلامی مذہبی اصطلاح میں مجاہدین کا چوغہ پہنایا گیا۔ پوری نام نہاد اسلامی دنیا خصوصاً مشرق وسطیٰ کے ملکوں سے بیشمار بنیاد پرست جنگجو ڈیورنڈ لائن کے آرپار جمع کیے گئے۔ سات ڈالرمجاہدین تنظیمیں تخلیق کرنے سمیت عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی بنیاد بھی رکھی گئی۔ امریکہ نے ایک ہزار سال بعد ”جہاد“ کی اصطلاح کو افغانستان میں ایک ترقی پسند انقلابی حکومت کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ بش خاندان کے کاروباری و خاندانی دوست بن لادن خاندان کے ایک جوان اسامہ بن لادن کو پرنس ترکی الفیصل سعودی انٹیلی جنس چیف کے ذریعے اس کا سربراہ بنا کر پشاور میں براجمان کیا گیا۔ ایمن الظواہری اور دیگر امیر عربوں کو ڈالر جہاد کا حصہ بنا کر امریکہ دراصل افغان جنگ کو معتبر، پرکشش اور مقدس بنانے کی ہر ممکن کوشش کررہا تھا۔ اس جنگ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے منشیات کے کاروبار سے کالا دھن تخلیق کیا گیا اور پھر یہاں افیون کو پراسیس کرکے اس سے ہیروئن بنائی گئی جس سے کالے دھن کو ناقابل یقین وسعت ملی جس کی سالانہ آمدن آج بھی اربوں ڈالروں میں ہے اور اس کالے دھن کے کاروبار پر آج تک سی آئی اے اور بنیاد پرست مذہبی جماعتوں کی اجارہ داری ہے۔ سماجی تبدیلی اور انقلابات کو روکنے کے مشترک نقطے کے بعد یہی کالا دھن ہی ہے جو سامراج اور بنیاد پرستی کو عوامی بغاوتوں کے خلاف ہمیشہ اکھٹے اور یکجا رکھتا ہے۔ منشیات ان کے لئے قتل و غارت اور بربادی کا سامان مہیا کرنے کے ساتھ ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے آکسیجن کا کردار ادا کرتی ہے۔اس سب کے ذریعے امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کرایک ایسی دلدل تخلیق کررہا تھا کہ جس میں بالآخر خود اس نے ہی اپنے تمام تر غرور اور رعونت کے ساتھ غرق ہونا تھا۔ اور یہ موقع بہت جلد سامنے آیا کہ جب اکتوبر 2001ء میں امریکہ اپنے پالتو اتحادی برطانیہ کے ساتھ اقوام متحدہ کو پاؤں تلے روندتے ہوئے افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ دوہزار چار سو ارب ڈالر یعنی پاکستانی معیشت کے تقریباً آٹھ گنا کے برابر رقم خرچ کرنے، تقریباً ڈھائی ہزار فوجی مروانے اور امریکی تاریخ کی سب سے لمبی جنگ لڑنے کے بعد شکست کا کلنک ماتھے پر سجائے امریکا افغانستان چھوڑ کر بھاگ رہا ہے۔ منظر کچھ ایسا ہے کہ کرہ ارض کی تاریخ میں دنیا کی سب سے بڑی عسکری، معاشی و اقتصادی طاقت رات کے اندھیرے میں نہایت خاموشی سے بگرام ہوائی اڈہ خالی کررہی تھی اور ہوائی اڈے کے افغان کمانڈر کو بھی بے خبر رکھ کرجب سامراج فرار کی اڑان بھررہا تھا تو یہ ایک عام سی شکست کا معمولی سا مظہر بالکل بھی نہیں تھا۔ نہ ہی یہ کسی جنگی حکمت عملی کا حصہ تھا بلکہ یہ خطے اور عالمی سطح پر سیاسی روش اور رجحان میں تبدیلی کے آغاز کا بہت ہی واضح اظہار تھا۔ اس اضطرابی و شکست خوردہ عمل کے افغان نیشنل آرمی اور فورسز کے مورال پر فوری طور پرمنفی اثرات پڑنے ناگزیر تھے جس کا نتیجہ طالبان کی جانب سے افغانستان کے کچھ غیر آباد مضافاتی اضلاع میں امریکہ کے پیدا کردہ خلا کو پر کرنے کی صورت میں نکلا۔ جنگ کے آخری ممکنہ نتائج کو آگے بحث میں لایا جائے گا۔

