ولادیمیر لینن

ترجمہ: عمران کامیانہ

فریڈرک اینگلز کی 200ویں سالگرہ کے موقع پر ان کی یہ مختصر سوانح حیات، جو انقلابِ روس کے قائد ولادیمیر لینن نے 1895ء میں تحریر کی، قارئین کے لئے خصوصی طور پر شائع کی جا رہی ہے۔

ایڈیٹر

فریڈرک اینگلز 1820ء میں پروشیائی سلطنت (موجودہ جرمنی) کے صوبہ رھائن کے مشہور شہر بریمن میں پید ا ہوا۔ اس کے باپ کارخانہ دار تھا۔ 1838 ء میں خاندان کے حالات سے مجبور ہو کر بیٹے نے ہائی سکول کی تعلیم چھوڑی اور بریمن کے ایک تجارتی دفتر میں کلرکی اختیار کر لی۔ کاروباری مصروفیات کے باوجود اینگلز نے اپنی سائنسی اور سیاسی تعلیم کی لگن باقی رکھی۔ ہا ئی سکول کے زمانے سے ہی اسے باد شاہت اور سرکاری اہلکاروں کے ظلم زبردستی سے سخت نفرت ہو گئی تھی۔ فلسفہ پڑھا تو یہ نفرت اور منجھ گئی۔ ان دنوں جرمن فلسفے پرہیگل کا رنگ چڑھا ہوا تھا۔ اینگلز بھی اس کی لپیٹ میں آگیا۔ اگرچہ ہیگل بذات خود پروشیا کی شخصی حکومت کا مداح تھا اور برلن یونیورسٹی میں فلسفے کا پروفیسر ہونے کی حیثیت سے اسی حکومت کا نمک خوار بھی رہا تھا، تا ہم اس کی تعلیمات انقلابی تھیں۔ ہیگل کو انسانی عقل او راس کے حقوق پر یقین تھا۔ ہیگلی فلسفے کا بنیادی نکتہ تھا کہ تمام کائنات کے رگ و پے میں تغیر، تبدیلی اور ارتقا جاری و ساری ہے۔ ان نظریات کی بدولت اس جرمن فلسفی کے بعض شاگردوں (جو اُس وقت کی صورتحال کو برحق ماننے کو تیار نہ تھے) نے یہ خیال اپنا لیا کہ اس صورت حال، موجودہ بدی اور مروجہ برائی کے خلاف جدوجہد بھی ازلی و ابدی ارتقا کے آفاقی قانون کی بنیاد میں شامل ہے۔ اگر ہر چیز بدلتی ہے، اگر ایک قسم کے اداروں کی جگہ دوسری قسم کے ادارے لے لیتے ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پروشیا ئی بادشاہ سلامت یا زارِ روس کی فرماں روا ئی یا لوگوں کی بہت بڑی تعداد کے نقصان سے تھوڑے سے لوگوں کی دولت مندی یا عام لوگوں پر سرمایہ دار طبقے کاغلبہ ایسے ہی ہمیشہ چلتا رہے؟ ہیگل کا فلسفہ سوچ اور خیالات کے ارتقا کی بات کرتا تھا۔ یہ خیال پرستانہ تھا۔ سوچ کے ارتقا سے یہ فطرت، انسان اور سماجی تعلقات کا ارتقا اخذ کرتا تھا۔ ہیگل کی جانب سے پیش کردہ ازلی و ابدی ارتقائی عمل کے تصور کو برقرار رکھتے ہوئے مارکس اور اینگلز نے اُس کے خیال پرستانہ نقطہ نظر کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ فطرت کے ارتقا کی وضاحت سوچ کے ارتقا سے نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کے برعکس سوچ کی وضاحت فطرت، یعنی مادے سے کی جانی چاہئے۔ ہیگل اور دوسرے ہیگلیوں کے برعکس مارکس اور اینگلز مادیت پسند تھے۔ دنیا اور انسانیت کو مادی نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے انہوں نے جانا کہ جیسے تمام قدرتی مظاہر کے پیچھے مادی وجوہات کارفرما ہوتی ہیں ویسے ہی انسانی سماج کی ترقی کا انحصار مادی قوتوں، یعنی پیداواری قوتوں کی ترقی پر ہوتا ہے۔ پیداواری قوتوں کی ترقی پر ہی وہ رشتے منحصر ہوتے ہیں جن میں ضروریاتِ زندگی کی پیداوار کے عمل میں انسان بندھ جاتے ہیں۔ انہی رشتوں میں تمام سماجی زندگی، انسانی امنگوں، خیالات اور قوانین کی وضاحت مضمر ہوتی ہے۔ پیداواری قوتوں کی ترقی سے نجی ملکیت پر مبنی سماجی رشتے تشکیل پاتے ہیں، لیکن اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پیداواری قوتوں کی یہی ترقی اکثریت کو ملکیت سے محروم کر کے اسے معمولی سی اقلیت کے ہاتھوں میں مجتمع کر دیتی ہے۔ یہ ترقی جدید سماجی نظام کی بنیاد، یعنی نجی ملکیت کو موقوف کر کے خود ہی اُس نصب العین کی طرف گامزن ہے جو سوشلسٹوں نے اپنے لئے متعین کیا ہے۔ اب سوشلسٹوں کو یہ ادراک حاصل کرنا ہے کہ وہ کونسی سماجی قوت ہے جو جدید سماج میں اپنی حیثیت کی بدولت سوشلزم کو عملی جامہ پہنانے میں دلچسپی رکھتی ہے اور پھر انہیں اِس قوت کو اس کے مفادات اور تاریخی فریضے کا شعور عطا کرنا ہے۔ یہ قوت پرولتاریہ ہے۔

اینگلز نے اسی پرولتاریہ سے برطانیہ کی صنعت کے مرکز مانچسٹر میں آگاہی حاصل کی تھی، جہاں اُس نے 1842ء میں سکونت اختیار کی تھی اور ایک ایسی تجارتی کمپنی کی نوکری کرتا تھا جس میں اینگلز کا باپ بھی حصہ دار تھا۔ مانچسٹر میں اینگلز صرف کارخانے کے دفتر میں ہی نہیں بیٹھا رہا بلکہ ان جھونپڑ پٹیوں میں بھی پھرتا تھا جہاں مزدور لبالب بھرے ہوتے تھے۔ وہ اُن کی غربت اور اور بد حالی کو اپنی آنکھوں سے د یکھتا تھا۔ لیکن اس نے خود کو صرف ذاتی مشاہدوں تک ہی محدود نہیں رکھا۔ برطانیہ کے محنت کش طبقے کے حالات کے بارے پہلے سے جو لکھا جا چکا تھا اینگلز نے اس کا بھی مطالعہ کیا اور اُن تمام سرکاری دستاویزات کا بغور مطالعہ کیا جن تک اُس کی رسائی تھی۔ ان تمام مطالعوں اور مشاہدوں کا حا صل وہ کتا ب تھی جو 1845ء میں شائع ہوئی: ’برطانیہ میں محنت کش طبقے کی حالت‘۔ اینگلز سے پہلے بھی بہت لوگوں نے پرولتاریہ کے مصا ئب بیان کئے تھے اور اس کی مدد کرنے کی ضرورت ظاہر کی تھی۔ لیکن اینگلز وہ پہلاشخص ہے جس نے کہا کہ پرولتاریہ ایک مصیبت زدہ طبقہ ہی نہیں ہے بلکہ درحقیقت پرولتاریہ کی شرمناک معاشی حالت ہی اسے آگے بڑھاتی ہے اورمجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی حتمی نجات کی لڑائی لڑے۔ اور پرولتاریہ جب لڑائی کے میدان میں اترے گا تو اپنی مدد آپ کر لے گا۔ محنت کش طبقے کی سیاسی تحریک ناگزیر طور پر محنت کشوں کو باور کروائے گی کہ اُن کی واحد نجات سوشلزم میں مضمر ہے۔ دوسری طرف سوشلزم ایک قوت اسی وقت بنے گا جب یہ محنت کش طبقے کی سیاسی جدوجہد کا نصب العین بنے گا۔ برطانیہ میں محنت کش طبقے کی حالت پر اینگلز کی کتاب کے یہی کلیدی خیالات ہیں۔ اب ان خیالات کو تمام سوچنے اور جدوجہد کرنے والے پرولتاریوں نے اپنا لیا ہے، لیکن اُس وقت یہ بالکل نئے اور انجانے تھے۔ یہ خیالات ایک ایسی کتاب میں پیش کئے گئے تھے جو بہت جاذب انداز میں لکھی گئی تھی اور برطانیہ کے پرولتاریہ کی ذلت کی انتہائی مستند اور لرزا خیز تصویر کشی سے لبریز تھی۔ یہ کتاب سرمایہ داری اور بورژوازی کے خلاف خوفناک فردِ جرم تھی اور گہرا اثر چھوڑ گئی۔ جدید پرولتاریہ کی حالت زار کی بہترین تصویر کشی کے طور پر اینگلز کی کتاب کے حوالے ہر جگہ دئیے جانے لگے۔ درحقیقت 1845ء سے پہلے یا بعد محنت کش طبقے کی ذلت کی ایسی غیر معمولی اور حقیقی عکاسی نہیں کی گئی ہے۔

برطانیہ آنے کے بعد اینگلز سوشلسٹ ہو گیا۔ مانچسٹر میں اس نے برطانیہ کی مزدور تحریک میں سرگرم لوگوں سے رابطے بنائے اور انگریزی سوشلسٹ پرچوں کے لئے لکھنے لگا۔1844ء میں جرمنی واپس جاتے ہوئے پیرس میں اُس کی شناسائی مارکس سے ہوئی، جس سے اُس کی خط و کتابت پہلے سے جاری تھی۔ پیرس میں فرانسیسی زندگی اور فرانسیسی سوشلسٹوں کے زیر اثر مارکس بھی سوشلسٹ ہو چکا تھا۔ یہا ں ان دونوں دوستوں نے مل کر ایک کتا ب لکھی جس کا عنوان ’مقدس خاندان‘ یا ’تنقیدی تنقید پر تنقید‘ تھا۔ یہ کتا ب، جو اینگلز کی ’برطانیہ میں محنت کش طبقے کی حالت‘ سے ایک سال پہلے شائع ہوئی اور جس کا زیادہ تر حصہ مارکس نے لکھا، انقلابی مادی سوشلزم کے بنیادی نکات کی حامل تھی۔”مقدس خاندان“ کا لفظ با ور نامی جرمن بھا ئیوں (Bauers) اور ان کے پیرکاروں پر ایک پھبتی کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ یہ حضرات ایسی تنقید کا پرچار کرتے تھے جو تمام حقیقت، پارٹیوں اور سیاسیات سے ماورا تھی، جو تمام عملی سرگرمی کو مسترد کرتی تھی اور جو گرد و پیش کی دنیا اور اس میں رونما ہونے والے واقعات پر صرف ”تنقیدی“ نظر ڈالنے سے غرض رکھتی تھی۔ پرولتاریہ کو یہ معززین ایک غیر ناقدانہ ہجوم کے طور پر حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ مارکس اور اینگلز نے اس بیہودہ او ر نقصان دہ رحجان کی زبردست مخالفت کی۔ ایک جیتے جاگتے انسانی وجود،یعنی مزدور جو حکمران طبقات اور ریاست کے بوجھ تلے کچلا جا رہا ہے، کے لئے انہوں نے قیاس آ را ئی کا نہیں بلکہ ایک بہتر سماجی نظام کی جدوجہد کا مطالبہ کیا۔ ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں پرولتاریہ ہی وہ طاقت تھی جو ایسی جدوجہد کرنے کی اہلیت اور اس سے دلچسپی رکھتی تھی۔ ’مقدس خاندان‘ کی اشاعت سے بھی پہلے فریڈرک اینگلز نے مارکس اور روگے کے مجموعہ مضامین میں اپنے ’سیاسی معاشیات پر تنقیدی مضامین‘ شائع کر دئیے تھے، جن میں اُس نے سوشلسٹ نقطہ نظر سے ہم عصر معاشی نظام کے کلیدی مظاہر کا معائنہ کیا اور انہیں نجی ملکیت کی حاکمیت کے ناگزیر مضمرات قرار دیا۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ مارکس کی جانب سے سیاسی معاشیات کا مطالعہ کرنے کے فیصلے میں اینگلز سے رابطے کا اہم کردار تھا۔ مارکس کی تصانیف نے سیاسی معاشیات کی سائنس میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔

1845ء سے 1847ء تک اینگلز برسلز اور پیرس میں رہا اور سائنسی کام کے ساتھ ساتھ برسلز اور پیرس کے جرمن مزدوروں میں عملی کام کرتا رہا۔ یہاں مارکس اور اینگلز نے خفیہ ’جرمن کمیونسٹ لیگ‘ سے رابطہ قا ئم کیا، جس نے انہیں ذمہ داری سونپی کہ سوشلزم کے جو کلیدی اصول انہوں نے اخذ کئے تھے انہیں تفصیل سے بیان کریں۔ چنانچہ مارکس اور اینگلز کا مشہور ’کمیو نسٹ پارٹی کا مینی فسٹو‘ تیار ہوا جو 1848ء میں شا ئع کیا گیا۔ یہ کتابچہ کئی کئی جلدوں کی کتابوں پر حاوی ہے۔ اس کی روح آج تک مہذب دنیا کے سارے منظم اور لڑاکا پرولتاریہ کو شکتی اور رہنمائی دے رہی ہے۔

1848ء کا انقلاب جو فرانس میں پھوٹ کر مغربی یورپ کے دوسرے ملکوں میں پھیل گیا، مارکس اور اینگلز کو ان کے آبائی وطن (جرمنی) واپس لے گیا۔ یہا ں پہنچ کر انہوں نے پروشیاکے صوبہ رھائن میں جمہوری اخبار ’Neue Rheinische Zeitung‘ کا انتظام سنبھالا جو کولون شہر سے شا ئع ہو ا کرتا تھا۔ یہ دونوں دوست صوبہ رھائن کی تمام انقلابی جمہوری امنگوں کے رو ح رواں بن گئے۔ وہ عوام کے مفادات اور آزادی کے دفاع میں رجعتی قوتوں کے خلاف جم کر لڑے۔ لیکن جیسا کہ ہمیں معلوم ہے رجعت جیت گئی۔ یہ اخبار کچل کر ختم کر دیا گیا۔ مارکس، جو اپنی جلاوطنی کے زمانے میں پروشیا ئی شہریت سے محروم ہوچکا تھا، اب جلا وطن کر دیا گیا۔ اینگلز نے مسلح عوامی بغاوت میں حصہ لیا، تین جنگوں میں آزادی کے لئے لڑا اور جب باغیوں کو شکست ہوئی تو وہ پسپا ہو کر سوئٹزر لینڈ کے راستے لندن کی طرف نکل گیا۔

مارکس بھی لندن میں ہی مقیم ہوچکا تھا۔ اینگلز نے وہاں پہنچ کر پھر کلرکی اختیا ر کر لی اور کچھ دنوں بعد مانچسٹر کی اسی کمپنی کا حصہ دار بن گیا جس میں 1840ء کی دہائی میں نوکری کر چکا تھا۔ 1870ء تک وہ مانچسٹر میں ہی رہا اور اس عرصہ میں مارکس نے بھی لندن میں رہا ئش رکھی۔ لیکن یہ فاصلہ ان کے درمیان پرجوش تبادلہ خیال میں حائل نہ ہوا۔ وہ کم و بیش روزانہ خط و کتابت کرتے رہے۔ اِس خط و کتابت کے ذریعے دونوں دوست اپنے خیالات اور دریافتوں کا تبادلہ کرتے رہے اور سائنسی سوشلزم کی تیاری میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے رہے۔ 1870ء میں اینگلز لندن چلا آیا اور ان کی انتہائی سرگرم مشترکہ نظریاتی زندگی 1883ء میں مارکس کی وفات تک جاری رہی۔ اس کا ثمر یہ تھا کہ مارکس نے ’سرمایہ‘ لکھی جو ہمارے زمانے میں سیاسی معاشیا ت کی سب سے بڑی تصنیف ہے۔ دوسری طرف اینگلز نے چھوٹی اور بڑی کئی تصانیف پیش کیں۔ مارکس نے سرمایہ دارانہ معیشت کے پیچیدہ مظاہر کے تجزئیے پر کام کیا۔ اینگلز نے اپنی سادہ اور آسان تحریروں، جو زیادہ تر مناظرانہ نوعیت کی ہوتی تھیں، میں تاریخ کے مادی نظرئیے اور مارکس کے معاشی نظریات کی روح سے ماضی اور حال کے مختلف مظاہر اور عام سائنسی مسائل پر بحث کی۔ ہم اینگلز کی تحریروں میں سے ذیل کا ذکر کرنا چاہیں گے:’جرمن فلسفی ڈیورنگ سے مناظرہ‘ (یہ کتاب فلسفے، قدرتی سا ئنس اور سماجی علوم کے دائرے میں آنے والے انتہا ئی اہم مسائل کا تجزیہ کرتی ہے)،’خاندان، نجی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘،’لڈوگ فیور باخ‘، روسی حکومت کی خارجہ پالیسی پر مضمون، رہا ئش کے مسئلے پرشاندار مضامین۔ اس کے علاوہ دو مختصر مگر نہایت قیمتی مضامین جو روس کے معاشی ارتقا پر لکھے گئے۔ سرما ئے پر اپنی زبردست تصنیف کو تما م کرنے سے پہلے ہی کارل مارکس کا انتقال ہو گیا۔ تاہم اس کا خاکہ مکمل ہو چکا تھا اور اپنے دوست کی وفات کے بعد اینگلز نے ’سرمایہ‘ کے دوسری اور تیسری جلدوں کی تیاری اور اشاعت کا بیڑا اٹھایا۔ 1880ء میں اس نے دوسری اور 1894ء میں تیسری جلد شائع کر دی (اینگلز کی موت نے چوتھی جلد کی تکمیل نہ ہونے دی)۔ ان جلدوں کی اشاعت وسیع اور سخت محنت کا نتیجہ تھی۔ دوسری اور تیسری جلد شا ئع کر کے اینگلز نے اس زبردست عالی دماغ کی ایک عظیم ا لشان یادگار قا ئم کر دی جو اس کا دوست رہا تھا، بلکہ ایک ایسی یاد گار قا ئم کر دی جس پر انجانے میں خود اینگلز کا نام بھی نقش ہو گیا ہے۔ درحقیقت ’سرمایہ‘ کی یہ دونوں جلدیں مارکس اور اینگلز کی مشترکہ تصنیف ہیں۔ پرانی داستانوں میں دوستی کی بعض رقت انگیز مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن یورپی پرولتاریہ کہہ سکتا ہے اس کی سائنس دو ایسے عالموں اور جانبازوں کی دین ہے جن کی باہمی رفاقت‘ دوستی کے تمام پرانے قصے کہانیوں سے بڑھ کر تھی۔ اینگلز نے ہمیشہ (اور بالعموم درست طور پر) خود کو مارکس کے بعد شمار کیا۔ اس نے اپنے ایک پرانے دوست کو لکھا، ”مارکس کے جیتے جی میں ہمیشہ اس کا نائب رہا۔“ مارکس کی زندگی میں جو محبت اور مرنے کے بعد جو تعظیم اینگلز نے اسے دی اس کی کو ئی انتہا نہیں۔ اس بیباک جانباز اور محتاط مفکر کے وجود میں ایک بے پناہ محبت کرنے والی روح سمائی تھی۔

1848-49ء کی تحریک کے بعد مارکس اور اینگلز نے جلاوطنی میں خود کو صرف سائنسی تحقیق تک محدود نہیں رکھا۔ 1864ء میں مارکس نے ’انٹرنیشنل ورکنگ مین ایسوسی ایشن‘ بنا ئی اور پورے دس برس تک اس کی قیادت کرتا رہا۔ اینگلز نے بھی اس کے کاموں میں عملی حصہ لیا۔ اِس عالمی تنظیم نے مارکس کے نظریات کے مطابق تمام ممالک کے پرولتاریوں کو متحد کیا اور مزدور تحریک کے ارتقا میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ لیکن 1870ء کی دہائی میں انٹرنیشنل کے بند ہونے کے بعد بھی مارکس اور اینگلز کا متحد کرنے کا کردار ختم نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس کہا جا سکتا ہے کہ مزدور تحریک کے روحانی رہنماؤں کی حیثیت سے ان کی اہمیت مسلسل بڑھتی رہی، کیونکہ تحریک بذات خود مسلسل پھیل رہی تھی۔ مارکس کی وفات کے بعد اینگلز نے اکیلے ہی یورپی سوشلسٹوں کے رہنما اور صلاح کار کے طور پر کام جاری رکھا۔ اینگلز کی ہدایات اور مشورہ سب کو برابر درکار ہوتا تھا، چاہے وہ جرمن سوشلسٹ ہوں، جن کی طاقت ریاستی جبر کے باوجود مسلسل اور تیزی سے بڑھ رہی تھی، یا پھر پسماندہ ملکوں مثلاًسپین، رومانیہ اور روس کے نما ئندے ہوں، جنہیں ابتدائی قدم اٹھانے سے پہلے کافی سوچ بچار اور ناپ تول کرنی پڑ رہی تھی۔ بوڑھے اینگلز کے علم اور تجربے کا بھرپور خزانہ ان سب کے کام آتا رہا۔ آ ئیے فریڈرک اینگلز کو خراج عقیدت پیش کریں، جو پرولتاریہ کا استاد اور زبردست جانباز تھا!