آرٹ کیا انسانی زندگی میں ثانوی حیثیت ہی رکھتا ہے؟ ایک حقیقی اور عالیشان آرٹ کو کن خاصیتوں کا حامل ہونا چاہئے؟ اسے کس طرح سے پرکھا جانا چاہے؟ یہ سماجی اتار چڑھاؤ اور تضادات سے کیونکر متاثر ہوتا ہے اور ان کا اظہار کیسے کرتا ہے؟ اور سب سے بڑھ کے یہ کہ انقلابی جدوجہد میں آرٹ کو کیا مقام حاصل ہے؟ کیا ’پرولتاری آرٹ‘ اور ’پرولتاری ثقافت‘ ممکن ہے؟ آرٹ کو ایک اقلیتی قابض طبقے کی اجارہ داری سے آزاد کروا کے محنت کش عوام کی جمالیاتی تسکین، روحانی آسودگی اور سماج کی سوشلسٹ تعمیر کے لئے کیسے بروئے کار لایا جا سکتا ہے؟ ایک سوشلسٹ سماج میں انسان کی شخصیت، تخلیقی صلاحیتیں اور انسانوں کے درمیان مسابقت کون سی جہتیں اور کیسی بلندی حاصل کر پائیں گی؟ اور ایک کمیونسٹ معاشرے میں نسل انسان کی فطرت پر مسلسل بڑھتی ہوئی برتری کون کون سے امکانات کھولے گی؟ زیر نظر کتابچہ، جو انقلابِ روس کے قائد لیون ٹراٹسکی کی تحریروں کے تلخیص و ترجمے پر مبنی ہے، انہی سوالات کا جواب دیتا ہے۔ یہ مضامین ٹراٹسکی نے 1920ء کی دہائی کے پہلے نصف حصے میں لکھے تھے اور ان میں سے بیشتر ’لٹریچر اور انقلاب‘ کے عنوان سے 1923ء میں کتابی شکل میں بھی شائع ہوئے۔ ان تحریروں میں آرٹ کی طرف مارکسزم اور ’پرولتاری انقلابیت‘کے نام پر اختیار کیے گئے انتہائی میکانکی اور بھونڈے نقطہ ہائے نظر کا بے رحمانہ اور حقیقت پسندانہ تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور تجزئیے کے مارکسی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے آرٹ کی مادی بنیادوں، ارتقائی عمل اور انقلابی فرائض کو واضح کیا گیا ہے۔ لیکن آرٹ کے فوری موضوع سے ہٹ کر بھی مصنف ایک پسماندہ ثقافت اور تکنیک کے حامل ملک میں سوشلسٹ انقلاب کی حدود و قیود اور مسائل، ترقی یافتہ مغرب میں انقلاب کی ناگزیر ضرورت، بورژوا سائنس کے کردار اور طبقاتی سماج کی سائنسی، فنی و تکنیکی حاصلات کے ایک غیر طبقاتی سماج کی تعمیر میں استعمال جیسے اہم نکات پر روشنی ڈالتا ہے۔
پی ڈی ایف فائل ڈائون لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