سامراجی ورلڈ آرڈر کی پسپائی

دیوار برلن کے خاتمے اور سوویت یونین کے زوال پذیر ہوکر ٹوٹ کربکھر جانے کے بعد سرمایہ داری بظاہر فتحیاب ہوکرواحد نظام کے طور پر سامنے آئی۔ دنیا متحارب نظریات اور متضاد معاشی و سماجی نظاموں کی جنگ سے نکل کر یک پولر آرڈر میں ڈھل گئی۔ فتح کے اس خمار سے سرشار فوکویاما کے الفاظ کہ ”تاریخ کا خاتمہ ہوگیا ہے“ اس وقت کے سرمایہ داروں، ان کے دانشوروں اور پوری سرمایہ دارانہ دنیا کی نفسیات کا نچوڑ تھے۔ امریکی سامراج کے 90ء کی دہائی میں مشرقی یورپ، افغانستان اور عراق سمیت دیگر کئی ممالک پر فضائی حملوں، سامراجی دھونس دھمکیوں، بربادیوں، کئی ممالک میں زمینی فوج اتارنے یا کرائے کے قاتلوں اور پراکسیوں کے ذریعے دنیا کو جہنم بنا دینے کے پیچھے نیولبرلزم کی اس وقت کی فتحیاب نفسیات کو نظر میں رکھنا ضروری ہے۔ لیکن آج امریکی صدر بائیڈن کا یہ اعتراف بھی مدنظر رہنا چاہئے کہ ”سپلائی سائیڈ اکانومی (رسد کی معیشت) ناکام ہوچکی ہے۔“ سوویت یونین کے بعد کی فتحیاب نفسیات کے تحت ہی امریکی سامراج کی سربراہی میں نیٹو ممالک بدمست ہاتھی کی طرح پوری دنیا کو روندتے رہے ہیں۔ افغانستان، عراق، شام، لیبیا، یمن سمیت پورے مشرق وسطیٰ کو برباد کر کے مکمل انتشاراور خانہ جنگی میں دھکیل کے داعش، النصرہ فرنٹ جیسی تنظیموں کے ذریعے ان تہذیبوں کے مرکزوں کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا گیا ہے۔ امریکی سامراج خود کو دنیا کا بلا شرکت غیرے مالک سمجھ بیٹھا تھا۔ سوویت روس اور اس سے الگ ہونے والی وسطی ایشیا کی ریاستوں کے زیر زمین معدنیات کے ذخائر کو لوٹنے اور ان کی مارکیٹوں تک اجناس کی رسائی کے لئے امریکی کمپنیوں کی رال ٹپک رہی تھی۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر 90ء کی دہائی میں پہلی ترجیح میں امریکی تیل و گیس کی بڑی کمپنی یونوکال کو ایک پراجیکٹ دیا گیا۔ یونوکال نے اس وقت کے سعودی شاہ عبداللہ کی کمپنی ڈیلٹا اور ترکمانستان کی ترکمن گیس پروم کے ساتھ کنسورشیم بناکر پراجیکٹ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پاکستان کے ذریعے طالبان کو افغانستان میں لانچ کیا۔ پراجیکٹ کے تحت ترکمانستان سے تیل اور گیس کی پائپ لائن ہرات اور قندھار سے ہوتے ہوئے جنوبی ایشیا اور آبنائے حرمز تک بچھائی جانی تھی۔ جس کے پہلو میں ریلوے لائن اور سڑک کا بھی منصوبہ تھا تاکہ پاکستان، بھارت اور عالمی منڈی میں تیل کی ضروریات پوری کی جاسکیں اور سڑک کے ذریعے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پیداوار کو ان وسط ایشیائی ریاستوں کی مارکیٹوں تک رسائی مل سکے۔ اس مقصد کے لئے امریکی ڈالروں اور سعودی ریالوں سمیت پاکستانی ریاست کے افغانستان میں اثر و رسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے طالبان کو کابل کے تخت تک پہنچایا گیا۔ لیکن متضاد مفادات کی حامل ریاستوں اور متحارب پراکسیوں کی خون آشام جنگ اور قتل عام کے نتیجے میں یہ پراجیکٹ مکمل ناکامی سے دوچار ہوا۔

لبرل قوم پرست اور افغان بایاں بازو

11 ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے واقعے کے ساتھ ہی امریکی صدر بش نے اپنی ہی تخلیق القاعدہ کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھہرا کر اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر جارحیت کا آغاز کیا۔ اس جارحیت اور قتل عام کو جوازدینے کے لئے افغانستان کی تعمیر نو، انسانی حقوق کی بحالی، بنیادپرستی کے خاتمے اور ملک میں لبرل ڈیموکریسی کو رائج کرنے کا شعار دیا گیا جبکہ اس شعار کے پیچھے امریکہ افغانستان کے نہایت قیمتی لیتھیم، یورینیم و دیگر معدنیات کی دولت کی لوٹ، افیون اور ہیروئن کی تجارت کے ذریعے سی آئی اے کے آپریشنوں اور ہائبرڈ جنگوں کے لئے سرمائے کی فراہمی اور تذویراتی طور پر چین اور ایران کے خلاف خطے میں اپنی موجودگی چاہتا تھا۔ پاکستان اور افغانستان کے لبرل قوم پرست امریکی دعووں پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے تقلید میں ہر سامراجی قدم کو سراہتے رہے۔ ان لبرلوں کو حد درجہ یقین تھا کہ سامراج اس خطے سے بنیاد پرستی کا خاتمہ کر کے ہمیں ایک ترقی یافتہ جمہوری افغانستان سونپے گا اور انہیں قومی جبر اور محرومی سے نجات دلاکر آزادی اور ترقی کے راستے پر گامزن کرے گا۔ ان بیش قیمت بیس سالوں میں جہاں ایک پوری نسل جوان ہوئی ہے ان لبرل قوم پرستوں نے افغان تناظر میں کسی قسم کی سیاسی تنظیم کاری نہیں کی۔ افغانستان میں تنظیم اور پارٹی کو نظر انداز کرکے تیسری دنیا کی پسماندہ نفسیات کے تحت شخصیات کے کردار کی مبالغہ آرائی و قصیدہ گوئی میں انتہائی قیمتی وقت کو برباد کرتے رہے۔ یہی حالت افغان بائیں بازو کی تھی کہ جن کے ریشے اور رابطے افغانستان کے ہر شہر اور گاؤں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ جو کسی فرنٹ میں اکھٹے ہو کر افغانستان میں ایک مضبوط و توانا طاقت ابھار سکتے تھے کہ جو کسی بھی تخریبی طاقت کے سامنے کھڑی ہو کر ہر طریقے اورہر پہلو سے افغان عوام کا دفاع کرسکے۔ لیکن اس کی بجائے انہوں نے وزارتوں میں رئیس اور معاون کی نوکریوں پر اکتفا کیا۔ اسی دوران پشتون تحفظ موومنٹ کا ظہور ہوا جسے نوجوانوں نے سیاسی خلا کو پر کرنے کے حوالے سے ایک بہترین وسیلہ سمجھ کر پوری حمایت اور طاقت دی۔ لیکن تحریک کے ڈھانچے تشکیل نہ دے کر قیادت صرف مومینٹم کے سہارے آگے بڑھتی رہی۔ تحریک میں متضاد خیالات اور سوچیں مختلف ایشوز کے گرد اپنی وضاحتیں خود پیش کرتی رہیں۔ اب تحریک کا ایک دھڑا کچھ دوسرے لبرل لیفٹ کے افراد کے ساتھ مل کر اوپر سے ایک پارٹی بناکر روایتی سیاست کا آغاز کرنے کو ہے۔ جس سے پی ٹی ایم کمزور ہوئی ہے۔ تحریک اپنے ایک ایم این اے علی وزیر کی غیر آئینی و ظلم پر مبنی قید کے خلاف رسمی بیان بازی کے علاوہ مہینوں سے چپ سادھے بیٹھی ہے اور خطے‘ خاص کر ڈیورنڈ لائن کے آر پار امن قائم رکھنے کی صلاحیت حاصل کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود یہ طلائی موقع تقریباً گنوا دیا گیا ہے۔ ان لبرل قوم پرستوں کی آنکھیں تب درجہ بدرجہ کھلنے لگیں اور حقیقت نظر آنے لگی کہ جب امریکی سامراج نے کئی مقامات پر طالبان کو آگے بڑھنے کے واضح مواقع دیئے۔ افغان حکومت کی تضحیک و توہین کرتے ہوئے بنیادی سٹیک ہولڈر ہوتے ہوئے انہیں امن بات چیت سے الگ تھلگ رکھا گیا۔ اور طالبان کو بے جا اہمیت اور خصوصی پروٹوکول سے نوازا گیا۔ جنگ کے دوران جب میدان میں لڑنے والی افغان فورسز کو فضائی یا زمینی کمک کی ضرورت پڑتی تو اس میں دیر کردی جاتی یا سرے سے پہنچتی ہی نہیں تھی۔ امریکہ نے کئی مقامات پر اہم علاقے حاصل کرنے کے لئے طالبان کو موقع فراہم کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ نے قندھار اور بگرام ہوائی اڈے جس طریقے سے خالی کیے ان سے طالبان کے مورال کو بلندی اور افغان فورسز کو ایک بڑا دھچکا لگا۔ خطے کے سیاسی کارکن اور عوام جانتے ہیں کہ 2001ء میں امریکی جارحیت سے قبل طالبان افغان عوام کی نظروں میں نفرت کا استعارہ بن کر استرداد کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ جبکہ آج بیس سال بعد امریکی سامراج نے انہیں افغان سماج پردوبارہ مسلط کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ سامراج کا یہ وطیرہ رہا ہے چاہے وہ ویتنام ہو عراق ہو یا شام‘ اپنے اتحادیوں کو بیچ منجدھار چھوڑ کے بھاگ جاتا ہے۔ اس سے سبق نہ سیکھنے والے اس قبیح تاریخ کو دہراتے رہتے ہیں۔


امریکی سامراج اور نیٹو کی شکست

7 اکتوبر 2001 کی رات کو ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کے نام سے امریکہ نے افغانستان پر جارحیت کا آغاز کیا تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوت اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس امریکہ اور اس کے اتحادی برطانیہ کا دنیا کے سب سے پسماندہ ملک کے انتہائی غیرمنظم لشکر سے مقابلہ تھا۔ افغانستان کے اندر ایرانی و روسی حمایت یافتہ شمالی اتحاد، سابقہ ڈالرمجاہدین اور وارلارڈ رشید دوستم، تورن اسماعیل، رسول سیاف وغیرہ بھی اپنے آقا کی صف میں کھڑے ہوئے۔ طالبان کے مسلح جتھوں کے کچھ حصے افغانستان کے وسیع وعریض علاقوں میں پھیل گئے۔ ان کی قیادت اور بہت بڑی تعداد ڈیورنڈ لائن پار کر کے پاکستان میں محفوظ ٹھکانوں میں بس گئی۔ جبکہ القاعدہ و دیگر دہشت گرد پہاڑوں میں جاکر پناہ گزین ہوئے۔ امریکہ کئی ہفتوں تک اپنے دشمنوں کے ٹھکانوں پر میزائل داغتا رہا۔ بی 52 جیسے طیارے، جن کے پیٹ ٹنوں کے حساب سے بموں سے بھرے ہوتے ہیں، کے ذریعے طالبان کے زیرکنٹرول علاقوں پر کارپٹ بمباری کی گئی۔ لیکن کوئی اہم ہدف نشانہ بنایا جاسکا نہ ہی کوئی بڑی جنگی کامیابی حاصل کی جاسکی۔ اس کے برعکس ماہرین ارضیات کے مطابق زیرزمین پلیٹوں کو نقصان پہنچا کر مستقبل میں خطرناک زلزلوں کی بنیاد رکھ دی گئی۔ 7 اکتوبر کی رات کو شروع ہونے والے فضائی حملوں اور بمباری کے بعد 17 دسمبر کو امریکہ و برطانیہ طالبان حکومت کے خاتمے میں کامیاب ہوئے۔ دسمبر ہی میں بون کانفرنس میں حامد کرزئی کو نگران انتظامیہ کا سربراہ، 2002ء میں کابل لویہ جرگہ کے ذریعے انتقال اقتدار کی انتظامیہ کا سربراہ اور پھر 2004ء کے انتخابات میں افغانستان کا صدر بنا دیا گیا۔ اس طرح حامد کرزئی افغانستان کی تاریخ کا تیسرا شاہ شجاع ثابت ہوا۔ پہلا اور اصلی شاہ شجاع انیسویں صدی کے وسط میں برطانیہ نے اپنی فوجوں کے جھرمٹ میں کابل میں اقتدار پر مسلط کیا تھا۔ جبکہ دوسرا شاہ شجاع سوویت روس نے ببرک کارمل کی صورت میں ٹینکوں اور طیاروں کے سائے میں کابل کا حکمران بنایا تھا۔ لیکن تاریخ نے افغانستان کو ان تینوں عالمی طاقتوں کا قبرستان ثابت کیا ہے۔ البتہ ایک نکتہ بہت واضح ہے کہ آخری دونوں طاقتوں کو شکست صرف میدان جنگ میں نہیں ہوئی۔ اگر ہم اس شکست کو ایک عام فوجی شکست تک محدود رکھیں گے تو بالکل غلط نتائج اخذ کریں گے۔ بلکہ درحقیقت جن معاشی اور سماجی نظاموں کے تحت یہ طاقتیں چلائی جار ہی تھیں ان کے اپنے بحران کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔

سوویت یونین کے انخلا کے بعد بھی افغان انقلابی حکومت چار سال تک قائم رہی جسے پاکستان کی بھرپور عسکری و مالی کمک کے باوجود تمام جہادی تنظیمیں (القاعدہ سمیت) بارہا کوششوں کے باوجود شکست نہیں دے سکیں۔ بلکہ ان سب کے 1988ء میں خوست اور جلال آباد پر پوری طاقت سے حملوں کا انقلابی فوج‘ خصوصاً خواتین کے یونٹوں نے وہ دندان شکن جواب دیا کہ جس کی اذیت یہ بنیادپرست اور ان کے آقا آج تک محسوس کرتے ہیں۔ افغان انقلاب کے سقوط کی وجوہات مختلف تھیں جن میں زیادہ تر داخلی عوامل کارفرما تھے۔

