لال خان

ڈاکٹر لال خان کا یہ مضمون پہلی بار 25 اپریل 2014ء کو شائع ہوا۔ آج ثور انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر قارئین کے لئے یہ آرٹیکل دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

 

جنوبی ایشیا میں یادگار واقعات کی مناسبت سے کئی دن ہر سال منائے جاتے ہیں۔ تاہم ایک واقعہ ایسا ہے جسے تاریخ کے اوراق میں سے کھرچ دینے کی پوری کوشش حکمران طبقے نے کی ہے۔ یہ 27 اپریل 1978ء کو افغانستان میں برپا ہونے والا ثور انقلاب ہے۔ سامراجی میڈیا، حکمران طبقے کے دانشور اور سرکاری تاریخ دان اس انقلاب سے پہلے اور بعد میں جنم لینے والے واقعات کو مسخ کر کے عوامی شعور پر سے مٹا دینے کی سعی میں جھوٹ اور منافقت کی ہر حد تک گئے ہیں۔ اس حقیقت پر پردہ ڈال دیا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں سب سے ریڈیکل سماجی، معاشی اور ثقافتی اصلاحات کا آغاز ثور انقلاب کے بعد افغانستان میں ہوا تھا۔ ان جرات مندانہ اقدامات کا مقصد صدیوں سے مقامی اشرافیہ کے استحصال، پسماندگی، غربت اور مختلف سامراجی قوتوں کی اقتصادی زنجیروں میں جکڑے افغان عوام کو آزاد کرواکے ایک جدید اور حقیقی معنوں میں انسانی سماج کی تعمیر کا آغاز کرنا تھا۔ ثور انقلاب کی میراث آج بھی مذہبی بنیاد پرستی کی بربریت، سامراجی جارحیت اور جرائم پر مبنی سرمایہ داری کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید اور روشنی کے مینار کا درجہ رکھتی ہے۔

حکمران طبقے کے تاریخ دان اوردانشور دانستہ طور پر ثور انقلاب کو سوویت یونین کی فوج کشی کے ساتھ گڈ مڈ کردیتے ہیں۔ اس حقیقت کو چھپایا جاتا ہے کہ سوویت فوجیں ثور انقلاب کے 18 ماہ بعد 29 دسمبر 1979ء کو افغانستان میں داخل ہوئی تھیں۔ انقلابی حکومت کے پہلے دو سربراہان نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین سوویت یونین میں قائم افسرشاہانہ ریاست کے بارے کسی خوش فہمی کا شکار نہ تھے۔ انقلاب کے یہ دونوں قائدین سوویت یونین سمیت کسی بھی ملک کی افغانستان میں سیاسی یا عسکری مداخلت کے سخت خلاف تھے۔ پڑوس میں آزادانہ طور پر پنپتا ہواانقلاب سوویت بیوروکریسی کے سیاسی مفادات پر ضرب لگا سکتا تھا چنانچہ انقلاب کی حقیقی قیادت کا خاتمہ ضروری تھا۔ 14 ستمبر 1979ء کو نور محمد ترکئی افغان صدارتی محل میں پراثرار طور پر مردہ پائے گئے۔ ان کی موت یا قتل کے بارے میں امریکی سامراج اور سٹالن اسٹوں کی جانب سے کئی تھیوریاں پیش کی جاتی ہیں لیکن قوی امکان یہی ہے انہیں سوویت ’KGB‘ نے قتل کروایاتھا۔ نور محمد ترکئی کے بعد حفیظ اللہ امین کو زہر کے ذریعے قتل کرنے کی کئی ناکام کوششیں کی گئیں۔ 27 دسمبر 1979ء کو 600 سے زائد سوویت کمانڈوز نے ’’آپریشن Strom-333‘‘ کے تحت تاجبگ محل پر حملہ کر دیا۔ اس آپریشن میں حفیظ اللہ امین کو ان کے بیٹے اور 200 محافظین سمیت قتل کردیا گیا۔ اس واقعے کے دو دن بعد سوویت فوجیں باقاعدہ طور پر افغانستان میں داخل ہوئیں۔

 

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ثور انقلاب ’’پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان‘‘(PDPA) سے ہمدردی رکھنے والے افغان فوج کے افسران اور جوانوں نے مسلح بغاوت کے ذریعے ’’اوپر‘‘ سے برپا کیا تھا۔ مارکسی نقطہ نظر سے یہ کوئی کلاسیکی سوشلسٹ انقلاب نہ تھا اور ’PDPA‘ کئی طرح کی نظریاتی، تنظیمی اور سیاسی کمزوریوں کا شکار تھی۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے یہ انقلاب خطے کی تاریخ میں جاگیر داری کی ذلت، قبائلی پسماندگی، مذہبی جبر اور سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف سب سے بڑی بغاوت تھی۔ نسل در نسل سود خوروں اور جاگیرداروں کے استحصال کا شکار بننے والی افغان عوام کی اکثریت نے اس انقلابی تبدیلی کو خوش آمدید کہا تھا۔

سردار داؤد کا تختہ الٹنے کے بعد ملٹری انقلابی کونسل کی جانب سے نافذ کئے گئے انقلابی قوانین ثور انقلاب کی حقیقی روح اور اساس کو واضح کرتے ہیں۔ انقلابی حکم نامے میں شامل ضابطہ نمبر 6 کے ذریعے غریب کسانوں کے ذمے سود خوروں اور جاگیرداروں کا تمام واجب الادا قرضہ سود سمیت منسوخ کردیا گیا۔ یہ بے زمین کسان نسل در نسل سودی قرضے کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے اور ایک اندازے کے مطابق اس قرضے کا مجموعی حجم افغانستان کی سرکاری معیشت سے بھی زیادہ تھا۔ ضابطہ نمبر 7 کے مطابق ’’قانون کی نظر میں خواتین اور مردوں کی برابری کو یقینی بنایا جائے گا۔ بیوی کو شوہر سے کمتر بنانے والے جاگیر دارانہ رشتوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔‘‘ پیسے کے بدلے لڑکیوں کی شادی، زبردستی کی شاد ی اور بیوہ کی دوبارہ شادی کی راہ میں رکاوٹ بننے والے قبائلی رسم و رواج کو جرم قرار دیا گیا۔ اس کے علاوہ شادی یا منگنی کی کم سے کم عمرکو لڑکیوں کے لئے 16 سال جبکہ لڑکوں کے لئے 18 سال مقرر کر کے بچپن کی شادیوں پر پابندی لگا دی گئی۔ ضابطہ نمبر 8 کے تحت جاگیر داروں اور شاہی خاندان کی تمام تر زمین کو بغیر کسی معاوضے کے ریاستی ملکیت میں لیتے ہوئے بے زمین اورغریب کسانوں میں تقسیم کردیا گیا۔ اس قانون کا سب سے اہم مقصد ’’ملک کے سماجی و معاشی ڈھانچے میں سے جاگیرداری اور قبل از جاگیر داری کے رشتوں کا خاتمہ‘‘ تھا۔

انقلابی حکومت کے دوسرے ریڈیکل اقدامات میں پانی کی منصفانہ تقسیم اور کسانوں کی اشتراکی انجمنوں کا قیام شامل تھا۔ اس کے علاوہ ناخواندگی کے خاتمے کے لئے بڑے پیمانے کی مہم شروع کی گئی جس کے تحت 1979ء سے 1984ء  تک 15لاکھ ان پڑھ لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا گیا۔ 1984ء میں تقریبًا چار لاکھ مزید افراد 20000 خواندگی کورسوں کے ذریعے لکھنا پڑھنا سیکھ رہے تھے۔ حکومت کا ہدف 1986ء تک شہری علاقوں جبکہ 1990ء تک پورے افغانستان میں سے ناخواندگی کا خاتمہ تھا۔ ’PDPA‘ حکومت نے ان تمام اقدامات کا آغاز سوویت فوجوں کی مداخلت سے پہلے کیا تھا۔ افغان عوام کی تقدیر بدلنے کے لئے انہیں سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ کرنا پڑا تھا۔ ثور انقلاب نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ سابق نو آبادیاتی ممالک کا ناتواں اور خصی سرمایہ دار طبقہ معاشی اورثقافتی طور پر اس قابل نہیں ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کے انتہائی بنیادی فرائض بھی ادا کر سکے۔