امریکہ 90ء کی دہائی میں بالواسطہ طالبان کی صورت میں اور پھر 2001ء میں بلاواسطہ طور پر جس عسکری زعم میں ایک جارح کی حیثیت سے افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا وہ سرمایہ داری کے نیولبرل مرحلے کے نسبتاً ابھار کی پیداوار تھا۔ تاہم 1997ء میں جنوب مشرقی ایشیا میں سٹاک مارکیٹ اور کرنسی کے بحران نے ایشین ٹائیگرز کوچوہوں میں بدل ڈالا تھا۔ جس نے سرمایہ دارانہ دانشوروں کو سنجیدگی سے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ سرمایہ داری اب بھی ان کے خیال کے برعکس عروج و زوال کے سائیکل سے مبرا نہیں۔ نظام کو چلانے کے لئے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت تھی لیکن مسئلہ منڈیوں کی محدودیت کا تھا۔ چین وہ آخری اہم اور وسیع قطعہ زمین تھا کہ جہاں سرمایہ کاری اور کھپت کے ذریعے 70ء کی دہائی کے بحران سے نمٹا گیا۔ سستے ہنرمند مزدور، سستے خام مال اور کم لگان سے شرح منافع کو برقرار رکھنے کے لئے بڑے پیمانے پر صنعت اور ٹیکنالوجی کو چین منتقل کیا گیا۔ تاہم عارضی افاقے کے بعد وہی چین اور چینی اجناس امریکہ اور یورپ کے لئے بہت بڑی پریشانی کا سبب بن گئے۔ مغرب میں شرح منافع کو مالیاتی سٹے بازی کے ذریعے برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی جس کا انت بالآخر 2008ء کے مالیاتی انہدام کی صورت میں ہوا۔ بڑے بڑے دیوہیکل مالیاتی ادارے دیوالیہ ہوکر زمین بوس ہوئے۔ بحران سے نکلنے کے لئے امریکی حکومتوں نے عوام کے سینکڑوں ارب ڈالر بیل آؤٹ، ٹیکس چھوٹ اور دیگر مراعات کی مد میں بینک مالکان اور کارپوریٹ اداروں کو دیئے۔ نوٹ چھاپ چھاپ کر منڈی کو متحرک رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اسی کے دیکھا دیکھی یورپ اور برطانیہ وغیرہ نے بھی ایسے پیکیج لانچ کیے اور سینکڑوں ارب یورو اور پاؤنڈ معیشت میں ڈالنے کے نام پر سرمایہ داروں کو دئیے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود یورپ اور امریکہ کی معیشتیں بحران سے نکلنے اور بحالی کی طرف رینگنے میں ناکام رہیں۔ اس بحران سے امریکہ کے بجٹ خسارے میں تاریخی اضافہ ریکارڈ ہوا۔ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی مقروض ریاست ٹھہرا۔ آج انفراسٹرکچر کی ناگزیر تعمیر کے لئے رقم دستیاب نہیں جو کہ تقریباً تین ہزار ارب ڈالر بنتی ہے۔ امریکی محنت کشوں کی اجرت کی قدر میں کمی واقع ہوئی۔ بے روزگاری میں تاریخی اضافہ ہوا جس سے بے روزگار ہونے والوں کو مکانات و دیگر لوازمات کی قسطیں دینے میں ناکامی کا سامنا ہوا۔ اس سے بحران مزید گہرا ہوتا گیا۔ کروڑوں لوگ حکومت کے مقرر کردہ غربت کے پیمانے سے نیچے زندگی گزارنے لگے ہیں۔ سرمایہ داری 2008ء کے انہدام سے ابھی نکل نہیں پائی تھی کہ نوجوانوں کی پرجوش تحریکوں کے ماحول میں پوری دنیا کی طرح امریکہ کو کورونا وائرس کی تباہی نے گھیر لیا جس سے اجناس کی سپلائی کی پوری لائن بند ہو کر رہ گئی۔ امریکہ کی معیشت اور صحت کے نظام کی کمزوری، بربادی اور نااہلی کھل کر سامنے آئی۔ عوام میں اشتعال پھیلا اور کئی پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ کورونا وائرس کا حکمرانوں اور ریاستی مفادات کے لئے استعمال ایک الگ ایشو ہے جو یہاں زیر بحث نہیں۔ لیکن حالیہ تاریخ میں اسی معاشی بحران کا دباؤ تھا جس نے سب سے پہلے باراک اوبامہ کو افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کا شیڈول دینے پر مجبور کیا۔ بعد میں ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ معاہدہ کر کے افغانستان میں موجود امریکی فوج میں باقاعدہ کمی کرنا شروع کر کے مکمل انخلا کی ڈیڈ لائن دے دی۔ جبکہ بائیڈن کو یہ کہنا پڑا کہ جو امریکی فوجی 2001ء میں افغانستان میں جنگ کے لئے داخل ہوئے تھے اب ان کے بچے وہاں جنگ لڑ رہے ہیں۔ کیا ان کے نواسے بھی یہ جنگ لڑتے رہیں؟ اس طرح امریکی صدر بائیڈن نے سابقہ صدور کے انخلا کے منصوبوں کی توثیق کر دی۔

امریکی سامراج اور اس کے نیٹو اتحادیوں کی جنگ میں شکست کی وجوہات میں ایک سب سے بنیادی وجہ یہ تھی کہ انہیں ایسے دشمن کا سامنا تھا کہ جو بہت وسیع علاقے میں پہاڑوں، جنگلوں اور عوام کے درمیان پھیلا ہوا تھا۔ دشمن کو ڈھونڈ نکالنے میں امریکا نے آبادیوں کو اپنی بمباری اور جارحیت کا نشانہ بنایا جس سے بڑی تعداد میں عام لوگ، بچے اور خواتین ہلاک، زخمی اور اپاہج ہوئے۔ اس سے قابض غیر ملکی افواج کے خلاف غم و غصے اور مزاحمت میں وسعت آتی گئی۔ طالبان نے پاکستانی پالیسی سازوں کی معاونت سے ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف محفوظ پناہ گاہیں حاصل کیں۔ اس حکمت عملی سے کامیاب گوریلا جنگ کو تسلسل اور دوام ملا۔ دوسری جانب شکست سامراج کے اپنے ہی تضادات کے اندر بھی موجود تھی۔ مختلف ریاستوں اور اداروں کے متضاد مفادات جنگ کی طوالت اور تھکاوٹ کا باعث بنے۔ جس سے اضطراب کا پیدا ہونا یقینی تھا۔ امریکی ٹھیکے دار کمپنیوں اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کو اس جنگ کے تسلسل کی ضرورت تھی۔ سامراجی قوتوں اور ریاستوں کی افغانستان سے نایاب اور قیمتی معدنیات کی لوٹ مار جنگ زدہ ماحول میں ہی ممکن تھی۔ اسی طرح پینٹاگون اور وائٹ ہاوس انتظامیہ کے متضاد اہداف بھی ایک حقیقت رہے ہیں۔ یہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ سی آئی اے کے کئی اہلکار، ڈپلومیٹ اور فوجی افسران منشیات کی سمگلنگ میں ملوث رہے ہیں۔ جس کے لئے جنگ کا تسلسل اشد ضروری تھا۔ اس کے علاوہ امریکی فورسز کی افغانستان میں موجودگی کو تمام ہمسایہ ممالک اپنے لئے ایک مستقل خطرے کے طور پر محسوس کرتے تھے۔ یہ ریاستیں طالبان کی پشت پر کھڑے ہوئیں اور انہیں ہر قسم کی لاجسٹک سپورٹ، جاسوسی، اسلحہ اور اخلاقی معاونت فراہم کرتی رہیں۔ طالبان ان تمام ممالک کے ساتھ اپنے سٹریٹجک تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہوئے جو افغانستان کے ساتھ بارڈر رکھتے ہیں۔ یوں تاریخ عالم کی سب سے بڑی فوجی و اقتصادی طاقت دنیا کے غریب ترین ملک میں شرمناک شکست سے دوچار ہوئی۔

امریکی انخلا کے بعد کیا طالبان کابل فتح کر لیں گے؟

امریکہ کے جوائنٹ چیف جنرل مائیک ملے نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکی فورسز کے انخلا کے بعد طالبان کو تذویراتی برتری حاصل ہے۔ امریکی انٹیلی جنس کی شائع شدہ رپورٹوں کے مطابق طالبان چھ مہینوں کے درمیان پورے ملک پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ دنیا کی مختلف نیوز ایجنسیاں اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا طالبان کے بہت جلد افغانستان پر قبضہ کر لینے کے تجزیئے پیش کر رہے ہیں۔ جو زیادہ تر مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔ افغانستان میں حکومت اور طالبان کے زیر قبضہ علاقوں اور مقابلے کے علاقوں کے نقشے مرتب کرنے والے ماہرین جب کوئی نقشہ مکمل کرتے ہیں تو بقول ان کے طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں مزید اضافہ ہوچکا ہوتا ہے جس سے مرتب شدہ نقشہ غیر متعلقہ ہوجاتا ہے۔ طالبان کے دعووں کے مطابق وہ 85 فیصد افغانستان پر قابض ہوچکے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ پچاس فیصد افغانستان ایسے پہاڑوں پر مشتمل ہے کہ جو ویسے ہی ناقابل رہائش ہیں۔ جبکہ جنوب مغرب میں ہرات تک بہت بڑے ریگستانی علاقے ہیں۔ اکثر زمین سطح مرتفع پر مبنی ہے۔ جبکہ جنوب مشرق کے علاقے میدانی، زرخیز اور آباد ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ طالبان افغانستان کے 34 ڈویژنوں میں سے کسی ایک ڈویژن کے مرکز کو بھی تادم تحریرفتح نہیں کر پائے۔ 1994ء میں طالبان نے ابھرنے کے ساتھ ہی قندھار کو فتح کیا تھا جہاں سے وہ دو سمتوں میں کابل میں ڈالر مجاہدین کی حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے حملہ آور ہوئے تھے۔ ایک سمت جنوب مشرقی افغانستان سے ہوتے ہوئے میدان شہر سے کابل تک تھی۔ جبکہ دوسری شمال مغرب سے ہرات اور پھر شمال میں بلخ اور شمالی زون کے مرکز مزار شریف تک تھی جہاں طالبان کو سخت مزاحمت اور جانی نقصان کے بعد پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ مشرقی محاذ پر طالبان رابرٹ اوکلے (جو آ گے رہ کر وارلارڈز سے معاملات طے کر رہا تھا) کی سرکردگی میں تقریباً بغیر کسی بڑی مزاحمت کے کابل کے دروازے تک پہنچنے تھے۔ کابل فتح کرنے کے بعد طالبان اپنے دور حکومت کے آخر تک شمالی افغانستان کی جانب پیش قدمی نہیں کرپائے۔ اب کی بار ان کی جنگی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ طالبان جنوبی زون کے مرکز قندھار کو فتح کرنے اور پھر جنوب مشرق یا جنوب مغرب سے کابل پر حملہ آور ہونے کی بجائے افغانستان کے چاروں زونوں کے گرد اپنی پوزیشنیں مضبوط بنا رہے ہیں۔ جن میں ہرات شہر کے گرد اسلام قلعہ، چین، تاجکستان اور ازبکستان کے بارڈر کے ساتھ واخان کی پٹی شیرخان بندر اور پاکستانی بارڈر اور قندھار کے ساتھ سپین بولدک پرقبضہ جما چکے ہیں۔ جبکہ اہم شہروں اور علاقوں پر قبضے کے لئے جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔ طالبان نے افغان حکومت کو بین الافغانی مذاکرات کے ضمن میں ایک مہینے بعد امن منصوبہ پیش کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ جبکہ جنگی حکمت عملی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان ایک مہینے تک امریکی انخلا سے حاصل شدہ نفسیاتی برتری اور فتح کے احساس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اہم تذویراتی اہداف حاصل کرنے کے بعد افغان حکومت کو مستعفی ہونے اور اقتدار حوالے کرنے کا ”امن منصوبہ“ پیش کریں گے۔ اور مستعفی ہونے کی صورت میں عام معافی کا اعلان کریں گے۔ جبکہ دوسری طرف افغان حکومت طالبان کو افغانستان کے مختلف دور افتادہ علاقوں میں اپنی گنجائش سے زیادہ پھیل جانے کا موقع دے رہی ہے اور جہاں ضروری ہو وہاں اپنے آبادی والے علاقوں کا دفاع کر رہی ہے۔ طالبان کے زیر قبضہ سپین بولدک کو چھوڑ کر باقی کوئی ایسی جگہ نہیں جس پر حکومت مختصر وقت میں قبضہ نہ کر سکتی ہو۔ طالبان فورسز کا صرف ایک یونٹ ایسا ہے کہ جو فرنٹ لائن پر لڑنے اور جنگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جب یہ کوئی علاقہ فتح کرتے ہیں تو اسے عام مسلح طالبان کے حوالے کر کے کسی اور محاذ کی جانب بڑھتے ہیں۔ افغان حکومت کی شکست اور ٹوٹنے کے احتمالات کی سب سے بڑی وجہ افغان حکومت میں وارلارڈز اور گلبدین حکمت یار وغیرہ جیسوں کا کسی اہم موقع پر طالبان کے ساتھ مل جانے کا امکان ہے۔ جبکہ دوسرے درجے پر شمالی اتحاد کے رہنما اور افغان امن کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ کے طالبان کے ساتھ شراکت اقتدار کے گٹھ جوڑ کی صورت میں حکومت کی تنہائی اور سقوط کم و بیش ناگزیر ہے۔

امریکی انخلا کے بعد سے افغان عوام حتیٰ کہ طالبان کے اپنے حمایتی حلقوں کی سوچ اور شعور میں ایک بہت بڑی تبدیلی جو نہایت تیزی سے پھیل رہی ہے وہ افغانوں کے اپنے درمیان مزید جنگ کی شدید مخالفت ہے۔ جو دوسری عبارت میں طالبان کی کابل کو جنگ کے ذریعے فتح کرنے کی مخالفت ہے۔ اس رجحان میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے طالبان افغانوں میں وہ حمایت سرعت کے ساتھ کھوتے جا رہے ہیں جو کبھی بیرونی قابض قوتوں کی موجودگی اور ان کے خلاف جنگ کے دوران انہیں حاصل تھی۔ سامراجی افواج کے انخلا کے بعد افغان فورسز اب مزید کسی سامراجی قوت کی اتحادی نہیں سمجھی جاتی ہیں۔ ایسے میں افغان عوام کی اکثریت اپنے جوانوں کو ہمسایہ استعماری قوتوں کی پراکسیوں کے خلاف واحد دفاعی قوت سمجھتی ہے۔ یہ فورسز درحقیقت 2017ء سے فرنٹ لائن پر تمام آپریشنوں کو سنبھال رہی ہیں۔ جبکہ قابض سامراجی افواج فضائی کاروائی اور قلعوں اور بگرام کے اندر تک محدود تھیں۔ طالبان کی فتح کے دعووں کے برعکس جنگ میں ان کی جانی نقصانات اس جنگ مخالف رجحان میں مزید بڑھاوے کا باعث بنے ہیں۔ طالبان کی سابقہ حکومت میں عام لوگوں‘ بالخصوص خواتین کیساتھ روا رکھے جانے والے غیر انسانی رویوں کے تجربوں کو مدنظر رکھتے ہوئے افغان حکومت نے عام عوام اور خواتین کو اپنے دفاع کی خاطر مسلح کرنا شروع کیا ہے۔ لیکن افغان حکومت میں شامل وارلارڈز اور سابقہ ڈالر مجاہدین عبدالرب رسول سیاف، کابل کا قصاب گلبدین حکمت یار، ملا سلام راکٹی وغیرہ نے اس عمل کو زبردستی رکوایا ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر عوام مسلح ہوئے تو کہیں طالبان سے پہلے ان ظالموں اور انسانی خون پر پلنے والے درندوں کا محاسبہ نہ شروع کر دیں جنہیں امریکی سامراج نے جمہوریت اور پارلیمنٹ کی آڑ میں تحفظ دے رکھا ہے۔ افغان حکومت میں مختلف پس منظر اور سوچوں سے تعلق رکھنے والے افراد، گروپ، جماعتیں اور مسلح ملیشیا رکھنے والے وارلارڈز شامل ہیں۔ جبکہ کرزئی اور اشرف غنی اپنی حکومتوں کا ایسا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے وہ ڈاکٹر نجیب کی حکومت کا تسلسل ہوں۔ صدر اشرف غنی کی حکومت میں پچاس فیصدی سے زیادہ سابقہ شمالی اتحاد شامل ہے۔ شمالی اتحاد سابقہ نام نہاد مجاہدین اور خلق پارٹی کے پرچم دھڑے کی باقیات پر مشتمل ہے جس کی سربراہی عبداللہ عبداللہ کر رہا ہے۔ ایک اور ازبک وارلارڈ جنرل رشید دوستم ہے جو نجیب اللہ دور کا چیف آف آرمی سٹاف تھا جو درحقیقت نجیب اللہ کی سنگین غلطی تھی۔ چٹا ان پڑھ اور جاہل ہے۔ اسے اس وقت آرمی چیف بنایا گیا تھا کہ جب نجیب نے جنرل آصف شور اور جنرل جعفرسرتیر کو ایک ہی جگہ اختلافات کی بنیاد پر قتل کروا کے راستے سے ہٹایا تھا۔ رشید دوستم جو اکثر ترکی میں رہائش پزیر ہوتا ہے اور وہاں جائیدادوں کا مالک بھی ہے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کا لاڈلا اور افغانستان میں ترکی کے مفادات کا رکھوالا ہے۔ رشید دوستم نے افغان صدر اشرف غنی کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ ازبک، ایمک اور ترکمان آبادی پر مشتمل ملک ترکستان بنا کر افغانستان سے علیحدہ کر دے گا۔ طیب اردگان کے پاس رشید دوستم کا کارڈ ہے کہ جس کے ذریعے وہ اس گریٹ گیم میں کھلاڑی کے طور پر کودا ہے۔ نیٹو کی تمام فورسز کے نکلنے کے بعد بھی ترک فوجیں افغانستان کو چھوڑنے سے انکاری ہیں۔ ترکی کے قریبا 500 فوجی کابل ائیرپورٹ کے دفاع کے نام پر اہم سٹریٹجک مقام پر قابض ہیں۔ طیب اردگان امن کے نام پر پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ افغانستان میں آنے والی حکومت میں شراکت اقتدار کے معاملات طے کر رہا ہے۔ جبکہ عوامی بیانیے کی سطح پر طالبان کو جنگ نہ کرنے کی نصیحت کے ذریعے وہ اپنی روایتی خباثت اور منافقت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ افغانستان میں ہر ملیشیا اور عسکری گروہ چونکہ کسی نہ کسی بیرونی ریاست کی پراکسی ہے اس لئے داخلی طور پر قوتوں کو پرکھتے ہوئے ان کٹھ پتلیوں کی ڈوریں ہلانے والی ریاستوں کے ریاستی و معاشی مفادات نظر میں رکھنے ہوتے ہیں۔ ان متضاد مفادات کی حامل ریاستوں کی گہری مداخلت کی وجہ سے افغان تناظر نہایت پیچیدہ اور گھمبیر صورت اختیار کر جاتا ہے۔ طالبان کو موجودہ فتح جیسے حالات تک پہنچانے میں پاکستان، روس اور ایران کا بنیادی کردار ہے۔ مسقبل قریب کے افغانستان کی قسمت کا فیصلہ بھی بڑی حد تک انہی ریاستوں اور ان کے اتحادیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ پاکستان نے اپنی تذویراتی گہرائی کی ریاستی پالیسی کے تحت 70ء کی دہائی کے آغازسے ہی گلبدین حکمت یار اور مجددی وغیرہ جیسے لوگوں کو ریکروٹ کرکے اپنے ریاستی مفادات کے تحفظ اور افغانستان میں پاکستان کی دست نگر حکومت کی تشکیل کے لئے لانچ کیا تھا۔ حکمت یار پاکستان کی جماعت اسلامی اور اخوان کے ساتھ مل کر پچھلی نصف صدی سے یہی ذمہ داری نبھا رہا ہے۔ پاکستان نے حکمت یار ہی کے ڈالرمجاہدین سے طالبان تخلیق کیے تھے۔ لیکن اب کی بار انہیں مکمل اقتدار تک پہنچانے کے لئے حالات یکسر مختلف ہیں۔ ڈیپ سٹیٹ نے امریکہ کی موجودگی کے ساتھ ساتھ بھارتی پراکسیوں کی موجودگی کے خلاف طالبان کو مجتمع کیا، انہیں محفوظ پناہ گاہیں دیں، علاج معالجہ فراہم کیا، جنگی تربیت سمیت پوری سپورٹ فراہم کی۔ لیکن پچھلی بار کی طرح وارلارڈز کو دینے کے لئے امریکی ڈالروں کی عدم موجودگی اور اوپر سے افغانستان میں نسبتاً مستحکم حکومت معاملات کو مشکل بنا رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان پر براجمان نیم فسطائی حکومت امریکہ کی مرہون منت اور اتحادی ہے جو نہ تو طالبان کے کابل پر قابض ہونے کی متحمل ہوسکتی ہے اور نہ ہی افغانستان میں کسی بڑی اور طویل جنگ کو برداشت کرنے کے قابل ہے۔ پاکستانی ریاست اور اس کے ادارے داخلہ اور خارجہ پالیسی کے ایشوز پر متضاد سمتوں میں گامزن ہیں۔ طالبان کی پیش قدمی کا دباؤ اشرف غنی سے زیادہ عمران حکومت پر بڑھ رہا ہے۔ یہی وہ دباؤ ہے کہ جس نے عمران خان کو فوجی جنتا سے خارجہ پالیسی پر فاصلہ اختیار کرتے ہوئے چین اور شی جن پنگ کے گیت گانے پر مجبور کیا ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم جس کا افغانستان بھی ایک مبصر ممبر ہے اور جس میں روس، چین اور وسطی ایشیا کے ممالک شامل ہیں افغانستان کوجنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور یورپ کے درمیان ایک سٹریٹجک اہمیت رکھنے والے ملک کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔ جس میں چین بڑے لمبے عرصے سے اپنے اثر و رسوخ قائم کرنے کے لئے کوششیں کر رہا ہے۔ چین افغانستان کو روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے سی پیک کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے جس میں پشاور کو کابل اور پھر اسے وسطی ایشیا میں سلک روڈ کے ساتھ نتھی کرنا چاہتا ہے۔ چین طالبان کے واخان کی پٹی پر قابض ہونے کے بعد سنکیانگ کے ویغور مسلمانوں میں ’ایسٹ ترکستان موومنٹ‘ (چین سے علیحدگی کی مذہبی بنیاد پرست تحریک) کے اثرات کے پھیلنے سے خوفزدہ ہے۔ چند دن قبل ہی طالبان وفد نے چین میں بات چیت کے بعد چین کو دوست ملک کہا اور یقین دلایا کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے راستے سے تنازعے کا حل نکالیں گے۔ روس افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد وہاں کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے نمٹنے کے لئے شنگھائی تعاون تنظیم کے دوشنبے اور تاشقند میں اجلاس منعقد کرا چکا ہے۔ بین الافغان امن مذاکرات میں سہولت کاری کے لئے تنظیم کے وزرائے خارجہ کی سطح کے خصوصی اجلاس میں بھی افغانستان کو ایجنڈے پر رکھا گیا ہے۔ ایسٹ ترکستان موومنٹ اور داعش خراسان سیکشن کو لے کر روس افغانستان سے ملحقہ بارڈروں پر ان کے مرتکز ہونے سے پریشان ہے۔ یہ بنیاد پرست گروہ روس سے ملحقہ ریاستوں میں ایک بار پھر داخل ہونے اور دہشت گردی پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔

جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ 90ء کی دہائی سے اکیسویں صدی کے آغاز کے وقت تک امریکہ دنیا کے تھانیدار کے طور پر اپنی بدمعاشی سے ریاستوں کو کنٹرول کرتا رہا۔ لیکن اس دوران سرمایہ داری کے بحرانوں اور نیولبرل پالیسیوں کی ناکامی نے امریکی سامراج کی طاقت کو خاصا کمزور کر دیا۔ جبکہ دوسری طرف چین میں معاشی ابھار اور استحکام نے اسے ایشیا میں امریکہ کے مقابل لا کھڑا کیا۔ اسی دوران روس میں ایک آمر کے تحت مافیا نوعیت کی سرمایہ داری کے کسی حد تک ریاستی استحکام نے خارجی سطح پر اس ریاست کو مضبوط کیا۔ اس طرح چین اور روس اپنی دم چھلہ ریاستوں کے ساتھ بحر اوقیانوس سے لے کر جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا سے مشرقی یورپ، افریقہ، لاطینی امریکہ اور مشرق وسطیٰ تک امریکی سامرج کے یکطرفہ اور یونی پولر سامراجی عالمی نظم کے مقابل کھڑے ہونے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے مقابلے میں امریکی اثر و رسوخ میں کمی واقع ہوئی ہے اور وہ اپنے داخلی مسائل کی جانب متوجہ ہونے پر مجبور ہوا ہے۔ اسی ہفتے امریکی صدر بائیڈن نے عراقی صدر کاظمی کے ساتھ عراق میں امریکی جارحیت کے خاتمے کا معاہدہ کیا ہے۔

طالبان کو 90ء کی دہائی میں کابل کو فتح کرنے کے جو معروضی اور موضوعی طور پر موافق حالات میسر تھے وہ اب مکمل طور پر تبدیل ہوچکے ہیں۔ غیر معمولی صورت میں اگر طالبان افغانستان پر قابض ہو بھی جاتے ہیں تو ان کے پاس افغان عوام کے مسائل حل کرنے اور ملک کو ترقی دینے کا کوئی پروگرام نہیں۔ سرمایہ داری کی دی ہوئی ذلتوں غربت، مفلسی، بے روزگاری، لا علاجی اور جہالت کے خاتمے کا کوئی ایجنڈا سرے سے ان کے ہاں وجود نہیں رکھتا۔ پوری سماجی زندگی اور معاشی و اقتصادی سرگرمیوں کے حوالے سے ان کا اسی سرمایہ داری کی انتہائی وحشی اور رجعتی شکل پر ہی تکیہ ہے۔ بہر صورت طالبان کا اقتدار پر براجمان ہونا بدقسمت افغانستان کو ایک اور طویل جنگ اور خونریزی میں جھونک دینے کا موجب ہو گا۔ امریکی سامراج افغانستان سے نکل کر خلیج میں ڈیرہ جمانے جا رہا ہے۔ اپنی وار انڈسٹری کو بڑھاوا دینے کے لئے اور شکست کے انتقام میں وہ کروز میزائلوں اور ڈرون حملوں کو جاری رکھے گا۔ امریکہ کی یہ سرگرمی نہ صرف طالبان بلکہ ایران اور پاکستان کے لئے بڑی پریشانی کا باعث بنے گی۔ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کو ناکام بنانے اور روس کو پریشان رکھنے کے لئے وہ داعش خراسان، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ اور تحریک طالبان پاکستان سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کو استعمال کرے گا جس سے ایک بار پھر یہ خطہ دہشت گردانہ کاروائیوں سے لرز اٹھے گا۔

اگرچہ افغانستان میں امن اور ترقی اس خطے میں انقلابی تبدیلی سے جڑی ہوئی ہے جو صرف اور صرف محنت کشوں کی باہم یکجہتی اور تعاون سے ہی ممکن ہے۔ لیکن فوری طور پر طالبان کی چڑھائی، ممکنہ قتل عام اور بربریت کو روکنے کے لئے عارضی بنیادوں پر ہی سہی اس خطے کے ترقی پسند رجحانات، طلبہ و مزدور تنظیموں کو فوری عمل کا ایک پروگرام درکار ہے۔ طالبان کی فسطائیت کے مقابلے کو محض انقلاب سے مشروط کر کے موخر کر دینا انتہا درجے کا طفلانہ پن اور بے حسی ہو گی۔ اسی طرح موجودہ حالات میں تمام تر کرپشن اور عوام دشمن کردار کے باوجود افغان حکومت اور طالبان کو ایک ہی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ لہٰذا جن قوتوں کی وجہ سے آج افغانستان بربریت کی اس نہج پہ کھڑا ہے انہیں ایک طرف کر کے ایک فوری متفقہ لائحہ عمل تجویز کیا جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے عالمی سطح پر محنت کش طبقے کی یکجہتی درکار ہے جس کی بنیاد پر مظاہروں اور تحریکوں کے ذریعے افغانستان میں تخریب کاری (بالخصوص طالبان کی پشت پناہی اور ان کے ساتھ مصالحت) میں ملوث ریاستوں پر دباؤ ڈالا جائے اور طالبان کے قبضے کی صورت میں ممکنہ قتل عام کو روکنے کے لئے عالمی سطح پر آواز اٹھائی جائے۔ افغان حکومت وار لارڈز اور سابقہ مجاہدین گروہوں کی بجائے تمام عوام کو مسلح کرتے ہوئے طالبان کے خلاف لڑائی میں منظم اور متحرک کرے۔ اس مقصد کے لئے جلد از جلد وسیع پیمانے پر عوامی ملیشیا تشکیل دی جائے۔ ہنگامی صورتحال میں ایک عالمی امن فورس کی فضائی و زمینی مداخلت بھی طالبان کی چڑھائی کو روکنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ بشرطیکہ یقینی بنایا جائے کہ ایسی کوئی بھی امن فورس اپنی کاروائیوں اور سرگرمیوں کو ہر ممکن حد تک افغان عوام کے مفادات اور امنگوں سے ہم آہنگ کرے۔ علاوہ ازیں نیٹو، ایران اور پاکستان جیسے ممالک کو اس عمل سے الگ رکھا جائے۔ یہ مطالبہ سرکاری طور پر بنیاد پرستی کی مخالفت کرنے والی ریاستوں کے قول و فعل میں تضاد کو بھی واضح کر دے گا۔ افغانستان میں فسطائی اور بنیاد پرستانہ رجحانات کے علاوہ ہر قسم کے نظریات کی حامل تنظیموں اور پارٹیوں کو سیاسی سرگرمیوں اور تنظیم سازی کا حق حاصل ہو۔ تاکہ سیاسی و سماجی تحرک پیدا ہو سکے اور افغانستان سمیت خطے میں ترقی پسند رجحانات کے حامل تمام طالبان مخالف رجحانات کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا جائے۔ سب سے بڑھ کر نیو لبرل سرمایہ داری کی نامرادی اور پسپائی کے مواقع کو انقلابی قوتوں کی تعمیر کے لئے استعمال کیا جائے۔ محنت کش عوام مہنگائی و مفلسی کے ہاتھوں اذیت بھری زندگی سے تنگ ہیں۔ تحریکیں سمندری لہروں کی طرح ابھر کر پھر سستا کر پہلے سے زیادہ ریڈیکل بنیادوں پر ابھر رہی ہیں۔ یہ لہریں ایک انقلابی قیادت کے تحت مجتمع ہو کر درست سمت میں گامزن ہوتے ہوئے اس پورے استحصالی نظام، جو سامراجی دہشت اور بنیاد پرستی کی وحشت کا منبع و ماخذ ہے، کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جا سکتی ہیں۔