ثور انقلاب کے بعد کی جانی والی ریڈیکل اصلاحات اور انقلابی اقدامات پورے خطے میں جاگیر داری، سرمایہ داری اور سامراجی مفادات کے لئے خطرہ تھے۔ اسلام آباد سے لے کر ریاض، لندن اور واشنگٹن تک، طاقت کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ واضح امکانات موجود تھے کہ افغانستان میں انقلاب کی حاصلات سے متاثر ہو کر پورے خطے کے عوام سامراج اور اس کے استحصالی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ نومولود انقلاب کو کچل دینے کا فیصلہ کیا گیا اور سرمائے کے بتوں کو پاش پاش کرنے والے ’’کمیونسٹ کافروں‘‘ کے خلاف ’’سامراجی جہاد‘‘ کی پالیسی ترتیب دی گئی۔ امریکی سی آئی اے نے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے خفیہ آپریشن کا آغاز کیا۔ ’’آپریشن سائیکلون‘‘ سوویت فوجوں کی آمد سے چھ ماہ قبل شروع ہواتھا۔ سامراج کے گماشتے ضیا الحق نے پیٹرو ڈالروں کے ایندھن سے بنیاد پرستی، فرقہ واریت، جرائم اور دہشت گردی کی وہ آگ بھڑکائی جس میں پورا خطہ آج بھی جل رہا ہے۔ ڈالر جہاد کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے منشیات اور اسلحے کی سمگلنگ کا وسیع و عریض نیٹ ورک تشکیل دیا گیا۔ اس خطے میں ہیروئن بنانے کی تکینک سب سے پہلے سی آئی اے نے متعارف کروائی تھی۔ منشیات اور جرائم کے اس کالے دھن کا دودھ پی کر بنیاد پرستوں کے وہ گینگ جوان ہوئے جنہیں آج کل ’’طالبان‘‘ کہا جاتا ہے اور جو اب پوری طرح اپنے والدین کے قابو میں بھی نہیں رہے ہیں۔ انقلاب کی ناکامی سماج کو رجعت اور پسمانگی کی گہری کھائیوں میں دھکیل دیتی ہے۔ افغانستان میں بھی یہی ہوا ہے۔ سامراج کی اس رد انقلابی جنگ نے 36 سالوں میں افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔

اس خطے کا ماضی اور حال پتا دیتا ہے کہ ہزاروں بندھنوں میں ایک دوسرے سے جڑے پاکستان اور افغانستان کا انقلاب بھی مشترک ہوگا۔ افغانستان میں انقلاب اور رد انقلاب نے ڈیورنڈ لائن کو بھی جعلی اور بے معنی بنا دیا ہے جسے برطانوی سامراج نے مصنوعی طور پر پشتونوں کو تقسیم کرنے کے لئے کھینچا تھا۔ ثور انقلاب کے قائد غیر متزلزل طور پر سوشلزم اور انقلاب کے بین الاقوامی کردار کے قائل تھے۔ 27 اپریل 1979ء کو ثور انقلاب کی پہلی سالگرہ کے موقع پر کابل میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’’میرے پیارے ہم وطنوں، فوج کے بہادر جوانوں، پشتون اور بلوچ بھائیوں، ایشیا، افریقہ، یورپ، امریکہ اور اس خطے کے محنت کشوں کو ثور انقلاب کی پہلی سالگرہ مبارک ہو۔ ثور انقلاب صرف افغانستان کے محنت کشوں اور مسلح سپاہیوں کا انقلاب نہیں ہے۔ یہ سارے جہان کے محنت کشوں اور محکوموں کا انقلاب ہے۔ خلق پارٹی (PDPA) کی قیادت میں مسلح سپاہیوں کی مدد سے برپا ہونے والا یہ انقلاب پوری دنیا کے محنت کشوں کی عظیم کامیابی ہے۔ 1917ء کے اکتوبر انقلاب نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ہمارے انقلاب نے اکتوبر انقلاب سے رہنمائی اور شکتی حاصل کی ہے اور ایک بار پھر پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔‘‘ نور محمد ترکئی کے یہ الفاظ آج بھی افغانستان، پاکستان اور پورے خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو طبقاتی جڑت اور جدوجہد کا پیغام دے رہے ہیں۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے بغیر غربت، محرومی، دہشت گردی، قتل و غارت گری، سامراجی جارحیت اور مذہبی بنیای پرستی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے!